اگر ہم بی ایل ایف اور تحریک طالبان کا غیر جانبداری کیساتھ موازنہ کریں تو ہمیں بہت سی چیزیں قدرے مشترک دکھائی دیتے ہیں ، طالبان صرف اسلام اور شریعت کا نام استعمال کرکے کسی خاص ہدف اور منزل و مقصد کا تعین کیے بغیر تین دہائی سے برسرپیکار ہیں،اور کفر و شرک کے خلاف انکی یہ جنگ شاید مزید کئی دہائیوں پر محیط ہو، لیکن یہ ممکن نہیں کہ وہ افغانستان یا پاکستان کی کسی حصے پر طالبانی طرز حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرسکیں، کیونکہ تحریک طالبان میں اب افغانستان پر راج کرنے کی خواب دیکھنے والوں میں سے بہت کم لوگ باقی رہ گئے ہیں، یا یوں کہ موجودہ تحریک میں طالبان کی تعداد محض دس سے پندرہ فیصد رہ گئی ہے، باقی سب لینڈ لارڈ ، اغواء برائے تاوان اور جرائم پیشہ لوگوں کی فوج ہے،جنکی روزی روٹی اس تحریک کی جاری ہونے سے وابستہ ہے،جو کبھی بھی نہیں چاہتے کہ طالبان اور افغان عوام کے درمیان کوئی امن سمجھوتہ طے پائے ،جس طرح پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی افغان طالبان اور نام نہاد شوریٰ کی عسکری تربیت اور مالی و اخلاقی معاونت کرتی رہی ہے، افغان حکومت اور انکے خفیہ ادارے ٹی ٹی پی ( تحریک طالبان پاکستان) کی معاونت کرکے پاکستان کی اس دو رنگی و دوغلے پن کی جواب دیتے رہے ہیں. پاکستان کی فوجی اور سیول اسٹبلشمنٹ، بکاؤ کے دانشور اور منافق میڈیا اب بھی اسی مغالطے میں ہیں کہ اب بھی وہ جھوٹ و فریب کے ذریعے امریکہ افغانستان سمیت عالمی برادری کو بیوقوف بنا سکتے ہیں، کچھ بھی ہو طالبان اسلامی نظام اور شرعی قانون کی نفاذ کے نام پر خود کش دھماکے ، منشیات کی ترسیل، مسجد و مدرسوں پر حملے ،مخبر و جاسوس کے نام پر مخالفین اور عام بے گناہوں کی قتل عام اور چوری ڈکیتی کو حلال و جائز قرار دینے پر بضد ہیں،اور اپنے ہر گناہ کبیرہ کو کفر و شرک کے خلاف جہاد کا نام دے کر سادہ لوح پختون اور جنونی عناصر کی جنون و سادگی سے بھرپور فاہدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مزموم عزاہم کی تکمیل کر رہے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ جب سے رواں بلوچ قومی تحریک کا آغاز ہوا ہے، قابض دشمن اور اسکے آلہ کار کے ساتھ ساتھ لیڈری و کمانڈری کے شوقین اور نمائشی قسم کے عناصر ایک ہجوم کی شکل میں اپنا اپنا ایجنڈا لیکر میدان کار زار میں کھود پڑے ہیں. 2002 سے لیکر 2006_7 تک قومی کاروان بہت سی نشیب و فراز کو عبور کرتے ہوئے جب کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی. تو مکران میں بی این ایم لیڈر شہید غلام محمد اور بی ایل ایف کمانڈر شہید خالد کی شہادت کے سانحہ پیش آئیں، اسکے بعد یکایک ایک عجیب سی صورتحال نے جنم لیا، تحریک میں مجرموں ، منشیات فروشوں کے کارندے،سرکاری ایجنٹ اور تحریک دشمن عناصر بلا روک ٹھوک دو مسلح تنظیم بی ایل ایف اور بی آر اے میں داخل ہوتے گئے، چونکہ سپاہی کی بھرتی اور لشکر کی تعداد بڑھانے کیلئے بی ایل ایف اور بی آر اے کی ایک مقابلہ شروع ہوگئی اس لیے امام بیل ، جعفر، ابراہیم بیل، سیٹھ لال بخش اور چند دیگر نامی گرامی منشیات فروش کے علاوہ مکران بھر کے چھوٹے موٹے منشیات فروش، بھتہ و ٹیکس مافیا کے یونین ساز اور خاندانی دشمنیاں رکھنے والے لوگ باآسانی بی ایل ایف کے کیمپ داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے بی ایل ایف ایک مسلح قومی تنظیم کی جگہ ایک گینگ وار و ڈرگ مافیا کی شکل اختیار کرگئی. ہو بہو طالبان طرز کی وارداتیں رونما ہونے لگیں، دشمن سے زیادہ منشیات کی گاڑیوں پر توجہ دی گئی، پنجگور پروم ،بالگتر بلیدہ زعمران اور مند میں نئے نام کے منشیات فروش متعارف ہونے لگے،کچھ پرانے من پسند منشیات فروشوں کو نہ صرف کار و بار میں چھوٹ مل گئی بلکہ منشیات کے ضبط کیے گئے مال آسان قیمت و شرائط پر ان ہی کے حوالے کیے جاتے رہے۔ سب سے زیادہافسوسناک بات یہ ہے کہ بی ایل ایف میں منشیات فروشوں کی ایک ایسی فوج بھرتی کی گئی ،جو ہمیشہ سے مکران پر لوفر راج قاہم کرنے کی خواہشمند ہیں، ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو ہر زمانے میں بندوق برداروں کے دائیں بائیں دیکھے گئے ہیں، یہ لوگ صرف بندوق کے غلام ہیں خواہ بندوق ان سے بھی کمتر لوگوں کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو ،اور کچھ لوگ وہ ہیں. جو ہر ابھرتے جعلی و اصلی لیڈر کے جلسوں میں کمر للچاتے ہوئے ناچتے رہے ہیں. محمد علی رند، احسان شاہ، اسد صدو زء، مالک حاصل خیرجان اور ہر انقلابی و غیر انقلابی لیڈر و پارٹی انکو سوٹ کرتی ہے. کم ظرفوں کے اس ٹولے کو فلحال آزادی مل گئی ہے،کیونکہ ان کے لیے آزادی کا مفہوم و مطلب طاقت کی حصول ہے نا کہ قوم و وطن کی آزادی و خوشحالی . یہ وہ لوگ ہیں جنہیں شریف اور عزت دار لوگ اپنے محفلوں میں خدمت گزاری کے لیے پسند نہیں کرتے ،اب یہ مکران کے مختلف علاقوں کے بزرگ ہستیوں، شریف و عزتدار گھرانوں کے سربراہوں اور سلجھے ہوئے سیاسی و سماجی کارکنوں کی سر عام بے عزتی کرتے ہیں. فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر ساہیٹس پر بھی انکی جھلکیاں نمایاں ہیں،فیسبک پر بی ایل ایف و بی این ایم کے دانشوروں اور حمایتیوں کے پوسٹ و کمنٹ سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ عقل و دلیل کے آراستہ پختہ و بالغ نظر سیاسی کارکن و رہنما ہیں، یا بازاری چرسی موالی اور اخلاق سے عاری لوفر لفنگے ہیں. میرے خیال میں طالبان منشیات کے عادی کسی غریب کے بچے سے زیادہ اس خطرناک و بے قابو غنڈے اور سرکاری و قبائلی شخصیت سے الجھنا بہتر سمجھتے ہیں. جو انکے راہ میں رکاوٹ ہو. لیکن بی ایل ایف کے بدمعاش نما سرمچار پچھلے دس سال سے ہر روز کسی غریب کے بچے کو قتل کرکے اسے سرکاری مخبر اور مقبول شمبے زئی و راشد پٹھان کا دستِ راست قراردیتے ہیں لیکن ڈر کے مارے کبھی راشد پٹھان اور مقبول پر حملے کی جرات نہیں کرسکتے، گوگدان میں تیس نہتے سندھی و سرائیکی مزدورں کو سوتے میں قتل کرکے بہادری کی ڈینگیں مارنے والے سرمچار ڈی بلوچ میں واقع راشد پٹھان کے لگائے گئے ناکے کی طرف بڑھنے سے خوف زدہ ہیں،کیونکہ سنا ہے راشد پٹھان بھی سنائپر اور جدید اسلحے سے لیس ہے۔ مجھے اس وقت بہت زیادہ غصہ آنے لگتا ہے جب فیس بک پر موجود بندوق کے غلام بی ایل ایف اور بی آر اے کی مجرمانہ کاروائیوں کی دفاع کر رہے ہوتے ہیں. اور ان دوستوں کے گلے شکوے کرتے ہیں. جو تحریک میں موجود کمزوری و کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، تحریک کو شخصی و گروہی قبضے سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں،اور تحریک میں موجود سرکاری کارندوں، منشیات فروشوں کے نمائندوں اور ڈیتھ اسکواڈ کے گھس بیٹھوں کو پکڑنے یا نکالنے کی مطالبہ کرتے ہیں، لیکن چونکہ کچھ لوگوں کو علاقے میں بالادستی و جمعداری حاصل ہے. اور وہ اپنی اس جمعداری اور نقلی حکمرانی سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تونتیجہ تو وہی نکلے گا جو رودبن اور تمپ کے بعد دشت زرین بگ اور بلنگور میں عوامی قوت کی شکل میں نکلا ہے. بلنگور میں راشد پٹھان کے پیارے بھانجے اور بی ایل ایف میں انکے نمائندے خلیل ساچان کی بوکھلا ہٹ کی ویڈیو اور عوامی اجتماع میں موجود لوگوں کے بیان اس بات کی جیتی جاگتی ثبوت ہیں کہ مکران میں لوگ بی ایل ایف اور بی آر اے سے کتنے متنفر ہیں. طالبان اور بی ایل ایف میں صرف اس بات کی فرق ہے کہ طالبان جو کچھ کرتے ہیں اور جو بھی نمایاں کار نامے دکھاتے ہیں، اسکو اپنی تنظیم کی نام سے کیش کرتے ہیں. جبکہ بی ایل ایف شہید ڈاکٹر خالد کی شہادت اور واحد قمبر کے گرفتاری کے بعد ڈاکٹر اللہ کے چارپائی میں بندھی ہوئی ہے. ہر حملہ، ہر فیصلہ اور ہر نیک نامی اللہ نظر کماتے رہے ہیں. اور تمام تحریک دشمن کارنامے بیچارے بی ایل ایف کے دامن پر لگائے جاتے ہیں. اور کوئی نقاد و تجزیہ نگار اللہ نظر پر لکھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ان کو اللہ نظر سے خار ہے. یہ ڈاکٹر صاحب کے ذات پر حملہ آور ہیں، اور اگر بہ حیثیت تنظیم بی ایل ایف پر لکھا جائے.تو جواب آتا ہے کہ جی بی ایل ایف میں برُے لوگ ہوسکتے ہیں لیکن بی ایل ایف ایک تنظیم ہے اسکو کسی فرد سے نہ جوڑا جائے. بالکل ایسے ہی خیالات کے اظہار ہمیشہ الطاف بھائی کے ایم کیو ایم والے کرتے رہے ہیں۔ میں نے ملا عمر، بیت اللہ مسعود ، حکیم اللہ مسعود اور منصور اختر سے کبھی بھی یہ نہیں سنا کہ. پشتون یا طالبان کے حمایتی ان پر شاعری لکھیں انکے حق میں گیت گائیں اور صفت و ثنا خوانی کریں لیکن ڈاکٹر اللہ نظر کی اس ویڈیو کو سنکر مجھے اور شاید بہت سے دوستوں کو عجیب محسوس ہوچکا ہوگا. جو وہ اپنے منہ میاں مٹھو بڑے فخر و شان سے کہتے ہوہے ذرہ برابر شرم محسوس نہیں کرتے کہ جب کسی بلوچ کے گھر نومولود بچہ پیدا ہوگا تو وہ بچے کی جگہ اللہ نظر کی صفت و منکبت گاتے ہیں کوئی شادی بیاہ ہو تو دولہا کے بدلے اللہ نظر کے لیے سہرے اور تعریفی صوت و نازینک گائے جاتے ہیں. اس طرح کی باتوں سے صاف عیاں ہے کہ یہ شخص نام و تعریف اور سستی شہرت کی کتنے بھوکے ہیں. بھلا ایک انقلابی قومی لیڈر کو کسی کی نازینک و لوری کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ شاید یہی ایک عنصر ہے. جو بی ایل ایف اور بی ایل اے کے کمانڈروں میں فرق و تمیز واضح کرتی ہے۔ طالبان کہتے ہیں کہ ایک بار اللہ و اکبر کہہ کر جہاد میں کود پڑو. پھر تمہارے لیے چوری، ڈاکہ اور قتل اور ہر قسم کی جرم و برائی حلال ہوتی ہے۔ بی ایل ایف کا بھی یہی کہنا ہے کہ بی ایل ایف جوائن کرو،پھر منشیات فرشی، چوری و لوٹ مار، خاندانی دشمنی کا انتقام اور ہر قسم کی جرائم جائز و معقول ہے ،کیونکہ بلوچ فرزندوں نے اپنے جان و سر قربان کئے ہیں، اس کوکوئی بھی جرم میں پکڑے جاؤگے تو شہداء کا نام لیکر جان خلاصی ہوگی، اوراگر کسی نے تمہارے غلط حرکات اور تحریک دشمن کاروائیوں کے خلاف بولا یا لکھا اسے قوم دشمن ، آئی ایس آئی کا ایجنٹ اور مخبر قرار دیکر اٹھا لینا یا مار ڈالنا،کیونکہ آپ سرمچار ہیں. اور شہداء نے اپنی لہو اور لاپتہ افراد زندانوں میں اذیتیں کاٹ رہی ہیں. یعنی آزادی و قومی تحریک کے نام پر آپ کا یہ بندوق آزاد ہے. جہاں جی چائے، چلادو. اور جس جس کو اٹھانا ہے ٹھالو. اب کوئی مجھے لفظ آزادی اور جہاد کے سوا ایک لفظ بتادے جو بی ایل ایف اور طالبان کے درمیان فرق واضح کرسکے۔ سوچ سوچ کر جیو