تشدد سے جڑے جذباتی کیفیات میں غصہ اور طیش بنیادی عنصر ہیں جو تشدد کے کسی بھی عمل میں شامل انسانی نفسیاتی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تشدد نہ صرف تشدد کو جنم دیتا ہے بلکہ بدلا لینے اور قربان ہونے کی نفسیاتی کیفیت کو مزید برانگیخت کرتا ہے۔ تشدد گزرتے وقت کے ساتھ اپنی ہئیت اور شکل کو تبدیل کرتا ہے۔ تشدد کی اس ہئیتی وضع میں تبدیلی کا اہم ترین عنصر انسانی جذبات ہیں ،انہی جذباتی کیفیات پر اگر قابو پانے کی کوششیں نہ ہوئیں تو تشدد رفتہ رفتہ اپنی اصل شکل سے نکل کر غیر منظم تشدد کے سانچے میں ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے، اور تشدد کے اندر ایک برقی لہر سی تیزی سے ابھرتی ہے، یہی شئے غیر منظمیت کی ابتدائی نشانیوں کو واضح کرتا ہے کیونکہ تشدد کا عمل جب مقصدیت سے نکل کر موضوعی بنیادوں پر رونما ہونے لگتا ہے تو ردعمل کی شدت اور حدت دونوں تیزی سے بڑھ جاتے ہیں اور تشدد خود اپنی اساس سے ہٹ جاتا ہے۔
جب منظم تشدد کے غیر انتظامی سانچھوں ڈھلنے کے آثار نمودار ہوتے ہیں تو لیڈرشپ کا کردار ادھر نہایت ہی زیادہ معنی خیز بن جاتا ہے۔ رہنماء کے اندر فرشتوں جیسی صفات تو نہیں ہوتیں لیکن بشری نفسیات و تقاضوں کے باوجود اس میں اتنی اہلیت لازمی ہونی چاہیئے کہ وہ تشدد کے عمل میں شامل اور تشدد کو نہایت قریب سے دیکھنے، سہنے، بھوگنے اور بھرتنے والے اپنے ماتحت لوگوں کی جذبات کو شعور کی کڑی میں پرو کر تشدد کے منظم اساس کو غیر منظم سانچوں میں کسی بھی صورت ڈھلنے نہ دیں، کیونکہ منظم تشدد ہی طویل المدتی استقامت کا ضامن ہے۔ تشدد کی اساس کیا ہے؟جب کسی کو یہ یقین ہوجائے کہ فلاں دشمن ہے اور اس نے دشمنی میں ہمیں اجتماعی اعتبار سے کون کون سے نقصان پہنچائے ہیں یا ہنوز وہ نقصان دیتے آرہے ہیں تو تشدد ایک مضبوط سیاسی سہارے کے طور پر سامنے آتا ہے، کہ اس نقصان سے بچنے کا واحد اور یقینی حل تشدد ہے، اجتماعی نقصانات میں کالونائزیشن اور غلامی بدترین اور شدید ترین نقصان میں گنا جاتا ہے۔ بنیادی عمل اس کالونائزیشن اور غلامی کو قوم کے سامنے آشکار کرنا ہے، عام لوگوں کو سیاسی تعلیم کے ذریعے شعور کے اس بنیادی معیار تک پہنچانا کہ جہاں وہ اپنی غلامی کا ادراک کرنا شروع کردیں۔
غلامی بذات خود تشدد سے قائم ہوجاتی ہے اور جب غلام قوم اپنی غلامی کے خلاف شعور و آگہی کی طرف بڑھنے لگتا ہے تو کالونائزر کی طرف سے تشدد کی لہر مزید بڑھ جاتی ہے اور تشدد کے توڑ کے طور پرغلام قوم کو بھی تشدد کو بطور سیاسی سہارے کے قبولنا پڑتا ہے۔ جب معاملات خالص سیاسی حل کے دائرے سے نکل جائیں تو مزید سیاسی سہارے تلاشے جاتے ہیں اور تشدد سیاسی سہاروں میں سے ایک فیصلہ کن سہارہ ہے جو سیاسی عمل کو اپنے نتائج کے حصول کے لیئے مدد دیتا ہے۔
تشدد بذات خود کچھ نہیں بلکہ سیاسی عمل کے لیئے ہی ایک آلہ و وسیلہ ہے۔ اسکے بعد تشدد کی کاٹ کے لیئے مزید تشدد کا استعمال کیا جاتا ہے اور پھر کامل جنگی سماں پیدا ہوتا ہے اور دونوں فریق اس جنگ کو قبولتے ہیں اور اسے جیتنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ اب امن ایک خواب بن جاتا ہے، اب تشدد ہے اور اسکے جواب میں مزید تشدد، تشدد کےبطن سے جنمے ہوئے مسخ لاشے، ان سے رستی ہوئی لہو کی بوندیں، ٹوٹی ہوئی انگیاں اور کال اتارے ہوئے چہرے اور چوکوں چوراہوں پر گھسٹتی اور جنسی تشدد کا شکارہوتی بیٹیاں، یہ تمام کربناک حالات پیدا ہی اس لیئے کیئے جاتے ہیں کہ قابض کے خلاف منظم سیاسی عمل کمزور ہوجائے اور تشدد اپنی انتظامی اساس سے نکل کر بے ہنگم شکل میں ڈھل جائے۔ بدلے کا جذبہ اور بڑھ جائے، جذبات تشدد کی اساسی شعور پر غالب آجائیں اور اسی بد نظمی سے فائدہ اٹھا کر دشمن اس تشدد کی شعوری اساس کو جڑ سے ختم کرسکے۔
اب تشدد کی یہ نفسیات عمومی بن جاتی ہے اور ہر طرف لوگ تشدد کو خوش آمدید کہتے ہوئے بیشتراوقات خود اسکا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔ کچھ شوقیہ ساتھ ہوتے ہیں پھر عمل میں کندن بن جاتے ہیں اور بیشتر شوقیہ جاتے اور تھک ہارکر اپنا اور اجتماعی عمل دونوں کا نقصان کرواکر آتے ہیں۔
فینن کہتے ہیں کہ “ڈی کالونائزیشن ایک خالص متشدد عمل ہے”، جو تشدد کی بنیاد سے شروع اور مزید بے رحم تشدد کے سہارے ختم ہوجاتی ہے اور قومیں آزاد ہوجاتی ہیں، ماضی میں کالونائزیشن اور ڈی کالونائزیشن کا عمل براہ راسست تشدد کے استعمال پر منحصررہا ہے لیکن درمیانی عرصے میں بلواسطہ تشدد نے بھی ڈی کالونائزیشن کے عمل میں مدد کی ہے، لیکن اب کی نیو لبرل بین الاقوامی نقشے میں معاشی ہیجان کی اپنی تسلیم شدہ کردار ہے، تشدد جہاں آزادی کے لیئے ایک لازمی عنصر ہے وہیں خود غلامی سے آزادی کی سفر کے دوران تشدد اپنے اندر بھی بہت سے پیچیدگیاں اور تضادات جنم دیتا ہے، کیونکہ تشدد کوئی میکانیکی یا کمپیوٹرائزڈ عمل نہیں کہ جو کسی پروگرامنگ کے تحت جیسے ایک بارترتیب دیا ویسے چلتا چلا گیا، تشدد میں شامل تمام عناصر میں سے اہم ترین عنصر خود انسانی نفسیات اوراسکی ذہنی ساخت و وسعت ہے، بندوق نئے ہوسکتے ہیں، سازوسامان جدید میعارات کے مل سکتے ہیں، تاریکی میں دیکھنے والے نائٹ وژن اور بہترین نشانے لگانے کے قابل بندوقیں مل سکتی ہیں، دور ترین رینج تک مارنے والے ہتھیار اور کم دورانیے میں بڑی تباہی مچانے والی بارود بھی دستیاب ہوسکتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود ان سب کا استعمال، کب استعمال، کہاں پر استعمال کیسے استعمال اور کس پر استعمال کی تمام تر فیصلہ انسانی ذہنی استعداد پر منحصر ہے، اور انسانی ذہن بذات خود کئی کمزور رویوں کا شکار رہتا ہے، استقامت اور معروضی بنیادوں پر فیصلہ ہی کسی عمل کو بہترین نتائج دے سکتا ہے۔
جب ڈی کالونائزیشن کے جہد و عمل میں تیزی آتی ہے، تشدد اور اسکے رد عمل کی شدت بڑھ جاتی ہے دونوں طرف سے نقصانات بھی زیادہ ہوتے ہیں، لوگ مارے جاتے ہیں، ٹارچر کیئے جاتے ہیں، انسانی جسد کو نہ گفتہ بہہ حالت تک تشدد کرکے انکے مسخ شدہ ڈھانچے پھینک دیئے جاتے ہیں، سینکڑوں لوگ ایک ساتھ مار کر اجتماعی قبروں میں گاڑ دیئے جاتے، قابض قوتیں ایرئیل بمبارمنٹ کے ذریعے یا ٹینک اور توپوں کے ساتھ حملہ آور ہوکر گاؤں کے گاؤں کو ملیامیٹ کرکے صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں اور اسکے ساتھ جب تشدد کی انتہائی حد آجاتی ہے تو پھر نفسیاتی تشدد کا دور شروع ہوتا ہے جس میں کالونائزر کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں لوگوں کی عزت نفس پر حملہ کیا جاتا ہے، انکی عورتوں کو بندی بنایا جاتا ہے، انہیں جنسی و جسمانی تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے اور کئی دیگر طریقوں سے انکی بے توقیری کی جاتی ہے۔
آج کی سوشل میڈیائی ابلاغی ذرائع کی آسان حصول کی وجہ سے لوگوں پر دباؤ بڑھانے اور انہیں نفسیاتی لحاظ سے بے توقیر کرنے کی کئی چنداں طریقے نکل آئے ہیں۔ تو پھر ایسے میں تشدد سے جڑے بہت سے لوگ معروضیت سے نکل کرموضوعی اعتبار پر شخصی، ذاتی یا گروہی بنیادوں پر سوچنے لگتے ہیں، لیڈر، کمانڈ اور منتظمین پر ہرطرح کی دباؤ بڑھنے لگتی ہے اور تعقل پسندی کی گراف انتہائی نچلے درجے تک جاتا ہے، کیونکہ وہی لوگ اس تشدد کی ننگی ناچ کو بہت ہی قریب سے نہ صرف مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ اسکی حدت اور شدت کو اپنے متعلقہ لوگوں پر برداشت کررہے ہوتے ہیں، اجتماعی سزا کی یہی فلسفہ ہے قابض ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ جہدکار کی مضبوط اعصاب کو کسی صورت توڑا جائے اور اسے تعقل پسندی کے درجے سے جذباتیت کی نہج پر لاکر آسانی کے ساتھ شکست سے دوچار کیا جائے، ایسا نہیں ہے کہ یہ رویہ صرف قابض کے خلاف برسرِپیکار جہدکاروں میں پائی جاتی ہے بلکہ خود قابض کی عسکری صفوں میں بھی ایسے ہی خلاف عقل و منطق اور جذباتی سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن وہاں پر انتظامی بندوبست اور روایتی عسکری ڈھانچے کی وجہ یہ چیزیں قدرے کم ہوتی ہیں۔
جنگی سرگرمیوں میں شامل تمام لوگ کہیں نہ کہیں تشدد سے نہ صرف متاثر ہوتے ہیں بلکہ وہ تشدد کے ننگے پن کو کسی دوسرے انسان کے نسبت زیادہ قریب سے دیکھتے اور بوجھتے ہیں، فوجی زندگی میں جہاں ماحول انتہائی سخت، لہجے انتہائی کرخت اور رویے زیادہ تر غیر دوستانہ اور پروفیشنل ہوتے ہیں وہاں کسی بھی انسان کا اعصابی بنیادوں پر ٹوٹنا، کمزور پڑجانا، شخصی طور پر بکھرنا اور اپنے حلفیہ وعدوں سے سوا اقدامات اٹھانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔
تربت کے اندر پاکستانی فوج پر ہونے والے ایک دھماکے کے بعد جس طرح ایک فوجی نے ماں باپ کے سامنے ماں ہی کے چنری سے ہاتھ پیر باندھ کر جس طرح حیات بلوچ کو پوائنٹ بلینک رینج سے آٹھ گولیاں ماریں وہ منظم تشدد سے کہیں آگے کی متشدد نفسیاتی پہلو سے در آنے والے اثرات کا مظہر تھا، بدلے کا جنون اور خون آشام جذباتیت کے سائے جب سامنے اس فوجی کے ساتھیوں کی ٹوٹی پھوٹی اور خون سے لتھڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں تو ایسے میں اس کے کسی دوسرے سامنے والے کو قتل کرنا اپنی نفسیاتی جذبات کی آگ پر پانی ڈالنے جیسا ہے، وگرنہ حیات بلوچ اور نہ ہی اسکے باپ بھائی کسی بھی طرح کے آزادی یا پاکستان مخالف جہد میں شامل رہے ہوں، یہ تشدد کی غیر منظم شکل ہے یعنی جائے وقوعہ پر بے ساختہ فیصلے لینا اور حساب برابر کردینا، جس سے یقیناً قابض کو بہت بڑا دھچکہ لگتا ہے کیونکہ حیات بلوچ کو مارنا صرف بدلہ لینے کی نفسیات ہی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ یہ عمل تشدد کی کمزور انتظامی رویوں کو درشاتا ہے، اور آنے والے کئی وقتوں تک اس مثالیئے کی چھاپ موجود رہیگی۔
پروفیشنل فوجی زندگی میں زیادہ تر تعلقات ماتحت اور آفیسر کے ہوتے ہیں وہاں دوستانہ ماحول بہت ہی کم بنتے اور نبھائے جاتے ہیں، لیکن دوسری طرف جد و جہد کے میدان میں مزاحمت کاروں کے بیچ تعلقات ماتحت و لیڈر کے ہوتے ہوئے بھی بیشتر اوقات دوستانہ ہوتے ہیں، رضاکارانہ اور تنخواہ دار عسکری میدانوں کی مجبوریاں یقینا ًالگ ہی ہوتی ہیں، چونکہ رضاکارانہ جد و جہد میں اوپر کی سطح سے لیکر نیچے کی پرتوں تک ایک رابطہ اور تعلق قائم رہتا ہے تو اسی بنیاد پر وہاں غیر منظم تشدد کی ہئیت و ماہیت قبضہ گیر کی عسکری بد انتظامی سے الگ ہوتا ہے، اور لیڈرشپ کو پالیسی سازی اور نفاذ میں جہدکاروں کی طرف سے سنگین دباؤ اور پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پروفیشنل عسکری ڈھانچے میں اوپر سے آئے ہوئے احکامات کی بجا آوری لازمی ہے لیکن جہدکاروں کے درمیان بیشتر نکات پروسیع پیمانے پر مشاورت ہوتا ہے تب جاکے کوئی احکام صادر کیا جاتا ہے، یہ چیز تشدد میں شامل ڈھانچوں کی ہئیرارکیکل مجبوری و لوازمات کی وجہ سے ہوتی ہے، اب یہ چیز لیڈرشپ کی معیاری حکمت عملیوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ بے رحم تشدد کے نفسیاتی دباؤ میں کہے جانے والوں ان تمام باتوں، مطالبات اور دیئے جانے والے مشوروں پر کس طرح عمل کرتا ہے کیونکہ فیصلہ کن رائے لیڈر کی ہوتی ہے اور کم از کم اس فیصلہ کن رائے پر کسی کی ذاتی مفاد، انفرادی لالچ اور ضد و عناد کا بوجھ کسی بھی صورت نہ ہو، کیوبن جنگ کے دوران سئیرا مائسٹرا میں ایک شخص کو پکڑا گیا جس پر مزاحمت کاروں کے لیئے لائے جانے والے مال مویشیوں کے چوری کا الزام تھا اسکے ساتھ ایک اور شخص “ایکیویریا” کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا گیا جو کہ گرانما کیوبا میں تعینات ایک کامریڈ کا بھائی تھا، اسکو بھی قتل کردیا گیا اور بعد میں چے گویرا نے اپنے ڈائری میں اسکے بارے لکھا تھا کہ ” اسے اپنی کرتوتوں کی قیمت چکانا ہی تھا”۔
انسانی نفسیات میں تشدد کے گھناؤنے عمل کو مجبوری میں شروع کیا جاتا ہے، بعض لوگوں کے ابتداء میں لیئے یہ ایک بھیانک عمل ہوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ تشدد کا عمل نارملائز ہوجاتا ہے اور ایک عادت سی بن جاتی ہے، اور تشدد میں شامل لوگوں کو کسی دوسرے کو قتل کرنے کا عمل بہت ہی اطمینان بخش لگنے لگتا ہے، یہ رویہ عمومی ہے لیکن لیڈرشپ کی طرف سے یا پھر کسی جہدکار کی اپنی شعوری بالیدگی کی وجہ سے، لیکن اس رویے کو کنٹرول کرنا از بس ضروری ہے۔
ڈاکٹر چے گویرا ایک جگہ اپنے والد کو خط میں لکھتے ہیں کہ ” میں یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں پاپا، اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ مجھے لوگوں کو قتل کرنے میں بہت مزہ آتا ہے”، امریکی سروس مینز کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ جب وہ کسی بیرونی محاذ جنگی سے واپس لوٹتے ہیں تو ان کو واپس سماج میں گل مل جانے اور معتدل اندازعمل اپنانے کے واسطے باقاعدہ ریسوشلائیزیشن کے عمل سے گزارا جاتا ہے تاکہ بیرونی محاذ پر تعیناتی کے دوران انکے نفسیات میں پیوست تشدد کی گہرے چھاپ اور رویوں کی کرختگی کو کم کیا جاسکے۔
لیڈر شپ اور کمانڈ اینڈ کنٹرول تشدد کی پیچیدگیوں اور بے راہ ریوں کو منظم کرنے اور انہیں ہمہ وقت مقصدیت سے جوڑے رکھنے کے لیئے نہایت ضروری ہے، کیونکہ لیڈرشپ عموما مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں جو نقصان سے لاپرواہ تو نہیں ہوتے لیکن کسی ذیلی سطح کی دوسرے بندے کےبہ نسبت وہ نفع و نقصان دونوں صورتوں میں کھلے دل اور ٹھنڈے دماغ کے ساتھ معروضی حقائق کی بنیاد پر سوچتے اور انتہا کی تعقل پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایک لیڈراس لیئے اہم ہوتا ہے کہ وہ ہر شئے اور عمل کو جد و جہد کی اجتماعی میدان پر پڑنے والے اثرات کی نظریے سے دیکھتا اور سوچتا ہے کہ اس سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں، وہ کسی عمل کو لے کر خوش فہمیاں پالنے کے بجائے اس عمل کی نتیجے میں سرزد ہونے والے نفع و نقصان کی تجزیے پر فیصلے کرتے ہیں اور انہی بنیادوں پر اس عمل کو دیکھتے ہیں، اپنا بیٹا قربان کرنا دوسروں کے بیٹے قربان کرنے سے شاید ہی سہل تر عمل ہو مگر لیڈر ہر ماتحت کو، اپنی جہدکار ساتھی کو ایک فرزند ہی کی طرح دیکھتا ہے اور اگر وہ حقیقت میں کوئی رہنما ہے تو وہ تشدد کے معروضی اغراض کے بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے کہ کوئی مخصوص فیصلہ کس حد تک اجتماعی مفادات کو فائدہ پہنچا سکتا ہے،نام و نمود کے لیئے اور اپنی ذاتی انا کے لیئے سخت ترین فیصلے کرنا ایک مخصوص مدت تک ایک مخصوص شخص یا گروہ کو تو فائدہ دے سکتا ہے لیکن اس کے ثمرات اجتماعی جہد کے لیئے سراسر نقصان کی ہی صورت میں نکلتے ہیں۔
لیڈرشپ دباؤ میں آکر فیصلہ کرے یا پھر مشاورت کی بنیاد پر اکثریتی رائے کو تشدد کے انتظامی فیصلوں میں استعمال کرے تو پھر اسکے نتائج انتہائی غیر منظم تشدد کے شکل میں نظر آئیں گے، تشدد میں ملوث اداروں کے اندر حمکت عملیوں کی مرکزیت اور نفاذ کی راہ میں کم سے کم دباؤ ہی ایک منظم تشددد کو پروان چڑھا سکتے ہیں، جہاں حدود و قیود اور ادارے کی ہئیرارکی کی اہمیت اور تزویراتی فیصلہ سازی میں لائق و فائق اور قابل ذہنوں کی شمولیت پر کوئی محض اس بنا پر انگلی نہ اٹھائے کہ بندوق میرے کاندھوں پر ہے، جاٹ میرے خالی ہیں، جوتے میرے پٹے پرانے ہیں، تین وقت کی روٹی مجھے میسر نہیں اور لک دق پہاڑوں کی ویرانیوں میں شب و روش میں بسر کروں اور میرے بندوق کی سمت، تشدد کے انداز و حجم اور کسی دوسری قوم کے ساتھ ہمکاری و اشتراک جیسے فیصلہ کوئی اور کیوں کرے، یہی غیرمنظم تشدد کے جنم کا پہلا نقطہ ہے جہاں منظم تشدد اپنی مرکزیتی اساس کو ختم کرکے غیر منظم تشدد کی طرف رواں دواں ہوجاتی ہے۔