اے مادر وطن! شہیدوں کی قربانی و لہو سے سیراب! تیری محبت و مودّت، الفت و شیفتگی کا سمندر اس قدر عمیق و دیرینہ ہے کہ تیرے نوجوان لب ہائے نازک پر تبسم شاداں لیے، تیری بنجر زمین پر سیلاب سرخ بہا رہے ہیں۔ تیری روح پرور مٹی کی بے مثال شادمانی کے خاطر تیرے جانثاروں نے اپنی حیاتِ جان نچھاور کر دی کہ اپنی آخری سانس تک بدخواہوں کے سامنے سینہ سپر رہے اور تیری مقدس خاک میں مل کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔
اے عزیز وطن! کیا تو جانتا ہے کہ تیرے سرسبز میدانوں کی شادابی، تیری وادیوں کی خوشبو اور تیرے چمن کی تازگی تیرے ان ہی جاں نثاروں کی دین ہے، کہ تیرے شہداء تیری مقدس مٹی میں مدفون ہو کر گل تر بن کر نکلے ہیں۔ تیرے مردانِ میدان، خالقِ حقیقی سے جا ملنے کے بعد بھی اپنی قربانیوں سے زندہ ہیں اور ان کے خواب آج بھی تیری سر بلندی اور خوشحالی کی چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ وہ اس قدر نڈر اور جری تھے کہ ان کی میراث آج بھی حیات ہے کہ آزادی کے مسافتیں طے کرنے والے مسافروں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
اے خوابوں کی سرزمین!
تو سوچ ذرا! تیرے فرزند ہمیشہ تیری آزادی کے خواب کیوں دیکھتے ہیں؟ وہ تجھے ہمیشہ حسرت بھری نگاہ سے کیوں دیکھتے ہیں؟ وہ تیری محبت میں مرنے کے لئے کیوں تیار ہیں؟ اے وطن! کیا تجھے معلوم ہے کہ جب بھی تیرا ذکر ہوتا ہے، جب بھی تیرا نام ان ترترانی ہونٹوں سے ادا ہوتا ہے تو ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
میری تحریر فقط سیاہ و سبز سیاہی سے رقم محض ایک مضمون نہیں بلکہ تیری محبت میں بھیگی ایک داستان ہے۔ تم محض الفاظ کا مجموعہ نہیں جو بس ایک صفحے کی سرخی بن جائے۔ بلکہ تو وہ اشک ہے جو تیرا نام سنتے اور چشمان سے نکلتے ہی رخساروں پر بہہ کر اس تحریر کا حصہ بن جاتا ہے۔ تو ایک لفظ نہیں،خواہش نہیں، تو ایک خواب نہیں بلکہ تو شہیدوں کی لہو سے لکھی گئی حقیقت ہے۔ تو آزادی کے متوالوں کی جان سے عزیز متاع ہے، وہ شمع ہے جسے پروانے اپنی جان نچھاور کرکے روشن رکھتے ہیں۔ تیرے لیے ہر قلب میں ایک بے قرار تڑپ ہے، ہر نگاہ میں ایک خواب ہے، اور ہر لب پر ایک دعا ہے۔ تیری مٹی میں دفن ہونے کا شوق رکھنے والے تیرے ہی چراغ ہیں، جو اندھیروں میں بھی تیری روشنی کو کمزور نہیں ہونے دیتے۔ اے وطن! تو محض ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک پہچان، ایک جذبہ، اور ایک عہد ہے، جسے ہر نسل اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہے۔
اے قابضوں کے ظلم میں لپٹی گلزمین!
تو کبھی یہ نہ سوچنا کہ تیرے جانثار خاک میں مدفون ہوگئے تو اور کوئی نہیں بچے گا جو تیری آزادی کے لیے نالے بلند کرے۔ اے وطن! یہ تیرے مدفون شہداء ہی ہیں جنہوں نے آنے والی نسلوں، نوجوانوں، بلوچ قومی آزادی کی جنگ اور اس جذبے کو للکارا ہے۔ تو دیکھ ہی رہی ہے کہ تیرے نوجوان یکے بعد دیگرے تیری آغوش میں سکون پا رہے ہیں۔ سفاک ریاست کی دھوکہ دہی، بابا نوروز خان کی حراست، اور ان کے بیٹوں، بھانجوں اور بھتیجوں کی شہادت نے بلوچوں کے دلوں میں نفرت اور حقارت کی چنگاری کو بھڑکا کر شعلوں میں بدل دیا۔ یہ سانحہ صرف ایک زخم نہیں تھا بلکہ ایک ایسی چوٹ تھی جس نے قوم پرستی اور وطن دوستی کے جذبات کو مزید جِلا بخشی۔ کہ اب بھی تیرے لاکھوں نوجوان گھروں کی چوکھٹ کو الوداع کہہ کر سر پر کفن باندھ کر میدان جنگ میں اتر آئے ہیں۔ تیرے وہ نوجوان جن کی تحریکوں کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی گئیں، ان کی جدوجہد کو کچلنے کی سعی کی گئی، مگر وہ پھر سے سر اٹھانے لگے۔ پھر سے ہمارے دیکھے ہوئے خوابوں کی تعبیر میں لگے رہیں۔
ظالم اور وحشی یہی گمان کرنے لگے کہ انہوں نے بابا نوروز کو قید و بند میں ڈال کر اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے کر بلوچ قومی تحریک کو ہمیشہ کے لیے کچل دیا ہے۔ مگر شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ ان کی اذیت گاہوں میں ایک اور گوریلا جنگجو، شیر محمد مری، بھی صعوبتیں سہہ رہا تھا۔
1935 میں بلوچستان کے علاقے کوہلو میں جنم لینے والا یہ آتش فشاں نڈر نوجوان وہی تھا جس نے سب سے پہلے بلوچستان میں گوریلا جنگ کی تکنیکوں کو متعارف کرایا۔ بابو شیرو، جنرل شیروف، بلوچ ٹائیگر، اور ریاض سہیل کے رپورٹ کے مطابق، ملتان سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے سیاستدان محمد قصور گردیزی انہیں “بلوچستان کا فیڈل کاسترو” کہا کرتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے متاثر یہ گوریلا ایک نظریاتی مارکسسٹ تھا، جو قیامِ پاکستان کے وقت ریاستی قید و بند کا سامنا کر رہا تھا۔
1946 میں، انقلابی رہنما شیروف نے “مظلوم پارٹی” کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد جاگیرداری نظام کے خاتمے اور سرداروں کے جبری ٹیکس کے خلاف جدوجہد کرنا تھا۔ اسی بغاوت کے نتیجے میں، انہیں 1948 تک قید میں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہ انہیں حکومت برطانیہ کے خلاف تقریر اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا۔
بعد ازاں، نواب نوروز خان زرکزئی کے بعد بلوچ قوم پرست اور گوریلا جنگجو جنرل شیروف مری نے 1963 میں صدر ایوب خان کی حکومت کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا۔ انہوں نے “پراری موومنٹ” کی بنیاد رکھی اور جهالاوان اور مری کے علاقوں میں پاکستان آرمی کے خلاف مزاحمت شروع کر دی۔
سلیگ ہریسن اپنی کتاب “دی افغانستان شیڈو” میں لکھتے ہیں کہ جولائی1963 تک، جنرل شیروف کی قیادت میں 22 پراری کیمپوں نے اپنے قدم جما لیے تھے۔ اس تحریک کا ایک بنیادی مقصد بلوچستان کے وسائل، خاص طور پر 1952 میں سوئی میں دریافت شدہ قدرتی گیس کی آمدنی میں بلوچستان کا جائز حصہ حاصل کرنا اور ون یونٹ پالیسی کا خاتمہ تھا۔
یہ گوریلا جنگ 1963 سے 1967 یا 1969 (مختلف ذرائع میں مختلف تاریخیں درج ہیں) تک جاری رہی۔ بالآخر، حکومت نے عام معافی (General Amnesty) کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں مزاحمت کا خاتمہ ہوا۔ بعد ازاں 1970 میں ون یونٹ پالیسی کو ختم کر دیا گیا۔
اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو واضح ہوتا ہے کہ نام نہاد ریاستِ پاکستان نے ہمیشہ بلوچوں کے ساتھ دھوکہ دہی سے کام لیا اور انہیں پاؤں کی نوک پر رکھنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل ایمنیسٹی (عام معافی) کا معاہدہ بھی بلوچوں کے لیے ناقابلِ اعتماد ثابت ہوا۔ بلوچ قیادت اور عوام نے ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے اس معاہدے پر مکمل بھروسہ نہیں کیا، اور ہمیشہ کی طرح اپنی جدوجہد جاری رکھی۔
یہ جدوجہد صرف ایک مخصوص وقت تک محدود نہیں رہی بلکہ وقت کے ساتھ مختلف شکلوں میں جاری رہی، کیونکہ بلوچ قوم نے اپنی آزادی، اپنے حقوق، وسائل اور خودمختاری کے لیے کبھی بھی اپنی آواز دبنے نہیں دی۔
جب ون یونٹ پالیسی کا خاتمہ ہوا تو مقبوضہ بلوچستان کو صوبائی حیثیت دی گئی، اور 1970 کے عام انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس اسمبلی میں بلوچ قوم پرست رہنما اور نیپ کے قائدین، جیسے بابا خیر بخش مری، عطااللہ مینگل، اور غوث بخش بزنجو، اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔ غوث بخش بزنجو کو گورنر، جبکہ عطااللہ مینگل کو وزارت اعلی اور بابا خیر بخش مری کو صوبائی سربراہ مقرر کیا گیا۔ تاہم، یہ حکومت زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی، کیونکہ 10 فروری 1971 کو اسلام آباد میں ایک سفارت خانے سے اسلحہ برآمد ہونے اور بلوچ مسلح گروہوں کو فراہم کرنے کے الزام میں (حیدرآباد سازش کیس) بابا خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل اور بابو شیر محمد کو گرفتار کر لیا گیا۔
اسی دوران، عطااللہ مینگل کے صاحبزادے، اسداللہ مینگل، اور ان کے دوست کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہی سال تھا جب بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور “پھینکو اور مارو” کی پالیسی کے ذریعے بلوچوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔
جب ریاستِ پاکستان اپنے حالات سنبھالنے میں ناکام رہی تو ضیاءالحق نے مارشل لاء نافذ کرکے بلوچ اسیران کو رہا کر دیا، جس کے بعد انہوں نے جلاوطنی اختیار کی۔ تاہم، اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنی جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔
مگر ہمیشہ کچھ سوالیہ نشان میرے ذہن میں گردش کرتی رہتی ہے کہ کیا ہم نے کبھی اپنی تاریخ کو خود کے آئینے میں دیکھنے کی جرات کی ہے؟ ہمیشہ یہی سنا کہ بلوچ غلام ہیں، کہ پاکستان نے چالاکی سے ایک آزاد سرزمین پر پنجے گاڑ دیے۔ میں اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا رہی، لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوال کیا کہ صدیوں کی غلامی، 76 سالہ قبضے، اور اس طویل جدوجہد میں کہیں ہم سے کوئی کوتاہی تو نہیں ہوئی؟
ہم نے ہمیشہ خود کو ایک وفادار قوم کے طور پر دیکھا، اپنی تاریخ کو قربانیوں اور وفاؤں سے سنوارا۔ ہم نوری نصیر خان کو یاد کرتے ہیں، جنہوں نے احمد شاہ ابدالی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر بلوچوں کو متحد کیا، انہیں ایک جھنڈے تلے پرویا، اور ہزاروں قربانیوں کے بعد ان کے لیے ایک آزاد تشخص قائم کیا۔
یہی نہیں، بلوچ قوم نے کبھی اپنے رہنماؤں اور مردانِ میدان کو فراموش نہیں کیا۔ آج بھی جب محراب خان کا نام لیا جاتا ہے، تو فخر سے سر بلند ہو جاتے ہیں۔ وہ محراب خان، جس نے اپنی قلیل فوج کو حوصلہ دے کر وطن پرستی کے شعلے بھڑکائے، جو فرنگیوں کے 11 ہزار کے لشکر کے سامنے سینہ سپر ہو گئے، جو آخری دم تک لڑے، مگر جھکے نہیں، بکے نہیں، اور شکست تسلیم نہیں کی۔
بہادر ماؤں کے بطن سے جنم لینے والے جری اور نڈر سپوت، یوسف عزیز مگسی اور عبدالعزیز کرد، بلوچ قومی جدوجہد میں ناقابلِ فراموش کردار کے حامل رہے۔ وہ آج بھی بلوچستان کے ہر بچے کے دل میں زندہ ہیں، اور ان کا ذکر بلوچ قوم کی میراث کا ایک روشن باب ہے۔
یوسف عزیز مگسی کم عمری میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر اپنی پوری زندگی سرزمینِ بلوچستان کے نام کر گئے۔ انہوں نے اذیتیں سہیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، نظر بندی کا سامنا کیا، مگر جدوجہد کے سفر سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ ان کی قربانیوں کو بلوچ قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔
ان کی جدوجہد، ان کا بہتا لہو، اور ان کے لبوں سے نکلے ہر قیمتی لفظ ضرور رنگ لائیں گے۔ یہ جدوجہد تا ابد جاری رہے گی، اور بالآخر آزادی کی کرن ضرور نمودار ہوگی— مگر تب، جب اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا جائے، ان سے سیکھا جائے۔ نہ کہ ان خطاؤں سے نظریں چُرا کر، انہیں چھپا کر، آزادی کے سفر میں آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔
ہم نے ان تمام بلوچ فرزندوں کو سرخ سلام پیش کیا، انہیں اپنے دلوں میں زندہ رکھا۔ ہم نے میر دوست محمد بارانزئی کو آزادی کا روشن چراغ کہا، شہزادہ کریم اور بابا نوروز جان کو بے شمار القاب دیے۔ مگر کیا بابا نوروز خان کے بھتیجے کو بھلا دیا؟ کیا دودا خان زرکزئی کی خطاؤں کو فراموش کر دیا؟ کیا ہم نے ان کی غلطیوں کو سیاہ چادر میں لپیٹ کر ایسے پھینک دیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں؟
مگر میں کیسے انکار کروں کہ دودا خان ہی وہ شخص تھا جس نے اپنے ہی چچا کے سینے میں خنجر گھونپا۔ کیا وہی دودا خان نہیں تھا جس نے قابض ریاست کے کہنے پر قرآنی قسم کھائی اور اسی مقدس نام پر سب کچھ ختم کر دیا؟
شاید میرا کلام بہت سوں کو ناگوار گزرے، مگر حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان کی ختم نہ ہونے والی غلامی میں سب سے بڑی کوتاہی خود بلوچوں کی رہی۔ ہم نے اپنی ہی غلطیوں کو نظر انداز کیا، ہم نے میر احمد یار خان کی نااتفاقی کے نتیجے کو بھلا دیا، دودا خان کی غداری کو پسِ پشت ڈال دیا، اور اسی غفلت نے ایک اور سردار، ثناء اللہ زہری کی مکاریوں کو جنم دیا۔
کیا یہ درست نہیں کہ بابا خیر بخش مری اور شیر محمد مری کے اختلافات کی وجہ سے نوری نصیر خان کی محنت رائیگاں گئی؟ کیا بلوچ اپنے ہی رہنماؤں کی وجہ سے دھڑوں میں تقسیم نہیں ہوئے؟ کیا بلوچوں میں جاری خونی کھیل انہی اختلافات کا نتیجہ نہیں تھا؟ سالوں پر محیط یکجہتی اور اتحاد محض چند مالی معاملات کی وجہ سے ختم ہوگئے۔
اوریا مقبول جان کی تحریر کے مطابق، شیروف مری کے بھائی کا کہنا ہے کہ جب بھی بھارت، کابل یا کسی اور ملک سے مالی مدد ملتی، تو نواب خیر بخش مری اسے اپنے پاس رکھ لیتے۔ اس کی وجہ سے افغانستان میں بجارانی مریوں نے احتجاج کیا، جس کے ردِ عمل میں نواب خیر بخش مری کے حامیوں نے کوہلو، بلوچستان میں بجارانی لیویز پر حملہ کر دیا۔ نتیجتاً، بلوچ مزید تقسیم در تقسیم ہو گئے۔
مسئلہ صرف بابا خیر بخش مری اور شیر محمد مری تک محدود نہیں تھا۔ بلوچ تحریک میں سرداروں، قوم پرستوں، اور مزاحمتی گروہوں کے اندر نظریاتی، مالی اور اسٹریٹجک اختلافات ہمیشہ سے رہے ہیں۔ مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ اختلافات ہمارے لیے ہی نقصان دہ ہیں۔ اس لیے آج تک آزادی کے دیکھے ہوئے خوابوں کی تعبیر نہ ہو سکی۔
مگر اب بھی دیر نہیں ہوئی! آج بھی بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑ دشمن کی نظروں میں ہیں، آج بھی گل و گلزار چمن پر کسی اور کا قبضہ ہے، آج بھی ہماری سرزمین کے گرد سیاہ پرچھائیاں رقصاں ہیں۔ اور آج بھی… ہم غلام ہیں! ہاں، ہم غلام ہیں!
لیکن غلامی کا طوق ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا۔ غلطیاں انسان کو گراتی نہیں، اگر وہ ان سے سیکھ لے! کامیابی انہی خطاؤں کے سائے میں چھپی ہوتی ہے، مگر ان سے نظریں چرانے والے ہمیشہ اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ اگر اپنی کوتاہیوں کا سامنا نہ کیا، اگر ان کا ازالہ نہ کیا، تو منزل اور بھی دور ہو جائے گی، راستہ کانٹوں سے بھر جائے گا، زخم گہرے ہوتے جائیں گے، اور آزادی ایک خواب ہی رہے گی۔
مگر اگر ہم اپنی غلطیوں کو مٹائیں، انہیں تسلیم کریں، ان سے سبق لیں، تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی، راستہ صاف ہوگا، اور منزل— وہ منزل جس کے لیے نسلوں نے لہو بہایا— بالآخر ہمارے قدموں میں ہوگی!
“اتحاد، جدوجہد، آخری فتح تک” یہ محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک عہد ہے جسے عملی جامہ پہنانا ہوگا۔
(جاری ہے)