تحریر: عطا بلوچ

ھمگام آرٹیکلز

آئے روز قابض ایرانی حکومت بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے بہانے بلوچستان کی تقسیم کی باتیں کرتے ہیں ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ بلوچستان ایک وسیع سرزمین ہے ایک ہی وقت میں پورے بلوچستان کو ترقی دینا ممکن نہیں لہذاء اسے 4 حصوں میں، زاہدان ، چابہار ،زابل اور ایرانشہر میں تقسیم کرنے کے بعد حصوں کو ترقی دینا مشکل نہیں ہوگا ۔ اگر گہرائی سے سوچا جائے تو آج تک کسی بھی قابض نے اپنے مقبوضہ جات کو ترقی نہیں دیا ہے ہاں البتہ مقبوضہ ریاستوں کو عوام کو اقلیت میں یا ان کی نسل کشی کرنے کے بعد آباد کاروں کو لا کر اس ریاست کو صرف اپنے لوگوں کے لیئے ترقی دی ہے ۔ یہاں ایک اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ 1928 میں جب ایران نے برطانیہ کی مدد سے بلوچستان ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو اس وقت سے لے کر آج تک ایران نے بلوچستان کو ترقی دینا دور کی بات ہے آج تک بلوچستان انسانی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ۔ اب چار حصوں میں تقسیم کرکے اسے کیسے ترقی دیا جائے گا؟ یہاں ایک ذہن نشین ہو کہ بلوچ کی نسل کشی میں ایران نے تیزی لاِئی ہے اگر ایران نے گزشتہ 90 سال کے دوران بلوچستان کو ترقی دی ہے تو بلوچ نسل کشی کو صرف تیزی کر دیا ہے ۔

لیکن اصل میں انکا مقصد بلوچستان کو ترقی دینا نہیں بلکہ حصوں، حصوں میں بندر بانٹ کرنا ہے تاکہ بلوچستان کی وجود ہی باقی نہ رہے ۔

روان ماہ ایرانی پارلیمنٹ کے ایک نمائندے حبیب اللہ دہمردہ نے کہا تھا کہ بلوچستان کی تقسیم ہر حال میں ہوگی کیونکہ بلوچستان کا رقبہ بہت بڑا ہے اس لیے کسی کو بلوچستان کی تقسیم سے انکار نہیں ہونا چاہیے، دہمرہ کی اس بیان سے لے کر قابض ایران درجنوں بلوچستان کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے تین دن قبل ایران نے تین بلوچوں کو جھوٹے الزامات کے تحت پھانسی دی ہے ، وہ جو قابض ایرانی پردہ ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں یا فورسز کے ہاتھوں براہ راست قتل ہو رہے ہیں ان کا مسئلہ زیر بحث نہیں ہے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا یہی بلوچستان کی ترقی ہے؟

مگر آئے روز بلوچستان کی آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، بلوچستان کی ترقی اور بہتری کے بہانے ہر روز ایران کے مختلف شہروں سے بلوچستان کی آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کے لیے غیر مقامی لوگوں کو بلوچستان لایا جارہا ہے ۔

جس سے واضع ہوتا ہے کہ قابض بلوچوں کو بلوچستان میں اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔بلوچی زبان سے لیکر بلوچ ننگ و ناموس اور بلوچ ثقافت کو نیست و نابود تو کسی حد تک کر دیا ہے کیونکہ بلوچ بلوچی نام نہیں رکھ سکتے ہیں حتی ایران کو بلوچی پوشاک پہنے سے بھی تکلیف ہوتی ہے ، گزشتہ دو ہفتے قبل ایران نے ایک بلوچ اور ایک کرد طالبعلم کو اسی لیئے کالج سے نکال دیا تھا کہ انہوں نے اپنے قومی لباس زیب تن کیا تھا ، کل جمع نقاط یہ ہیں کہ بلوچستان اور بلوچ کی تہذیب قابض ایران کے زیر ساہے میں مکمل تباہی کے دہانے پر ہے اگر اسے نہیں روکا گیا تو!

بلوچ سماج کو ایران نے اس قدر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے کہ بلوچستان میں منشیات کو اس حد تک عام کر دیا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی مستقبل مکمل تباہ ہے ۔

دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو قابضین نے بلوچوں کے لیئے روزگار کے تمام دروازے بند کر دیئے ہیں ۔کام نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً ہمارے بھائی ڈیزل کے سمگلنگ کےلئے مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اور ہر روز قابضین کے افواج کے اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں ۔

جب تک بلوچ عوام خاموش رہیں گے اور ایران اور پاکستان کی دو قابض حکومتوں سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کریں گے، بلوچستان کے حالات جوں کے توں بگڑتے رہیں گے۔

بلوچ قیادت کو سوچنا چاہیئے کہ اگر وہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے حوالے سے خاموش رہے تو بلوچستان کو ایران ہر حال میں تباہ کر دے گا ۔

بلوچستان و بلوچ قوم کو بچانے کا واحد راستہ غلامی کی زنجیریں توڑنا ہے اور ہمیں بلوچوں اور بلوچستان کو غاصبوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔

 آزاد بلوچستان پائندہ باد