( منافق آپ کو خواہ مخواہ دھکہ نہیں دیتا کہ کہیں آپ سنبھل کر ک اُسکی اصلیت پہچانیں بلکہ وہ آپکے ساتھ چل کر ایسی مقام پر دھکہ دے گا کہ آپ کے بچنے کے امکانات ہی نہ ہوں)

 ریاست اور اسکے سہولتکاروں نے مظلوم بلوچوں کے اُمیدوں کے محور و مرکز اور ریاست اور اپنے کے گلے کی ہڈی بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کو توڑنے ملکر تدبیریں اور کوششیں کیں کسی نے اُنکے خلاف کریک ڈاؤن کو وقت کا تقاضا کہہ کر ریاستی اداروں کی حوصلہ افزائی کی کسی نے چپ کا روزہ رکھکر اپنی خاموشی سے ریاست کی معاونت کی کسی نے نمائشی ہمدردی کے بیانات جاری کر کے ریاست کو مظالم ڈھانے وقت میسر کرنے کے اپنے عمل سے خود کو انجان دکھانے کی کوشش کی اور کسی نے دوست بن کر ریاستی تاخیری حربوں کیلئے زمین ہموار کر کے عوامی فقیدالمثال اجتماعات کو منتشر کرکے بی وائی سی قیادت کو توڑنے کی کوششوں میں ریاستی تدبیروں کا حصہ بنا۔

پہلا طبقہ جس نے سرکاری غیرقانونی اقدامات کو جائز قرار دیا وہی لوگ ہیں جو اس وقت برسرِ اقتدار ہیں اور اُن کا ایسا موقف اختیار کرنا کسی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ اسی شریک جرم ہونے کے عوض انھیں یہ پوزیشنیں ملی ہیں دوسرا طبقہ اُن بلوچ اور پشتون نواب، سردار و خان و سیاسی نام نہاد لیڈروں کی ہے جو اس دؤران بالکل قوت گویائی سے محروم رہ کر خاموش رہے یہ وہی لوگ ہیں جو کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ موجودہ  حکومت کا خاتمہ ہو گا اور اُن کی باری آئے گی ایسے میں خاموش رہ کر وہ اس خوش فہمی میں رہے کہ شاید اُنکی اس بےحسی و بے صدائی کو ریاست اپنی پالیسیز کی توثیق سمجھکر نظر کرم سے نوازے  تیسرا طبقہ اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو مبہم انداز میں ماہ رنگ بلوچ اور اسکے ساتھیوں کے حراست میں لینے کے (بیانات کی حد تک) ریاستی اقدامات کو درست نہیں کہتے مگر عملی طور پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھاتے کہ جس سے اس تنظیم کے مقید رہنماؤں کے رہائی میں مدد ملے، بلوچ جبری گمشدگاں کی بازیابی ممکن ہو اور مسخ شدہ لاشوں کے گرنے کا سلسلہ رُکے اور جو بیگناہوں کی لاشیں مل رہی ہیں ان کی شناخت و ڈی این اے کرانے کا کوئی قابل عمل و قابل اعتبار فارمولا طے پائے. یہ اپائج یا بے عمل عناصر وہی ہیں جو اس وقت اپوزیشن میں ہیں اور وہ زبانی جمع خرچ کے بڑے ماہر ہیں جسے وہ اس سے قبل ساحل و وسائل کے مسائل پر بات کرتے رہے ہیں مگر اپنی باتوں کو عملی شکل میں دیکھنے کبھی استقامت نہیں دکھائی ہے چنانچہ اُنکا یہ “نشستم گفتم برخاستم” والا انداز ریاست کیلئے کبھی چیلنج نہیں ہوا ہے اور اُن کو یہ کردار نبھانے وقتاً فوقتاً شریک اقتدار بھی کیا جاتا رہا ہے.یہ لوگ پوری قوم اور مظلوم و کمزور ماؤں بہنوں کے مجرم ہیں اُنکی یہ بے عملی، بے حسی ہر لحاظ سے قابل ملامت ہے مگر ان اپوزیشن والوں میں سے بی این پی مینگل کا کردار کئی گنا قابل ملامت ہے کیونکہ یہ جماعت نہ صرف بے حس رہی ہے  بلکہ وہ مجرمانہ طور پر ریاست کے کریک ڈاؤن سازشوں میں پہلے دن سے براہ راست ہراول دستے کا کردار ادا کرتی دکھائی دیتی رہی۔

بی وائی سی قیادت کو تہہ زندان کرنے کے عمل کا اگر دقیق جائزہ لیا جائے تو یہ جماعت بائیس مارچ سے عملی طور پر قدم قدم پر ریاست کے معاون کے طور پر کردار ادا کرتی رہی ہے۔

انتشار پھیلانے سے تاخیری حربوں کی ابتداء :

 اخترمینگل کا قومی اسمبلی کے سیٹ سے نمائشی استعفیٰ دینا ایک سمارٹ مگر ناپختہ و عجلت سے کیا گیا چال تھا جس سے آپ کی مقبولیت میں اضافہ کے بجائے اُنکی قیادت ہی متنازع ہو گئی جو دنیا میں  شاید پہلا پارٹی قائد ہے جو پارلیمنٹ کو ناکارہ سمجھ کر اس کے اندر بیٹھنے کو معیوب سمجھتا ہے مگر اسکی پارٹی انہی اسمبلیوں میں بیٹھی ہے. آپ شاید دنیا میں پہلے ایسے لیڈر ہیں جو اتنا بڑا قدم اُٹھا کر اپنے پارٹی سینٹرل کمیٹی تک کو اعتماد میں نہیں لیتے ایسے ہی کئی آصولی غلطیوں کی وجہ سے مذکورہ استعفیٰ استعفیٰ نہیں ہوا بلکہ اپنی ہی پارٹی پر خودکش حملہ ہوا جو ہدف کو پہنچنے سے پہلے پھٹ کر پارٹی لیڈر کے سیاسی چھیتڑے اُڑائے اور پارٹی کو زخمی کر دیا اس سیاسی سانحہ سے اخترمینگل بہت مایوس ہو کر کراچی جاکر بیٹھ گئے تھے کہ یہاں سے ثناء بلوچ کی انٹری ہوتی ہے جو اسلام آباد سے جی ایچ کیو کے پیغام و مکمل منصوبے کیساتھ کراچی پہنچتے ہیں سردار صاحب کو منصوبے کی بریفنگ دیتے ہیں جب آپ اس سازشی منصوبے سے مطمئن ہوتے ہیں تو ثناء بلوچ بیان جاری کرتے ہیں کہ “بی این پی کی خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہے پارٹی عنقریب انقلابی تحریک شروع کرے گی ” آپ کے اس بیان کو پاکستانی میڈیا نے تہلکہ خیز انکشاف کے عنوان سے کور کیا. منصوبے کے کئی پرتیں آگے جاکر کھل گئیں مختصراً منصوبہ یہ تھا کہ بی این پی کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا،بی این پی سے اس اصولی سوال کا منہ موڑنا کہ پارٹی لیڈر اسمبلی سے باہر ہے اور پارٹی کس اصول کے تحت اندر ہے؟  اور اگر کل پھر الیکشن ہوں گے تو آپ ان ناکارہ اسمبلیوں میں جائیں گے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

یہاں یہ بات واضع رتا چلوں کہ ہر پارٹی کو اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور اپنی کارکردگی بہتر کرنے کی تلاش میں رہنا چاہیے مگر جس منصوبے کے تحت بی این پی مینگل یہ کرنے جارہی تھی یا اس سے کرایا جارہا تھا وہ انتہائی ظالمانہ تھا اور بدترین بےحسی کا برہنہ اظہار تھا . چونکہ بی وائی سی کی عملی جدوجہد نے اخترمینگل کی پارٹی اور دیگر تمام قوم پرستی کے نام پر سیاسی جماعتوں کو غیر موثر کردیا تھا  اس لئے بی وائی سی کی ہی مقبولیت کو سیڑھی بنا کر بی این پی مینگل کو پاؤں پہ کھڑا کرنے چارہ گروں کو کوئی اور چارہ نظر نہیں آیا سو انہوں نے ایک بے رحمانہ منصوبے کے تحت بی وائی سی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور اب اختر مینگل کو اسی کا نام لیکر  لوگوں کو اکھٹا کرنے کا کہا گیا اور یوں بی وائی سی قیادت کے خلاف کریک ڈاؤن ہوتے ہی حسب توقع پورے بلوچستان میں ایک عمومی اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی ایک ہی دن میں پورے بلوچستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر آئے اس صورت حال میں نیشنل پارٹی، بی این پی عوامی، پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ، جماعت اسلامی و جمعیت العلماء وغیرہ میں شامل بلوچ “لیڈر” غیر فعال رہے اور اََن سے کسی نے کوئی توقع بھی نہیں رکھی تھی اور وہ اس سازش کا حصہ بھی نہیں کہ بی وائی سی کو شہد میں زہر ملا کر دیا جائے گا تاہم بی این پی مینگل نے منصوبے کے مطابق بیانات کی حد تک سخت موقف اختیار کیا جس سے بہت سے دوست حتیٰ کے بی وائی سی کے دوست بھی دھوکے میں آ کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ یہ جماعت ماہ رنگ بلوچ اور اسکے ساتھیوں کے خلاف جھوٹے ایف آئی آر اور تھری ایم پی او کے تحت انکے گرفتاری کے خلاف بھرپور تحریک چلا کر اُنھیں باعزت آزاد کرائے گی مگر جو طریقہ کار اس جماعت نے اپنائی اس سے صاف نظر آرہا تھا کہ یہ جماعت انھیں آزاد کرانے نہیں بلکہ اچھی طرح پھنسانے کیلئے مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں کھود پڑی ہے۔

بدنیتی اور نمائشی ہمدردی کا پول ابتداء ہی میں اس عمل سے کھل گیا کہ سردار اخترمینگل نے ماہ رنگ بلوچ اور ساتھیوں کے گرفتاری کے بعد اعلان کیا کہ وہ آٹھ دن کے بعد وڈھ سے کوئٹہ کیلئے لانگ مارچ کریں گے. یہاں یہ معصومانہ سوال زہن میں آتا ہے کہ اگر بانک ماہ رنگ بلوچ کی جگہ سردار صاحب کی اپنی بیٹی یا بیبرگ بلوچ کی جگہ اََن کا اپنا بیٹا اس طرح گھسیٹتا ہوا لے جایا جاتا اور یہ معلومات بھی باہر آتی کہ اُن پر بدترین تشدد ہورہی ہے تو کیا آپ اسی طرح آٹھ دن بعد لانگ مارچ کرنے کا اعلان کرتے؟ یقیناً نہیں بلکہ وہ جہاں تھے فوراً کوئٹہ پہنچ جاتے اور یہاں اُنکی رہائی کیلئے ٹھیک اسی طرح کسی تھانے میں یا ریڈ زون میں دھرنا دے کر بیٹھ جاتے کہ جب تک ان کو رہائی نہیں ملتی اور جھوٹے ایف آئی آر واپس نہیں لئے جاتے ٹھیک اس طرح جس طرح اپنے بیٹے کے خلاف جھوٹے ایف آئی آر ختم کرانے اَس وقت تک تھانے سے نہیں نکلے تھے  جب تک سارے ایف آئی آر واپس نہیں لئے گئے تھے. نیک نیتی کی صورت میں اگر اس وقت آپ کراچی میں تھے تو سیدھا کراچی پریس کلب جاتے اور وہیں ریڈزون میں جا کر بیٹھتے جہاں دنیا کی میڈیا ہے اور کراچی میں بلوچوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے ایسا کرنے کی صورت میں کراچی کے بلوچ اسکے ایسے دست و بازو بنتے کہ شاید بلوچستان سے کسی دوسرے کو بلانے کی ضرورت بھی نہ پڑے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ بی وائی سی قیادت پر ان آٹھ دنوں میں بدتریں تشدد ہوگی اور ریاست انھیں اپنے ناجائز شرائط منوانے کی کوشش کرے گی. دوسری بدنیتی و بے حسی کا مظاہرہ یہ ہوا کہ پورے بلوچستان میں بی وائی سی قیادت کے رہائی کیلئے احتجاجی مظاہرے ہوئے اس جماعت کا سربراہ سے لیکر ایک بھی سابق و موجودہ پارلیمنٹ و مرکزی پارٹی ممبر بی وائی سی کے احتجاجوں میں شریک نہیں ہوا بانُک ڈاکٹر صبیحہ اور بانُک گلزادی سات اپریل تک پیغام پر پیغام شئیر کررہی تھیں کہ سارے بلوچ ہمارے احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوجائیں لیکن اس جماعت کا کوئی  مرکزی لیڈر دکھائی نہیں دیا۔

جہاں تک اس جماعت اور دیگر تمام مرکز پرست و نام نہاد قوم پرست و مذہبی جماعتوں کے عام ورکروں کا سوال ہے وہ از خود بی وائی سی کے قدردان ہیں اور وہ اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اگر یہ جماعتیں غلطی سے کہہ دیں کہ ماہ رنگ بلوچ کی حمایت نہیں کرنی ہے تو انکے اپنے ورکر انھیں چھوڑنے کسی تردد کا شکار نہیں ہوں گے اور یہ وہ خوف ہے جو ان پارلیمانی جماعتوں کو لاحق ہے اسکے ساتھ دیگر بیشمار وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ جماعتیں بی وائی سی کو غیر موثر یا بالکل ختم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس ضمن میں حکومتی منصوبہ مختلف مراحل پر مشتمل تھا پہلا یہی تھا کہ سردار کے اس اعلان سے جو شہر شہر جلسے جلوس ہورہے ہیں اُن پر براہ راست اثر پڑے گا کیونکہ انھیں ہر صورت میں روکنا تھا کہ کہیں آگے چل کر ہر ایک اجتماع اپنے علاقہ میں دھرنے پر بیٹھ کر پورے بلوچستان کو جام کرکے حکومت کو مفلوج نہ کردیں۔

  سردار مینگل کے آٹھ دن کے بعد لانگ مارچ کا اعلان کرنے سے بہت سے خوش باور یہ سمجھے کہ سردار مینگل اُن سے بہتر اس مسئلے کو حل کرے گا جیسے اُس نے اپنے بیٹے کے ایف آئی آر ختم کرانے کامیاب حکمت عملی اختیار کیا تھا. لیکن ایسا سوچتے ہوئے وہ ایک لمحے کیلئے بھی اس بات پر غور کرنے سے قاصر رہے کہ اگر لانگ مارچ کسی مسئلے کا حل ہوتا یا کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا کوئی نتیجہ ہوسکتا تھا تو سردار صاحب اپنے بیٹے کے ایف آئی آر ختم کرانے وڈھ سے کوئٹہ لانگ مارچ کرتے اور اپنے وکیل کے ذریعے فوراً کورٹ جاتے مگر وہاں آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ سیدھا تھانے جاکر دھرنے پر بیٹھ گیا اور خضدار سے جانے والی شاہراہ کو بند کیا اور حکومت پر حقیقی دباؤ بڑھایا.. اس دیدہ حقیقت کو صرف نظر کر کے سب کی نظریں بی این پی مینگل پر جم گئیں جس سے بی وائی سی قیادت کی رہائی کیلئے پورے بلوچستان میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے آہستہ آہستہ تھم گئیں اور حکومت نے سُکھ کا سانس لیا کہ بے قابو اجتماعات اب قابو میں آگئے۔

 منصوبے کے دوسرے مرحلے میں دس بارہ دن  بعد جب اخترمینگل کوئٹہ کی طرف آئے گا اُس وقت تک ماہ رنگ بلوچ اور اسکے ساتھیوں کو تشدد سے توڑ کر ریاستی شرائط منوائیں گے. اُنکے باہر موجود سرگرم کارکنوں کو گرفتار کریں گے جتنی ممکن ہو دباؤ بڑھائیں گے بانُک بیبو کے والد واجہ غفار بلوچ اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد واجہ بشیر آحمد بلوچ کی ماورائے عدالت گرفتاریاں اسی منصوبے کی کڑیاں ہیں اس سیناریو کے مطابق سردار اختر مینگل کے آنے کے بعد زیادہ سے زیادہ آٹھ دس دن بعد معاملات طے ہونے تھے اور بانک ماہ رنگ بلوچ اور ساتھی اخترمینگل کے لانگ مارچ اور دھرنے کی بدولت نکلنے کا ڈرامہ کیا جانا تھا چونکہ درون خانہ بی وائی سی قیادت جیل کے اندر مصلحت کا شکار ہو کر حکومتی ناجائز شرائط پر دستخط کر چکی ہے ظاہر اس معاہدے کو خفیہ رکھا جائے گا اور انکی رہائی کو بی این پی مینگل کے جھولی میں ڈال دیا جائے گا مگر اُن کا منصوبہ ماہ رنگ بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبو بلوچ، صبغت الحق شاہ جی، بیبرگ بلوچ واجہ بشیر آحمد بلوچ اور واجہ غفار بلوچ کی استقامت نے خاک میں ملا دیا۔

سرکار و سردار کی مایوسی :  سرکار نے ایک طرف ماہ رنگ بلوچ اور دیگر قیدیوں پر تشدد کیا انھیں دباؤ میں لانے تمام حربے استعمال کئے ادھر اخترمینگل کے دھرنے کو کامیاب کرانے تمام راستے بند کئے تاکہ اُس کے ساتھ ذیادتی کا تاثر اُبھرے اور لوگوں کی ہمدردیاں اسے حاصل ہوں. ناکام خود کُش حملہ اور وڈھ میں ایک بیگناہ بلوچ کا قتل انہی کوششوں کی کڑیاں تھیں مگر ان سب کے باوجود سرکار اور سردار کو خاطر خواہ نتیجہ نہیں ملا اور ماہ رنگ بلوچ اور اسکے ساتھی انکے اندازے سے زیادہ سخت جان نکلے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے صادق سنجرانی کے اخترمینگل کیساتھ ون ٹو ون ملاقاتیں انہی مایوسیوں پر تبادلہ خیال سے مرتب تھیں یہی وجہ ہے کہ ایک جائز اور سب کو معلوم سی بات کہ بی وائی سی قیادت اور دیگر زیرحراست لوگوں کے من گھڑت کیسز ختم کر کے انھیں باعزت رہا کیا جائے کو اس حد تک راز میں رکھا گیا کہ بی این پی مینگل رہنما نے نہ صرف اپنے مرکزی رہنماؤں کو ساتھ بیٹھنے نہیں دیا بلکہ بی وائی سی قیادت ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن کو بھی ساتھ بٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ اس نشست میں جو باتیں اخترمینگل اور صادق سنجرانی کے درمیان ہوئی وہ انکی رہائی سے متعلق نہیں بلکہ اس ناکام منصوبے کے بارے میں ہوئی تھی کہ بی وائی سی والے نہیں ٹوٹ رہے ہیں اور اگر وہ ٹوٹ کر سرکار کے شرائط نہیں مانتے تو حکومت انھیں چھوڑنے تیار نہیں. اس خبر سے سردار کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی کیونکہ وہ تو غیر معینہ مدت کیلئے تو نہیں آیا تھا اُن کا اور سرکار کا ارادہ تو پندرہ بیس دن کے اندر بی وائی سی قیادت کو توڑ کر بی این پی کے جھولی میں ڈالنے کا تھا. اس ضمن میں بی این پی مینگل کے ایک باضمیر انتہائی سینیئر رہنما نے یہ اعتراف کیا ہے کہ “ماہ رنگ کو اسٹبلشمنٹ اپنے مرضی اور اپنے وقت پر رہا کریگی لیکن جب بھی رہا کریگی تو اس کا کریڈٹ سردار اختر مینگل کو دینے کی کوشش کی جائیگی”اس یقین کیساتھ اخترمینگل نے یہ سارا جھمیلا کیا تھا مگر ضمیر کے قیدیوں نے انھیں مایوس کیا. یہی وجہ ہے کہ سرکاری نمائندہ صادق سنجرانی اور سردار اختر مینگل اکیلے ون ٹو ون ملاقات کر کے اپنی مشترکہ منصوبے کے ناکامی کا ماتم کررہی تھیں اگر بات بی وائی سی قیادت کی رہائی اور جائز شرائط کی ہوتی تو یہ دونوں سب کے سامنے اپنا اپنا موقف رکھتے۔

موقع پرستی کی انتہا اور مشترکہ جدوجہد سے راہ فرار : اس خبر کے بعد کہ بی وائی سی قیادت سرکاری شرائط کو ماننے اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کی طرح عضو معطل ہونے تیار نہیں اور ریاست اُنھیں لمبے عرصے تک بند رکھنے کا فیصلہ کرچکی ہے سردار صاحب نے راہ فرار کیلئے پہلے اپنی پارٹی کا نمائشی سینٹرل کمیٹی اجلاس بلایا بعد میں آل پارٹی اجلاس بلایا تاکہ اپنی پسپائی کو کسی نہ کسی طرح دوسروں کے مشورے کے پیچھے چپاسکے. لیکن وہ ایسا کرنے بُری طرح ناکام ہوئے کیونکہ انھیں آل پارٹیز کانفرنس میں یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ یہ دھرنا ختم کریں اور اسکے بعد ایک اور آل پارٹیز کانفرنس بلائیں جس میں سب بیٹھ کر سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے جو فیصلہ ہوگا سب کا مشترک ہو گا اس سے ریاست پر وہی دباؤ پڑے گا جس کی ضرورت ہے مگر آپ نے انکے مشورے کا آدھا حصہ مان لیا جس سے دھرنے سے بھاگنے کا راستہ کھلتا تھا جبکہ دوسرا حصہ نظر انداز کیا جو مشترکہ جدوجہد کی راہیں کھول کر قیدیوں کی رہائی ممکن بنا سکتا تھا. اور آپ نے اکیلے شہر شہر جلسہ جلوسوں کا اعلان کیا. قارئین کو یاد ہو گا کہ دھرنے کے دؤران بی این پی مینگل کا ایک وفد نیشنل پارٹی کے سربراہ سے ملا اور اسے اپنے دھرنے میں ساتھ بیٹھنے کا کہا تو ڈاکٹر مالک نے کہا کہ ہم نے بی این پی کے سربراہ کو پہلے کہا تھا کہ ایک ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے اور دیگر مسائل کو لیکر مشترکہ جدوجہد کی راہیں تلاش کریں گے مگر آپ کی جماعت نے ہم سے مشاورت کئے بغیر دھرنے کا اعلان کیا اب جب لکپاس آ کر رُکے تب ہمیں آنے کا کہہ رہے ہو اس طرز عمل سے سیاسی رفاقت نہیں ہو سکتی. وہاں بھی نیشنل پارٹی کے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کے آفر کے باوجود آپ اکیلے چل نکلے کیونکہ آپ نے جو سوچا تھا اسمیں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتے تھے یہاں دوسری بار بھی آل پارٹی میٹنگ بلانے اور ایک مشترکہ لائحہ کے بغیر سولو فلائٹ لیا یہ موقع پرستی اور سیاسی طور پر ناپختگی کی انتہا تھی جو اتنے ٹھوکروں کے بعد سنبھلنے اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کے بجائے آپ  اب بھی اس لالچ سے دامن نہ چھڑا سکے کہ بی وائی سی بلینک چیک کو اکیلا کیش کرے.

حرف آخر : اس قضیے میں سب سے قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس جماعت کے نیت کا پتہ پہلے تاخیری اعلان سے چل گیا تھا کہ یہ پہلے قوم کے خودرو احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ توڑ کر اُن کے جذبات ٹھنڈا کرے گا اگلے مرحلے میں اس چیز کا اطمنان حاصل کرے گا کہ بی وائی سی قیادت ٹوٹ کر غیر موثر کردی گئی ہے یا اسکے لمبی جیل جانے کا بندوبست ہو چکا ہے تو وہ پتلی گلی سے کسک جائے گا مگر عام بلوچ تو کیا کچھ پُرانے سیاسی لوگ اور بی وائی سی کے کچھ دوست بھی اس دھوکے میں آگئے کہ سردار مینگل ماہ رنگ کو ساتھیوں سمیت ڈبونے نہیں نجات دینے کمربستہ ہوگیا ہے. لیکن اب وقت نے ثابت کیا کہ آپ کا یہ وعدہ حسب سابق بھڑک بازی ہی ثابت ہوا کہ یہاں سے میری لاش جائے گی مگر ماہ رنگ بلوچ کے بغیر واپس نہیں جاؤں گا. اور آپ کا بلوچ ننگ و ناموس بچانے کا نعرہ بھی محض “سیاسی” نعرہ ثابت ہوا کیونکہ پچھلے ایک مہینے کے اندر تین بلوچ بیگناہ بیٹیاں خضدار سے نصرت بی بی کرخ سے افسانہ بی بی اور کوئٹہ سے ماہ جبین بلوچ بھائی سمیت اغواء کئے جا چکے ہیں جو کہ حقیقی طور پر ننگ و ناموس کے کیسز ہیں اور ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ اور گلزادی بلوچ کے پابند سلاسل ہونے کو جو سردار صاحب ننگ و ناموس کا مسئلہ بتا رہے تھے وہ ننگ و ناموس کا نہیں بلکہ سیاسی کیس تھا اور ان پر جھوٹے مقدمات بھی سیاسی اختلافات کی بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں جبکہ آخرالذکر بلوچ بیٹیوں کو کسی بھی سیاسی و سماجی سرگرمی کے پیش نظر نہیں بلکہ جبراً  اُٹھایا گیا ہے. بات یہاں ختم نہیں ہوتی عید کے بعد یہ جماعت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملکر نیا ڈرامہ بازی شروع کر رہی ہے جسے بظاہر ملک میں آئین کی بحالی ماہ رنگ بلوچ اور ساتھیوں سمیت عمران خان کی رہائی کیلئے کوششوں کا نام دیا جائے گا لیکن ان کا اصل مقصد فوج کو دباؤ میں لاکر مڈٹرم الیکشن اور عمران خان کی رہائی کیلئے قائل کرنا ہے بی وائی سی قیادت کی رہائی اور بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کی بندش اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ روکنا اور انکی بازیابی کے نعرے صرف اور صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے لگائے جائیں گے کیونکہ یہ وہ مطالبات ہیں جن کیلئے بلوچ قوم کو کسی احتجاجی مظاہرے میں شرکت کیلئے کھینچ لاتے ہیں. اُمید ہے بلوچ قوم ان شعبدہ بازوں کے چالوں کو سمجھتے ہوئے نہ صرف ان سے دور رہیں گے بلکہ خود پر اعتماد کرکے اپنے گمشدگاں کی بازیابی اور ماورائے عدالت قیدیوں کی رہائی کیلئے خود نکلیں گے. بلوچ بی وائی سی سمیت ان پارلیمانی جماعتوں کیساتھ ایک ساتھ چل نہیں سکتے کیونکہ یہ جس عمران خان کو پھر اقتدار میں لانا چاہتے ہیں اس نے تو برملا اعتراف کیا تھا کہ فورسز نے انھیں بتایا ہے کہ ہمارا تفتیشی نظام کمزور ہے اور ہم وہاں کسی کا جرم ثابت نہیں کر سکتے اور ملزم عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں اس لئے ہمیں انھیں غیر قانونی طور پر اغواء کرکے برسوں مقید کرنا پڑتا ہے اور اسکے اتحادی سردار اخترمینگل صاحب ساڑھے چار سال برابر فنڈز لیتے رہے صوبے میں اپنی مرضی کی وزیر اعلیٰ لائے وفاقی وزارتوں کے لطف اُٹھائے لیکن گمشدگاں کی بازیابی کے بارے میں آخر تک کہتے رہے عمران حکومت میں چار بازیاب ہوتے آٹھ دس غائب کئے جاتے ہیں اور تو اور آپ اس سلسلے میں اس حد تک ناکام رہے کہ نہ شہید نواب اکبر خان بگٹی کے قبر سے سنتری ہٹا کر اس کے فیملی اور قوم کی خواہش کے مطابق باقیاتِ کی ڈی این اے کراسکے، نہ بازیاب ہونے والوں کے حبس بے جا میں رکھنے والوں کو جوابدہ بنا سکے نہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ اور ڈاکٹر اکبر مری سمیت ہزاروں جبری گمشدگاں کے فیملیز کو یہ اطلاع تک دے سکے وہ اپنے پیاروں کا انتظار کریں یا…. یہ ٹیم ایک بار پھر مظلوموں کے آنسوؤں سسکیوں اور سُلگتے ارمانوں کو سیڑھی بنا کر اقتدار تک پہنچنے کی تیاریاں کرچکا ہے یہ لوگ قابل اعتبار نہیں کیونکہ یہ ظالم کی بی ٹیمیں ہیں مظلوموں کے مددگار نہیں۔

(ختم شُد)