تعارف: تاریخ میں عورت کا مقام ایک صاف،واضح اور حقیقت پر مبنی کتاب ہے جو ان تمام تر گمنام ہستیوں اور سپتوں کی انکہی کہانی و داستان اور پوشیدہ حقیقت کو تاریخ کے دائرے میں لے آتی ہے ۔جنہیں ہمیشہ سے تاریخ سے بھلایا اور نظر انداز کیا گیا ہے۔ “تاریخ میں عورت کا مقام” متعدد دانشوروں، مصنفین اور لکھاریوں کے پیش کردہ مشاہدات و خیالات ہیں جنہیں معتبر و معزز مصنف ڈاکٹر مبارک علی نے 2021میں ایک کتابی صورت میں شائع کیا۔ یہ کتاب عورتوں کی بہادری کے قصے اور تاریخ،جنگ،سیاست،علم و ادبیت اور زندگی کے ہر شعبوں میں خواتین کے کردار و ذہانت کا پرچار کرتی ہے۔ یہ نہیں بلکہ ظلم و بربریت جو خواتین پر ڈھائے گئے اور انکی جدوجہد اور مردانگی سے آزادی کے واضح اثبات رقم طراز ہیں۔

تاریخ میں عورت کا مقام 20 عنوان پر مشتمل کتاب ہے جن میں امرتا پریتم کی انٹرویو، تبصرہ کتب اور واجد علی شاہ کی کتاب سے چند تاریخ کے بنیادی ماخذ شامل ہیں۔

اختصار و خلاصہ: کتاب “تاریخ میں عورت کا مقام” تاریخ کے ان تمام گمشدہ و پوشیدہ حقیقت کو واضح کرتی ہے جو مردوں کے لکھے گئی تاریخ سے اوجھل ہیں۔ دنیا و معاشرے کی ترقی، نسل انسانی کی افزائش جو عورت کے سر جاتی ہے، جو گرتی ہوئی دیوار عورت کے قوت،طاقت اور ذہانت کی محتاج تھی آج وہ عورت تاریخ سے بھلائی گئی ہے کیونکہ ہماری تاریخ مرد کے نظریے سے لکھی،پڑھی،سنی،دیکھی،کہی اور ظاہر کی جاتی ہے جس میں صرف مرد ہی کو اعلیٰ اور عظیم انسان ثابت کیا جاتا ہے۔

رخسانہ علی اس کتاب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہے کہ ” بہت زمانے سے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ مرد ہی صرف تاریخ تشکیل دیتے ہیں اور اگر تاریخ میں کوئی اعلیٰ مرتبت مرد نہیں ہے تو کوئی تاریخ بھی نہیں ہوگی۔”

قدیم دور کے لوگ جو غاروں میں اپنی زندگی بسر کرتے تھے اور شکار سے اپنے گزارا کرتے اسی عہد میں یہ خواتین ہی تھیں جنہوں نے پہلی دفعہ ذراعت کا آغاز کرکے لوگوں کو غاروں سے نکال کر نئی دنیا سے متعارف کرایا اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔

اور اسی طرح جب مرد مختلف محاذوں میں شریک ہوتے اور میدان جنگ میں اترتے تو خواتین انکا حوصلہ بندھاتی،انہیں ہمت دلاتی اور انکے پیچھے گھر بار اور قبیلے کی دیکھ بال کرتے۔ یہاں تک کہ جنگوں میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنا،اپنے وطن کا دفع کرتے اور اپنی جانیں تک قربان کرتے تھے۔

پر مردوں نے ہمیشہ سے عورتوں کو اپنی ملکیت ہی سمجھاہے۔ غلام بنا کر مذہب، ننگ و ناموس کے نام پر کمتر درجہ دیا۔ یہاں تک کہ عورت کو شیطان اور خدا کا دشمن سمجھا گیا۔ معاشرے میں انہیں ہمیشہ دھتکارا گیا۔

تاریخ میں بہت کم ہی پڑھنے لکھنے والی عورتوں کاذکر آیا کیونکہ ہمیشہ سے خواتین کو جاہل اور گوار ثابت کیا گیا۔ نہ شاعروں میں،نہ مورخین اور نہ ہی قلمکاروں میں انکا ذکر ہے۔ جبکہ گلبدن بیگم، زیب النساہ، رابیا پنہاں، کشور ناہید، حنا فہمیدہ جیسے کئی ادیب تاریخ سے مٹائے گئے ہیں جن کا تاریخ میں کوئی وجود نہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہے کہ “تاریخ نویسی میں مردانہ تسلط کی وجہ سے عورتوں کی وجود اور تاریخ میں انکی شمولیت کو نظر انداز کیا گیا ہے”

عورتوں کو ہمیشہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ۔کبھی فساد کی جڑ کہہ کر دھتکارا گیا تو کبھی عورتوں کا استعمال کرکے برسوں اور صدیوں کے جنگ کا خاتمہ کیا۔

اسی اثنا میں عورتوں میں شعور بیدار ہوا وہ جان گئے کہ ہم سے ہمارے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ ہمیں غلام کی سی حیثیت دی جارہی ہے تو عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے پہلی دفعہ 19ویں صدی میں آواز بلند کی اور اپنے حقوق کے خاطر سڑکوں اور روڑوں پر نکل پڑے اور کثیر الجہت جدوجہد میں مصروف رہے جو تاحال جاری ہے۔

تنقیدی جائزہ:

کتاب “تاریخ میں عورت کا مقام” عورت کی تاریخ،پدرسری نظام اور استحصالی نظام اور اس کے خلاف عورت کی جدوجہد اور مزاحمت پر نہایت سنہرے الفاظ سے روشنی ڈالی گئی۔

یہ کتاب صحیح معنوں میں ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین بےبنیاد پابندیوں کے زیرعتاب ہیں۔ کبھی مذہب تو کبھی غیرت اور ننگ و ناموس کے نام قتل کیا جاتا ہے یا ہمیشہ سے ایک قیدی بنا کررکھا جاتا ہے۔ مرد و خواتین کے درمیان آقا اور غلام کا رشتہ رکھا جاتا ہے جیسے یہودی ربی سولین کہتے ہیں کہ خواتین کو پڑھنے لکھنے کا کوئی حق نہیں اس کا کام صرف بچے جننا ہے ۔

21ویں صدی میں خواتین کو جو مصیبتیں در پیش ہیں وہ خود اس ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہیں۔ وہ عورتیں جنہیں کمزور کہہ کر کسی دیوار یا گھروں میں چھپا دیا جاتا تھا آج وہ خواتین مزاحمت کی رنگ، مزاحمتکار بنے ہوئے ہیں۔

بانڑی،گل بی بی، مہناز، حانی اور حسیبہ قمبرانی، مارنگ، بانک کریمہ جیسے ہزاروں بیٹیاں گھروں کو الوداع کہہ کر ظالم کے سامنے چٹان بن کر اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اپنی اور اپنی بہادری کا ثبوت دے رہی ہیں۔ آج بہنیں اپنے بھائیوں کے محافظ بن کر نکلے ہیں۔ ان کے لیے آواز اور امید بن کر نکلے ہیں۔

٭٭٭