دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeآرٹیکلزتاریخ میں قومی مزاج کی اہمیت اور بلوچ قومی مزاج تحریر: چراغ...

تاریخ میں قومی مزاج کی اہمیت اور بلوچ قومی مزاج تحریر: چراغ بلوچ

فی زمانہ دنیا میں مختلف قومیں آباد ہیں اور ہر قوم کی جغرافیہ بھی مختلف ہے۔ زمانہ قدیم سے دور جدید تک مختلف قومیں وقت و حالات کے ساتھ تغیر و تبدیلی کے ذریعے ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہوئے۔ بعض ترقی پزیر کچھ پسماندہ اور بعض اغیار کے تصرف میں ہیں بعض قوموں نے اتحاد اور مشترکہ مملکتیں قائم کی ہیں اور اپنے تشخص کو بر قرار رکھ کر ایک ہی ملک کے شہری بن گئے ہیں۔ وسائل اور اختیارات اور حاکمیت کو مساویانہ طریقے سے مشترکہ آئینی انتظام دیکر پر امن ذریعے آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ کینیڈا جو دو تسلیم شدہ زبانیں فرانسیسی اور انگریزی بولنے والوں کا جدید جمہوری ملک ہے۔ متحدہ ریاست ہائے امریکہ (USA) 51 ریاستوں پر مشتمل ایک ڈھیلی ڈھالی وفاق ہے اور کرپسین جزائر جیسا کہ پورٹوریکو اور ہوائی دو جزیروں کے ساتھ 52 ریاست اور مختلف نسلوں پر استوار ہے۔ نیز ہر ریاست کے اپنے جدگانہ قوانین ہیں۔ USA کی مشترکہ قومی زبان امریکن انگریزی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ USA کو تاریکین وطن نے آباد کیا جو زیادہ تر یورپین تھے۔ اور دوسری بڑی آبادی افریکن امریکنوں کی ہیں۔ اسی طرح امریکہ مختلف نسلوں و قوموں کا جدید جمہوری اور جدید قومی ملک ہے۔ اس لئے امریکہ کی ثقافت میں رنگا رنگی ہے۔
متحدہ برطانیہ (UK) آئینی بادشاہت پر مبنی قدیم ترین پارلیمانی نظام جمہوریت پر استوار انگریز، آئرئیش اور اسکاٹش قوموں کا تاریخی ملک ہے جسکی پارلیمانی تاریخ 350 سالوں پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جسکی آئین تحریر شدہ نہیں ہے۔ یعنی غیر تحریری آئین ہے۔ ان تین ملکوں کا مختصر ذکر کرنے کے بعد ایک اور کثیر القومی ریاست ہندوستان بھی ہے۔ ہندوستان مختلف قوموں کا ملک ہے۔ اس ملک میں سب سے زیادہ بولیاں بولی جاتی ہیں۔ اس ملک میں مختلف مذاہب اور فرقے بھی ہیں۔ اس لئے ہندوستان میں ایتھنک مسائل بھی ہیں کیونکہ یہ ملک ابھی تک ترقی پذیر ہے اس لئے اب اپنے بہت سے مسائل پر قابو نہیں پا سکا ہے۔
اب آتے ہیں واحد قومی ریاستوں کی جانب۔ جرمنی، ایک جدید ترقی یافتہ ریاست ہے اور جرمن قوم کا تاریخی وطن ہے۔ فرانس، فرانسیسی بھی ترقی یافتہ ہے اور فرانسیسی یا فرنچ قوم کا وطن ہے۔ روس، روسی قوم کا تاریخی وطن اور سابق عظیم سوشلسٹ سوویت یونین کا بانی ریاست۔ روسی قوم اپنی وسیع جغرافیہ کے بدولت آج بھی دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ روسی قوم نے لینن اور ٹراٹسکی جیسے عظیم رہنماء اور ٹالسٹائی، میکسم گورکی جیسے بے شمار ادیب مفکر و دانشور پیدا کئے۔ روسی قوم کا شمار گو کہ یورپین اقوام میں ہوتا ہے۔ لیکن اسکی وسیع سر زمین ایشیاء سے بھی ملتی ہیں اس لئے آج بھی روس اہمیت کا عامل ہے۔
اس انتہائی مختصر جائزے کے بعد اب آتے ہیں قومی مزاج کی طرف۔کیونکہ قوم کی تعریف میں اس کا مزاج ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ قوم کی تعریف میں زبان ،جغرافیہ ،تاریخ ،ثقافت ،مشترکہ منڈی ،اقتدارِاعلیٰ اور مزاج شامل ہوتے ہیں۔آج کل خوامخوا ایک اور عنصر وسائل کوبھی شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو بے معنی ہے۔کیونکہ وسائل جغرافیہ یا خطہِ زمین سے منسلک ہوتے ۔اسکی کوئی الگ حیثیت نہیں۔قوم کے جملہ بالا تعریف میں مزاج بنیاد ی اور اہم عنصر ہے۔کیونکہ مزاج ہی شناخت اور ترقی کا اہم ذریعہ ہے۔قوم کیلئے باقی سارے لوازمات بھی ضروری ہیں۔اگر ان میں سے ایک بھی لڑی کم ہوتو قوم کی تعریف صادق نہیں آتی ۔لیکن مزاج کا عنصر بہرحال اہم ترین ہے۔ہماری بحث دوسری قوموں کی یہاں مزاج شناسی نہیں۔بلکہ مختصر بلوچ مزاج پر کچھ اظہار کرنا ہے۔مزاج:۔بلوچ قوم اپنی قومی وحدت سے ہزاروں سالوں سے وابسطہ ہے۔بلوچ وطن نہ صرف بلوچ کا مسکن ہے بلکہ شخص کا روحانی پیکر بھی۔بلوچ کہیں باہر سے نہیں آیا اور نہ ہی وہ کوئی حملہ وار ہے جیساکہ ہمارے بعض مورخین جس میں بلوچ مورخ بھی شامل ہیں بلوچ کو کبھی عرب سے ملاتے ہیں اورکبھی آرین یاکسی اور سے۔اصل میں یہ جنوبی ایشیا کے تاریخ دانوں یا تاریخ نویسوں کا نفسیاتی مسلہ ہے جن کا المیہ یہ ہے کہ اپنی جڑوں کو اپنے خطوں اور جغرافیہ میں جوڑنے سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں ۔مگر ایسے بہت سے بے باک سچے اور انسان دوست مورخین ہیں جنھوں نے اس معذرت خوانہ سوچ کو چیلینج کرتے ہوئے تاریخ کوسائنسی انداز میں تحقیق کرکے حقائق پر مبنی تاریخ مرتب کی ہے اور اب بھی اسی کوشش میں ہیں۔ایسے بے با ک مورخ تاریخ واقعیات یا حکمرانوں کی عروج ہ زوال سے ہٹ کرعوام الناس کے سطع پر ہی پرکھتے ہیں۔جو ہر حوالے سے عام عوام ہی کو ذریعہ بناتے ہیں نہ کہ حکمران خاندانوں کی لغوی واقعیات کو ۔یہی وجہ ہے کہ جدید تاریخ نویسی آج مکمل سائنسی اندازِ فکر سے پروان چھڑرہی ہے۔کسی بھی قوم کی بنیادیں قومی تاریخ کے ساتھ قومی مزاج سے بھی جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔بلوچ قومی مزاج گو کہ قبائلی ہے۔ لیکن یہ اتنی سادہ بھی نہیں کہ کوئی یہ کہے کر جان چھڑائے کہ یہی اسکی تعریف ہے ۔کیونکہ دنیا کے مختلف خطوں میں قبائلی اقوام آج بھی ہیں۔اور اس کے علاوہ ما قبل از تاریخ کا انسانی معاشرہ قبائلی ہی تھا اور اشتمائی قبائلی بنیادوں پر استوار تھا پھر رفتہ رفتہ قبائلی مٹتے رہے اورریاست کا آغاز ہوا اور سرحدیں وجود میں آئیں ۔بہرحال یہ تو ایک لمبی بحث ہے ہمارا نقطہ قومی مزاج ہے جس پر یہاں مختصر کچھ تھوڑی روشنی ڈالیں گے۔دراصل بلوچ قوم مکمل قبائلی مزاج کا عامل نہیں لیکن قبائل سوچ بہرحال موجود ضرور ہے۔بلوچ مزاج بعض حالتوں میں یکساں بھی نہیں ہے۔بلوچ کوئی چھوٹی قوم نہیں کہ اسے تاریخی طور پر کوئی نظر انداز کرے۔لیکن جب ہم تاریخی حوالوں سے مشاہدہ کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بڑی قوم میں ہمیں قبائلی آپسی جنگ وجدل آپسی انتقام گری کی بہت سی صورتیں تو نظر آتی ہیں ان جنگوں کے سورما تو ملتے ہیں۔لیکن ہمیں کہیں بھی کوئی ایسا کردار نہیں ملتا یا ایسا کوئی ریفارمسٹ نظر نہیں آتا جس نے کوئی تعمیری کام کیاہو۔کیوں؟ہمیں بلوچ اکثریتی عوام کا کوئی واحد نمائندہ نہیں ملتا جس نے بلوچ بکھری ہوئی عوام کو کسی ایک لڑی میں ضرور کریکجا کیا ہو کیوں؟تاریخ میں ہمیں صرف ایک بار متحد ہ بلوچ اتحاد نظر آتا ہے لیکن وہ بھی مختصر عرصے کیلئے یعنی خان نوری نصیرخان کے دور میں جب بلوچ وطن اپنے مکمل جغرافیے میں استادہ ہے۔ایک مکمل کننڈریسی کی صورت میں جہاں قبائلی سردار بھی ریاست کے تحت جرگہ سسٹم سے منسلک جن کی اپنی جداگانہ قوت نہیں جہاں طاقت کا واحد کہ سر چشم ریاست ہے۔لیکن نوری نصیر خان کے بعد بھی صورتحال کیا ہے؟بہت ہی دگر گوں بلکہ بہت زیادہ انتشار ی کیفیت۔سوال پھر وہی کہ آخر بلوچ قوم میں ہمیں کوئی ریفار مسٹ کیوں نظر نہیں آتا؟بلوچ تاریخ میں ہمیں اپنے ہی آپسی جنگوں کے سورما ملتے ہیں جو اپنی ہی قومی اتحاد کا شیرازہ بکھیرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ہمیں شعلہ بیان شاعر ملتے ہیں اور ان ہی شاعروں کی زبانی ہمیں چاکر و گہورام نظر آتے جو انتقام کی آگ میں اپنی ہی قوم کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔حالانکہ ان داستان گو شاعروں کی طولانی شاعری میں ایسے ایسے واقعیات بیان کئے گئے جنھیں عقل
تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت اس با ت پر ہوتی ہے کہ بعد میں آنیوالے بعض مورخین نے بغیرکسی سائنسی اندارِتحقیق کے ان ہی بیان کر دہ واقعیات کو بلوچ تاریخ ماخذ قرار دیا۔لیکن آج جس عقلی وسائنسی انداز سے تاریخ نویسی ہورہی ہے۔جن کی بنیاد حقائق پر مبنی ہے۔تو مشاہدے میں آرہا ہے کہ بعض دیومالائی کردار وواقعیات کی ضرورت بھی نہیں رہی۔بلوچ اکثریتی عوام کی زندگی ما ضی میں کیسے رہی اس بات کے ثبوت علمِ آرکیا لو جمانے دی ہے۔بعض کڑیاں اب بھی گم ہیں لیکن بلوچ تاریخی حوالے سے ہر وقت موجود ہے ابھر تا ہے پھر غائب ہوجاتا پھر ابھر تا پھر غائب ہوجاتا ہے۔اسی لئے بلوچ مرکزیت اپنی واضع صورت میں نہیں ملتی ۔بعض اُسے ہلمندو نمروز قرار دیتے ہیں کہ بلوچ مرکزوہی ہے اور بعض البرز کو مرکز کہتے ہیں۔لیکن جدید تاریخ میں خوانین کے حوالے سے قلات بلوچ وفاقی مرکزتھا۔ریاست کا درالخلافہ تھا جہاں سے وطن پرست خان میر محراب خان شہید اپنے جانثار رفتار کے ساتھ بہرونی حملہ وار سے دفاعِ وطن کیلئے لڑکر جامِ شہادت نوش فرماتے ہیں۔حیرت ہے شہید خان اپنے چند جانثار وں کے ساتھ ایک طاقتور دشمن سے نبردآزماہے۔لیکن اس دوران وطن کے طول عرض میں کوئی ہلچل نہیں شا ہی جرگے کے سارے عمائد ین و سردار بیرونی حملہ آور کے رعب و دبدبے کا شکار ہیں اور اپنے ربتوں اور سرداریوں کو محفوظ بنانے کے فکر میں ہیں پھر سوال ہے کہ کیوں بلوچ وطن اور بلوچ قوم کی اکثر یتی آبادی تا ریخ میں بار بار ایسے دلخراش سا نحات گزرتے رہے ہیں۔ جہاں ان کے ہیروز صرف چند جا نثار وں کے ساتھ بیرونی حملہ ورں کے ساتھ نبرد آزمارہے۔ دراصل بلوچ قومی مزاج میں اجتما عی فکرو یکسانیت نہیں ہے اور مرکز کی عدم موجودگی یا پھر مرکزیت کی کمزوری بھی نحایاں ہے۔ اس لئے بلوچ مزاج میں انفرادیت زیادہ ہے تخیلی خیالات کی اہمیت واضع نظر آتے ہیں ۔ہر اس چیز کو اہمیت دی جاتی ہے جو وقتی ابھار کو ہمیذ کرے اس لئے چاکر و گہورام کے آپسی جنگ و جدل کو (جوکہ ابھی تک واضع نہیں ہے اور تحقیق طلب ہے) اہمیت دی جاتی ہے۔ جبکہ بلوچ اکثر یتی عوام جوکہ محنت کش و جفا کش ہیں۔جو بزگر و شو انگ ہیں جو مید و پور یاگر ہیں جنھیں اپنی روز مرہ زندگی گزارنے کیلئے نا مساعد و مشکل حالات میں بے پناہ مشقت کرنی پڑتی ہے انھیں کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اسی لئے ایسے چیزوں کی ز یادہ اہمیت ہے۔ جس میں جزباتی پن ہو۔ جیسا کہ بلوچ مورخین ہمیشہ بلوچ جو کبھی و سطے ایشیا سے آرہے ہیں یا عر ب سے آرہے یا پھر کہیں اور سے جو ہر وقت لوہے کے لباس پہنے ہوئے ہیں ۔تلوار یں حمائل ہیں معرکہ آرائی میں مصروف ہیں۔ مگر کس سے معرکہ آرائی ہو رہی ہے پھر پتہ چلتا ہے کہ آپس میں اس پسِ منظر میں ہم پھر غور کرتے ہیں کہ ہماری تاریخ میں کوئی ریفارمسٹ ہمیں کیوں نہیں ملتا کوئی ایسی شخصیت ہمیں نظر آتا جس نے فلاح عا مہ کا کوئی کام کیا ہو۔ جبکہ دنیا کی دوسری قوموں میں ہمیں ایسے بے شمار لوگ ملتے ہیں ۔ حتیٰ کہ دنیا دوسری قوموں میں ہمیں ایسے صا حب ثروت افراد بہ کثر ت نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنی دولت کا کثیرحصہ فلاح و بہبود کیلئے و قت کر دیتے ۔اسکول ،کالج،یونیوسٹیاں اور ہسپتال قائم کئے۔ بیواؤں ،بتمیوں اور ناداروں کیلئے اپنی دولت سے ٹر سٹ بنائے ۔کوئی یہ کہے کہ جناب بلوچ تو خوددار قوم ہے وہ خیرات اور اس قسم کی چیزوں میں اپنی تو ہین و شرمند گی سمجھتا ہے۔اچھا تو پھر اپنی قوم کیلئے ایثار ،انکساری،حاجزی محبت وخلوص رحم دلی کا جذبہ باعثِ شرمندگی وتو ہین کا سبب بنتا ہے؟یہ عجیب دلیل ہے۔اپنی قوم کی خدمت کرنا ان کیلئے فلاح عامہ کے ادارے قائم کرنا اجتماعی سوچ وفکر کی غمازی ہے۔اس سے اسکی خوداری کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو حوصلہ ملتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہے۔بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح کے
فلاحی کام سامراجی حربے ہوتے ہیں۔تو انھیں چائیے کہ اپنے ارد گرد کی تاریخ کا مطالعہ کریں ۔کیونکہ دورنہ جائیں انڈین نیشنل کانگریس جو ہندوستان کی آزادی کا نمائندہ جماعت ہے۔اسکی بنیا د ایک انگریزسول افسر ولیم نے 1886ء میں ہندوستانی تنخوادار طبقے کی فلاحی ادارے کے طور پر رکھی ۔کسی سیاسی جماعت کی حیثیت سے نہیں۔مہاتھما گاندھی کے استاد گوگلے ایک ہندوستانی ریفارمسٹ تھے سیاست دان نہیں ۔عظیم رہنما نیلسن منڈیلا نے تعلیم کے حوالے سے اپنی ابتدائی جدوجہد کے ایام میں چھوٹے چھوٹے اسکول قائم کہے۔یہ کوئی انقلابی اسکول نہیں تھے بلکہ عام تعلیمی فلاحی ادارے تھے۔ریفارمسٹ یا اصلاح کار اپنے کام کی ابتدائی فلاحی کاموں سے کرتا ہے۔ اس کے بنیادی مقاصد ہی اپنی قوم کیلئے آسانیاں فراہم کرنا ہوتا ہے۔رحمدلی ،انکساری،حاجزی ،خلوص محبت،ایمانداری یہی وہ جزبے ہیں جو فلاح عامہ کا ذریعہ بنتے ہیں۔غرور وتکبر ،بڑائی وخود رہنمائی نمودونمائش رعب ودبدبہ ،ضدوہٹ دھرمی ظلم وزیادتی اور نقاق کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ میر یوسف علی عزیز مگسی نے ایک بلوچ اصلاح کار کی حیثیت سے اپنے کام آغاز کیا واجہ ایک جگہ فرماتے ہیں’’میری آرزو ہے کہ بلوچ کے ہر گھر میں ایک لائبریری ہو‘‘۔میر صاحب کے دل میں اپنے قوم کیلئے رحم دلی،ہمدردی اور ایثار کے جزبات موجزن تھے۔لیکن زندگی نے آپ سے وفانہ کی عین جوانی کے عالم میں اس سے رخصت ہوئے۔ ورنہ جانے اپنی مفلوک حال قوم کیلئے کیا کیا کچھ نہ کرتے آپ بیک وقت ریفارسٹ بھی تھے سیاست کا ر بھی اور ادیب بھی ۔آپ ہی نے اصلاح بلوچ انجمن کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن کے نام سے ظاہر ہے کہ آپ قوم کی زندگی کے دھا رے بر لنا چاہتے تھے۔میر صاحب کے بعد بلوچ افق پر سیاست کا ر تو بہت ملے۔ لیکن کوئی ریفارمسٹ نظر نہیںآتا ۔حتیٰ کہ دوسری قومی کی طرح کوئی بھی ایسا صاحب حیثیت شخص بلوچ قوم میں نظر نہیں آتا کہ اپنی قوم کیلئے اسکول ،کالج ،یونیورسٹیاں اور بڑے ہسپتال قائم کرنا تو اپنی جگہ ۔ایک دس بستروں پر مشتمل ہسپتال یا ادارہ بھی تشکیل نہیں دے سکے ۔بلوچ قوم میں صاحب ثروت افراد کی کمی نہیں ۔لیکن اپنی قوم کیلئے رحم دلی ،ایثار، عاجزی انکساری ،محبت اور دوستی نا پید ہے۔ کیونکہ اس طرح کے کام وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنی قوم سے محبت کرتے ہیں۔ جو خود کو اس قوم کا ایک فرد سمجھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز