مقبوضہ بلوچستان سنگلاخ پہاڑوں کا ایک وسیع و عریض خطہ ہے، جو بلوچ قوم کا مسکن ہے۔ مقبوضہ بلوچستان کی بلند و بالا پہاڑی چوٹیاں اور وادیاں بلوچوں کے لیے سنگر گاہیں یعنی محفوظ مورچے اور پناہ گاہیں ہیں۔ بلوچ اپنے ہر پہاڑ اور وادی سے بے پناہ محبت کرتی ہے ، کیونکہ مقبوضہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور وادیوں نے انہیں دشمن سے کسی حد تک محفوظ رکھا ہے۔ بلوچ اپنی دشوار گزار پہاڑی چوٹیوں اور وادیوں کے ہر گوشے سے بخوبی واقف ہے۔
مقبوضہ بلوچستان دشمن کے خلاف گوریلا (چھاپہ مار) جنگ کے لیے موزوں ترین قدرتی خطہ ہے، جہاں بلوچ نوجوان اپنے مادرِ وطن کی آزادی کے لیے دشمن کے خلاف کامیابی سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بلوچوں نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو حیران اور پریشان کر دیا ہے، بلکہ دشمن کی جنگی حکمت عملی بلوچوں کو ختم کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔ بلوچستان میں دشمن کے ظلم و بربریت نے ہر بلوچ گھر سے ایک مزاحمت کار پیدا کیا ہے، جو اپنے خون کے آخری قطرے تک دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہے۔
بلوچوں کو شکست دینا ریاست کی ایک خام خیالی ہوگی، کیونکہ اس وقت مزاحمتی تحریک کی قیادت مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ، سیاسی اور نظریاتی علم سے لیس رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہے۔ بلوچ مزاحمت کار آزادی کے علاوہ کسی اور بات پر راضی نہیں ہیں، کیونکہ اس غیر فطری ریاست نے بلوچوں کو ایک بار نہیں بلکہ بار بار دھوکہ دیا ہے۔ بلوچ اب کسی صورت میں اس ریاست کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں، کیونکہ نہ تو بلوچوں نے اس ریاست کی تشکیل میں کوئی قربانی دی ہے اور نہ ہی بلوچوں کا اس ریاست کے ساتھ کوئی جڑواں تعلق رہا ہے۔ درحقیقت، اس ریاست نے بلوچوں کے وطن بلوچستان کو جبراً الحاق کر کے طاقت کے زور پر قبضہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ریاست نے شروع دن سے ہی بلوچوں کو تیسری درجے کے شہری کی حیثیت دی ہے۔
ریاست کو اپنے ذہن سے یہ غلط فہمی نکال دینی چاہیے کہ بلوچستان میں صرف تین سردار ہی ریاست کے خلاف ہیں یا یہ محض تین سرداروں کی جنگ ہے جبکہ باقی ستر سردار ریاست کے ساتھ ہیں۔ اول تو بلوچوں کی مزاحمتی تحریک یا جہدوجہد بلوچ سرداروں کی تحریک اور جہدوجہد نہیں ہے۔ بلکہ اس مزاحمتی تحریک کی قیادت بلوچ مڈل کلاس کے باشعور، تعلیم یافتہ نوجوان کر رہے ہیں جن میں کوئی سردار یا نواب شامل نہیں جو اس تحریک کی قیادت کر رہا ہو۔ ہاں البتہ، اس مزاحمتی تحریک میں بلوچ سرداروں اور نوابوں کا ضرور کردار رہا ہے، جن میں بابو نواب نوروزخان زرکزئی، نواب اکبر خان بگٹی، نواب خیر بخش مری شامل ہیں۔ بلکہ اس سے قبل بھی قوم پرست قبائلی رہنماؤں کے کردار بھی رہے ہیں جنہیں ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مگر اب اس مزاحمتی تحریک کی قیادت سنگت حیر بیار مری، بشیر زیب بلوچ، ڈاکٹر اللہ بلوچ، ڈاکٹر نسیم بلوچ، میر عبدالنبی بنگلزئی، استاد واحد کمبر اور دیگر گمنام مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ نظریاتی سپاہی کر رہے ہیں جو کہ سردار یا نواب نہیں ہیں۔
ریاست کے اصل حکمران یعنی فوجی قیادت اور اس کے بلوچ سہولت کار سیاسی جماعتیں اس غلط فہمی میں مبتلا تھیں کہ بلوچ مزاحمتی تحریک محض چند نوجوانوں کی جدوجہد ہے۔ مگر تاریخ نے آج ان کے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ یہ مزاحمتی تحریک چند بلوچوں کی نہیں، بلکہ لاکھوں بلوچوں کی ریاست کے خلاف ہردلعزیز تحریک ہے جو اب ریاست کے خلاف ایک ریفرنڈم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مزاحمت کار جہاں بھی جاتے ہیں، عوام ان کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں اور ان کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ بلوچ مزاحمت کاروں کی چیلنج کو قبول کرے، مقبوضہ بلوچستان سے اپنا خوف اور ریاستی دہشت ختم کرے، پھر اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرائے۔ تب ریاست کو معلوم ہو گا کہ کتنے فیصد بلوچ مزاحمتی تحریک اور آزادی کی تحریک کے ساتھ ہیں اور کتنے فیصد ریاست کے ساتھ ہیں۔ فی الحال بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں شہری آبادی کے دو کلومیٹر کے دائرے سے باہر ریاست کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ آزادی پسند بلوچ نوجوان آسانی سے بلوچستان کے قومی شاہراہوں اور بازاروں پر کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں، پولیس اور لیویز کے چوکیوں پر قبضہ کر سکتے ہیں اور ایف سی کے کیمپوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ بلوچ آزادی پسندوں کے حملوں کے خوف سے فوج کے بیشتر اہلکاروں نے بلوچستان میں خدمات انجام دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ بلوچ مزاحمت کاروں کی اخلاقی فتح ہے اور ریاست کی شکست ہے۔