پربھاکرن اور تامل ٹائیگرز ایل ٹی ٹی ای کی ناکامی کے وجوہات میں حکمت عملی کی غلطیاں، حد سے زیادہ خود اعتمادی اور اختلافی آوازوں کو نظر انداز کرنا شامل ہیں۔ مادی وسائل اور انسانی وسائل کی کمی نہیں تھی، بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک معقول حمایت بھی حاصل تھی ۔ایل ٹی ٹی ای کی ابتدائی عسکری کامیابیوں اور سری لنکا کے کچھ حصوں میں ایک خود مختار ریاست قائم کرنے کی صلاحیت نے ایک ناقابل شکست ہونے کا احساس بھی پیدا کیا۔ مگر کیا وجہ تھی کہ پربھاکرن کی تامل ٹائگرز شکست کھا گئی۔ کہتےہیں کہ ان کے بعد کے فیصلوں اور قیادت کے رویہ تامل تحریک کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ بنی۔ آئیے اس پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
ابتدائی کامیابوں کی وجہ سے پربھاکرن کی complacency خود اعتمادی اتنی بڑھ گئی تھی کہ اپنے مخالف قوت کو ہمیشہ کمزور سمجھتے رہے۔ انہوں نے سری لنکن فوج کی صلاحیت کو کم سمجھا، جو کہ بعد میں بین الاقوامی حمایت کے ساتھ ایک منظم اور مربوط حکمت عملی کے ساتھ سامنے آئی۔
حماقت پر مبنی (complacency) خوداعتمادی کے گھوڑے پر سوار پربھاکرن کی حکمت عملی کی غلطیوں نے ہندوستان جیسے ملک کے وزیرآعظم راجیو گاندھی کوقتل کرنے تک پہنچا دی۔1991 میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل کا فیصلہ اس کی آخری بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ پربھاکرن کی حماقت نے اس بھارت کو بھی نہیں بخشا جو ہمیشہ تامل کاز کی حمایت کرتا تھا، اس بڑے ملک کو اپنا سخت مخالف بنا دیا۔ پھر کیا ہوا؟ بھارت نے سری لنکن حکومت کو انٹیلی جنس اور دیگر مدد فراہم کی۔
غیرمناسب و غیر متناسب تشدد کا اپروچ اور متشددانہ کارروائیوں پرانتہائی انحصار، خودکش جیسے حملے اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے جیسے عوامل نے تحریک کی سیاسی اور سفارتی کردار کو ختم کرڈالا۔ اس سے تحریک کی بین الاقوامی سطح پر اس کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچایا اورنتیجتاً اسے کئی ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔
پربھاکرن انتہائی مرکزیت پسندی اور آمرانہ قیادت کے لیے مشہور تھے۔ انہوں نے دانشمندانہ مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے تامل معاشرے میں اختلافی آوازوں کو دبایا یا ختم کردیا، جس سے ایل ٹی ٹی ای کی تنظیم بدلتے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی۔ دوسرے تامل سیاسی اور عسکری گروپوں کو دور کر کے پربھاکرن نے وسیع تامل تحریک کو کمزور کیا۔ اگر وہ ایک ’’شمولیتی جامع حکمت‘‘ عملی اپناتے تو یہ ان کے موقف کو مضبوط بنا سکتا تھا۔ کہتے ہیں اسی اپروچ نے تامل تحریک کی جمہوری شبیہ کو بری طرح مسخ کرڈالا۔ پھر دنیا میں اس تحریک کو ڈکٹیٹر شپ جانا گیا۔
دوسری طرف سری لنکن حکومت نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی قوتوں کی سپورٹ لیکر مؤثر حکمت عملی ترتیب دی۔ سری لکن کی مؤثر فوجی مہم “ایلام وار IV” (2006-2009) ایک فیصلہ کن اور منظم مہم تھی۔ اس مہم کو کامیاب بنانے میں بین الاقوامی انٹیلی جنس اور لاجسٹک مدد حاصل کرنے کیلئے سری لنکن حکومت کوئی دشواری پیش نہیں آئی کیونکہ پربھاکرن کی ڈکٹیٹر شپ نے پہلے ہی عالمی رائے کو سری لنکن حکومت کے حق میں بدلا تھا۔
بین الاقوامی لوجسٹک اور انٹیلی جنس سپورٹ نے سری لنکن حکومت کو اس قابل بنایا کہ اس نے جنگ کے آخری مراحل میں ٹائیگرز کی سپلائی لائنز کو منظم طریقے سے ختم کیا اور انہیں تنہا کر دیا۔
مختلف نقطہ نظر اور اختلافی آوازوں اور متبادل خیالات کو نظر انداز کرنا رہنماؤں کو اہم خطرات اوراہم مواقع سے فائدہ اٹھانے سے اندھا کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ تامل تحریک کا سب سے بڑا حماقت بین الاقوامی حمایت کی اہمیت کو نظر انداز کردینا تھا۔ عالمی حمایت برقرار رکھنا اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا جو ممکنہ اتحادیوں کو دور کریں، کسی بھی تحریک کے لیے ضروری ہے۔ قومی آزادی جیسے وسیع معاملات پر دانشمندانہ مشوروں کو نظر انداز کرنا ان اہم عوامل میں شامل تھے جنہیں پربھاکرن کی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت کا انداز، حکمت عملی کی غلطیاں، اور بدلتے جغرافیائی حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے میں ناکامی تامل تحریک کی شکست کی بڑی وجوہات تھیں۔