کہتے ہیں کہ موضوعی و معروضی حقائق کے بیچ خلیج جتنی گھٹے گی سیاست اتنا ہی کامیاب ہوگا اور متعین مقصد اتنا ہی قریب ، لیکن جب اس حقیقت کو ہم اپنے نوجوان قیادت، انقلابی ماس پارٹی اور ویژنری لیڈر پر ثبت کرکے دیکھتے ہیں تو غیر ارادی طور پر بھی جون ایلیا کا یہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ \” وجود خیال کا زوال ہے \” کیونکہ ہر خیال اور ہر بات جب یہاں حقیقت کو چھوتی ہیں تو اپنا مقدر زوال ہی پاتی ہے۔ میری نظروں سے بی ایس او آزاد کا شائع کردہ ایک تحریر گذرا جس میں وہ تنقید پر اپنا موقف بیان کرنے کی کوشش کررہے تھے اور موقف سراپا انقلاب کے دعوؤں اور زمینی حقائق کے بیچ توازن برقرار رکھنے کیلئے بری طرح جھول کر ناکام ہورہی تھی ،شاید ہم اپنے ہاتھوں سے انقلابی پن کے دعوؤں کو سختی سے پکڑنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن جو زمینی حقائق ہیں وہ زوروں سے ہماری ٹانگیں پیچھے کی جانب کھینچ رہے ہیں۔ تحریر کا مطمع نظر ان دو خیالوں کے گرد گھوم رہا تھا کہ \” بی ایس او چاہے چھری اٹھا کر اپنے کارکنوں کو ذبح کرنا شروع کردے بھی تو کارکنوں کے سوا کسی کو تنقید اور سوال کی اجازت نہیں کیونکہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے \” اور دوسری یہ کہ \” اگر وہ بی ایس او کے نام سے تحریک کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دیں تو خبردار عوام کے سامنے ہماری اصلیت نہیں لائی جائے بلکہ ہمیں تحریری صورت میں لکھ کر دیں، گو کہ ہم نے آج تک اپنے کارکنوں تک کا جواب نہیں دیا ہے لیکن آپ کا جواب شائستہ انداز میں دیں گے \” ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس وقت ہر مسئلے ، موضوع ، خیال ، مقصد ، چیلنج اور صورتحال کو اپنے اپنے تنظیموں یا گروہوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں ، اسی نسبت سے انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کی تشریح کرتے ہیں اور ان کا حل نکالنے کی سعی کرتے ہیں۔ کوئی بھی تنظیم اس بات پر راضی نظر نہیں آتا کہ وہ ان مسائل چاہے وہ موضوعی ہوں یا معروضی کو قومی تحریک کے تناظر میں جانچے اور پرکھے اور اسی نسبت سے کوئی حل تفویض کرے اسی وجہ آج عدم آہنگی بڑھتی جارہی ہے ، تحریک اور تنظیم دو اضداد کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور تنظیموں کے اہداف ، اعمال اور پالیسیز محنت و قربانی طلب ہونے کے باوجود تحریک سے متصادم ہوتے جارہے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ بالآخر یہی صورتحال گروہیت ، وار لارڈ ازم اور خانہ جنگی کو جنم دیتی ہے۔ اس صورتحال کا سامنا ویسے تو ہمیں ازل سے ہے لیکن شدت کے ساتھ پہلی بار اس کا نظارہ ہمیں اس وقت دیکھنے کو ملا جب \” یوبی اے \” کے مسئلے نے سر اٹھایا ، اس وقت بھی سب نے اس مسئلے کو قومی تحریک کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے اپنے اپنے گروہوں کے تناظر میں سمجھنا پھر حل کرنے کے بجائے حسبِ توفیق فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ، اس مسئلے کو جو شخص گروہی انداز میں جتنا زیادہ سمجھ سکا اسکے گروہ یا ذات کو اتنے ہی فائدے حاصل ہوگئے ، ڈاکٹر اللہ نظر صاحب اپنے ان مخصوص قابلیتوں کی وجہ سے سب سے زیادہ فائدے میں رہے ، انہیں پیسے اور اسلحہ کے ساتھ ساتھ لگے ہاتھوں بی ایس او اور بی این ایم بھی مل گئے ، مہران کو تنظیم مل گئی ، براہمداغ کو مہران مل گیا اور مرحوم بابا مری کو فرمانبردار مل گئے اور اس دوران قومی تحریک کا کیا ہوا ؟ اس پر زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت نہیں وہ آپ کے سامنے ہے اور جو لوگ اس وقت اس مسئلے کو قومی تحریک کے تناظر میں دیکھ رہے تھے اور اسی تناظر میں حل کرنا چاہتے تھے وہ آج خاک پھانک رہے ہیں۔ جب ان رویوں سے تحریک درونِ خانہ ناقابلِ تلافی نقصانات کا خمیازہ بھگتنے لگا تو ان حقائق کو سامنے لانے اور کمزوریوں پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا لیکن گروہی سوچ نے اس مسئلے کو حل کرنے کی سعی کو ہی مسئلہ بناکر پیش کردیا ، چلو مسئلہ صحیح لیکن پھر اس مسئلے کو آج دوبارہ اپنے گروہوں یا تنظیموں کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ، ذرا حقیقت پسندی سے سوچیں کہ \”عوامی فورم پر تنقید نہیں کرو \” والے سوچ کے پیچھے صرف یہ فلسفہ کارفرما نہیں کہ جب ان لیڈروں اور تنظیموں پر تنقید ہوگی ان کی اصلیت و کمزوریاں سامنے آئیں گی تو لوگ ان تنظیموں اور لیڈروں سے بد دل ہوجائیں گے اور ان میں شمولیت نہیں کریں گے ، کمک نہیں کریں گے حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے اور جو لکھا جارہا وہ سب سچ ہے ، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم اس مسئلے کو اپنے ذات اور گروہ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ، اگر قومی تحریک کے تناظر میں دیکھا جائے تو میں کہتا ہوں کہ اگر یہ لیڈر اور یہ تنظیمیں بلوچ کو ناکام کرتی ہیں انہیں منزل تک نہیں پہنچاسکتی تو ان سے بد دل ہونا بہتر ہے ، انکا بدنام ہونا موزوں ہے اور ان سے دور رہنا قوم کے فائدے میں ہے ، ایک سنگت کے الفاظ میں بیان کروں تو \”اللہ نظر ، حیربیار ، براہمداغ ، بی ایل ایف و بی ایل اے کی ناکامی ہر گز قوم یا تحریک کی ناکامی نہیں ہے\” ، ہم ناکام ہو بھی جائیں لیکن قوم صحیح رستہ اور صحیح طریقہ سمجھ جائے تو حقیقی کامیابی یہی ہوگی ، ان لیڈروں اور تنظیموں کے زوال کے قیمت پر اگر قوم عروج کا رستہ پاتی ہے تو یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں، آج ایک چیز تنقید کو کچھ لوگ نعمت اور کچھ زحمت کے معنوں میں تشریح کررہے ہیں ، بنیادی فرق ہی یہاں یہ ہے کہ کچھ دوست اسے مجموعی طور پر تحریک کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور کچھ تنظیموں اور لیڈروں کے تناظر میں ، اگر دوبارہ جون ایلیا کے الفاظ میں معذرت کے ساتھ ردوبدل کرکے بیان کروں تو \” آپ کا وجود آپکے خیال کا زوال ہے \” اور \” میرا خیال میرے وجود کا زوال ہے \”۔ ہمیں اپنی بدنامی اور اپنی ناکامی قبول ہے لیکن قوم کی ناکامی نہیں لیکن آپ جو بنے ہو قوم کی خاطر اب اپنی خوشنامی و کامیابی کے قیمت پر قوم کی ناکامی خرید رہے ہو۔ اب یہ ایک تضاد ہے اسے نظریاتی تضاد کہیں یا کچھ اور لیکن اسکا انجام روایتی گلے مل کر گِلے شکوے دور کرنے پر منتج نہیں ہوگا بلکہ ان دو خیالوں میں سے ایک کے موت پر ہی ہوگا۔ بی ایس او آزاد کا تنقید پر موقف بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ ابتک حالات کا تجزیہ تنظیمی و گروہی مفادات کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے ، بی ایس او کہتا ہے کہ \” اسکے اندرونی معاملات پر تنقید کرنے کا حق صرف اسکے کارکنان کو حاصل ہے اگر باہر سے کوئی تنقید کرے گا تو وہ مداخلت تصور ہوگی \” ، اس بات سے مجھے پاکستان کے دفتر خارجہ کا بیان یاد آجاتے ہیں کہ جب کوئی بلوچستان کے بارے میں باہر سے کوئی بات کردے تو وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان ہمارا داخلی مسئلہ ہے ، ان کے مسائل آئین کے دائرے میں حل کیئے جائیں گے ، بیرونی ممالک (کبھی بھارت کبھی امریکا) ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں۔ اس وقت بی ایس او آزاد قومی ہونے کا دعویدار ہے اور قومی تحریک میں طلبہ اور نوجوانوں کو لیکر جدوجہد کا داعی ہے ، اس بات سے انکار نہیں کہ بی ایس او قومی تحریک کا ایک جز ہے ، اس میں نوجوان قومی تحریک کو مدنظر رکھ کر شامل ہوتے ہیں ، پھر یہی نوجوان تحریک کو آگے بڑھانے کیلئے ایندھن کا کردار ادا کرتے ہیں ، کم از کم ابتک بی ایس او آزاد موقف کی حد تک آزادی کا داعی ہے مطلب اس میں جو نوجوان شمولیت کریں گے وہ آزادی پر ایمان رکھتے ہیں اور آگے چل کر تحریک کو انہیں سنبھالنا ہے کوئی بھی اس نیت سے بی ایس او آزاد میں نہیں جاتا کہ اسے بی ایس او کی تعمیر کرنی ہے بلکہ سب کا مطمع نظر قومی آزادی مجموعی طور پر ہوتا ہے بی ایس او صرف ایک ذریعہ ہوتا ہے ، یعنی بی ایس او ایک جز کی حیثیت سے ایک مخصوص وقت تک اس ایندھن کو سنبھالنے کا ذمہ دار ہے اسکا مالک نہیں ، اب اگر ان نوجوانوں کو ضائع کیا جائے ، انہیں مفادات کے بھینٹ چڑھایا جائے ، ان کے ذہنوں میں گروہیت کا پلید پودا اگایا جائے ، انہیں غلط حکمت عملیوں سے شہید کروایا جائے یا ان کے ساتھ نا انصافی کی جائے تو پھر کوئی بھی ایسا شخص جو اس پورے عمل کو مجموعی طور پرتحریک کے تناظر میں دیکھ رہا ہے یہ سوچ کر کیسے چپ رہ سکتا ہے کہ وہ آپکے ذاتی و داخلی کرتوت ہیں۔ آپکے داخلی مسائل پوری تحریک پر اثر انداز ہورہے ہیں اور جب بات تحریک و قوم کی آجائے تو آپکا وجود ، آپکا آئین اور آپکے قاعدے کوئی حیثیت اور کوئی معنی نہیں رکھتے ، گاڑی ساز فیکٹریوں کے اسمبلی لائن میں کئی مراحل ہوتے ہیں ان سب سے باری باری گذر کر ہی ایک گاڑی تیار ہوتا ہے ، اگر پہلے مرحلے میں کوئی نقص رہ جائے یا کوئی پرزہ صحیح \” فٹ \” نا ہو پھر آخر تک گاڑی نقص زدہ ہی رہتی ہے ، جب تک بی ایس او آزاد قومی تحریک آزادی سے جڑا ہے تو اس کا ہر داخلی و خارجی مسئلہ قومی مسئلہ ہی ہوگا اور ان مسائل پر تنقید کرنا مداخلت نہیں فرض ہوگا ، پھر اس فرض کے تکمیل میں آپکے گروہ کی حرمت پر کوئی بات آئے تو مجھے اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگا ، ہاں اگر بی ایس او آزاد خود کو بی ایس او مینگل و پجار کی طرح الگ کردے اور اپنے جداگانہ برانڈ کا لیبل خود پر چسپاں کردیے تو پھر قومی تحریک کے تناظر میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ پھر آپ کے طرح کے لوگ ہی آپکے پاس آئیں گے کوئی قومی سوچ رکھنے والا بلوچ نوجوان غلط فہمی میں آپکا حصہ نہیں بنے گا اب یا تو آپ خود کو تحریک سے الگ کردیں یا اصلاح کریں یا پھر تنقید برداشت کریں۔ قطع نظر ان باتوں کے بی ایس او کے ان دعووں کا زمینی حقائق سے کوئی دور دور کا بھی واسطہ نہیں ، اس وقت سینٹرل کمیٹی سمیت دوسرے فورموں پر بات کرنے اور تنقید کرنے والوں کو کس طرح سولی پر چڑھایا گیا ہے اسکا نظارہ بھی ہم نے خوب کیا ہے ، آپکا مرکزی انفارمیشن سیکریٹری سمیت کئی مرکزی ارکان آپکے انہی اداروں میں اپنے باتوں کے بیان کیلئے جگہ نا پاکر میڈیا میں آچکے ہیں ، شال میں آپکے کارکنان آپکے رویوں سے بیزار ہو کر واک آوٹ کرکے الگ ہوگئے ، کراچی میں وہ روتے رہے کے اجلاس بلاو اور آپ نے نہیں بلایا اور جب وہ خود ہی آگئے تو آپ نے سب کو فارغ کردیا خیر آپکے اندرونی قصے طویل ہیں۔ حقیقت تو صرف یہ ہے کہ بی ایس او ایک مخصوص گروہ کے ہاتھوں آگئی ہے جو بی ایس او کے بدنام زمانہ لابینگ سسٹم (قابل سے قابل مخالف نکالو اور نالائق سے نالائق حمایتیوں کو بھی بھرتی کرلو) کے تحت مضبوط ہوچکی ہے اور کچھ مخصوص تنظیموں کے گروہی مفادات کیلئے بجاآواری کررہی ہے اور جو بھی ان مفادات پر پورا نا اترے تو اسے یا تو فارغ کیا جاتا ہے یا فارغ ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بی ایس او کے ان کرتوتوں پر طرہ یہ کہ وہ معصومیت سے فرمائش بھی کرتے ہیں کہ ہم جو کرتے ہیں ہمیں کرنے دیں ورنہ تحریک کو نقصان ہوگا۔ آگے چل کر قومی معاملوں پر بی ایس او اپنا تنقید پر موقف بیان کرتا ہے کہ \” ہمارے پالیساں اگر غلط ہیں تو ہمیں لکھ کر بتائیں انہیں عوام کے سامنے نہیں لائیں \” ایک بار پھر یہاں اس سوچ پر غور کریں تو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ معاملات یا مسائل کو گروہی تناظر میں کیسا پرکھا جاتا ہے یعنی اگر میں غلط ہوں تو میرے کان میں بتائیں عوام کو پتہ نہیں لگے کیونکہ اگر عوام کو پتہ چل گیا کہ یہ غلط ہیں تو گروہ کی ساکھ خراب ہوگی لوگ نہیں آئیں گے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ غلط ہیں تو پھر آخر عوام آپکے پاس آئے ہی کیوں ؟ مطلب غلط ہوتا جائے لیکن چھپا رہے تاکہ گروہ سلامت کا سلامت رہے ، غلطی کی حساسیت کی نوعیت چاہے قومی ناکامی کے برابر کیوں نا ہو لیکن اسے افشاں کرکے گروہ کو نقصان نہیں دیا جائے ، حالانکہ گروہ کی تکمیل ہی مقصد کیلئے ہے اور اگر اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ اس مقصد کو حاصل کرے تو اس گروہ کا ساکھ ، نام حتیٰ کے وجود چہ معنی داری؟ اگر بی ایس او آزاد لاکھوں کارکنان کی ایک مضبوط جماعت ہوکر ابھرتی ہے لیکن تحریک ہی ختم ہوجائے تو پھر اس بی ایس او کا کیا کرنا ؟ پھر شاید وہ بی ایس او ان سوچوں کی کامیابی ہو جو تنظیم کو مقصد اور تنظیم کی کامیابی و ناکامی کو اپنی ناکامی و کامیابی سمجھتے ہیں لیکن اس شخص کیلئے وہ لاکھوں کا بی ایس او کچرے کے ایک ٹوکرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھے گا۔ قومی رازوں کے نام پر اس تحریک میں ہمیشہ سے لوگ چھپتے رہے ہیں ، 1948 سے لیکر آج تک جو بھی ناکامیاں ملی ہیں ان کے وجوہات اور ذمہ دار آج تک منظر عام سے غائب ہیں ، آج ہمارے پاس ماضی کے ناکامیوں کے اتنے بھی حقائق میسر نہیں کہ ہم اپنا ایک سائنسی تجزیہ کرسکیں ، ستم یہ کہ اسی نام نہاد رازداری میں کچھ کردار ایسے چھپ گئے کہ انہیں آج تک ہیرو کا لقب دیا جاتا ہے اور کچھ کردار اپنے گناہوں سے کئی گنا بڑھ کر لعن طعن کا حقدار ٹہرے ، رازداری کی ایک حد ہوتی ہے جس سے سب آشنا ہیں لیکن یہاں رازداری صرف اور صرف ایک بلیک میلنگ ہے ، قوم کا منہ بند رکھنے کیلئے اور گروہی ساکھ کو فائدہ پہنچانے کیلئے ، بی ایس او بھی یہی کہہ رہا ہے کہ بھلے میرا کردار اور وجود تحریک سے متضاد ہو اس سے متصادم ہو پھر بھی مجھے کچھ کہا نا جائے ورنہ قومی (گروہی) نقصان ہوگا ، یہاں مجھے پاکستانی فوج کے قومی سلامتی کا فلسفہ یاد آگیا جس کے تحت حمودالرحمٰن کمیشن کا رپورٹ کئی دہائی چھپا رہا ، کبھی کبھی یار لوگ رازداری پر مرحوم بابا مری کا یہ قول بھی فرما دیتے ہیں کہ انہوں نے تحریک کے شروع سے لیکر آج تک کے کمزوریوں اور ناکامیوں کے جواب میں کہا تھا کہ \” میں نہیں بولوں گا ورنہ دشمن کو فائدہ ملے گا \” او بابا! دشمن کو جو پتہ چلنا تھا اسے چل گیا تبھی اس نے ہماری اینٹ سے اینٹ بجادی ہمیں ناکام کردیا ، دشمن آپکے ان ہر چھپے کو رازوں کو جان چکا ہے ، ان کمزوریوں کو جاننا آپ کے اس بد نصیب قوم کی ضرورت ہے لیکن نہیں ، بابا یو بی اے کے بارے میں دشمن کو ہر ایک چیز معلوم ہوچکی ہے اب آپ لب کشائی کریں تاکہ ہم جان سکیں کہ کون غلط کون صحیح لیکن بابا بھی ان سب باتوں کو سینے میں دفن کرکے آسودہ خاک ہوگئے ، حقیقت یہ ہے کہ ان رازوں سے کبھی دشمن کو فائدہ نہیں ہوتا بلکہ انکے سامنے آنے سے بہت سے \” بت گرائے جاتے \” اور بہت سوں کو ہاتھ سے جانے دینے پر ماتم ہوتی ، شاید نا ہم بت شکن قوم ہیں اور نا ہی ماضی سے سبق سیکھنے کے اہل اسی لیئے سب راز ہیں۔ قطع نظر ان باتوں کے بی ایس او کے اس دعوے اور حقیقت میں جو خلیج واقع ہے وہ شاید چند بلیک میلنگ جست سے پار نہیں ہوسکتا ہے ، اب تک بی ایس او کے اپنے کارکنوں اور عہدیداروں کے جتنے ڈرافٹ ، ڈیمانڈ ، نشاندہیاں جواب طلب ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں اور ان عرضیوں کے جواب میں کرخت رویوں کا سامنا کرکے کتنے نوجوان آج تنظیم سے باہر ہیں وہ بھی اب کوئی راز نہیں رہا۔ تنظیمیں یا پارٹیاں صرف اور صرف اس لیئے قائم ہوتی ہیں کہ وہ مقصد کو حاصل کریں ، اگر وہ خود ہی مقصد بن جائیں تو پھر نقصان مقدر بن جاتی ہے ، یعنی میں کوئٹہ سے نکلا ہوں میرا مقصد کراچی پہنچنا ہے اور میں کسی گاڑی کو اپنا ذریعہ بناکر اس میں بیٹھتا ہوں ، اب اگر یہ کہا جائے کہ وہ گاڑی بھلے خراب ہوجائے ، ٹوٹ جائے ، یا اسکا رخ کراچی کے بجائے کسی اور طرف ہو پھر بھی بیٹھنا اسی گاڑی میں ہی ہے تو پھر یہ بات کہنے والا اس گاڑی کا مالک ہوسکتا ہے جسے ہر حال میں آپ سے کرایہ ملنا ہے ، آپکی اس میں سواری اسکا ذاتی مفاد ہوسکتا ہے لیکن ایسا شخص آپکے مقصد کے ساتھ مخلص نہیں ہوسکتا۔ اگر آج دیکھنے والی آنکھ ہو ، سننے والے کان ہو اور سمجھنے والا ذہن ہو تو یہ بآسانی دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے کہ قومی تحریک میں کمزوریاں ہیں اور بے راہ روی کا بھی شکار ہے ، اگر اسی طرح چلتا رہا ناکام بھی ہوسکتا ہے ، اب یہاں ستم در ستم یہ ہے کہ تمام کے تمام تنظیموں پر مخصوص گروہیں مسلط ہیں اور یہ تنظیمیں سوچ سمجھ کر اپنے گروہی اور تنظیمی مفادات کو مدنظر رکھ کر تحریک سے متصادم پالیسیوں پر گامزن ہیں اور بے راہ روی کا شکار ہیں ، وہ داخلی طور پر کبھی خود کو تبدیل نہیں کریں گے اور اگر کسی نے کوشش کی تو پہلے صرف تنظیموں سے نکالا جاتا تھا اب دنیا سے بھی نکال دیا جاتا ہے ، اگر کوئی چیز واقعی تبدیلی لاسکتی ہے تو وہ بیرونی قوت ہے اور وہ قوت عوام کی قوت ہے ان گروہوں کا اب سب سے بڑا ڈر بھی یہی ہے کہ وہ قوت اب متحرک نہیں ہوجائے اس لیئے شروع دن سے لیکر آج تک انکا ایک ہی موقف رہا ہے کہ آپ کو جو کہنا ہے کہہ لیں جو کرنا ہے کرلیں لیکن آپ بلوچ عوام کے سامنے نہیں جائیں اور اسے نہیں سنائیں لیکن جو دوست قومی تحریک کو مقدم جانتے ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ اب اندر رہ کر صفائی کرنا ناممکن ہوچکا ہے اور کبھی بھی کسی طور بھی وہ مخصوص گروہ یہ صفائی ہونے بھی نہیں دیں گے اگر واقعی کوئی تبدیلی آسکتی ہے تو پھر وہ میرے اور آپ کے جیسے ایک عام مزدور ، طالبعلم ، شوان ، بزگر ، دکاندار کے ذریعے ہی آسکتی ہے۔ اگر عام بلوچوں کے سمجھنے کے قیمت پر ہم سب ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر یہ سودا فائدے کا سودا ہوگا کیونکہ شعور خاموش نہیں رہ سکتی پھر کہیں نا کہیں سے کوئی نا کوئی اس کاروان کا ذمہ اٹھا لے گا اور صحیح راہ پر گامزن کرکے منزل پالے۔ یاد رکھیں غلط کی ناکامی ہمیشہ صحیح کی جیت ہے