جامعہ تربت کی کہانی بلوچستان یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل اسکینڈل سے مخلتف نہیں ہے, ایک ہی اسکرپٹ ہے بس یہاں کردار مختلف ہیں۔
تربت یونیورسٹی کے انتظامیہ میں بیٹھے چھوٹے قد کے لوگ نوجوان نسل کا کردار سازی کے بدلے نوجوانوں کو صرف سامراجی نصاب تک محدود کررہے ہیں، اس طرح کی سامراجی ہھکنڈوں سے نوجوان نہ صرف کلرک ہوتے ہیں بلکہ زہنی غلام بنتے ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے اعلیٰ سطح پر جعلی لوگوں کو مسلط کرنا یہ ایک سوچا سمجھا نوآبادیاتی منصوبہ بندی ہے تاکہ طلبہ اور طالبات کا نفسیاتی طور پر مفلوج کیا جائے۔ اِسی سامراجی ادارے میں ایک دو آزاد خیال اور سنجیدہ اساتذہ بھی ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کو روبوٹ نہ بنے، بلکہ آذاد اور خودمختار انسان بنے لیکن نااہل انتظامیہ اُن ٹیچرز کے لیے مسلسل رکاوٹیں پیدا کررہی ہے۔
جامعہ تربت کی نااہل انتظامیہ سے کوئی ذی شعور شخص انکاری نہیں ہے۔ لیکن ہم اگر صرف انتظامیہ کی نااہلی پر فوکس کریں اور یونیورسٹی کی تمام خوبیوں کو اگنور کریں تو یہ ایک تاریخی غلطی ہوگی اور یونیورسٹی ساتھ بھی ایک قسم کی ناانصافی ہوگی مثال کے طور پر پورے یونیورسٹی میں گرلز اور بوائز کے ایک ساتھ مطالعہ ( co-education) خوشگوار ماحول پیدا کرنا اچھی بات ہے، جس نے معاشرے کے سماجی ڈھانچے کو کسی حد تک فائدہ پہنچایا ہے۔
اگر اِسی تعلیمی ماحول کو مزید آزاد کیا جائے، لڑکا و لڑکیوں کی میل جول کو مزید تقویت دی جائے، اسٹوڈنٹس کو مزید نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی آذادی دی جائے تو انکی مزید ایکپشوزر ہوجائے گا انُکی اندورنی صلاحیتیں مذید نکھر جاتے ہیں۔
یہی اسٹوڈنس آگے نکل کر قوم اور سماج کے لیے بہترین تخلیقی کام کرسکتے ہیں۔
تربت یونیورسٹی کے نااہل انتظامیہ کے گروی حرکتوں کے باوجود اس جامعہ تربت نے سپنے ارتقائی عمل کے دوران اچھا خاصا نتیجہ دیا ہے جیسا کے حالیہ دنوں میں یونیورسٹی کے بہت سارے اسٹوڈنٹس نے ایس ایس ٹی، لیکچرار شپ کے ٹیسٹ اور انٹرویو کلیئر کئے ہیں اور سی ایس ایس و کمیشن کی تیاری کر رہے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی کلیئر ہو کہ نااہل انتظامیہ روزِ اول سے اسٹوڈنٹس کے کھلا فضا کو تنگ کرنے کے لیے مخلتف سامراجی حربے استعمال کررہا ہے مثال کے طور پر تربت یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانا ایف سی صاحب کا مرضی اور منشا ہے۔ لیکن سیاسی سرگرمیوں کی بندش کا نوٹیفیکیشن نااہل انتظامیہ کی طرف جاری ہوتا ہے کہ “تربت یونیورسٹی دائرے میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کی اجازات نہیں ہے، نوٹیفیکیشن کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں اسٹوڈنٹ کے ایڈیشن کینسل ہوسکتے ہیں” یہ سارے سامراجی ہھکنڈوں کا بنیادی مقصد نوجوان نسل کو سیاسی شعور سے دور رکھنا ہے، انکی سیاسی تربیت اور بصیرت کو محدود کرنا ہے۔ اب ہمیں کوئی صاحب علم رہنمائی کرے کیا تربت یونیورسٹی ایک خودمختار ادارہ ہت یا فوجی چھاؤنی ہے؟
چلو 5 منٹ کے لیئے یہ بات مان لیتے ہیں کہ ریاست کو سیاسی سرگرمی سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ لیکن یہ کونسا مذاق ہے اگر گرلز و بوائز آپس میں گروپ مطالعہ کررہے ہیں نااہل انتظامیہ سب کو ممنوع کرتا ہے، لڑکا اور لڑکی کی آپس مطالعہ کرنے میں یونیورسٹی کو کونسی خوف محسوس ہورہا ہے۔
پھر دیکھ لیجئے گروپ مطالعہ کو روکنے کے لیے نااہل انتظامیہ نے ایک دو بوڑھے خواتین کو جاسوسی کی ڈیوٹی پر لگائی ہے ۔ ان دو خواتین کا روٹی روزی کمانے کا ذریعہ یہ ہے کہ وہ جہاں بھی لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ بیٹھے ہوں، گروپ مطالعہ کررہے ہوں یا کارنر میٹنگ کررہے ہوں ان کو روک لینا اور انتظامیہ کو انٹیلجنس فراہم کرنا کہ یونیورسٹی کے فلاں کارنر پر دو نوجوان ایک ساتھ بیٹھے ہیں، آپس میں گپ و شپ کر رہے ہیں، اگر دو انسان آپس میں اپنی مرضی و منشا سے ایک دوسرے بات چیت کررہے ہیں اس میں نااہل انتظامیہ کو کیا تکلیف ہے، کیوں نوجوان نسل کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا جارہاہے۔ نااہل انتظامیہ کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ دوسری طرف یہی نااہل انظامیہ گرلز ہاسٹل کے فی میل وارڈن کے ساتھ اچھا خاصا تعلقات بنانے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ وہ نااہل انظامیہ کے لیے گرلز ہاسٹل میں آسانی سے رسائی پیدا کرے، انُکے گرل فرینڈ کو رات لیٹ آنے جانے سے روک ٹوک نہ کریں۔ اس وارڈن صاحبہ کی بھی کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ وہ بیچاری نااہل انتظامیہ کے سامنے بے بس اور مجبور ہے کیونکہ اُسکی وابستگی بھی اِسی انتظامیہ سے منصب ہیں۔
ایڈمن کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے فی میلز کو ذلیل و تنگ کرتے تاکہ لڑکیاں بلیک میل ہوجائیں اور اُنکے تابع ہوجائیں، جب چاہیں انکو بلائیں اور اپنی مرضی کے مطابق ان کو استعمال کریں، یاد رہے کہ جامعہ تربت کے گرلز ہاسٹل کی کہانی بلوچستان یونیورسٹی کی گرلز ہاسٹل کا اسکینڈل کا تسلسل ہے، کام ایک ہی ہورہے ہیں بس جامعات اور کردار کے نام مخلتف ہیں.
نااہل انتظامیہ کی نااہلی قابلِ فہم بات ہے، لیکن چند معزز ٹیچرز بھی اِسی شّر سے محفوظ نہیں ہیں، وہ بھی اسٹوڈنٹس کو جبراً کم مارکس دیتے ہیں تاکہ اسٹوڈنٹس خاص کر فی میلز اسٹوڈنٹ انُکے جی حضور بنیں، بیچارے ٹیچرز بھی نااہل انتظامیہ کے زیر اثر ہیں وہ بھی انسان انکے بھی خواہشات ہوتے ہیں۔ مظلوم اسٹوڈنٹس اسُتاد کی خوشنودی کے لیے چاپلوسی اور چمچہ گری پر مجبور ہیں۔ اسٹوڈنٹس صبح روزانہ کلاس سے پہلے صاحب کا آفیس کا طواف کرتے ہیں تاکہ وہ اچھے گریڈ و پوزیشن حاصل کریں، جو اسٹوڈنٹس ٹیچرز آفیس سے جتنا دور ہوگا اسکو اتنا کم مارکس ملے گی۔ باقی یہ فیصلہ اسٹوڈنٹس کا ہے، کیا ان کے لیے عزت نفس یا پوزیشن ہولڈر بنا اہم ہے؟
تربت یونیورسٹی کے نااہل انتظامیہ میں خاص طور پر دو اشخاص رجسٹرار گنگزور بلوچ اور پرو وی سی منصور صاحب کا نام سر فہرست ہیں۔ فرو وی وسی صاحب میں عمر چھوٹا اور چہرے سے بہت معصوم لگتے ہیں لیکن اندورنی طور پر یہ بڑے چالاک اور مکار آدمی ہیں، آتے ہی اپنی کردار کو محفوظ رکھنے کے لیے وومن ڈویلپمنٹ کے ریجنل ڈائریکٹر کو دعوت دیا۔ میڈم جی تسُی آجاوُ دو چار فوٹو سیشن کرتے ہیں اور لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں، تاکہ لوگوں کو یقین ہو ہم جنڈر ڈویلپمنٹ، وومن ایمپاورمنٹ، جنسی امتیازات کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن انکی حقیقی عزائم اور مقصد بلکل مختلف تھا اصل میں یہ وفد ایف سی کی آشرواد سے آئی تھی تاکہ وہ ایک منظم طریقے سے میجر اور بریگیڈیئر کی عیاشی کے لیے راستہ ہموار کرسکیں، بظاہر عوام کو کچھ خبر ہی نہ ہو کہ اندرونی طور پر کیا سلسلہ (پروگرام) جاری ہے۔
حقیقتّا پرو وی سی کا ذمہ داری یونیورسٹی میں تعلیم نظام کو بہتر بنانا ہے۔ لیکن موجودہ فرو وی سی صاحب، سابقہ وی سی عبدالرزاق صابر کام سرانجام دے رہے ہیں، جس کام سرکٹ ہاوس اور ایف سی کیمپ کو گرلز ہاسٹل سے فی میل فراہم کررہا تھا، اس لیے اسکا مدت پورا ہونے کے باوجود 10 سال تک وی سی کرسی پر قبضہ گیر رہا۔
کمال ہے عظیم لوگ اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے چھوٹے قد لوگ (منصور احمد، گنگزور بلوچ) کو یونیورسٹی کے اعلئ پوسٹ پر تعینات کرتے ہیں، اور ان نااہل لوگوں کو ایسے نیچ حرکتیں کرنے میں ذرا برابر شرم محسوس نہیں ہوتا ہے، نہ کے اِنکی ضمیر ان سے سوال کرتا ہے صاحب آپ اپنے آئندہ نسل کو کیوں جنسی درندوں کے حوالے کررہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر تعجب میں پڑ گیا، میری عقل نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا، ، کیا واقعی اقتدار حوس انسان کو اس قدر اندھا کردیتا ہے کہ وہ اپنی اسٹوڈنٹس (بہن اور بیٹیوں) کو غیروں کے حوالہ کریں۔
ایک اور بات ذہن میں یاد رکھیں، ان ثبوت اور دلیل کے ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر وہ فیمیل جو ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے ان تمام اسٹوڈنٹس کا کردار ڈھالا ہے، نہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہے، اگر کوئی غلط فہمی میں مبتلا رہے تو یہ اسکی اپنی نادانی ہے۔ بلکہ یہ بات میں یہاں صاف الفاظ میں واضع کروں کہ بہت سے ایسے باعزت اور خود دار اسٹوڈنٹ ہیں جو نااہل انتظامیہ کی بدفعلی کی شدید مذمت کرتی ہیں، یہ آرٹیکل بذات خود ایک منہ بولتا ثبوت ہے اور ایک واضح ریزن ہے فیمیل اس بد اخلاق رویہ کے سخت خلاف ہیں، جن بے باک اسٹوڈنٹس نے اپنی قصہ مجھ تک پہنچادیا اسکا مطلب یہی ہے کہ وہ انتظامیہ کی ناروا روایہ سے تنگ ہیں۔ ورنہ انکی کیا مجبوری تھی اس قسم سخت ردعمل دکھانے کی، اگر وہ چاہتے انتظامیہ کے ساتھ مل جاتے عیش و عشرت میں مصروف رہتے لیکن خوددار اور ایماندار انسان ہرجگہ ہوتے ہیں جو ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔ اس بات پر کسی کو شک نہیں ہے کہ جو فیمیلز انتظامیہ کی مذمت کرتی ہیں ان معصوم اسٹوڈنٹس کو کس طرح حراساں کیا جاتا ہے، میں کن الفاظ میں انکی درد کی ترجمانی کروں، اس کرب ناک منظر کا گرلز ہاسٹل اور یونیورسٹی کے باہر بندہ سوچ ہی نہیں سکتی ہے، نام نہ ظاہر کرنے کے شرط پر ایک فیمیل اسٹوڈنٹس نے مجھے بتایا کہ ہاسٹل انتظامیہ لڑکیوں کو بلیک کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔
کبھی مارکس کے بہانہ بناتے ہیں، کبھی کلاس میں پوزیشن ہولڈر کی لالچ پیشکش کرتے ہیں، کھبی چھوٹی موٹی مراعات اشارہ دیتے ہیں، کبھی ڈرانا، دھمکانے کے ذریعہ فیملز کو بلیک میل کرنے کی کوشش کیا جاتا ہے۔ لیکن جس بہادری کے ساتھ اس نے اپنی دکھ بھری داستان مجھے سنایا میرے پاس اپنی آنسو پیش کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اسکی پوری کہانی سن کر میں ہل گیا، میں نے اس کو حیرانگی پوچھا آپ یہ کیا کہہ رہی ہو، آپکو ہاسٹل وارڈن کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں ہے، “واقعی ایسے ہوسکتا؟” میں نے شکی انداز میں اس سے پوچھ لیا کیونکہ میری ضمیر ان الزامات کو تسلیم کرنے میں بلکل تیار نہیں تھا، ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ ہم یونیورسٹی بیٹھے ہوئے ہیں تو اس نے اپنی ایک ہاسٹل میٹ کو پکڑ کر لائی، اس کو بتاؤ ہاسٹل کے اندر کیا من مانی ہو رہا ہے۔۔۔اس نے غصے کی لہجہ میں اپنی سہیلی بتایا، اس کو تکلیف ہوئی کیونکہ میں اسکی الزامات پر قائل نہیں ہورہا تھا۔ میرا دماغ اسکی باتوں بلکل قبول نہیں کررہا تھا، میرا ضمیر مجھے مزید سوال پوچھنے پر مجبور کررہا تھا۔ میں نے اپنی شک و شبہ دور کرنے کے لیے اسکی دوست سے مزید معلومات لیا، اس نے تفصیلات کے ایک ایک نقطہ پر ثبوت کے ساتھ نہ بات کیا بلکہ اس کے جو شہادت موجود تھی، صیغہ راز کے ساتھ وہ تمام شہادت میرے حوالہ کئے، تربت جگہ یونیورسٹی کی گرسی تھی کسی کو کوئی شک کی گنجائش نہیں تھا کہ یہاں نااہل انتظامیہ کی رازوں پر پردہ اٹھایا جارہا ہے۔ اس فتھت (5) سمسٹر کے اسٹوڈنٹ کی شہادت کو دیکھ کر، اسکی لرزتے ہونٹ اور خوفزدہ لہجہ میں بات کرنے کے انداز کو مجھ میں پکا بھروسہ پیدا ہونے لگا، جس درد بھری اس نے مجھے اپنی قصہ بتا دیا اور ثبوت دیے مجھے پکا ایسے محسوس ہوا کچھ تو ہورہا ہے۔ دوسری بات یہ دونوں اسٹوڈنٹس کے باتوں میں بلکل تضاد نہیں تھی جس پر میں مزید شک کروں، اس وقت میں نے صرف ان سے صرف یہ واعدہ کیا میں آپ لوگوں کے لیے عملی صورت میں تو کچھ نہیں کرسکتا ہوں، ہاں ایک کام ضرور کرونگا جب مجھے فرصت ملے میں آپ لوگوں کی آواز بنے کی کوشش کرونگا، آپکی روداد ضرور لکھوں گا اور عوامی عدالت کے سامنے پیش کرونگا۔
اور مجھے اپنی بہادر بہنوں پر پورا یقین ہے آج ان لوگوں نے اپنی درد بھری داستان میرے سامنے بیان کیا کل یہ درد پختہ ہوکر لوہے کی پورے معاشرے پگل جائے گا۔ میں پرامید ہوں انشااللہ ایک نہ ایک دن ضرور میری بہن (ایک نڈر فیمیل اسٹوڈنٹ) اپنی تمام مجبوریاں، بدنامی کی ڈر و خوف سے بالاتر ہوکر آزادی کے ساتھ نااہل اتظامیہ کی تمام بدفعل روایہ اور حراسمنٹ کو خود عوام کے سامنے ایکسپوز کریگی۔
میں فیمینیسٹ نہیں ہوں لیکن اُن بہادر فیمیلز کو سلام کرتا ہوں، کمال ہے انُکی ہمت اور جُرت کو جو اپنی عزت نفس کو بچانے کی آخری کوششیں کررہی ہیں، اور اپنی والدین کی اعتماد کو خراب نہیں کرنا چاہتی۔ نااہل انتظامیہ میں بیھٹے رجسٹرار اور پرو وی سی وارڈن کو مجبور کرتے ہیں جو فیمیل بلیک میل نہیں ہوگی تو اِن کو ڈرانا، دھمکانا، زد و کوب کرنا اُن کے گھر کو فون کریں اور غلط بیانی کریں کہ آپکی بچی یہاں (ہاسٹل) مطالعہ سے زیادہ فون و پیکیچ میں مصروف ہیں، اس حد تک فی میل اسٹوڈنس عزتِ نفس اور فیرئیوسی (privacy) کو مجروح کرنا کتنی شرم کی بات ہے۔
انہی نااہل لوگوں کی وجہ سے گھر والے اپنے بچیوں کو یونیورسٹی اور ہاسٹل میں پڑھانے سے کتراتے ہیں، کتنی شرم کی بات ہے کہ انتظامیہ کے اعلئ سطح عہدہ داراں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے بجائے ایف سی کیمپ میں گرلز سپلائی کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کے 2021 کے ایچ ای سی رپورٹ کے مطابق تربت یونیورسٹی کا گراف نیچے گر گیا ہے۔
…
تربت یونیورسٹی کے خوبصورت بلڈنگ پر خوبصورت الفاظ کو دیکھ کر انسان کا طبیعت خوش ہوتا ہے لیکن جیسے ہی آپ انتظامیہ بلڈنگ میں داخل ہوتے ہیں، بڑے بڑے عہدے پر چھوٹے چھوٹے قد کے لوگ جیسا کہ موجودہ رجسٹرار گنگزور بلوچ جو سابقہ رجسٹرار غلام فاروق کا کردار ادا کررہے ہیں جس نے اپنے خاندان کے سارے نااہل اور بے زورگار رشتہ داروں کو یونیورسٹی پر مسلط (بھرتی) کیا، دوسرا ظہور بلیدی کا چیلا فرو وی سی منصور احمد کا سامنا ہوتا ہے تو بندے کو مایوسی اور ناامیدی کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ مایوسی بے شک گناہ ہے لیکن دل سے ایک آہ نکلتی کاش ایسے خوبصورت عمارت میں لوگ بھی ویسے قابل اور حسین ہوتے۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس سنجیدہ مسائل کے متعلق ادیب، لکھاری، صحافی اور دانشور طبقہ خاموش کیوں ہے؟ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے، شاہد خوف و ڈر کے مارے ہیں یا اپنی ذاتی مفادات تک محدود ہیں۔ پہلے جامعہ تربت کا ایک محترم اسُتاد ڈاکڑ ریاض مزار صاحب نے اپنی ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی کی بے ضابطگیوں کو قلم بندی کیا، ہم جیسے نادان لوگوں نے اسکو ایک مسیح سمجھا کہ شاہد یہ خود دار اور کمیٹڈڈ شخص یونیورسٹی کے اندر نااہل انتظامیہ اور اُس کی کرپشن کو عوام کے سامنے آشکار کریگا، وائے نادانی ریاض صاحب کا ایک خاص مقصد تھا جب اُسکا ذاتی مقصد پورا ہوگیا۔ آجکل اسکا قلم بھی خاموش ہے۔ چلو آگے چلتے اور بھی دلکش منظر دیکھنے کو ہیں۔
1۔یونیورسٹی میں تین خاندانوں کا راج ہے۔
2۔ پورے یونیورسٹی میں بشمول وی سی تین فل پروفیسر ہیں، تین میں سے ایک فل پروفیسر گُل حسن ہے جس نے ایل ایل ایم کیا ہے، اس کا پی ایچ ڈی ڈگری جعلی ہے، حاصب لاء ڈیپارٹمنٹ کے چیرپرسن بجائے لاء کا ڈین ہیں۔
3۔ ایچ ای سی پالسی کے برعکس تھرڈ ڈویژن ڈگری ہولڈر (مہناز اسلم) کو بطور لیچکرار کے اپوائمنٹ کرنا۔ دوسری طرف پی ایچ ڈی ہولڈر عاصم ظہیر کی فٹیشن کو ہائی کورٹ ریجکٹ کرتا ہے کہ تھرڈ ڈویژن قابل نہیں ہے۔ ہم ایچ ای سی کی پالیسی کے خلاف ورزی نہیں کرسکتے ہیں۔
4۔ یونیورسٹی کے 12 ڈیپارٹمنٹ میں سے کوئی ایک ڈیپارٹمنٹ میں پرمیمنٹ چیئرپرسن نہیں ہے۔
5۔ پورے یونیورسٹی کے 12 ڈیپارٹمنٹ میں صرف اور صرف دو فُل پروفیسر ہیں۔ ایک جعلی ہے جس کا ذکر اوپر والے پیراگراف میں کیا گیا ہے۔
6۔ نااہل انتظامیہ قابل اور ذہین اساتذہ کو ٹیچنگ فیلو، وزینٹگ اور کنٹریکٹ کے نام پر استحصال کیا جارہا ہے۔
7۔ اس سے بڑی کرپشن اور کیا ہوسکتا ہے کہ سیاسی شخصیت ظہور بلیدی صاحب کا برائے راست یونیورسٹی کے اندرونی معاملات (syndicate body) میں دخل اندازی کررہا ہے یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں ہے، دو دن پہلے منصور صاحب اپوائمنٹ ہوتا ہے اور تیسرے دن انٹریو فینل کا ممبر ہوتا ہے۔ جسکی ٹھوس ثبوت درجے ذیل پیراگراف میں دیا گیا ہے۔ باقی آپ امیدواروں سے اب بات تصدیق کرسکتے ہیں۔
اس نقطہ پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں کہ تربت یونیورسٹی ایک تعلیمی مرکز کے بدلے ایک کاروباری کپمنی کی فرض سرانجام دے رہا ہے، قابل اور باصلاحیت نوجوان میرٹ کے نام پر بس درخواست جمع کرتے ہیں ٹیسٹ اور انٹرویو دیتے ہیں باقی بھرتی صرف شفارشی لوگوں کی ہوتی ہے۔
یہ جو نااہل ٹیچرز بھرتی ہوتے ہیں یہ طلباء اور طالبات کو مستبقل کے چیلنجز کے لیے تیار کرنے کے بجائے نوجوانوں کو زہنی معذور، غلام بنارہے ہیں۔ یہ کھیل جو اسٹوڈنٹس کے مستقبل کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
اس سے بڑھ کر میرٹ کی پامالی اور ٹیلنٹ کُشی اور ثبوت کیا ہوگا کہ صوبائی وزیر ظہور بلیدی صاحب نے اپنی سیاسی اختیارات کو ناجائز استعمال کرکے بلوچستان یونیورسٹی کے ایک 18 گریڈ کے لیکچرار، جس نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد 2020 میں پی ایچ ڈی کا ڈگری مکمل کیا ہے، جسکی عمر 35 سال ہے، صاحب کا منصور احمد کو بغیر پبلک ایڈورڈزمنٹ، ٹیسٹ اور انٹریو یونیورسٹی آف تربت ایکٹ 2012 اور ایچ ای سی آرڈیننس 2002 کے (آرٹیکل 2) کو پاوں تلے روند کر راتوں رات (without through proper channel) شفارش کرکے ڈارکٹ 22 گریڈ عہدہ پر پوسٹ کیا۔
زیر نظر تصویر اور اپوائمنٹ آڈر کوئی عام آدمی یا معمولی شخص کا نہیں بلکہ یہ ظہور بلیدی صاحب کا (ٹوئیٹر اکاونٹ مینیجر) ڈاکڑ منصور احمد ولد سیٹھ علی محمد شاہل کا ہے جو ظہور بلیدی صاحب الیکشن کمپین کا خرچہ اٹھاتا ہے۔
ظہور بلیدی صاحب کا شفارشی فرو وی سی کی ناقابلیت اور ایچ ای سی آرڈیننس 2002 اور آرٹیکل، ثبوت اور دلیل کے ساتھ نیچے واضح طور پر کئے گئے ہیں تاکہ قابل فہم لوگوں کو یقین ہو یہ باتیں صرف الزام نہیں بلکہ حقیقت ہیں، اس بندے کو کیوں اور کس مقصد کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔
ایچ ایی سی (آرڈیننس 2002 , آرٹیکل 3) کے مطابق پرو وی وسی کی امیدوار کی قابلیت یہ ہیں۔
1۔ پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہو۔
22-2گریڈ کا فُل پروفیسر ہو۔
3- کم از کم 20 سال کا ٹیچنگ تجربہ ہو۔
4-عمر کم از کم 45-65 تک کا ہو۔
5- 14قومی اور بین القوامی ریسرچ جنرل میں بپلیکشن ہو۔
الحمداللہ تربت یونیورسٹی نے ان تمام ریکوائرمنٹ کو رد کرکے یہ ثابت کر دیا کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہوگا۔ باقی فیصلہ عوام کا ہے۔
ہم حکام بالا سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ تربت یونیورسٹی انتظامیہ کے اس قسم کی سنگین بے ضابطگیوں(corruption) کا نوٹس لیں اور عوام الناس کا اعتماد دوبارہ بحال کریں باصورت دیگر وہ دن دور نہیں کہ عوام کا اعتماد تعلیمی ادارے ٹوٹ جائے گا۔ اگر حکومت وقت خاموش رہے تو تمام قابل اور لائق امیدواروں کے لیے ناامیدی مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ اس طرح کی سنگین بے ضابطگی عنقریب مستقبل میں تربت یونیورسٹی کی ساخت کو شدید نقصان پہنچائے گا۔