لندن (ہمگام نیوز) بلوچ قوم دوست رہنماء اور فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیار مری نے ایکس (ٹوئیٹر) پر ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ عجیب وقت ہے مگر امیدوں سے بھرپور ہے۔
بلوچ رہنماء نے مزید کہا کہ پاکستان آرام سے رہ کر لطف اندوز ہونے کی کوشش کرسکتا ہے لیکن بنگلادیش کی قیادت نے 1971 کی نسل کُشی کو بُھلانے سے انکار کردیا ہے جو یقینا ایک نہایت اچھا اقدام ہے۔ پاکستان نے 1971 میں تیس لاکھ (30 لاکھ) بنگلا دیشیوں کا قتل عام کیا اور لاکھوں کی تعداد میں خواتین کی عصمت دری کی، وہ مزاہمت یاد داشتوں اور انسانی وقار پر نقش ہوکر رہ گیا ہے۔
حیربیار مری نے مزید کہا کہ آج بلوچوں بھی ایک یکساں بحران کا سامنا کررہے ہیں جس سے بنگلادیش کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ بلوچوں کو جبری گُمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے، بلوچ بھی فوجی آپریشنوں کا سامنا کررہے ہیں اور بلوچوں کو بھی بنگالیوں کی مِصداق پاکستان کی طرف سے سخافتی طور پر ختم کئے جانے کی کوشش ہورہی ہے۔
فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ نے مزید کہا کہ آج بلوچ ایک قوم کی حیثیت سے 1971 کے بنگالیوں کی طرح انصاف کے لئے چیخ و پکار کررہے ہیں۔ خون، آنسو اور سخت اور جان لیوا مزاہمت کی صورت میں وجود میں آنے والے بنگلادیش کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان کی مزاہمت اور جدوجہد آزادی کی مدد کرے اور بلوچستان کی آواز بنے۔
بلوچ قوم دوست رہنماء نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچستان اور بنگلا دیش کے درمیان شراکت داری تجارت، خوشحالی اور باہمی انسانی وقار کا سبب بن سکتا ہے جو ایک ظالم کے ساتھ کھوکھلی سفارت کاری سے کئی درجہ بہتر اور معنی خیز ہے۔ کھربوں کے معدنی وسائل سے مالامال آزاد بلوچستان ممکنہ طور پر مضبوط علاقائی تعلقات اور آزادانہ محفوظ تجارت کا ضامن بن سکتا ہے۔