کل رات میں نصف شب کو تنہا بیٹھا ماضی کے دہند لکوں میں کھویا ہوا تھا.ماضی کے کتاب کے ا و ر ا ق پلٹ رہا تھا.کبھی کوئی حسیں یاد روح کو کافور سی ٹھنڈک پہنچا ر ہی تھی اور کبھی کوئی کرب ناک پل یاد آکر جسم کو کپکپا دیتا۔سوچتے سوچتے میں خود کو ماضی کے ایک ایسے حصے میں پایا جو شاید خیالوں،تجربوں،احساسوں اورجذباتوں کے بیچ میں کہیں کھو گیا تھا.اس لمحے کے یاد آ تے ہی احساس شرمندگی،بے و فا ئی اور غیر ذمے داری نے مجھے ایک آسیب کی طرح جکڑ لیا. میرے ہستی نے خود کو اس لمحے کا مقروض پایا، وعدہ وفا نا کرنے کے احساس نے مجھے ایک ایسے شخص کے سامنے شرمندگی کے سمندر میں ڈبا دیا جو کبھی مجھے طعنہ تک نھیں مار سکتا . تب میں نے قلم ہاتھ میں لیا اور اس کے سیا ہی سے قرض اتارنے کی کو شش میں لگ گیا، لیکن قلم تو بانجھ تھی.سمجھ نھیں آیا کے قصیدہ نظر کروں یا مرثیہ۔نا سوزِ گداز ہے ناسخنِ کمال، ناتخیل کی وہ گہرائی نا ہی وہ جادوئی ا نگشت جو برش کے ایک اسٹرو ک سے کینوس پر ہزار باتیں کر دیتا ہے۔ تب اس فن میں اپنی نا اہلی تسلیم کر کے اپنے یاداشت کا سہارا لینے کی کوشش کی . میرے پاس تو اِن بکھرے یا داشتوں کے سوا کچھ بھی نہیں. کیا بکھرے یاداشتوں کو جوڑ کر صفحوں کو سیاہ کر کے وہ قرض اترے گا جو میرے دوش پر نوحہ کناں ہے؟؟؟ نہیں با لکل نہیں! مجھے معاف کرنا اگر میں تمہاری تقلید کو تجہید اور تمہارے آوارگی کو رہبری ثا بت نا کر سکوں. معلوم ہے تمہیں وہ مقام سورِ اسرافیل نہیں بلکہ یا داشت دے گی،اب اگران بکھرے یاداشتوں کو جوڑکر اپنے یادوں سے نکال کر بہت سارے یاداشتوں میں داشت نا کرواسکوں تو سمجھ لینا کہ بندے کے اوقات سے زیادہ بار ڈال دی تھی تم نے۔پھر یا ثریاپرقلندر کی ڈھول کی تھاپیں گنتے رہنا اور روزِمحشر میرا گریباں چاک،یا پھرذروں میں گھل کر تا ابداس دھرتی پر ماتھا رگڑتے رہناجس پر ایڑیاں رگڑی تھی اور خود ہی خود کی خودی کا ہونا ہوجانا، کیونکہ میرے پاس توان ٹوٹے بکھرے یاداشتوں کے سوا کچھ نہیں کچھ بھی نہیں……. یاداشت کے پہیے کو پیچھے گھمانے کی کوشش کرتا ہو۔ 15فروری 2010 بارہ بجے کا وقت تھا، میں شور و غل میں ایک غم دوراں سے مقابل تھا، اچانک ٹویٹ ٹویٹ کی آواز آئی جیب سے موبا ئیل نکالا دیکھا میسج آیا تھا،کھولا تو معمول کا میسج لگا ’’بلوچ وائس الرٹ‘‘ بٹن نیچے دبایا اور پورا پڑھنے کی کوشش کی ’’خضدار کے علاقے ارباب کمپلیکس سے ایک تشد د زدہ مسخ شدہ لاش ملی ہے،جس کی شناخت سعید احمد بارانزئی بلوچ کے نام سے ہوا ہے‘‘ بار بار میسج پڑھا لیکن نا نا م بدلا نا ہی خواب نکلا، شاید اسی درد سے ’’درد‘‘ گبھرا کر دوستوں سے پہلے موت کا طلبگار تھا۔شاید بلکہ یقینن اب یہ خلاء عمر بھر میرے اندر رہے گا۔میں اسی کیفیت میں تھا اتنے میں ایک اور دوست نم آنکھوں کے ساتھ آیا اوردونوں نے ایک دوسرے کے حالت اور ہاتھ میں موبائیل دیکھ کر سمجھ گئے…………’’کنفرم کیا ؟‘‘ میں نے صرف اتنا پوچھا، اس نے کہا ’’ہاں‘‘. کچھ گھنٹوں بعدجب ہم دونوں دوبارہ ایک ساتھ بیٹھے تھے،مکمل سکوت تھا شاید بولنے کو کچھ تھا نہیں، اچانک وہ بولا ’’اس کے پورے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تشدد کے نشان نہیں،گولی بھی نہیں ماری لگتا ہے اذیت میں ہی شہید ہو گیا تھا‘‘ پھر ایک طویل خاموشی، پھر میں بول اٹھا ’’اُسکو وہ مل گیا جس کی اس کو چاہ تھی،ہم اشک شوئی بھی نہیں کر سکتے کیونکہ قابلِ رحم وہ نہیں ہم ہیں‘‘ یاداشت کے اوراق کو تھوڑا اور پیچھے سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہو…. ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۰ دوپہر کا وقت تھا،میں ایک دوست سے ملنے اس کے گھر گیا. گھر میں کوئی نہیں تھا اس لئے بیٹھک کے بجائے گھر کے اندر ہی بیٹھ گئے، محو گفتگو تھے اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی.سعید آیا تھا، چہرے پر پریشانی کے آثار تھے لیکن اس کی روایتی مسکراہٹ اب بھی چہرے پر تھی. میں نے اس کو دیکھ کر کہا بارانزئی(سعید کو پیار سے بارانزئی کہتا تھا)تم مبائل کیوں نہیں رکھتے ہوتم کو ڈھونڈنا اور تم سے ملنا کسی وزیر سے کم مشکل نہیں ہے۔سعید نے زور کا قہقہہ مارا اور کہا ’’سعیدو کسی وزیر سے کم ہے کیا، ویسے مجھے ڈھونڈنا کونسا مشکل ہے بازارمیں پانچ منٹ گھومو کسی چوک پر نظر آجاؤ ں گا‘‘ پھر اچانک اس نے ماتھے پر شکن ڈالتے ہوئے میری طرف دیکھا اور رازدارانہ لہجے میں کہا’’ماما(مجھے پیار سے ماما کہتا تھا)میں کچھ دنوں سے تھوڑا پریشان ہوں،کچھ باتیں کرنی تھی مجھے اچھا ہوا تم دونوں مجھے آج ایک جگہ ملے ہو،ماما مجھ پر ہنسنانہیں اور میری باتوں کو غور سے سننا، بس ان کو میری وصیت سمجھو‘‘ دوسرے دوست نے مزاقاََ کہا’’کیوں بارانزئی خودکشی کر رہے ہو کیا؟‘‘ سعید نے ہنستے ہوئے جواب دیا’’خودکشی بزدل کرتے ہیں،میں تو اپنے خاندان کا پہلا شہید بنو گا.ماما اصل بات یہ ہے کہ جیسا کے میں نے تم دونوں کو پہلے بھی بتایا تھا میں تین سال سے مزاحمتی تنظیم میں ہوں اور باقاعدگی سے شہری گوریلا جنگ میں شامل ہوں.لیکن اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ شاید میں کہیں پہچانا گیا ہوں.میں کچھ دنوں سے مشکوک اشخاص اپنے اِردگِرد دیکھ رہا ہوں.مجھے لگتا ہے وہ ایجنسی والے ہیں میرا پیچھا کر رہے ہیں یاوہ مجھے مار دینگے یا اغواء کر دینگے‘‘ میں اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا’’اس میں پریشان ہونے کی کوسی بات ہے جو راستہ تم نے چنا ہے یہ تو اس کا حصہ ہے،اگر تم زیادہ خطرہ محسوس کر رہے ہو تو کچھ دن انڈر گراؤنڈ ہو جاو‘‘ اس نے بالشت پر ٹیک لگا کر گہری سانس لیتے ہوئے کہ’’ماما جہاں تک بات ہے انڈر گراؤنڈ ہونے کی وہ تم لوگ جانتے ہو میں نہیں ہو سکتا. میں اپنے گھر کا واحد کفیل ہوں اور یہاں مجھے کام بھی بہت ہیں، اور دوسری بات یہ ہے کہ میں پریشان اس لئے نہیں کہ میں شہید ہوجاؤ گا۔پریشان میں کسی اور بات پر ہو‘‘ ’’پھر پریشانی ہے کیا‘‘دوسرے دوست نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا۔ اس نے معنی خیز نظروں سے ہماری طرف دیکھااور چارزانوں ہوکر قدرِ جذباتی لہجے میں بولنے لگا’’ مامااب میری بات غور سے سنو، تم لوگوں کو پتہ ہے میں غربت کی وجہ سے پڑھ نہیں سکالیکن بچپن سے ہی میری تعلیم و تربیت بی.ایس.اوکے سرکل ہی رہے ہیں.اس وجہ سے میں بچپن سے ہی گلی گلی گھومتا اور قومپرست پارٹیوں کے جھنڈے لگاتا ان کے جلسوں میں جاتا، نعرے لگاتا. لیکن اس وقت ہمارا معاشرہ سیاسی طور پر اتنا با شعور نہیں تھااس لئے میرے ان اعمال کی وجہ سے مجھ پر آوارہ کا لیبل لگ گیا۔پھر جب میں نے بلوغت میں مزاحمتی تنظیم میں اپنی جگہ بنائی تومعلومات اور مخبری کے لئے میں گلی گلی گھومتا اور ہر قسم کے لوگوں سے ملتا،ہر قسم کے محفلوں میں بیٹھتا شرابی کے ساتھ شرابی، موالی کے ساتھ موالی اور آواروں کے ساتھ آوارہ بنتا. تا کہ پورے شہر کی خبر رکھ سکوں۔جب مجھے کہیں کسی مزاحمتی کام کے لئے بیٹھنا پڑتا یا نظر رکھنی پڑتی تو میں خود کو نشے میں دھت دکھا کر وہاں گھومتا تا کہ مجھ پر کوئی شک نہ کرے،میرے اس طریقہ کار سے ہمیں بہت فائدہ اور دشمن کو بہت نقصان ہوا.لیکن میرے اس کیمو فلاج کے با عث مجھے پورے شہر میں لوگ آوارہ،بے کار اور شرابی سمجھنے لگے مجھے کبھی اس چیز سے مسئلہ نہیں ہوا کیونکہ میں خود چاہتا یہی تھا. لیکن ماما حال ہی میں مجھے اس بات نے بہت پریشان کرنا شروع کیا ہے، اگر میں شہید ہوگیا تو کون سب لوگوں کو بتائے گا کے میں آوارہ نہیں سرمچار تھا ۔ میں پریشان ہوں اگر میرے شہادت کے بعد بھی لوگ مجھے موالی سمجھتے رہے اور یہی کہتے رہیں کے یہ آوارہ سعیدو ایسے ہی کسی کے ساتھ لڑ بھڑ کر مر گیاتو میرے شہادت کا کیا فائد ہ .میں صرف یہ چاہتا ہوں کے مرنے کے بعدسب میرے آوارگی کا مطلب جانیں لوگ مجھے سعیدو موالی نہیں بلکہ (زور سے سینہ تان کر فخریہ کہنے لگا)شہید سرمچار سعید احمد بارانزئی بلوچ کہہ کر یاد کریں۔سب یہی کہیں کے دیکھو ہم نے اسے آوارہ سمجھا تھا یہ تو سرمچار تھا، ہاں سرمچار تھا‘‘ یہ باتیں کرکے وہ اتنا جذباتی ہوگیا تھا کہ اس کے آواز میں ایک گرج پیدا ہوگئی تھی اور اس کے آنکھوں کے کنارے ہلکی سی نمی نظر آرہی تھی۔ ’’بارانزئی نہ تم پڑھے لکھے ہو نہ مراعات یافتہ لیکن تمہارے نظریات کے پختگی کو دیکھ کر مجھے حسرت ہونے لگی ہے کے کاش میں پاکستانی تعلیم یافتہ ہونے کے بجائے تمہاری طرح ان پڑھ ہوتا،ایک بات یاد رکھو جو شخص بے لوث ہو کر اپنے قوم کے لیئے جہد کرتا ہے وہ کبھی گمنام نہیں ہوتاوہ ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے‘‘ میں نے اس کے آنکھوں میں دیکھ کر کہا. دوسرا دوست جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا باتیں سن رہا تھا، اچانک گلا صا ف کرکے بولنے لگا’’تمہیں سعیدو کی ایک اور با ت بتاوں یہ بہت غریب ہے لیکن اس نے آج تک کسی سے کچھ نہیں مانگااور نہ پوری زندگی اس نے کسی کے ساتھ پیسوں پر فراڈ کیاحالانکہ اسے ایسے بہت سارے مواقع ملے کے یہ فراڈ یا چوری کرکے بہت پیسے بنا سکتا تھا ۔لیکن یہ سب کچھ یہ کہہ کر ٹھکراتا کے سرمچار ایسے کام نہیں کرتے.اور تو اور اس نے کبھی مزاحمتی تنظیم سے بھی ما لی معاونت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے .سچ بات یہ ہے کہ اسی غربت کی وجہ سے اس نے اب تک شادی نہیں کی ہے .لیکن کبھی اپنے اصولوں پہ سودے بازی نہیں کی.‘‘ سعید اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا’’ماما چھوڑو ان باتوں کو آج تم لوگ مجھے سنو، میری ایک اور چھوٹی سی پریشانی ہے وہ بھی بول دوں ‘‘ ہم دوبارہ غور سے اسکے سنجیدہ چہرے کی طرف دیکھنے لگے اور اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا’’ماما میں کافی عرصے سے بی.ایل.اے کے محاز سے جہد کر رہا ہوں لیکن میری جان پہچان لشکرے بلوچستان والوں سے بھی تھا۔ کبھی مجھے لشکرے بلوچستان والے اگر کوئی کام کرنے کا کہتے تو میں خندہ پیشانی سے کرتا انہیں کبھی پتہ نہیں چلا کے میں بی ایل اے میں ہوں.جب کافی عرصے بعدمیں نے یہ بات بی.ایل .اے والے دوستوں کو بتایاتو انہوں نے مجھے بتایا کے ایک ساتھ دو تنظیموں میں کام کرنے سے کنفیفوژن پیدا ہوگی اور یہ بات تمہارے لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ اسطرح تمہیں زیادہ سے زیادہ لوگ جانیں گے.اور اس کے بعد وہ اکثر مجھے مزاقاََ کہتے رہتے کہ بارانزئی اگر تم شہید ہوئے تو ہم تمہیں قبول نہیں کریں گے کیونکہ اگر ہم نے تمہیں قبول کیا تو لشکر والے ہم سے اخباری بیان بازی شروع کریں گے اور کہیں گے ک یہ ہمارا سرمچار تھا.ہاں تم اپنی کوئی وڈیو بنا کر لاؤ ثبوتاََ پھر سوچیں گے.ماما اس وقت تو میں ان باتوں پر ہنستا تھا لیکن کچھ دنوں سے میں اس بات پر بھی بہت پریشان ہوں اگر واقعی ایسا ہوگیا تو ماما میں تو پکا موالی ہی یاد رکھا جاو ں گا‘‘. میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا’’بارانزئی تم بہت آگے کا سوچ رہے ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہوگاتم کو اتنی جلدی موت نہیں آنے والی’’گندئے موت اف‘‘ (برے کو موت نہیں)‘‘ میرے اس مزاق پر وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا’’ماما ایسے اچانک شہید ہوجاؤ گا تم لوگو ں کو پتہ تک نہیں چلے گا،بعدمیں کہتے رہو گے ارے یار بارانزئی اچھا بندہ تھا بیچارہ ہم نے اس کی قدر نہیں کی‘‘ پھر میں ہنستے ہوئے اس سے مخاطب ہوا’’بارانزئی کو مرنے کی کوئی ضرورت نہیں اس کی زندگی میں ہی بہت قدر ہے، لیکن ایک بات بتاؤ آج تم یہ باتیں ہمیں کیوں بتارہے ہو‘‘ سعید ایک بار پھر سنجید گی سے ہماری طرف دیکھ کر بولنے لگا’’ماما تم دونوں پڑھے لکھے ہو تم لوگ اپنی بات دنیا کو اچھے طریقے سے سمجھا سکتے ہومیں تم دونوں سے صرف اتنا چاہتا ہو اگر میں شہید ہوا تو سب کو بتا نا کہ یہ ان پڑھ درزی سعیدو آوارہ نہیں سرمچار تھا،اور بی.ایل.اے کو کہناکہ میری آخری خواہش یہی تھی کہ پوری دنیا کو بتانا کے میں ان کا ساتھی ان کا سرمچار تھا‘‘ پھر سعید چپ ہوکر وہیں تکیہ پر ٹیک لگا کرآنکھیں بند کردی اور بیچ بیچ میں خود سے دبے لفظوں میں ہم کلام ہوتا رہتا’’سعیدو آوارہ نہیں سرمچار تھا…….سعیدو آوارہ نہیں سرمچار تھا…..سعیدوآوارہ….سرمچار‘‘ اب آخری بار اپنے یاداشت کے پہیے کو پیچھے گھماتا ہوں۔ جنوری ۲۰۱۱ رات کا وقت تھا میرے مبائیل کی گھنٹی بجی ریسیو کیا تو وہی مہر بھری آواز. ’’ماما میں بول رہا ہوں پہچان گیئے نہ‘‘ ’’ہاں ہاں بولو کیسے ہو؟کہاں ہو؟اتنے وقت سے کہاں تھے؟کال کیوں نہیں کی ہے؟‘‘ میں نے سوالوں کا تانتا باندھ دیا کیونکہ چار مہینے سے مجھے اس کی کوئی خبر نہیں تھی. اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا’’ماما کسی اور کا مبائیل ہے زیادہ بات نہیں کر سکتا، وہ میرے فل پیچھے پڑے ہیں بہت مشکل سے نکل آیا ہوں،اب گھر نہیں جا سکتا اور ناکوئی جگہ ہے جہاں فلحال میں جا سکوں جیب میں اتنے پیسے نہیں کہ کہیں دور جا سکوں.ماما کیا تمہیں کوئی ایسی جگہ سوجتی ہے جہاں کچھ وقت رک سکوں،جیسے ہی موقع ملا پھر دوستوں(سرمچاروں) کے پاس چلا جاؤں گا.ماما مبائیل کا چارج ختم ہو رہا ہے . تمہیں میری وہ باتیں یاد ہیں نا………………………………..‘‘ اور کال کٹ گئی دوبارہ کئی بار کال کی تو وہ نمبر بند تھا،پھر کبھی وہ نمبر کھلا نہیں ملا.وہ آخری بار تھی جب میں نے اس کی آواز سنی تھی ،آجتک کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اسکو کب،کیسے اور کہاں سے ایجنسی والے اٹھا کر لے گئے .پتہ تب چلاجب وہ روڈ کنارے اودھے منہ مردہ پڑا ہوا ملا،ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ، وزن بمشکل ۳۰ کلو،ایڑیوں پر چاقو کے گہرے کٹ لگے ،پورے جسم پر کرنٹ دینے کے نشان،سینے اور پیٹ پر سگریٹ کے داغ اور جگہ جگہ بوٹوں کے نشاں اس کے جسم پر نمایاں تھے۔ پورے جسم پر ایسی کوئی جگہ نہیں تھی جہاں اذیت کے نشان نہ ہو۔ بس سعید جان یہی ہے میری بساط یہی ہے میری اوقات، اس بانجھ قلم اور بنجر ذہن سے اس سے زیادہ امید نہیں رکھنا، شہادت کی عظمت و فلسفہ تو ہمالیہ سے اونچی اور بحرالکاہل سے کہیں گہری اور میں ذرہ ،ان بکھرے یاداشتوں کو جوڑنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا سوائے امید کے ، اب تُو آوارہ رہے یا سہارہ تیرا فیصلہ اب تاریخ کے منصف کے سامنے ہے، اب میرے حد ختم۔ جب ان بکھرے یاداشتوں کو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں صفحے پر بکھیر کر قلم کو ایک طرف رکھ دیا اور آ نکھیں موند لی، تو پتہ نہیں سناٹوں میں شور تھا یا شور میں ایک سناٹا،اندھیرے میں روشنی کی رمیق تھی یا روشنی کی رمیق میں بھی اندھیرہ،ہُوکی گونج تھی یا ایک گونج میں ہُو تھا،پتہ نہیں تصوف کا وجدان تھا یا مئے خوار کی مدہوشی بس دنیا داری،شہرت دلرباء اور عقل و عزت کی دنیاوی پیمانے کی گونجتی ہوئی آواز آئی. ’’ اے خردمند!آوارگی میں زندگی آوارگی میں موت،اذیت بھری زندگی اذیت بھری موت پھر بھی کہتے ہو آوارہ نہیں تھا.نا منطق سے تھا آشنا ،نافلسفہ سے تھا شغل،نا چہرے پر سرمائے کی جلاء،نا جستجو ءِ دولت،نا طرہ داروں کی محفلوں سے شغف،نا اہلِ متاع کی سنگتی،نا سرخیوں میں اس کا نام،نا اہلِ زیست میں خوشنام،نا دھندہ نا کوئی کام ، جہاں پوچھو وہاں بدنام،وہ چوراہوں کا خاک نشیں،نا چال میں شائستگی،وہ جاہل بے کار اور ناکا رہ تھا وہ صرف اور صرف ایک آوارہ تھا‘‘ یہ گونج سن کر میں ساکِن ہوگیا بولنے کی کوشش کی لیکن وحشت سے لب و زبان مجھ سے باغی ہوگئے۔پھراُس طاقت و حشمت کے سامنے روحِ انقلاب نمودار ہوا اور دھاڑتے ہوئے اُن اساطیری،جاگیرداری،سامراجی ،قبضہ گیری ،سرمایہ داری و سرداری پیمانوں کی آوازکو روندتے ہوئے بولا’’وہ اپنے مدار کو ڈھونڈتا ستارہ تھا،وہ صحرا کو چومتا دریا کا کنا رہ تھا،وہ مظلوم و مغلوب کی امید و صحارا تھا کون کہتا ہے وہ آوارہ تھا.وہ تحریکِ برابری انساں کے سمندر کا ایک قطرہ،وہ خشتِ آزادی،وہ حصہ شہیدانِ جہاں،وہ صفحہ کتابِ انقلاب، وہ غریب درزی ہمارا تھا،کون کہتا ہے وہ آوارہ تھا‘‘ یہ سارہ ماجرہ دیکھنے کے بعد ہمت کرکے اپنے کانپتے ہوئے آواز میں آخر کار میں بول اٹھا. وہ جاہل ،بے ذوق ،بے مقصد اور ناکارہ نہیں تھا…. اب کیسے بتاؤں وہ غریب درزی سعیدو آوارہ نہیں تھا