تحریر: میرل جان بلوچ
ہمگام کالم : دنیا میں ہر ایک شے ارتقاء پزیر  ہے، اور یہ عمل شروع دن سے لیکر آج تک وہاں کے معروضی حالات اور زمان و مکاں کی وجہ سے تبدیلی کئی بہتری اور کئی پر بدتری کی جانب رہا دواں رہی ہے۔ کئی پر تعمیری اور کئی تخریبی کچھ لوگ اور معاشرے اس تبدیلی، بہتری اور ترقی کے ہم قدم ہوکر اس میں حصہ دار بن جاتے ہیں تو کچھ لوگ اس کو سمجھنے سے قاصر رہ کر عمر ہی گزار دیتے ہیں اور آخر دن تک ان کو وہ چیزیں سمجھ میں نہیں آتی جو ان کو سمجھنی چاہئے ہوتی ہیں۔ جہاں   ترقی اور بہتری کا سامان یا مواقع موجود ہے ٹھیک اسی طرح وہاں خرابی اور بدتری کی گنجائش اور سامان بھی موجود ہوتی ہے۔ جس طرح دنیا میں یہ تمام چیزیں فطرتاً یا قدرتی چیزیں وجود رکھتی ہیں اُسی طرح انسانی دماغ اور مزاج میں بھی یہ سب اپنی وجود رکھتی ہیں۔ کہیں، کہیں پر انسان قدرت و فطرت کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں اور اپنی بے بسی میں وہ سب کچھ نہیں کرپاتے ٹھیک اُسی طرح کبھی، کبھی انسان اپنی جہالت، ضد، انا اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ سب کچھ نہیں کرپاتا جو اس کے ذمے لازم ہوتا ہے۔ یہ ضد ، انا اور ہٹ دھرمی جب تک آپ کی ذات سے منسلک ہو اس وقت تک جب اس کے متاثرہ فرد آپ خود ہو اس کا نقصان بھی اکیلے آپ کی ذات ہی کو اٹھانا پڑتا ہے مگر جب متاثرین کی تعداد اور حلقہ احباب کا دائرہ وسیع ہو اور آپ کی انہی اعمال کی وجہ سے ایک معاشرہ اور اس میں رہنے والے لوگ متاثر ہونے لگیں تو آپ مجرم بن جاتے ہیں۔
معاشرے میں رونما ہونے والے تمام اعمال کسی نہ کسی طرح لوگوں پر کم وبیش اثرات مرتب کرسکتے ہیں چاہے وہ اچھے یا برے ہو ، جس طرح شیشے کے سامنے کوئی چیز رکھ دی جائے تو وہ اس چیز کی تصویر کو منعکس کرکے عین اسی طرح دکھائی دیگا۔
اسی طرح اگر کسی تنظیم کے مرکزی ذمہ داروں کا رویہ اچھا یا بُرا سیاسی ہو کہ غیر سیاسی، بالکل کارکنون پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور کارکنوں کا متاثر ہونا دراصل ایک ادارے اور معاشرے کے متاثر ہونے کی واضح دلیل اور وجہ ہیں ۔
قومی غلامی کی وجہ سے سماج میں رونما ہونے والی بدامنی، بے چینی اور دیگر برائیوں کے زیر اثر بیشتر لوگ عادی ہو کر اس نوعیت تک اثر انداز ہوتے ہیں کہ وہ خود برائیاں جنم دینا شروع کردیتے ہیں۔ اچھے لوگ سماج میں رہتے ہوئے ان برائیوں پر تجزیہ اور تبصرہ کرکے ان کے خاتمے کیلئے سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔
اسی طرح سماجی برائیاں کچھ لوگوں کو اپنا دائرہ حصہ بناتی ہیں اور کچھ لوگوں کو متحرک کرنے اور مشترکہ طور پر اس کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
بلوچستان کے اندر ریاستی ظلم وبربریت، جبر و استبداد، لوٹ کھسوٹ، معاشی استحصال نے نوجوانوں بالخصوص طلباء کو سوچنے پر مجبور کیا اور بالآخر اسی تسلسل سے کئی طلباء تنظیمییں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔ کچھ تنظیمیں ریاستی پارلیمانی باج گزاروں کے ساتھ مل کر اپنے عظیم قومی ازادی کی مقصد سے دستبردار ہوکر پارلیمانی سیاست کا حصہ بن گئیں۔ مگر سرزمین کے وفادار کچھ عظیم شخصیات نے فیصلہ کرلیا کہ ہم بلوچ سرزمین کی آزادی کیلئے جدوجہد کرینگے۔ اور بالآخر ایک طلباء تنظیم بی ایس او آزاد کا جنم ہوا جس نے بلوچ طلبا کو نیند سے جگا دیا اور بے شعوروں کو شعور دیا۔طلبا کو اتفاق اور یک مشت ہوکر قومی آزادی کی خاطر جدوجہد کرنے کا درس دیا۔
وقت گزرنے کی ساتھ ، ساتھ ریاستی انٹیلیجنس ایجنسیز نے مارو اور پھینکو کی پالیسی کو بروئے کار لاتے ہوئے بی ایس او آزاد کی لیڈرشپ اور کارکناں کی ماورائے عدالت اغواء نما گرفتاریوں اور ٹارچر سیلز میں مقید اور تشدد کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا۔ اور دوسری طرف جوش وجزبے سے سرشار بلوچ نوجوانوں نے اپنے راستے سے دستبردار ہونے کی بجائے دوستوں کے سیاسی جہد کو آگے بڑھاکر ریاست کو یہ باور کروایا کہ ہم اپنی سرزمین کی خاطر کسی قسم کی بھی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں۔
آزادی کے راستے میں قربانیاں دینا عجیب بات نہیں مگر ان میں سب سے بڑی کمزوری ہماری پالیسیوں کا ہے ہماری لیڈرشپ آج تک ریاستی پالیسیوں کے برعکس اپنے لئے دیرپا پالیسیاں مرتب نہ کرسکی۔
پالیسیاں تب بنائی جاسکتی ہیں جب تنظیم کے اندر باصلاحیت مخلص اور ایمانداری رائج ہو اور رائے عامہ کو یہ حق حاصل ہو کہ ہر ایک ممبر تنظیمی کام پالیسی اور طریقہ کار پر اپنی تنقید و تجاویز پیش کرسکے۔ مگر سب سے بڑی بدبختی کی بات یہ ہے کہ آج تک ہماری تجویز ہی نہیں سنی گئی اور نہ ہی تنظیمی کاموں پر ہمیں تنقید کرنے کا حق دیا گیا۔ حتیٰ کہ ذرا سی تنقید پر تنظیم سے ہماری رکنیت کو ختم کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ہمارے ذمہ داروں کے رویوں سے سینکڑوں کارکناں مایوس ہو کر تنظیم سے کنارہ کش ہو کر خاموشی اختیار کر کے گوشہ نشینی پر مجبور ہوگئے۔
مجھے تقریباََ 6 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے کہ میں جس زون میں کام کر رہا ہوں آج تک وہی پالیسی، آمرانہ رویے، اور زونل زمہ داروں کے وہی پرانے چہرے ہیں۔ مجھے اس بات کا درد ہو رہا ہے کہ تقریباََ کئی مرتبہ زونل آرگنائزنگ باڈی اجلاس ہوا مگر آج تک زونل عہدیداروں کیلئے الیکشن نہیں کیا گیا بلکہ ہر مرتبہ ذمہ داریاں تین لوگوں کو سونپی گئیں اور آج تک ان ذمہ داروں کو مرکز نےتنظیمی کارکردگی کے بارے میں سوال نہیں کیا کیونکہ یہ ذمہ دار مرکزی رہنماؤں کے قریبی دوست ہیں اور یہاں دوستی اور ذاتی تعلقات نے آئین کی بالادستی اور جمہوریت کو پیروں تلے روند دیا ہے۔
وہ زون جو پہلے تھا آج وہ زون نہیں رہا پہلے کم از کم 15 یونٹس ہمارے زون میں تھے مگر آج یہ سارے یونٹس ختم ہو چکے ہیں ۔ تمام زونز کی جنزل باڈی ختم کرکے آرگنائزنگ باڈی تشکیل دی گئی ہے اور آرگنائزر اور ڈپٹی آرگنائزر کے علاوہ باقی 3 ممبرز رہ چکے ہیں، اور یہ تیسرا مہینہ ہے کہ آرگنائزنگ باڈی اجلاس ہوا اور اجلاس کے بعد آج تک ہم نے اپنے زونل ذمہ داروں کا چہرہ تک نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی کسی ذرائع سے تنظیمی کاموں اور تربیتی سرکل کے متعلق بات ہوئی ہے۔ بالآخر میں نے انتہائی مایوس و مجبور ہوکر تنظیم سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا ہے اور آج تک کسی ذمہ دار نے مجھے یہ تک نہیں پوچھا کہ آپ کس وجہ سے کنارہ کش ہوئے ہو؟ میں اتنا مایوس اور افسردہ ہوں کہ کہاں گئے وہ زمانے اور کہاں گئے وہ دوست جنہوں نے بی ایس او آزاد کو منظم کرنے کی خاطر دن رات ایک کرکے جدو جہد کی۔ آج وہ وقت گزر گیا اور آج وہ مخلص دوست ہماری صفحوں میں نہ رہے بس میں شب و روز انھی باتوں پر سوچتا رہتا ہوں۔
اتفاق سے ایک دن ہوٹل میں میری ملاقات ایک پرانے کامریڈ سے ہوئی تو چائے پی کر گپ شپ کے دوران میں نے پوچھا کیسے ہیں تنظیمی کام؟ کس نقطہ نگاہ سے دیکھ رہے ہو آج کی سیاست کو تو کچھ دیر خاموشی کے بعد مایوسانہ انداز میں کامریڈ نے جواب دیا کہ پہلے اور آج کی سیاست میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور آپ کو یہ معلوم نہیں میں کب سے بی ایس او آزاد سے کنارہ کش ہوا ہوں؟  میں نے وجہ پوچھی تو دوست کو تنظیمی کام کے طریقہ کار کے ساتھ ، ساتھ مرکزی ذمہ داروں کے رویوں پر بہت مایوسی تھی۔ دوست نے کہا کہ ہمارے زون کی زمہ داری  مرکزی کمیٹی کے ایک خاتون رکن کو سونپی گئی تھی اور ذرا سی تنقید پر خاتون ذمہ دار ذاتیات پر اتر کر تنظیمی رکنیت سے فارغ کرنے کی دھمکی دیتی ہے تو اسی دن سے مجھے اتنی مایوسی ہوئی کہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر ہمارے مرکزی ذمہداروں کے رویے اور لہجے اتنے سخت اور غیرسیاسی ہوں تو ہم اپنی تنقید اور تجاویز کس کے سامنے رکھ سکتے ہیں؟
سر زمین کی محبت اور آدرش میں ماں کا ممتا شامل ہے جس کی محبت نے ہمیں اتنی حد تک اپنے اندر ڈوبا دیا ہے کہ ہم اس کے آزادی کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان تمام مشکلات کو دوستوں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا، ایک طرف ریاستی ظلم و جبر اور تنظیمی ذمہ داروں کے رویے اور دوسری طرف سرزمین کی محبت اور آدرش جو ہمیں ہر وقت پکار رہی ہے کہ مجھے غلامی کے چنگل سے آزاد کیجئے۔ بس ہم دن اور رات اسی سوچ میں مگن ہیں کہ کس طرح ہم اپنے قومی فرض کو نبھا سکیں۔ بلآخر میں بڑے مایوسی کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ بی ایس او آزاد اب وہ بی ایس او نہ رہا۔
میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی ادارے کی پہچان اور اس کا حسن ہی جمہوری رویوں کا پروان چڑھنا ہے، ادارے کی مضبوطی کے پیچھے کارکن، ان کی ثابت قدمی، محنت اور خلوص کے اجزائے ترکیبی شامل ہیں۔ جہاں پر کسی بھی عہدیدار کے غلطی کرنے پر اس کا احتساب اور اس سے جواب طلبی بہت ضروری ہو اور جہاں ایک شخص کی اجارہ داری مسلط ہو ادارے کی تباہی کا موجب بن جاتا ہے۔ یہ تنظیم وہی تنظیم ہے جس نے بلوچ طلبا کے دل میں قومی مزاحمت اور قربانی دینے کے جزبے کو زندگی دی اس کو جاندار بنا کر مزاحمت کی راہ اپنانے کا درس دیا اُسی تنظیم کے اپنے کارکن آج ایک ساتھ چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ہمارے عہدیداروں نے ہمیں دیوار سے لگایا اور ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی بلکہ انہوں نے اپنے کارکنوں سے رعایا جیسے سلوک روا رکھا ہیں۔ جس کی وجہ سے جمہوری وسیاسی روایات ختم ہوکر رہ گئیں اور آہستہ ، آہستہ سے بچی کُچی ہمدردیاں بھی جاتی رہیں۔ اگر ادارے اور تنظیم کو مضبوط کرنا ہے تو ایسی پالیسی متعارف کرائی جائے جو لوگوں کو ہم آہنگ کرے، ان میں رابطے بڑھائے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور ادارہ متحرک و مضبوط بن سکیں۔