بلوچ قوم کی تاریخی کتابوں کے صفحات پلٹ کر دیکھیں تب آپ کو بلوچ قوم کی 9 ہزار سالہ پُرانی ثقافت مہر گڑھ کی شکل میں ملے گا اور بلوچ قوم کی جُرات، بہادُری، وفاداری، مہمان نوازی و حوصلہ مندی صدیوں پُرانی ہے جس سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا۔
پانی پت کی جنگ ہو، چاکرِ اعظم کی سلطنت ہو، بی بی بانڑی کی جنگ میں بہادُری و سربراہی میں دہلی کی فتح ہو، ماہ ناز و گراں ناز کے پہاڑوں جیسے حوصلے ہوں، نوری نصیر خان کی عقل مندی ہو، 1839 ءِ کی قلعہ کاہان میں انگریزوں کے خلاف مری قبیلے کی جنگِ مذمت ہو جس پہ باقاعدہ طور پر کتاب لکھا گیا جن کا ترجمعہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کرچُکے ہیں کتاب کا نام، مریوں کی جنگِ مذمت ہے، 1839 ءِ خان محراب خان کی انگریزوں کے خلاف ایک ایک اِنچ زمیں کیلئے آخری سانس تک لڑکر جامِ شہادت پانا ہو، گُل بی بی کی جنرل ڈائر کے خلاف 1920 ءِ جنگِ مذمت ہو، یوسف عزیز مگسی کی سیاست ہو، نواب اکبر خان بُگٹی کی انقلاب، جنرل شیر محمد مری کی مسلح جدوجہد ہو، شہید بالاچ مری کی بہادُری ہو، سردار عطا اللہ مینگل کی گرجتی ہوئی تقریریں ہوں، شہید لُمہ بانُک کریمہ کی نظریاتی جدوجہد ہویا پھر بابا خیر بخش مری کی نظریہ ہو جو انقلاب کے مسیحا ہیں۔ اس مُختصر تاریخ سے واضع ہوجاتا ہے کہ بلوچ قوم کبھی بھی دُشمن کے خلاف جُھکا نہیں اور نا ہی قربانی دینے سے دریغ کی۔
بابا نوروز خان اور شہزادہ عبدالکریم (میر احمد یار خان کے چھوٹے بھائی) قرآن پاک کی خاطر پہاڑوں سے اتر آئے اور اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کہ مذہب کا چورن بھی بلوچ کے خلاف ناکام ہی رہا، بلوچ بہادُر، دلیر، جُرات مند، حوصلہ مند، مہمان نواز و قوم پرست ہے ۔ یوسف عزیز مگسی اپنے سیاسی سنگت عبدالعزیز کرد،جنہوں نے یکجاہ 1931 میں انجمنِ اتحاد بلوچاں کی ابتداء کرکے نیشنلزم کے نظریے کو فروغ دیا اور بلوچوں میں آزادی کی نور آشنا کیا۔
اسی طرح بلوچوں کی جنگِ آزادی میں ایک اور روشنی ابھر آئی جو اس اندھے،گونگے اور بہرے ریاست میں بلوچوں کی فریادوں کو سننے والا،بلوچوں کے دکھ و درد کو سمجھنے والا،بلوچوں کے لیے ایک آواز بن کر آیا۔ شیر محمد مری جس نے 1962 میں فراری موؤمنٹ کی قیادت کرتے ہوئے ریاستی فورسز کے خلاف جنگیں لڑیں بلکہ کئی بار جلاوطن بھی ہوئے۔ مگر بلوچ قوم کی کوہی ہوئی راہ دِکھانے والے، نام نہاد سرداری نظام سے نکالنے والے، یکدم نظام کو بدلنے والے اور پُختہ قومی نظریہ کے مالک معروف اور عظیم شخصیت بابا خیر بجش مری تھے جنہوں نے (ظلم و جبر کا شکار بلوچستان) کاہان،کوہلو میں 28 فروری 1928 کو نواب مہراللہ کہ ہاں اپنی آنکھیں کھولیں۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے کوہلو میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے ایچی سن کالج لاہور کی طرف بڑھے۔ بابائے قوم نواب خیر بخش مری اپنے 2008 کے انٹرویوز میں کہتے ہیں کہ انکی سیاست میں لگن اور قوم دوستی اس وقت پیدا ہوئی جب قبضہ گیر پاکستان نے چیف مارشل لاء ایوب خان کے دور اقتدارمیں مری علاقے کے تیل اور گیس کا استحصال شروع کیا۔
بابا خیر بخش مری نے 1970 کے پاکستان کے عام انتخابات جیت کر نیشنل اسمبلی کے رکن بھی رہے۔پاکستانی انتخابات اور پارلیمنٹ کا حصہ ہوتے ہوئے بھی بلوچستان سے انکی گہری محبت رہی ہے۔
مزید 1970 کی بغاوت کو کچلنے کے لیے ذولفقار علی بھٹو نے سخت اقدامات لے کر نواب خیر بجش مری کو انکے ساتھی غوث بخش بزنجو اور عطا اللہ مینگل کو قید(جیل) کر دیا گیا اور 1977 کو جیل سے رہائی کے بعد اپنے فرزند سنگت حیر بیار مری کے ساتھ افغانستان جلاوطن ہو گئے جہاں بابا مری نے بلوچستان کی آزادی کے لیے بہترین انداز میں جدوجہد کی۔
بابا خیر بخش مری بلوچوں کو ہمیشہ ایک الگ قوم کی نظر سے دیکھا کرتے تھے، وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ بلوچوں کی اپنی ایک پہچان اور ثقافت ہے۔ بلوچ مذہبی نہیں بلکہ زبان اور ثقافت کی بنیاد پر ایک الگ قوم ہے اور بلوچ خودمختار رہ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ بابا نے 2009 میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا،”ہم بلوچ سوّر کے ساتھ رہ سکتے ہیں پر پنجابیوں کے ساتھ ہرگز نہیں۔” اس بات سے یہ صاف ظاہر ہوتا کہ ہمارے رہنما،بلوچ اور بلوچستان کے قبضے پر ہمیشہ سے ہی ناخوش رہے ہیں اور یہ بات بھی عیاں ہے کہ بلوچستان نہ تو کبھی پاکستان کا حصہ تھا اور نہ ہی ہے بلکہ بلوچستان ایک آزاد وطن ہی رہا ہے جس پر جبراً قبضہ کیا گیا ہے۔
بابا خیر بخش مری ہمیشہ سے اپنی جدوجہد،اپنے کام اور بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں ایماندار و مُخلص پائے گئے ہیں۔ بابا اپنے نظم و ضبط کے بڑے پابند رہے ہیں ۔ ایک دفعہ جب بابا اپنے بیٹوں کو جنگی تربیت دے رہے ہوتے ہیں تو انہیں صرف ایک ایک گولی چلانے کا کہا جاتا ہے پر بابا کے سب سے چھوٹے بیٹے حمزہ مری کی گولی نشانے پہ نہ لگنے کی وجہ سے دوبارہ ایک گولی چلائی تو اگلے روز حمزہ مری کو جنگی تربیت کے لیے اپنے ساتھ نہیں لے جاتے بلکہ خاموشی سے اپنے باقی بیٹوں کے ساتھ چلے جاتے ہیںتو حمزہ مری بھی سمجھ جاتے ہیں کہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی سے انہیں سزا کے طور پر نہیں لے جایا گیا۔
بلوچ قومی آزادی میں بابا کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ بلوچ نسل کو ،بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے متعارف کرایا،انہیں تعلیم کی طرف راغب کیا یہاں تک کہ سٹڈی سرکلز بھی منعقد کیے گئے تا کہ ہر بلوچ نوجوان اپنے آپ کو پہچانے، اپنی تاریخ جان سکے،اپنی ثقافت اور زبان کی اہمیت جان سکے اور باشعور ہو تاکہ یہ ضرور جان سکے کہ ہم غلام نہیں تھے بلکہ ہمیں غلام بنا یا گیا ہے،بلوچستان،پاکستان کا حصہ ہر گز نہیں بلکہ جبراً قبضہ کیا گیا ہے۔ بابا خیر بخش مری کہتے ہیں “ہمارا بڑا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم ریاست کے قبضے میں ہیں یا ہم ریاست کے غلام ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے ہم غلام ہیں پر ہمیں اس بات کا احساس نہیں،”
جب تک کوئی یہ نہ جان پائے کہ ہم غلام ہیں،ہمیں غلامی کے کنویں میں گرایا جا رہا ہے، ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے ہم ظلم و جبر کا شکار ہیں تو تب تک وہ شخص خاموشی سے بیٹھا ہی رہے گا،مزاحمت نام کے لفظ سے ناآشنا ہوگا بس تاریکی میں ہی اپنی زندگی کا ہر ایک لمحہ گُٹ گُٹ کر جیے گا اور غلامی کا پندھا گلے میں میں لٹکائے ہوئے اس دنیا سے غلام کی حیثیت سے ہی رخصت ہوگا۔
کسی قوم کی پہچان،زبان اور ثقافت اس وقت تک قائم و دائم نہیں رہ سکتی جب تک وہ غلام ہے،جب تک اسکی آزاد حیثیت نہ ہو۔بلوچوں کی پہچان بلوچستان کی آزادی سے وابستہ ہے۔بقولِ بابا خیر بخش مری، “صرف آزاد بلوچستان ہی ہماری پہچان،زبان اور ثقافت کی تحفظ کر سکتا ہے۔”
آزادی کےلیے جدوجہد کرتے رہو چاہے آپکو اپنی جان کی بھی قربانی ہی دینی کیوں نا پڑے۔ہمیں اپنے عظیم رہنما بابا خیر بخش مری کے فرزند عظیم شخصیت اور بلند روح و قوم پرست رہنما حیر بیار مری کے یہ سنہرے الفاظ بحیثیتِ غلام ذہن نشین کرنی چاہئیں کہ ”ہم جب تک غلام ہیں تب تک جدوجہد کرتے رہیں گے”۔