ٰٓٓدیرپا مقاصد کو پانے کیلئے دیر پا منصوبے بنانے پڑتے ہیں۔دیرپا منصوبوں کو عملی جامع پہنانے کیلئے تدبر ،دانائی ،حکمت ،سائنسی اندازِفکر ،مستقل مزاجی،اتحاد،یگانگت،مثبت تنقید،اٹل ارادہ،مقصد سے لگاؤ، بہادری،سمتوں کی ترتیب ،حوصلہ اور صبروبرداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ہر قسم کی نمودونمائش،خودستائی،جاہ طلبی ،لالچ ،حسد،کینہ ،حرص،تمام تر شخصیت پرستی ،اقربا پروری سے گریز کرنا پڑتا ہے۔لیکن دیکھا یہ گیا ہے بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے وابستہ ہمارے رہنماان ساری چیزوں سے نا بلد ہوکر نہ جانے کس دنیا میں رہے رہیں ہیں۔نہ سمتوں کا خیال نہ مقصد سے جڑت بلکہ بیگانگی اور مسلسل بے گانگی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال کیونکہ پیدا ہوئی ہے ؟کیا کسی چیز کا انتظار ہے یا پھر یوں ہی چلتے رہنا ہے؟ ہم جیسے سیاسی طالب علم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ہمارے رہنما ہمارے لئے مشعلِ راہ ہو نگے اور ہم ان ہی کی رہنما ئی میں اپنے عظیم مقصد کو ضرور پا لینگے ۔مگر یہاں تو الٹی گنگا بہے رہی ہے۔بجائے قوم کو راستہ دکھانے کے نہ جانے خود کن راہوں میں رواں دواں ہیں۔مادرِگل زمین اور بلوچ قوم آج جن اذیتنا کیوں سے دوچار ہے اور دشمن کے نرغوں میں گھرا ہواہے کیا ہمارے ان رہنماؤں کو اس بات کا ادراک ہے؟۔کیا ان گنت شہدا کا مقدس لہویوں ہی ارزاں ہوکر تاریخ کے دریچوں میں صفِ ماتم بچاکر آنے والے مورخین کو محض ادب نگاری کیلئے مواد فراہم کرینگے۔کیا ان جاں گسل قربانیوں کا ثمر یہی ہے کہ ہمارے رہنما آپس میں اس طرح مدِمقابل کھڑے ہوجائیں کہ ایک دوسرے پر الزامات کا طومار باندھیں۔؟ بہرحال وقت اورحالات اپنی ڈگرپر چلتے رہنیگے اور پھر خارجی حالات تو کسی کے طابع نہیں ہوتے۔دراصل بات یہ ہے کہ قومی تحریک میں قیادت کا واضع فقدان ہے اسکی وجہ بلوچ مزاج ہے۔بلوچ مزاج انفرایت پرمبنی ہے بلوچ مزاج میں اجتماحیت نہیں ہے۔ بلوچ مزاج پرمیں نے کافی عرصہ پہلے اپنی ایک تحریر میں تھوڑ ی بہت روشنی ڈالی تھی جس میں میں نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ آخر بلوچ قوم میں آج تک کوئی ریفارمسٹ کیوں پیدا نہیں ہوا (سوائے میر یوسف علی عزیز مگسی کے )اس کی وجہ انفرادی سوچ ہے۔ ریگس ڈیبرے نے انفرادیت کو کسی بھی تحریک کیلئے زہرِقاتل قرار دیا بقول ریگس ڈیبرے ’’اگر کسی بھی شخص کو کوئی اہم مقام یا منصب دیتے ہیں تو وہ خود کو دوسروں پر فوقیت دینے کی کوشش کرے گا۔ اور خود کو اہم تر اور بہتر تر سمجھنے لگے گا جو کہ مذکورہ شخص عام حالات میں ایسا نہیں کرتا۔ شعور کی کمی تربیت کا نہ ہونا ڈسپلین سے جدا ہونا اور اہم چیز انفرادیت اور انفرادی سوچ ایسی صورتحال کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے جو انتشار کا ذریعہ ہوتا ہے‘‘۔مشاہدے میں آیا ہے کہ شروع دن سے تحریک آزادی کے رہنماؤ ں اور پارٹیوں کے درمیان وسیع البنیاد کی یکسانیت عنقارہی ہے۔واجہ شہید غلام محمد کی عظمت کو سلام جنھوں نے شبانہ روز کی محنت سے مختلف آزادی پسند پارٹیوں اور رہنما ؤں کو ایک پلیٹ فارم (فرنٹ )میں یکجا کیا جس سے بلوچ ماس میں تحریک کو بنیادیں فراہم ہوئی۔لیکن واجہ کی شہادت کے بعد صورتحال دگر گوں ہوگئی ۔اتحاد اور یگانت کی فضا جسے شہدائے وطن نے اپنے خون سے سینچا وہ اتحادپارہ پارہ ہوگئی جوں جوں ریاستی ظلم وجبر نے شدت اختیار کی اس کے ردِعمل میں تحریک تقسیم درتقسیم کا شکار ہوگئی۔حالانکہ جیسے جیسے ریاستی جبرو تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔اسی شدت سے تحریک میں ابھار پیدا ہوتا ہے اور منزل قریب تر ہو تا جاتا ہے۔موجودہ صورتحال اس لئے بھی تشویشناک ہے کہ بلوچ سرفیس سیاست تقریبا ختم ہوکر رہ گیا ہے۔خطے کے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ اسی لئے آزادی پسند رہنما ؤں اور پارٹیوں کے پاس اب اختلاف اور دوری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ بعض صورتوں میں فیصلہ کے مراحل بار بار آتے ہیں اور ایک طرح سے مواقع کا ذریعہ بنتے ہیں فیصلہ کن لمحات میں حالات وواقعات بڑی تیز رفتار ی سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جب تدبر،دانائی ،مستقل مزاجی،ہمت وجرأت کے ساتھ رہنما آگے بڑھ کر سمتوں کو ترتیب دیکر درست خطوط پر استوار کرتے ہیں۔آج سب سے زیادہ ہمارے رہنما اور کارکن جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔کسی بھی تحریک میں اگر لوگ اتنی بڑی تعداد میں جلاوطن ہوں تو وہ تحریک بامِ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ تاریخ میں اسکی بہت سی مثالیں موجود ہیں کیونکہ جلا وطنی کے ایام بڑے سخت اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔رہنما ایسے مواقع کو ضائع نہیں کرتے۔اس لئے کہ انھیں ریاستی جبر کا براہِ راست سامنا نہیں ہوتا وہ اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروے کار لاکر زبردست لابنگ کرتے ہیں۔اور اپنے موقف کو بے پناہ ندرت کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔مگر بلوچ قومی تحریک سے وابستہ رہنما اور کارکن اتنی بڑی تعداد میں جلاوطن ہوکر بھی کچھ نہیں کر پارہے ہیں۔جب کہ مادرِگل زمین پر ریاست اپنی پوری توانائی کے ساتھ اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔مادرِگل زمین کو پوری قوت کے ساتھ اپنے حصار میں لیکر بلوچ قوم پر عرصہِ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔بلوچ آبادیوں پر خوفناک آپریشنوں کے ذریعے انھیں اپنے گھروں اور اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔بے گناہ اور معصوم بلوچ قوم کے فرزندوں کو لاپتہ کرکے لاشیں گرانے کا سلسلہ تیز تر کردیا گیا ہے۔ریاستی اتھارٹی پریس کانفرنسوں کے ذریعے آئے روز کھلے عام بلوچ کو نیست ونابود کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔دوسری جانب ہمارے جلاوطن لوگ کبھی کبھار ایک آدھ سیمینار کرکے اور سوشل میڈیا میں بیانات دیکر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ہفت آسمان فتح کرلیا یا پھر چند ایک مظاہرہ کرکے خود کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم نے اپنا قومی فرض پورا کیا۔مگر ایسے کام نہیں چلے گا بلکہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جلاوطن آزادی پسند رہنما اور پارٹیاں اپنے اختلافات کو ہر صورت ختم کرکے ایک متحدہ پلیٹ فارم کے ذریعے ایک آواز ہوکر عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف متفقہ طور پر پیش کریں۔UNO یورپی یونین اور USAکے انسانی حقوق کے اداروں میں بلوچ قومی آزادی کے تمام تر مضمرات کے علاوہ ہر سمت اور ہر زاویئے سے دستا ویزی ثبوتوں کے ساتھ بہترین منصوبوں سے ساری صورت حال کو عیاں کریں۔حال کو پیش نظر رکھ کر اگر مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کی جائیگی تو نتائج بڑے بھیانک اور پیچیدہ آئینگے ۔یہ بھی یاد رہے کہ وقت اور حالات کسی کا انتظار بھی نہیں کرینگے۔بقول کامریڈ کم ال سنگ ’’ساز گار حالات کا انتظار کب تک ساز گار حالات تو پیدا کیے جاتے ہیں۔‘‘یوں تو یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ غلطیوں سے انسان سیکھتا ہے مگر غلطی اور حمایت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔موجودہ صورتحال میں بلوچ قومی تحریک کے پاس غلطیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔کسی کو برالگے یا اچھا اور کوئی مانے یانا مانے غلطیاں اور بھیانک غلطیاں بہت ہوچکی ہیں بلکہ حماقتیں اور بھیانک حماقتیں بھی بہت ہوچکی ہیں۔کیونکہ اب یہ وقت اتحاد کا وقت ہے یہ وقت فیصلوں کا وقت ہے یہ وقت متفقہ قیادت اور مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دینے کا وقت ہے اگر یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو ہاتھ ملتے رہنا پڑے گا۔اس لئے کہ دنیا اور اس خطے میں تبدیلیوں کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ خطے کے سارے کھلاڑی اپنی ساری تیاریوں کے ساتھ کھیل میں شامل ہورہے ہیں۔یقین جانیے بلوچ قومی آزادی کی تحریک واحد حقیقی تحریک ہے جو اس دنیا میں جاری ہے۔باقی ساری دنیا پر اگر آپ ایماندارانہ اور طائرانہ نگاہ ڈالیں کہیں اور کوئی تحریک نظر نہیں آتی ۔بلکہ اس کے بر عکس ساری دنیا میں ایک اودھم مچی ہوئی ہے ہر طرف اور ہر جانب خرافات ہی خرافات ہیں۔ اب اس دنیا کی اس واحد حقیقی اور خوبصورت تحریک کو صحیح سمت دینا۔ اور عالمی برادری کو یہ باورکرانااور انھیں غفلت سے جگاناکہ خرافات کی اس دنیا میں ایک سچی اور حقیقی تحریک موجود ہے جو مظلوم ومحکوم بلوچ قومی آزادی کی تحریک ہے۔آج کی اس خرافاتی دنیا میں یہ تحریک قدرت کی جانب سے ساری دنیا کیلئے ایک تحفہ ہے جسکی آبیاری بلوچ قوم کے شہدانے اپنے مقدس لہو سے کی ہے۔ان ساری باتوں کو دنیا کے سامنے لانا قومی آزادی کی تحریک سے وابستہ رہنماؤں اور پارٹیوں کی تاریخی ذمہ داری ہے۔اب ان رہنماؤں کا یہ قومی ،انسانی اخلاقی فرض بنتا ہے اتحاد کی لڑی میں پروکر اپنی تاریخی ذمہ داری کو نبھائیں۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شورو غوغا اور خرافات کی اس دنیا میں مظلوم بلوچ قوم کہیں پھنس کے نہ رہ جائے ۔پھر تاریخ اپنا فیصلہ کرے گی تلخ تاریخ ۔۔