یکشنبه, سپتمبر 29, 2024
Homeآرٹیکلزبی ایل ایف کے بیان کے تناظر میں! تحریر : دردیگ بلوچ...

بی ایل ایف کے بیان کے تناظر میں! تحریر : دردیگ بلوچ

میڈیا میں بی ایل ایف کا ایک بیان جاری ہوا تھا، اس بیان کو لیکر اگر ہم باریک بینی سے اس تمام سلسلے کو دیکھیں تو ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی مایوس ہونا چاہیے کیونکہ جب کبھی بھی کوئی ایک طرف سے لڑتا ہے ڈٹ جاتا ہے، سودے بازی نہیں کرتا، مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتا، اصولوں کی پاسداری کرتا ہے، روایتی سوچ و طریقہ کار کو پاؤں تلے روندھ ڈالتا ہے تو دوسری طرف سے مفاد پرست و موقع پرست لوگ خود بخود اسکے دشمن بن جاتے ہیں،لیکن یہ دشمنی وقتی ہوتی ہے اور موسمی فصل کی طرح اپنا موسم پورا کرکے خود بخود دم تھوڑ دیتی ہے، یہاں پر تھوڑی سی جو پریشان کن پہلو ہے وہ ہے عام عوام پر قومی تحریک کے حوالے سے ایک تاثر جو کہ شائد مایوسیوں کے بادل گہرے کرے لیکن جلد یا بدیر یہ مرحلہ تو آنا ہی تھا۔
اب سب سے پہلے تو قابل غور بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ہم کتنے تیار تھے اور ہم نے اپنی قوم کو کتنا تیار کیا تھا، اس کا جواب شائد کافی سارے دوستوں کو اچھا نہ لگے پر حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوم ذہنی طور پر شائد اتنی پختگی کے مرحلے تک شائد ابھی تک نہیں پہنچی ہے کہ ان تمام حالات کو سمجھ کر ایک منطقی فیصلے تک پہنچ سکے، ویسے ڈاکٹر مالک کے بقول تو قوم جنگ کے لئے بھی اس وقت تیار نہیں تھی۔ خیر اس میں الجھ کر میں اصل موضوع سے دور نہیں جانا چاہتا جو بی ایل ایف کے بیان کے حوالے سے ہے۔
بی ایل ایف نے اپنے بیان میں بی ایل اے اور حیر بیار مری کی رحمدل مری کے اغواء کے حوالے خاموشی کی مذمت کی اور ان کو بی ایل ایف کے بانی رہنماوں میں سے ایک کہا، رحمدل مری قابل قدر ہیں کہ وہ ایک آزادی پسند مسلح تنظیم کی بنیاد ڈالنے میں حصہ دار ہیں، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا رحمدل مری کو واقعی بی ایل اے نے ہی اغوا کیا ہے یا انکے اغواء کے پیچھے ریاستی مشینری اور گماشتے ملوث ہیں کیونکہ رحمدل مری شہید غلام محمد کی طرح ایک عام آدمی کی صورت نہ جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے تھے اور نہ شہید صباء دشتیاری کی طرح اکیلے خالی دست سریاب روڈ کوئٹہ میں شام کے وقت واک پر نکلتے تھے اور نہ ہی بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے والے چائے کے ہوٹل میں کچھ طلباء کے ساتھ شام کے وقت چائے پینے بیٹھ جاتے تھے بلکہ ان کے ساتھ مسلح لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہوتی تھی تو ایسے میں وہ بغیر مزاحمت کے کسی کے ہتھے کیسے چڑھ گئے؟ یہ ایک انتہائی غور طلب بات ہے اور امید ہے کہ بی ایل ایف اس پر ضرور غور کریگی اور اس حوالے سے کچھ ثبوت ضرور قوم کے سامنے لائے گی تاکہ اس حوالے سے تمام چیزیں واضح ہوجائیں، بغیر کسی ثبوت کے مکران میں غریبوں کو تو آپ قتل کرتے رہے ہیں مگر ایک سنجیدہ قیادت اور سوچ کو آپ اس طرح سے الزام نہیں لگا سکتے، لفظ گروہ استعمال کرتے ہوئے انہوں نے غالباَ بی ایل اے کی طرف اشارہ کیا جس سے ہمیں اختلاف ہے کیونکہ بی ایل اے نے بلوچ قومی آزادی میں ایک ذمہ دار ادارے کا کردار ادا کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ قوم بھی اس پوزیشن میں ہے کہ گروہ اور ذمہ دار ادارے میں فرق کر سکے۔
آگے اپنے بیان میں گہرام بلوچ اختلافات رکھنے کے حق کو قبول کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ان کا حق ہے لیکن اس اختلاف رائے کو دشمنی میں بدلنا انکی حماقت ہے، اس بات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ دو لوگوں کے بٹوارے اور آپسی جھگڑے سے ہمیشہ تیسرا فریق فائدہ اٹھاتا ہے اور یہاں پر تیسرا فریق قابض ہے جو ہمارا دشمن ہے جس سے مقابلہ کرنے کے لئے ہی آپ دونوں میدان میں آئے اور بلوچ قوم سے محبت احترام اور عقیدت سمیٹی مگر اب یہاں پر ایک بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کون قومی معاملات کے سامنے ذاتی و گروہی مفادات کو قربان کر رہا ہے اور کون صرف ذاتی اور گروہی مفادات کی تکمیل کے لئے ایک دوستانہ گوریلہ جنگ لڑ رہا ہے؟
بی ایل ایف کا رحمدل مری کو لیکر اس محاذ کے کھولنے کے مقصد کے پیچھے اصل میں ایک اور مقصد چھپا ہوا ہے جس کو لیکر وہ قوم کو جذباتی بلیک میل کرنے کی کوشش کررہا ہے، جہاں وہ سنگت حیر بیار مری کی خاموشی کی مذمت کر رہے ہیں مگر اپنے روئیے کو بالکل نظر انداز کر رہے ہیں جہاں ان پر پچھلے 4 سالوں سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں مگر وہاں پر غدار کے الزامات کے علاوہ کوئی اور جواب نہیں دے رہے، کیا ان پر تھوڑی بھی ذمہ داری سے کام لینے کی ذمہ داری نہیں بنتی؟اس تمام اچھل کود کا اصل مقصد انکے بیان کے اس جملے میں مضمر ہے جہاں وہ فاشسٹ سوچ کہہ کر اس سے بلوچ قومی تحریک کو نقصان اٹھانے کی بات کررہے ہیں، اصل میں وہ رویہ دوستوں کا سوال اٹھانے کا رویہ ہے جس سے بی ایل ایف کی قیادت کو حد درجہ تکلیف ہے اور وہ اس سلسلے کو کسی بھی طرح روکنے کی کوشش کررہے ہیں، ہر حربے آزمائے گئے مگر جب تمام حربے ناکام ہوئے تو جناب نے رحمدل مری کے اغواء کولیکر اسکا الزام سنگت حیر بیار پر لگا دیا، اگر یو بی اے کے او پر حملے اور رحمدل مری کے اغوا کا موازنہ کیا جائے تو میرے دانست کے مطابق یہ عمل اس سے بڑا نہیں جہاں پر بی ایل اے اس حملے کو قبول کرتی ہے اور وہاں سے کچھ لوگوں کو اغواء کرنے کی ذمہ داری بھی لیتی ہے تو کیون کر رحمدل کی ذمہ داری نہیں لے گی؟ بی ایل اے اور اسکی قیادت نے بلوچ قومی تحریک آزادی میں ہمیشہ سے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور جو بات ہوئی ہے اس کو ٹھیک اسی طرح سے قوم کے سامنے پیش بھی کیا ہے تاکہ قوم کو فیصلہ لینے کے اہل بنایا جاسکے۔
آگے وہ موقع پرست کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو انتہائی مضحکہ خیز ہے، موقع پرست اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو ہر وقت بس اپنے ذاتی اور گروہی مقاصد اور فاہدے کی تاک میں رہے جو ڈاکٹر اللہ نظر پر ہی فٹ آسکتا ہے جو ہمیشہ سے ہی اسی روش اور ڈگر پر ہی چلتے رہے ہیں جیسے جب تک ان کو اپنی تنظیم چلانے کے لئے وسائل کی ضرورت تھی اس وقت تک بی ایل اے کے تلوے چاٹتا تھا جب احساس ہوا کہ بی ایل اے حساب بھی مانگتی ہے، احتساب کے عمل سے بھی گزارتی ہے، سوال بھی کرتی ہے تو انکی نگاہیں کسی ایسی کونے کانچے کی طرف بڑھ گئیں جہاں سے اسکے وسائل ملنے کا مسئلہ بھی حل ہو اور سوال بھی نہ ہوں، احتساب اور حساب کتاب کی بھی گنجائش نہ ہو جس کے لئے انکو کسی ایسے گروہ کی ضرورت تھی جو انہی کی طرح احتساب سے بھاگی ہوئی ہو، جس پر کرپشن کے الزامات ہوں جو ذاتی و گروہی مفادات کو قومی مفادات پر فوقیت دیتے ہوں جس کے لیے انکو قومی تنظیموں کو دو لخت ہی کیوں نہ کرنا پڑے، اس زاوئیے سے اگر دیکھا جائے تو بی ایل ایف یو بی اے جیسی تنظیم بنانے میں برابر کی شریک ہے اور آج یہ سب اسی کار گزاری کی وجہ سے بلوچ قوم سہہ رہی ہے۔ اپنی ذاتی اور گروہی مفادات کی تکمیل کے لئے بی ایل اے کو دو لخت کر کے یو بی اے کی گود بھرائی انتہائی بے شرمی سے کی گئی، آپ سے قوم نے سوال کیا تو آپ نے اس حوالے سے کیا جواب دیا؟ یا اس حوالے سے آپ نے کس حد تک اپنی پوزیشن واضح کی، رحمدل مری کے اغواء کے حوالے سے آپ سوال کر رہے ہیں جسکے آپکے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں مگر قوم نے آپ سے ہزاروں معاملات پر ثبوتوں کے ساتھ سوال پوچھے آپ نے انکا کیا جواب دیا، کس حد تک قوم کو آن بورڈ لیا، کہاں تک قوم کو مطمئن کیا یا کرنے کی کبھی کوشش کی؟ لوگ آپکے بے ہودہ اور بے بنیاد الزامات کا
جواب دیں پر آپ کسی کو بھی مار کر مخبر قرار دیں اہل خانہ اور قوم آپ سے سوال کرے تو مخبر غدار ٹھہرے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو آپ اپنے آپکو کسی کے جواب دہ نہیں سمجھتے یا تو پھر جن لوگوں کے حوالے سے سوال ہوئے وہ رحمدل مری کی طرح انسان نہیں صرف کیڑے مکوڑے تھے جن کو آپ نے ماردیا اور سوال کرنے پر خاموشی سونے پہ سہاگہ غدار اور مخبر کے الزامات آپکی طرف سے مجرمانہ خاموشی قوم کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان کی اوقات کیا ہے جو مجھ سے سوال کریں۔
بی ایل ایف کے کردار اوراس کے بیان سے لگتا ہے کہ ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمٰن سے کافی کچھ سیکھا ہے جہاں وہ ایک وقت میں دو دو کشتیوں کی سواری کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سب کو خوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو ایک انقلابی اور جنگ ذدہ تنظیم کے لئے بالکل بھی مناسب نہیں۔ بی ایل ایف اپنے بیان میں لفظ تصادم کو استعمال کرکے بچے کو اندھیرے سے ڈرا کر چھپ کرانے کی کوشش کررہے ہیں جہاں اندھیرے کے فطری ہونے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اب بچے کو تو فطرت کے اس نظام کا شائد نہ پتہ ہو مگر پچھلے پندرہ سالوں سے جنگ لڑنے والی قوم کے نوجوانوں کی اکثر تعداد اس فطرت سے باخبر ہے کہ مفادات کے ٹکراؤ کی صورت میں تصادم ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ ٹکراؤ خالصتاََ قومی آزادی کو لیکر نظریاتی ہے اور نظریوں پر سودے بازی اور مصلحت پسندی ایک پاکستان جیسے نظام کو ہی جنم دے سکتی ہے یا پھر بابا لاڈلا اور عذیر بلوچ جیسے مسلح گروہ ہی وقوع پذیر کرسکتی ہے جس کے نقصانات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
یو بی اے سے مسلح تصادم ہو (جس کو قبول کیا گیا) یا رحمدل مری کا اغواء ( جو ایک بلیک میلنگ طریقہ اور الزام تراشی کے سوا کچھ بھی نہیں) قوم بی ایل ایف سے ایک وضاحت ضرور چاہتی ہے کہ اگر آپ کے مطابق رحمدل مری کو حیر بیار مری نے اغوا کروایا ہے تو اسکی آپکی نظر میں کیا وجہ ہوسکتی ہے اور اگر بی ایل اے یو بی اے پر حملہ کرتی ہے تو اسکی کیا وجہ ہے؟ امید ہے اس میں خیانت کئے بغیر حقائق کو قوم کے سامنے رکھا جائیگا۔
جہاں تک بلوچ قوم کو آپسی تصادم کے گرداب میں دھکیلنے کا تعلق ہے تو کیا دھڑا دھڑ مکران کے لوگوں کے قتل نے بلوچ قوم کو آپسی تصادم کے گرداب میں نہیں دھکیلا؟ یقیناَ آپ یہی بول رہے ہونگے کہ وہ تو مخبر اور منشیات فروش تھے، لیکن اس حوالے سے کسی ایک شخص کے بارے میں آج تک ایک ثبوت بھی آپ فراہم نہیں کرسکے، آپ لوگوں کو قتل کرتے ہیں کہ یہ مخبر ہیں یہ منشیات فروش ہیں یہ ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے ہیں اور جواز یہ دیتے ہیں کہ ان کرداروں سے قومی تحریک کو نقصان ہوگا آپ سے بھی بلوچ قومی تحریک آزادی کو بہت نقصان ہوا تو آپکے ساتھ قوم کیا سلوک کرے؟ دوسری بات اگر منشیات کے کاروبار کی سزا موت ہے تو اس سزا کے تو آپ بھی حقدار ہیں کیوں کہ پچھلے کچھ سالوں میں تو آپ نے امام بھیل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، یہ منشیات فروش، ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے، مخبر اور غدار صرف اصطلاحات ہیں جو آپ اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، کہتے ہیں دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر سوال اٹھانے والے دوستوں کا ذکر کئے بناء ان سے رہا نہیں گیا اور اگل لیا کہ یہ لوگ رحمدل کی اغوا کا جواز بتادیں کیونکہ وہ بی ایل ایف کی بلوچ نسل کشی ، منشیات فروشی، بی ایل ایف کی قیادت کی موقع پرستانہ سیاسی رویہ، اپنے کارکنوں پر سے اسکا کنٹرول کا ختم ہونا، چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کا پے در پے وقوع پذیر ہونا بی این ایم اور بی ایس او آزاد کو اپنے تابع کر کے مشکے تک محدود کرنا اب ان سوالات کو وہ رحمدل کی اغواء سے کیسے اور کس بنیاد پر جوڑ رہے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔
اس پورے بیان میں جو سب سے کمزور اور بے تکی بات تھی وہ یہ کہ حیر بیار اور اسکا گروہ اس وجہ سے بے برداشتہ ہے کہ رحمدل مری ہونے کے باوجود بی ایل ایف میں تھا، اسکا تعلق کوہلو کاہان سے ہونے کے باوجود بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کررہا تھا، اس بات پر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ وہ ساری چیزیں اللہ نظر اور اسکا گروہ بھول گیا کہ بی ایل ایف کو بنایا کس نے، وسائل کس نے فراہم کئے مالی مدد کس نے کی، میں تو یہ کہوں کہ میرے ذہنی مریض بھائی جس کلاشنکوف کو آپ کندھے پر رکھ کر دن میں 5 10 تصویریں کھنچتے ہیں وہ کلاشنکوف بھی آپکی اپنی پیدا کردہ نہیں ہے،اگر حیر بیار اور دوستوں کی سوچ یہ ہوتی تو بی ایل ایف کا وجود کبھی بھی نہ ہوتا اور نہ ہی آپکے پاس اس طرح سے وسائل پہنچ پاتے، جب بی ایل ایف ہی نہ ہوتا تو اس میں نہ رحمدل مری ہوتا اور نہ آپ اس کے خود ساختہ سربراہ ہوتے کم از کم اس بات سے تو انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ بی ایل ایف کی بنیاد ہی بی ایل اے نے ڈالی تھی۔
آپ کا کردار آج قوم کے سامنے مکمل طور پر واضح ہے کہ آپ نے قوم سے ہمیشہ جھوٹ بولااور قوم کو دھوکا دینے کی کوشش کی تاکہ آپ کے ذاتی اور گروہی مفادات کو کوئی خطرہ نہ ہو، آج اگر آپ اس طرح کھل کر سامنے آرہے ہیں اور قوم کو مزید اپنی اصلیت اور سوچ پہچاننے میں مدد فراہم کر رہے ہیں تو یہ اسی سچ کی طاقت ہے جو آپ کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز