بلوچ قومی تحریک اس وقت اپنے شدت کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں ہے جہاں بلوچ نوجوان تاریخ میں نئے صفحات درج کر رہے ہیں جن کی شاندار مثال دنیا کے کامیاب تحریکوں میں بھی کم ملتی ہے۔

اگر بلوچ قومی تاریخ پر نظر رکھیں تو نوجوانوں نے ہر وقت قربانی دی ہے اور اس موجودہ تحریک کے مرحلے میں گزشتہ ڈھائی دہائیوں میں مستقل مزاجی کے ساتھ قربانی کے تمام تقاضوں کو پورا کیا اور ان کے ارادوں میں زرہ برابر بھی لرزش نظر نہیں آئی ہے۔

دوسری طرف بلوچ دانشور ماضی کی طرح اب بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے بجائے نوجوانوں کو موردالزام ٹھہرانے کے لئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ۔گزشتہ دنوں بولان میڈیکل کالج میں بلوچ قومی شاعر مبارک قاضی کی برسی کے موقع پر اسٹیج پر بلوچ قومی دانشور اور براہوی ادب کے پروفیسر منظور بلوچ کو دعوت دیا گیا جس کو مرحوم کی زندگی ،شاعری اور اجتماعی کردار پر بات کرنی تھی مگر موصوف نے پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے منفی کردار سے بات شروع کر کے اپنے بندوق کے روخ ریاست کے بجائے بلوچ نوجوانوں کے طرف کیا کہ وہ نالائق ہیں اور آج تک کوئی نوجوان پیدا نہیں ہوا ہے جو سردار عطاء اللہ خان ،شہید اکبر خان، نواب خیر بخش مری اور قومی تحریک سے منسلک اپنے دوسرے قومی ہیروز کے اوپر کوئی کتاب لکھ سکے ،اور ساتھ ساتھ اس بات پر پریشان تھا کہ اب ممکن نہیں کہ بلوچ قوم میں کوئی عطاء اللہ خان یا اکبر خان پیدا ہو۔

پروفیسر کے اپنے تقریر میں نوجوانوں کے حوصلے شکنی،ڈی گریڈنگ اور ان کے بے مثال اور تاریخی کردار کو مسخ کرنے پر ہال میں موجود تمام نوجوانوں میں ایک عجیب سی حیرانگی کی کیفیت پیدا ہونے کے بعد ایک سناٹا چھا گیا جیسے کسی آفت کے بعد ہر طرف گہری خاموشی کا راج ہو ۔ جب خاموشی ٹوٹ گئی پھر ہر طرف چے میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ جو کام پروفیسر کے ذمہ ہے وہ کرنے کے قابل نہیں ہے اب وہ اپنی کوتاہی کے ذمہ داری نوجوانوں پر لگا رہا ہے ۔ نوجوان تو آئے روز بلوچ سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں مگر آپ پروفیسر اس جنگ کے عملی حصہ نہیں بنتے کہ ہمارا کام بولنا اور لکھنا ہے پھر آپ بتائیں کہ آپ نے بلوچ قومی تحریک اور اس سے منسلک ہیروز پر کیا لکھا ہے جو انٹرنیشنل بیسٹ سیلرز کے لیول میں پہنچا ہے۔

بلوچ دانشور پہاڑوں کا رخ نہیں کرتے کہ ہم اداروں میں رہ کر نوجوان نسل کی تربیت کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر کو قوم کے سامنے لاتے ہیں مگر صبا دشتیاری کے بعد کوئی ایسا بلوچ دانشور سامنے نہیں آیا جو پاکستانی اور ایرانی مظالم کے خلاف کھل کر بولاہو ،بلکہ ان کی باتیں منٹو اور پاکستانی سماج کے برائیوں کے گرد گھومتی ہیں کہ جی آج سماج اس نہج پر پہنچی ہے کہ ہمارے لوگ بندوق والوں کا احترام کرتے ہیں اور اصلی سرداروں کے بجائے اب علی مدد جتک کی شکل میں جعلی سردار لائے جا رہے ہیں ۔جن دانشوروں کو ریاستی ظلم ،ناپاک فوج کے مظالم کے اوپر بات کرنی ہے مگر وہ اصل دشمن کو برا بھلا کہنے سے کتراتے ہیں کہ کئی ان کی نوکریاں اور زندگیاں خطرے میں نہیں پڑیں اور گول مول سے کام لے کر اپنے تقریر کا خاتمہ کر کے گھر چلے جاتے ہیں ۔اور ان دانشوروں کو قوم کو صحیح راستہ دکھانا تھا مگر یہ آپس میں بغض ،نفرت اور کینہ کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور یہی لوگ شہید صبا دشتیاری کے خلاف بھی بولتے رہتے تھے۔

دنیا کے مختلف تحریکوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو جب بھگت سنگھ ،ڈاکڑ چے گویرا ،ہوچی مون ،نیلسن منڈیلا اور دیگر ہیروز جب دشمن کے خلاف محاذ پر موجود تھے تو ان کے زندگی اور ان قومی تحریکوں کے مختلف نشیب اور فراز پر ان کے دانشور تحقیق کر کے لکھتے اور ان کے کارنامے آنے والے نسلوں کو اپنے لکھائی کےذریعے منتقل کرتے کیونکہ لکھنا پروفیسر اور محقق کا کام ہوتا ہے اور یہ کسی 20 سالہ نوجوان کے ذمہ نہیں ہوتا جو میدان جنگ میں مصروف عمل ہے۔

بلوچ قوم نے آج تک نواب محراب خان ،بالاچ شہید ،نواب نوروز خان ،غلام محمد،حمید شاہین،امیر بخش،مجید ،غفار،سنگت ثنا،قمبر چاکر،لا منیر،ڈاکڑ خالد ،طارق کریم ،حق نواز،بانک کریمہ اور استاد اسلم جیسے ہزاروں بہادر ہیروز پیدا کی ہیں ۔مگر آج تک واقعی اس میں کوئی ذمہ دار پروفیسر اور محقق نہیں گذرا جو برٹرینڈ رسل ،بیکن،فینن ،ٹالسٹائی ،طارق علی ،احمد رشید اور سارتر کے لیول میں پہنچا ہو جو اپنی قوم اور سماج پر ایسے مضامین وکتابیںلکھتے کہ دنیا کے لئے قابل تعریف ہوتا ،اور بد بختی سے ہمارے اپنے یونیورسٹی کے پروفیسر انٹر نیشنل تحقیق کے بجائے جنسی ہراسمنٹ میں ملوث اور مصروف عمل ہیں جن کے فوٹیج ،آڈیو ریکارڈز اور بیانات جنسی ہراسمنٹ تحقیقاتی کمیٹی کے پاس موجود ہیں جن کو بلوچ اور پشتون سماج کے پیچیدگیوں کی وجہ سے سامنے نہیں لایا گیا ہے۔

بقول فرانز فنن کے جب متوسط تعلیم یافتہ طبقہ یہ کہتا ہے کہ مقامی باشندے باشعور نہیں ہیں تو دراصل تعلیم یافتہ اپنے آپ کو بری الزمہ ٹھہرانے کے لئے سارا ملبہ مقامی باشندوں پر ڈالتا ہے ،اور مزید کہتا ہے جب مقامی باشندوں کے شعور میں پختگی نہیں ہوتی تو اس کے ذمہ دار بھی لکھا پڑا طبقہ ہے جو اپنی بزدلی کی وجہ سے مقامی باشندوں کو کالونائزر کے خلاف فکری احوالے سے تیار نہیں کرتا۔

کاش ہمارے پروفیسر صاحب زرا یہ سوچتا جب الجزائر فرانس کے قبضہ کے خلاف لڑ رہا تھا تو اس وقت فرانسیسی مظالم کے خلاف نوجوان کے ہاتھ میں بندوق تھا اور وہاں کے لکھائی کا کام دانشور فرانز فینن کر رہا تھا اور اس نے اپنے ذمہ داری کو خود نبھا کر کتاب لکھنا شروع کیا اور اپنے حصے کے کام ایف ایل این کے سرمچاروں کے کندھوں میں ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔

کاش ہمارے پروفیسر صاحب زرا نوم چومسکی سے سبق لیتے جو امریکن ہوتے ہوئے بھی امریکن کے ویت نام اور دیگر مظلوم اقوام کے خلاف لڑنے والی جنگوں کے خلاف لکھنے کے ساتھ ساتھ عوامی سطح میں شعور ابھار کر بولتا تھا۔

پروفیسر صاحب کو اس وقت نواب خیربخش مری ،شہید بالاچ مری ،شہید استاد اسلم ،شہید امیر بخش پر اسٹینڈرڈز کتابیں لکھ کر شائع کرنا تھا جو بھگت سنگھ اور ڈاکٹر چے گویرا کے بارے میں لکھے ہیں مگر وہ ان لکھنے کے ذمہ داری ان نوجوانوں کے اوپر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے جو ایک دن میں نوشکی اور پنجگور کے ایف سی کے مرکزی کیمپ میں سولہ فدائین کی شکل میں اپنی جان کی قربانی دے کر قومی آزادی کے تحریک کو کامیابی کی طرف آگے لے جاتے ہیں ۔نوجوان اس وقت اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں لڑ رہا ہے اور دشمن کے زندانوں میں اذیت برداشت کر کے اپنے اس بد نصیب دن کا انتظارِ کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کے مسخ شدہ لاشیں کسی ویرانے میں پھینک کر جعلی مقابلے کا نام دیا جائے گا اور اس دن پنجابی دانشور یہی پروپیگنڈہ کرے گا کہ کوئی فدائی ہے جبکہ پروفیسر صاحب دشمن کے پروپیگنڈہ کو کاؤنٹر کرنے کے لئے بے بس دکھائی دے گا۔

پروفیسر صاحب اس نوجوان سے کتاب لکھنے کی امید کر رہا ہے جو زاکر مجید کی شکل میں گزشتہ پندرہ سالوں سے عقبوت خانوں میں تکلیف جھیل رہا ہے ,جو زاہد بلوچ کی طرح گزشتہ گیارہ سالوں سے دشمن کے دردناک ٹارچر سیلوں میں آپنے سانسوں کے لمحات گن رہا ہو گا۔

پروفیسر صاحب مزید قوم کو مخاطب ہو کر کہتا ہے اب اس میں عطا اللہ خان پیدا نہیں ہو سکتا ۔مگر وہ اس بات کو بیان کرنے سے قاصر ہے کہ آج اس قوم نے نوجوان ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پیدا کی ہے جس نے بلوچ قوم کو ڈیرہ غازی خان سے لے کر بندر عباس،جیکب آباد سے لے کر چاغی اور کراچی سے لے ہلمند تک اتحاد اور یکجہتی کا احساس دلایا ہے جو آپ کے ہیرو عطا اللہ خان نہیں کر سکا ۔آج بلوچ قوم نے وہ نوجوان مائل بلوچ کی شکل میں پیدا کی ہے جو اپنی زندگی کے تمام آرام اور آسائش کو چھوڑ کر دشمن کے بیلہ کیمپ میں داخل ہونے کے لئے اپنے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی پرواہ نہیں کرتی ۔آج قوم نے وہ نوجوان جنم دی ہے جو مغربی بلوچستان سے لے کر کوہ سلیمان تک دشمن کی نیندیں حرام کر چکی ہے ۔بقول طارق علی کے جب کالونائزرڈ کے نوجوان کالونائزر کے خلاف اٹھتے ہیں تو کالونائزر کے چند چندہ خور اور تنخواہ خور کہتے ہیں کہ یہ بچے ہیں اور ان سے کیا ہو سکتا ہے مگر اصل میں ان بچوں کے پاؤں کے مٹی،اور بال کے تار بھی ان بے عمل لوگوں کے سروں سے ہزار گناہ بہتر ہوتا ہے۔

جب پروفیسر صاحب آپ کہتے ہیں کہ یہ قوم نالائق ہے تو آپ نے ان ہزاروں شہیدوں کے روحوں کو تکلیف دی ہے جنہوںنے قومی آزادی کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر قیمتی جان کی قربانی دی ہے آج آپ کے اس بیان پر شہید ریحان جان کی ماں کو ضرور صدمہ ہو گا کہ اس کے بیٹے نے کونسی کمزوری دکھائی ہے کہ پروفیسر نالاں ہے،اور ساتھ ساتھ شہید بانک شاری کے بچے بھی پریشان ہوں گے کہ ان کے ماں کی شہادت کے بعد بھی قوم اگر اپنے آپ میں اعتماد پا نہیں سکتی تو پھر اس سے بڑھ کر قربانی کے اور کیا تقاضے ہو سکتے ہیں ۔نوجوان شہید سمیعہ قلندرانی کی روح آج سوال کرتی ہے کہ آیا اس نے کونسی کمی چھوڑی ہے کہ دانشور ناراض ہے ۔مائل بلوچ کے جسم کے ٹکڑے ضرور سوال کریں گے کہ ہم نے تو کردستان اور دیگر تحریکوں کو آئیڈیل کے طور پر لی ہے مگر اس کے باوجود دانشور کہتا ہے کہ قوم بانجھ پن کا شکار ہے۔

پروفیسر صاحب کو چاہیے اس قوم کے نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں ورنہ یہ نوجوان نہیں ہوتے تو آپ کے قومی لیڈر سردار عطاء اللہ خان مینگل کے سہارے پر یہ قوم ریڈ انڈین کی سطح پر پہنچ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ میں اپنے حیثیت اور پہچان کھو بیٹھتا۔