دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeآرٹیکلزبی ایل ایف و ڈاکٹر اللہ نظر کی کارستانیاں اور بی ایل...

بی ایل ایف و ڈاکٹر اللہ نظر کی کارستانیاں اور بی ایل اے کی ذمہ داریاں تحریر ۔ نود بندگ بلوچ

سوشل اور پرنٹ میڈیا میں ابتک ڈاکٹر نظر گروہ کے منفی کارستانیوں پر جتنی تنقید کی گئی ہے وہ زیادہ تر سنگت حیربیار سے فکری طور پر قریب دوستوں کی طرف سے کی گئی ہے جن میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو بی ایل اے کا باقاعدہ حصہ نہیں ہیں بلکہ دوسرے تنظیموں سے تعلق رکھنے والے دوست بھی ہیں لیکن فکری ہم آہنگی رکھنے کی وجہ سے وہ اس عمل میں شریک ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جبکہ بی ایل اے نے ابھی تک رسمی طور پر ڈاکٹر نظر گروپ پر نا کوئی الزام عائد کیا ہے نہ وضاحت مانگی ہے لیکن دوسری طرف دیکھا جائے بی ایل ایف اور بی این ایم رسمی طور پر سنگت حیربیار اور بی ایل اے پر بلا ثبوت متعدد الزامات لگاچکے ہیں جن میں مخبر سیف الدین کا قتل ، ملٹی نیشنل کمپنیوں سے گٹھ جوڑ اور رحمدل مری کا اغواء جیسے بے سروپا الزامات شامل ہیں،مذکورہ بالا کسی بھی الزام کے بابت وہ اگر کچھ بھی ثبوت پیش کرتے تو یہ بی ایل اے پر فرض بنتا کہ وہ قوم کے سامنے اپنی وضاحت پیش کرتی لیکن یہ الزامات محض پاکستان طرز کے منفی سیاسی حربے تھے اور انکے بارے میں تادم تحریر کسی بھی قسم کا ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے لہٰذا بی ایل اے اگر ان الزامات کو اس طرح نظر انداز کرتی ہے جس طرح رحمان ملک کے بیانات کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی مذائقہ نہیں۔ لیکن اب بی ایل اے کے پاس ایسے وافر ثبوت ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بی ایل ایف بطور ادارہ ایک منظم طریقے سے بلوچ قومی تنظیم بی ایل اے کو کمزور کرنے اور دو لخت کرنے کے سازشوں میں ملوث رہا ہے ، ان بہیمانہ سازشوں میں خاص طور پر بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر متحرک کردار ادا کرتے رہے ہیں ، ان ثبوتوں میں ڈاکٹر اللہ نظر کا آڈیو ریکارڈنگ شامل ہے جس میں وہ بی ایل اے کے کیمپ سے اسلحہ چوری کرنے کی ہدایات دے رہے ہیں اسکے علاوہ بی ایل ایف جس شخص یعنی رحمدل مری کو اپنا بانی رہنما اور ہائی کمان کا حصہ ظاہر کرتا رہا ہے وہ شخص خاص طور پر بی ایل اے کے خلاف متحرک رہا ہے اور باقاعدگی سے ورک کرتا رہا ہے حتیٰ کے ایک کمیونسٹ جماعت (بی ایل ایف) کے بانی ہونے کے باوجود مہران مری کو زبردستی نواب بنانے میں بھی پیش پیش رہے ہیں اور اسی وجہ سے سرکاری نواب چنگیز مری کے ہاتھوں اغواء ہوگئے ، اسکے علاوہ ڈاکٹر اللہ نظر کے کچھ اور ریکارڈنگ بھی منظر عام پر آسکتے ہیں جن سے انکا منفی کردار مزید عیاں ہوجائیگا، اب بی ایل اے کو ان ناقابلِ تردید ثبوتوں کے بنیاد پر بی ایل ایف اور اسکے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر سے رسمی طور پر وضاحت طلب کرنی چاہئے کہ وہ کن بنیادوں پر بی ایل اے کے خلاف سازشوں میں ملوث رہے ہیں؟ اگر وہ بی ایل اے کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں تو قوم سے صلح مشورے کے بعد ڈاکٹر اللہ نظر کیلئے انقلابی اصولوں کے تحت کوئی سزا تفویض کی جائے کیونکہ ماضی قریب کو دیکھا جائے تو ایک طرف بی ایل اے خاص طور پر ریاستی جارحیت کا شکار رہا ہے اور ایسے عالم میں درون خانہ دوسرے آزادی پسند جماعتوں و لیڈروں کے سازشوں کی وجہ سے بی ایل اے کو بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ریاست سے زیادہ بی ایل اے کو ان اندرونی سازشوں نے نقصان پہنچایا تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اسکے علاوہ کچھ اور ایسے مسائل ہیں جن کے بابت بلوچ عوام امید رکھتے ہیں کہ بی ایل اے کوئی کردار ادا کرے گا ان میں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بی ایل اے خاص طور پر بی ایل ایف سے اس اسلحہ کا حساب مانگے جو گاڑیاں بھر بھر کر انہیں قومی جنگ کو آگے لیجانے کیلئے دیا گیا لیکن بی ایل ایف نے وہ اسلحہ دشمن کے بجائے عام بلوچوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا ، اسکے علاوہ بی ایل ایف کے ایک سرمچار کے اعترافی ویڈیو جس میں وہ اقرار کرتے ہیں کہ بی ایل ایف کے کمانڈر بلوچ خواتین کے عزت تک سے کھیلنے سے نہیں کتراتے کے منظر عام پر آنے کے بعد اب بی ایل اے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان جرائم کے بابت بی ایل ایف سے جواب طلبی کرے بلوچستان کا جو بھی حصہ ہو وہ کسی ایک تنظیم کی پدری میراث نہیں اگر کوئی تنظیم کسی علاقے کو اپنا میراث سمجھ کر وہاں کے لوگوں کو اپنا رعایا سمجھے اور ان پر کسی بھی طرح کا ظلم و بربریت کرے تو یہ بی ایل اے جیسی تنظیم کو قابل قبول نہیں ہونا چاہئے جس کے جدوجہد کا شروع دن سے مطمع نظر قومی رہا ہے اس لئے اگر بلوچستان میں کہیں بھی کوئی تنظیم اپنے اخلاقی پابندیوں سے تجاوز کرتا ہے تو اسے روکنے اور ضابطے میں لانے کیلئے بی ایل اے کو کردار ادا کرنا چاہئے ، اس وقت مکران میں کم از کم 100 سے زائد لوگ اپنے پیاروں کے قتل کے بارے میں بی ایل ایف سے وضاحت اور ثبوت طلب کرچکے ہیں لیکن بی ایل ایف نے کسی کے درخواست کو درخور اعتنا نہیں سمجھا یا پھر اسکے پاس کوئی ثبوت ہیں ہی نہیں ، بی ایل ایف کے اس بلوچ کش پالیسی کی وجہ سے عوامی حمایت کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کے بلواسطہ منفی اثرات بی ایل اے کے جدوجہد پر بھی پڑ رہے ہیں اس بابت بی ایل ایف کو ہرگز کھلی چھوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ بی ایل ایف سے ہنوز سرزد تین مزید ایسے منفی عوامل ہیں جن کے اثرات فوری طور پر اتنے گہرے نظر نہیں آتے لیکن مستقبل قریب میں ان منفی اعمال کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک کو ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے جن میں پہلی بلوچستان کے علاقے مکران خاص طور پر پروم ، جالگی ، زامران ، بلیدہ وغیرہ میں وسائل پیدا کرنے کے نام پر منشیات کا بے تحاشہ کاروبار ہے اور وہ منشیات بھی جاکر بلوچستان میں منشیات کے بڑے بڑے سوداگروں کو بیچا جارہا ہے جس سے بلوچ نوجوانوں کے خون میں بری طرح زہر گھول کر انہیں ناکارہ بنایا جارہا ہے اور اس پر مستزادیہ بی ایل ایف اپنے منشیات کے کاروبار کے حریف سیٹھوں کو اپنے کاروبار میں وسعت کے غرض سے قتل کرکے اس عمل کو قومی تحریک کا حصہ گردان رہا ہے ، دوسری بڑی منفی فعل بلوچ نوجوان سرمچاروں کو منشیات کے کاروبار میں حصہ دار بنا کر انکے اندر سے مخلصی اور بے لوثی کو ختم کرکے مفاد پرستی پیدا کی جارہی ہے جو تحریک کے وسیع منظر نامے میں ہرگز نیک شگون نہیں اطلاعات کے مطابق بی ایل ایف نے قانون بنایا ہے کہ منشیات کی ایک گاڑی لوٹنے سے جو رقم حاصل ہوتی ہے اس میں سے آدھے ڈاکٹر اللہ نظر اور باقی آدھے اسی گروپ کو ملتے ہیں جس سے ہر سرمچار کے حصے میں دو دو تین تین لاکھ آتا ہے ، اس وجہ سے اب سرمچار دشمن سے زیادہ منشیات کی گاڑیاں لوٹنے پر اپنا توجہ لگائے ہوئے ہیں تیسری بڑی منفی فعل خلیجی ممالک میں بلوچ سرمچاروں کے نام پر وہاں مقیم مزدور بلوچوں سے چندہ کرکے اس میں وسیع پیمانے پر خرد برد کرنا ہے ، اطلاعات کے مطابق سرمچاروں کے نام پر بی ایل ایف کے خلیج میں بیٹھے نمائندے جو چندہ کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر شراب و کباب میں اڑایا جاتا ہے اور اسی پیسے سے یہ گروہ دھڑا دھڑ بھاری رقوم ادا کرکے یورپ منتقل ہورہا ہے جن میں قابلِ ذکر حمل حیدر ، ڈاکٹر نسیم ، نبی بخش ، تاج بلیدی ہیں اور عنقریب غریب مزدوروں کے خون پسینے سے حاصل چندے کے پیسوں سے بہت جلد حنیف شریف، ساجد حسین اور ناگمان بھی بھاری رقوم ادا کرکے یورپ منتقل ہونے والے ہیں ، بات یہاں تک محدود نہیں بلکہ خلیج میں مقیم بلوچ ابھی سے تواتر کے ساتھ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ سرمچاروں کے نام پر ہمارے خون پسینے کی کمائی سے بی ایل ایف کا یہ گروہ چندہ جمع کرتی ہے لیکن وہی چندہ خور خلیج بغیر کام کاج کے چندہ کے پیسوں پر ہم سے زیادہ آسائشوں میں رہ رہے ہیں اور ہر وقت شراب و کباب کے محافل جماتے رہتے ہیں۔ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو بیرون ملک مقیم بلوچوں کا بھروسہ پوری تحریک سے اٹھ جائیگا پھر انکے اعتماد کو بحال کرنا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ مندرجہ بالا ایسے عوامل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے ہزاروں ثبوت و گواہ موجود ہیں ، لہٰذا اب بی ایل اے کو پہل ان سازشوں کی جواب طلبی سے کرنا چاہئے جنہیں بی ایل اے کو نقصان دینے کیلئے ڈاکٹر اللہ نظر نے ترتیب دی بعد میں مکران میں بیگناہوں کے قتل ، منشیات کے کاروبار ، نوجوان نسل میں مفاد پرستی کا ذہر منتقل کرنا اور بیرون ملک مقیم بلوچوں کے اعتماد کو توڑنے کے بابت بی ایل ایف سے جواب طلبی کرنا چاہئے ، ایک بات تمام تنظیموں اور قوم کے سامنے بالکل عیاں کرنی چاہئے کہ موجود تمام تنظیمیں اور لیڈران اس طویل تحریک کا محض ایک مرحلہ اور ذریعہ ہیں اس تحریک کا اصل مقصد آزادی اور قوت کا منبع عوام ہے ان تنظیموں کو ہر گز تحریک سے زیادہ اہمیت اور تقدیس حاصل نہیں اگر ان کے اعمال طاقت کے سرچشمہ عوام اور مقصد آزادی کے خلاف جاتے ہیں تو انہیں ضابطے کے اندر لانا بی ایل اے جیسے اداروں کی قومی ذمہ داری بنتی ہے۔ *:چوری اور سینہ زوری

جب ڈاکٹر اللہ نظر کہتے ہیں کہ میں اپنے پرانے بات پر کھڑا ہوں اور تمہیں نہیں چھوڑوں گا تو انکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر نے آغا کو بی ایل ایف سے نکالا تھا اور یہاں وہ کہہ رہے ہیں کہ میں تمہیں دوبارہ بی ایل ایف میں نہیں چھوڑوں گا ، ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ بوکھلاہٹ میں ڈاکٹر اللہ نظر کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کیلئے یار لوگوں نے اس آڈیو کو غور سے سنا ہی نہیں ہے جس کے شروع میں ڈاکٹر نظر ایک سے زائد بار آغا کو کہتے ہیں کہ تم بی ایل اے کو چھوڑ دو اور بی ایل ایف کے کیمپ آؤ حیرت کی بات ہے جس پانچ منٹ کی گفتگو میں وہ پہلے دو بار آغا کو زور زبردستی بی ایل ایف میں آنے کو کہہ رہا تھا پھر آخر میں وہ دھمکی دیتے ہوئے کیسے یہ کہیں گے کہ میں تمہیں بی ایل ایف میں نہیں چھوڑوں گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان شعبدہ بازوں کو یہ لگتا ہے کہ یہ انکے ہوائی الزامات کی طرح ہیں اور کوئی اور نا گواہ و ثبوت ہوگا انکو کم از کم اتنا پتہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ آغا آج تک زندہ سلامت ہیں اور ریکارڈنگ کے وقت وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ اس وقت اور بھی دوست موجود تھے سچ کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے لیکن یہاں تو جھوٹ کا سر بھی نظر نہیں آتا۔ ان شعبدہ بازیوں سے بہتر ہے کہ ڈاکٹر اللہ نظر صاحب قوم سے اپنے ان ثابت شدہ جرائم کی معافی مانگیں اور دنیا کے مہذب اقوام کی روش اختیار کرتے ہوئے کسی بھی مہذب انسان کی طرح غلطی تسلیم کرکے اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر کسی اچھے مخلص دوست کو معاملات ایمانداری سے چلانے کا موقع دیں کیونکہ بے ایمانی اور دھوکے کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز