سلطنت روم کے رجعت پسند فلاسفر میکاولی نے قومی مفادات کے حصول اور ان کے استحکام اور دفاع کے لئے ہر قسم کے تشدد جائز و نا جائز اور جھوٹ کو جائز قرار دیا گیا تھا یعنی جہاں قومی مفادات کے حصول اور دفاع کے لئے جب تشدد ،جائز و نا جا ئز اور جھوٹ کی ضرورت پڑے ان کو کثرت سے استعمال کیا جا سکتاہے کیونکہ اسی میں قومی مفادات کے حصول ،سلامتی اور دفاع کا راز پہناں ہو تا ہے، مگر اس جدید سائنسی و تکنیکی ،علمی و شعوری اور سیاسی دور میں میکاولی کے ایسے رجعت پسندانہ خیالات نے کوئی اہمیت حاصل نہیں کی اور نہ ماضی میں ایسے خیالات کو پسند کیا گیا تھا نہ آج پسند کریں کیا جا سکتا ہے اور نہ مستقبل میں قبول کر نے کے کوئی خاص امکانات موجود ہیں اور نہ موجود ہو سکتا ہے کیوں کہ میکاولی کے خیالات ڈکٹیٹر رول کو سپورٹ کرتے ہیں اس لیے اس کو تسلیم کر نے کی کوئی گنجائش نہیں، میرے خیال میں ایسے رجعت پسندانہ خیالات کو دنیا کے کسی بھی محکوم قوم کی آزادی کی تحریک میں نافذ نہیں کیا گیاہے اور نہ اس کو نا فذ کر نے کے آثار نظر آئینگے اور نہ موجودہ محکوم قوموں کی آزادی کی جدوجہد میں نافذ کر کے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایسے خیالات پر عمل پیرا ہو نے سے کوئی قوم کامیابیاں کی افق تک جا پہنچ سکتی ہے،بد قسمتی سے ہماری قومی آزادی کی تحریک میں جہاں جہاں بی ایل ایف اور بی آر اے کی عمل دخل ہے وہاں اس کو کثرت سے استعمال کیا جا رہا ہے اب اس چیز کو دیکھنا ہے کہ کیا ایسے رجعت پسندانہ افکار کا ہماری قومی آزادی کی تحریک میں استعمال ہونا قومی مفادات کے دفاع اور حصول کے زمرے میں آسکتا ہے کہ نہیں؟ہر گز نہیں،کیونکہ ایسے رجعت پسندانہ افکار دنیا کے کسی کونے میں کسی قوم کے مفادات کے معیار پر پورا نہیں اتر تا اور نہ ہی اتر سکتا ہے اسی لئے اس نے دنیا میں کوئی توجہ حاصل نہیں کیا، ایسے خیالات اور افکارکو پوری دنیا نے عظیم تر قومی مفادات کے حصول اور دفاع کے لئے مسترد کیا ہے ،میکاولی کے ایسے افکار نے سلطنت روم ہی میں دم توڑ کر اپنے آپ ہی کی موت میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو گئے۔ مگر بدقسمتی کہیں یا علم سے عدم واقفیت لیکن اس سرطان نے بی ایل ایف اور بی آر اے کو سر و پا تک گھیر لیا ہے جس کے اثرات پوری تحریک پر عجلت کے ساتھ پڑرہے ہیں،ہاں اگر اس مرض کی بنیاد صرف و صرف جھوٹ پر ہو تا تو کوئی مسلہ نہیں ہو تا کیونکہ یہ قوم جھوٹ سننے کی ایک پوری تاریخ سے واقف ہے اس کو بھی تاریخ میں ایک جھوٹ کے نام کی حیثیت سے جگہ دیتی،مگر بد قسمتی سے اس جھوٹ نے اپنے ہمراہ ایک اور سونامی کو لے کر آیا ہے جس کو ہم ناجائز تشدد کے نام سے جانے جاتے ہیں جس سے پوری قوم کو ڈوبنے کی خطرات محسوس ہو رہے ہیں،اب اس سونامی کے تیز ہوائیں اور لہریں بی ایل ایف اور بی آر اے کے زیر اثر علاقوں میں بی ایل ایف اور بی آر اے کے زیر اثر خلقوں اور خصوصاََ مکران میں غیر انقلابی جنگی پالیسیاں ،سیاسی و سماجی تعلیمات،قوم اور علاقائی نفسیات سے عدم واقیفیت کی وجہ سے عوام کے اکثر و بیشتر گھروں میں داخل ہو چکے ہیں جس سے لوگوں کے کئی گھر آجڑ گئے ہیں،اگر اس بد مست سمندر کے سونامی کے خطرات کو روکنے کے لئے بر وقت مزید اقدامات مو ثر طریقے سے تیز نہیں کئے گئے تو پھر وہ دن دور نہیں کہ اس سونامی سے کوئی بچ کر نکل سکے،لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اس سونامی کو پاکستانی طرز سیاست عمران خان کے لفاظی سونامی کی طرح نہ سمجھا جائے جو اپنے بے مقصد ارادوں کے ساتھ اپنے موت کے آنے سے پہلے ہی دم توڈ دیا گیا بلکہ اس بد مست سونامی کے روک و تھام کے لئے ہر زی شعور ،فہم و ادراک بلوچ کو قومی وسیع تر مفادات کی خاطر اکٹھا ہو کرمضبوط چٹانوں کی طر ح اس سونامی کے آگے کھڑا ہوجاناچائیے تاکہ قوم کی حفاظت ہو سکے،، اوپر میں نے عرض کیا کہ ایسے خیالات نے کوئی مقام حاصل نہیں کیا گیا ہے اور نہ حاصل کر سکتے ہیں مگر بد قسمتی سے عدم شعور و آگاہی کی وجہ سے ہماری دونوں تنظیمیں بی ایل ایف اور بی آر اے نہایت عجلت سے اس ناکام اور فوت شدہ خیالات کو بغیر قومی مقصد کے واضح تعین کے آگے لے جارہے ہیں جس پر عمل پیرا ہو نے سے فخر فکر رہے ہیں جس کو میں ان کی لا شعور اور لا پرواہی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا کیونکہ شعوری طور پر کو ئی قومی فوچ شجی ادارہ ایسا غلط اقدامات نہیں اٹھایا جاتا جس سے قومی مفادات کو ضرر پہنچے،اگر ذمہ داری اور ایمانداری کے تمام تقاضوں کو پورا کر تے ہو ئے ان علاقوں کا سر وے کیا جائے کہ بی ایل ایف اور بی آر اے کی عوامی حمایت اور ہمدردی میں کیوں بحران پیدا ہوا ہے ؟تو آسانی سے سمجھ میں آجائے گا کہ ان تنظیموں کی عوامی سپورٹ کیوں ختم ہو تی جاری ہے کیونکہ انہوں نے عوامی دی ہو ئی طاقت کو غیر شعوری اور لاپرواہی کے طور پر عوام ہی کے خلاف نا جائز طور پر استعمال کیا ہے اور استعمال کر رہے ہیں،بقول Lord Acton ,, Power Corrupts,And Absolute Power Corrupts Absolutly, بقول لارڈ ایکن طاقت بد عنوان بنا دیتی ہے اور مطق العنان طاقت یقیناََ بد عنوان بنادیتی ہے،،اگر آج لارڈ ایکٹن کی نظریے کے حوالے سے ان دونوں تنظیموں کے جنگجووں کو دیکھا جا ئے وہ حقیقتاََ کرپٹس ہیں اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی طاقت کو ہی معصوم عوام کے خلاف بغیر کوئی واضح مقاصد کے استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اپنے اعتماد کھو رہے ہیں اور عوام ان کا ساتھ چھوڑ رہا ہے،اس بحران پر قابو پانا نہایت ضروری ہے،اور عوام کو قومی دھارے میں شامل کر کے یہ باور کرائیں کہ آپ لوگوں کے ساتھ نا جا ئز نہیں ہو گا بلکہ انصاف کیا جائے گا اور آپ ہی کے مفادات کو یقینی بنا کر آپ ہی کی مدد و کمک کے ساتھ اس جنگ کو اس کے مقام تک پہنچایا جائے گا،اگر سروے اپنی ذمہ داریوں اور ایمانداریوں کے معیاروں پر پورا اتر آیا تو یقیناََ عوام کی طرف سے یہی جواب آ جائے گا کہ ہم پر نا جا ئز تشدد ہوا ہے ،گو کہ منشیات کا مسلہ،اخلاق و اخترام کا مسلہ وغیرہ وغیرہ کی شکایت کر ینگے مگر سب سے بڑا مسلہ جس سے عوام زیادہ تنگ آیا ہے جس کی بنیاد پر انھوں نے ان آزادی پسند تنظیموں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر ان کے خلاف کھڑے ہیں،وہ ہے نا جائز تشدد کا استعمال جس میں بغیر صحت مند ثبوت کے عوام کو غداری کے الزام پر قتل کیا گیا ہے،ضرور اس میں غدار بھی قتل ہوئے ہیں جو ریاست کے پیرول پر چل کر عوامی جنگ اور عوامی آزادی کی جہد کو نقصان پہنچا رہے تھے اور رہے ہیں اس کا ہم سب اعتراف کر تے ہیں اور ہاں ایسے غداروں کی سزا موت ہے ان کو مار نا چائیے لیکن غداری کے تمام پہلووں کو واضح نہ کر نا اور ان کے تعین کا غلط استعمال کرنا غلط ہے،جس کی وجہ سے تحریک دشمن پاکستان سے زیادہ اپنوں کے اندرونی جنگوں کے مشکالات سے دچار ہے جو کہ بڑے سی بڑے سانحہ سے کم نہیں،اور میں یہ یقینی طور پر آپ کو کہوں گا کہ قوم کبھی یہ شکایت نہیں کر ے گی کہ بی ایل ایف اور بی آر اے نے ہماری معاشی ابتری کی خوشحالی میں ہماری مدد و کمک نہیں کی ہے اور ہمیں روزگار فراہم نہیں کر رہے ہیں صرف ان کے منہ سے یہی شکایت ہوگی کہ ہم پر نا جائز تشدد ہو رہا ہے ،، اب ان کو قومی ذمہ داری کا احساس کر تے ہو ئے میکاولی کے رجعت پسندانہ خیالات کی پیروی ترک کر نا چائیے کیونکہ نا جائز تشدد سے کو ئی فائدہ ہاتھ میں نہیں آئے گا سوائے نقصانات اٹھانے کے اور نہ ہر دن میں دشمن کے 25،25 فوجیوں کی ہلاکت کے جھوٹ کے دعووی سے دشمن نفسیاتی شکست کا شکار ہو گا اور نہ دنیا ایسے جھوٹے دعووں کو حقیقت سمجھ کر ان تنظیموں کو اس خطے میں اہم طاقت تصور کر کے ان کی طرف مائل ہو گی اور نہ ہی سنگت حیر بیار کو ایسے جھوٹے اخباری بیانوں کے زریعے تحریک کے لئے نقصاندہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایجنٹ ثابت کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایسے بے بنیاد جھوٹوں سے عوام کو گمراہ کر کے اپنی طرف کھینچ کر اپنے نا جائز فرمانبرداری کے لئے آمادہ کر سکتے ہیں،بلکہ اب ان کو وسیع تر قومی مفادات کے حصول اور دفاع کے لئے اپنی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف کر تے ہو ئے عوام میں رجوع کر کے ان سے نئے سرے سے پالیسیاں تشکیل دینے کے لئے مدد و تجویز یں لے کر دوبارہ پالیسیاں مرتب کریں اور حقیقت و سچائی کا ساتھ دے کر حقیقت کو ثابت کر کے پروان چھڑائیں صرف الزام تراشی نہ کریں کیونکہ الزام تراشی سے کچھ ثابت نہیں ہو سکتا بلکیں حقائق اور دلیل سے بات کریں کیونکہ قوم سچائی اور حقیقت کو سنے گی اور ساتھ دے کر اس پر مر مٹنے کے لئے تیار ہو گی نہ کہ الزام اور جھوٹ پر یقین رکھتی۔۔۔