شال:(ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ قابض پاکستان کے سابقہ وزیراعظم اور پاکستانی فوج کے ایما پر انیس سو تہتر میں بلوچ قومی نسل کشی کرنے والے پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو کے حوالے سے پاکستانی نام نہاد عدالت کی حالیہ فیصلے کے مطابق بھٹو کو بغیر کسی قصور کے سزائے موت دی گئی۔
بیان میں کہا گیا کہ بھٹو اور فوج کی آپسی و اندرونی چپقلش کی وجہ سے بھٹو کو فوج نے بلوچ قومی نسل کشی کے لیے استعمال کرکے پھر تختہ دار پر لٹکا دیا، قابض پاکستانی نام نہاد عدالتوں کے لئے بھٹو ہوسکتا ہے کہ بے قصور ہوں لیکن بلوچ قومی نسل کشی کی ناقابل معافی جرم کی پاداش میں بھٹو کو دس ہزار دفعہ کی سزائے موت بھی کم ہے۔
یاد رہے کہ انیس سو تہتر میں بلوچستان کے اندر پاکستانی قبضہ گیر فوج نے بلوچ کی نسل کشی کے لئے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا، اپریل انیس سو تہتر میں پاکستانی قابض فوج نے ملی کے علاقے میں حملہ کرکے ایک خون ریز لڑائی کے بعد بہتر سالہ لونگ خان اور اسکی ساتھیوں کو شہید کیا اور ازاں بعد قومی مزاحمتی عمل کو ختم کرنے کے لئے سروان و جھالاوان سے لیکر مری علاقوں سے ہوتا ہوا کوہ سلیمان کے بیشتر علاقوں میں پاکستانی قابض فوج نے خونریزی کی تسلسل کو برقرار رکھا، مزاحمتی عمل کی شدت کو دیکھ کر اسکے تقریباً ایک سال بعد یعنی جولائی انیس سو چوہتر میں پاکستانی قبضہ گیر فوج نے بھٹو کی مدد سے ایرانی AH-1 ہیوی کوبرا ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ چمالنگ کے وسیع علاقے میں عام آبادیوں پر بے دریغ بمباری شروع کی جس کے نتیجے میں دسیوں ہزار عام بلوچ بوڑھے بچے اور خواتین کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اغواء کرکے بدنام زمانہ پاکستانی عقوبت خانوں میں غیر انسانی تشدد کرکے شہید کیا گیا بعض معلوم ذرائع کے مطابق اس دوران چمالنگ و گرد و نواح میں آٹھ ہزار سے زائد بلوچوں کو اغواء کرکے غائب کیا گیا جنکی آج تک کسی کوئی خبر نہیں انکی لاشوں سے ساتھ کیا کیا گیا۔
خیال رہے کہ قبضہ گیر پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم بھٹو اور شاہ ایران رضاشاہ پہلوی کے باہمی و خاندانی مراسم تھے اور چمالنگ کی خونریز بمبارمنٹ اور بلوچ نسل کشی کے لئے ایرانی قابض نے نہ صرف کوبرا ہیلی کاپٹرز مہیا کرکے بلوچ نسل کشی کے لئے دوسرے قبضہ گیر پاکستان کی مدد کی بلکہ خود ایرانی پائلٹوں نے ان جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹرز کو بلوچ نسل کشی کے لئے استعمال کیا اور پاکستانی قبضہ گیر فوج نے بلوچ قومی نسل کشی کے لئے ایرانی پائلٹوں کی معاونت کی، نسل کشی کا یہ پیمانہ اتنا بھیانک تھا کہ قابض پاکستانی فوج کے تقریباً چارڈویژنز نے اس میں حصّہ لیا، ڈیرہ غازی خان سے سبی اور دادو سے نوشکی تک پورے خطے کو قابض فوج نے اپنے گھیرے میں لے کر بلوچ قومی نسل کشی کو بڑے شدت کے ساتھ سرانجام دیا، چمالنگ میں بلوچ قومی نسل کشی آج بھی بلوچ قوم کو ایرانی و پاکستانی دونوں قبضہ گیر قوتوں کی بلوچ قومی وجود کے خلاف اشتراک عمل کے یاد کو تازہ کرتا ہے، ماضی سے لیکر اب تک ایران و پاکستان مسلسل ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہوئے بلوچ قومی بقاء اور زندگی کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔
دوسری طرف نام نہاد بلوچستان اسمبلی میں قابض فوج کے ایما پر لائے ہوئے سلیکٹڈ ممبران میں سے کچھ نے جس طرح شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری نبھاتے ہوئے ایک موشن کے ذریعے بھٹو کو قومی ہیرو کا درجہ دینے کی قرارداد پاس کی ہے، لیکن ان ضمیر فروشوں کے برعکس عام بلوچ عوام بھٹو جیسے بلوچ قومی نسل کشی کے مجرم کو اپنا قاتل سمجھتی ہے، ان تمام فوج کی دلال اور کرونی ازم کے تحت پارلیمنٹ میں لائے گئے لوگوں کی مثال ایسا ہے جیسا کہ سکندر اعظم نے ایران میں داریوش سوئم کے قاتل بیسوس کو یہ کہہ کر سزائے موت دی تھی کہ “تم اگر داریوش کے وفادار نہیں رہ سکتے تو ایک مقدونین بادشاہ کے ساتھ کیسے وفاداری نبھاؤگے” بالکل اسی طرح کچھ کرائے کے بلوچ ایجنٹس اور ضمیر فروشوں کو استعمال کرکے قابض پاکستانی فوج اسی طرح انکو بے یار و مددگار چھوڑ دے گا، لیکن یہ نام نہاد لوگ بلوچ ہوکر بھی بلوچ قومی نسل کشی کرنے والے کرداروں سمیت قابض فوج کے حواری و ہمدرد بنے ہیں جو یہی ثابت کرتا ہے کہ یہ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے جو لوگ تاریخ کو نظرانداز کرتے ہیں تو تاریخ انہیں قصہ پارینہ بنادیتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستانی عدالتوں نے آج قابض فوج کی ایما پر پیپلز پارٹی کی خوشنودی اور اپنی ساکھ کو بچانے کی خاطر بلوچ نسل کشی کے اہم ترین کرداروں میں سے ایک بھٹو کو بے قصور قرار دیا ہے اور اسکے ساتھ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی طرف سے لائے ہوئے فوج کے کاسہ لیس سرفراز بگٹی کو بلوچستان پر مسلط کردیا گیا ہے جو کہ پیپلز پارٹی اور فوج کی اشتراک عمل سے بلوچ قومی نسل کشی کی تسلسل کو نہ صرف جاری رکھے گا بلکہ اس میں مزید شدت لانے کے لئے ایسے کرائے کے قاتلوں کو آگے لایا جاتا ہے تاکہ ایک طرف وہ آسانی سے بلوچ قومی نسل کشی کہ اپنی پالیسی کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور دوسری جانب بلوچستان کے سرزمین پر موجود وسائل کی لوٹ مار کے عمل کو مزید تیز رفتاری سے سرانجام دیں۔