تحریر : بیرگیر بلوچ

 

ھمگام کالم

مزاحمتی تحریک ایک تناور درخت کی مانند ہوتا ہے جس کی جھڑوں کو مضبوط بنانے کیلئے اصولوں کی پابندی بہت ضروری ہوتا ہے۔ کسی بھی اصول میں کوتاہی قومی مزاحمتی تحریک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، مزاحمتی تحریکوں میں ہمیشہ سے وہی لیڈر سر فہرست رہے ہیں جنہوں نے مزاحمتی تحریک میں اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا ہے۔

دشمن بھی انہی نظریاتی لیڈروں سے خوفزدہ ہوتا ہے جو اپنے مزاحمتی تحریک میں کسی بھی قسم کے سمجھوتے کیلے تیار نہ ہوں۔ قبضہ گیر کی کوشش یہی ہوتا ہے کہ وہ آپ کے صفوں میں گھس کر سیز فائر معاہدے کیلئے آپ سے تعلقات قائم کرے تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد کو تکمیل تک پہنچائے۔

اگر ہم بلوچ قومی آزادی کے مزاحمتی تحریک کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہوگا کہ ہمارے بزرگوں کی جانب سے ہمیشہ اس تحریک پر سمجھوتے کا چادر چڑھایا گیا ہے، کچھ ہمارے تہذیب اور روایات کے مطابق لیکن کئی مقامات پر غیر معیاری طور پر سمجھوتے کیے گئے ہیں۔

لیکن اس وقت اس بات کو ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا کہ کسی دن یہی قبضہ گیر ہمارے مادر وطن کو اپنی ملکیت سمجھیں گے، وہ اس خیال سے کوسوں دور تھے ان کے فیصلوں سے قابض کے ہاتھوں ہمارا معاشی استحصال ہوتا رہے گا اور ایک دن ایسا آئے گا کہ ہم غربت کے انتہائی نچلے لکیر سے بھی نیچھے جاچکے ہوں گے۔

ماضی میں قبضہ گیر دشمن سے جو بھی سمجھوتے ہوئے ہیں، ان سے بلوچ لیڈران سمیت پورے قوم نے سبق آموز نقصان اٹھائے۔ اگر اس وقت ان ناکامیوں کو بغور سمجھا جاتا تو آج مزاحمتی تحریک اپنے منزل مقصود تک پہنچ چکی ہوتی، سمجھوتے کی بنیاد پر دشمن نے مختلف چالیں چلائی ہیں کھبی اس نے روایات کا سہارا لیکر بلوچ مزاحمتی تحریک تھوڑنے کی سازش کی تو کھبی مزہبی بنیاد پر تحریک کو کمزور کر دیا، اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے بعد دشمن نے کسی بھی روایت یا مذہبی اقدار پر عمل نہیں کیا۔ جبکہ اس پورے امر میں سادہ لوح بلوچ لیڈرشپ کی جانب سے وہی ایک غلطی بار بار دہرائی گئی۔

بلوچوں میں کچھ ایسے بھی لیڈر تھے جنہوں نے قابض کے ساتھ سمجھوتے کو ایک ناقابل تلافی غلطی کے طور تسلیم کیا تھا، ریاست نے انہیں راستے سے ہٹانے کی بھرپور کوششیں کی۔ آج بھی ان لیڈروں کو دشمن چن چن کر مارنے کی سازش کررہا ہے، جو کسی بھی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان رہنمائوں سے قریبی تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے جن سے انہیں سمجھوتے کی امید نظر نہیں آتی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دشمن پہلے کی طرح تاریخ مسخ کرنے کی سازش کررہی ہے۔

دراصل آج کا بلوچ صرف اپنی قومی شناخت اور قومی بقا کی خاطر ہر طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا اور کسی بھی قسم کے سمجھوتے کیلئے تیار نہیں، اس نے تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے اور بلوچ قوم کی تاریخی ارتقاء کو سمجھتے ہوئے وہ مزاحمت سے کسی صورت کنارہ کش نہیں ہوگا۔

کچھ مسلح تنظیموں کے رہنماؤں نے بھی سیز فائر کی معائدے کو اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے، انہوں نے ثابت قدم رہنے کا عہد کرکے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔

مسلسل جدو جہد نے انہیں ثابت قدم رہنے کی ہنر سکھائی ہے لیکن کچھ حد تک وہ بھی سمجھوتے کا سہارا لے رہے ہیں، جیسے کہ مقبوضہ سیستان بلوچستان کے کے متعلق انہیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

کسی ایسے دشمن سے سمجھوتہ کرنا جس نے آپ کی قومی شناخت کو مسخ اور قومی ملکیت کو اپنا جاگیر مان لیا ہو، ایسے ناقابل تلافی غلطیوں کے تحت دشمن کے ساتھ چلنا، ان کے ساتھ اپنی ملکیت میں سمجھوتہ کرنا یا اس کی طاقت کے آگے خود کو کمزور سمجھ کر پیچھے ہٹنے کو ترجیح دینا، ایسے تاریخی بلنڈرز ہیں جو کہ نا صرف آپ کو بلکہ آپ کی آنے والی نسلوں کو متاثر کرتی ہیں۔

ایسے تاریخی غلطیوں سے بچنے کیلئے مسلسل مسلح جدوجہد بہت ضروری ہوتا ہے، مسلسل مسلح جدوجہد آخر ایک مضبوط اور مستقل سوچ کو جنم دیتی ہے جس کو ہائجیک کرنا کسی بھی قوت کے بس میں نہیں ہوتا۔