آزادی کیا ہے؟ آزادی کس لئے اور کس کے لیے ؟ ریاست کیا ہے اورکس طرح ہونا چاہیے؟ ریاست کا اپنے لوگوں سے تعلق کس نوعیت کا ہوناچاہئے ؟ ریاست کی تشکیل کس طرح ہوگی؟یہ وہ سوالات ہیں جب کوئی قوم اپنی غلامی کی طوق کو اتارکراور اپنی قومی آزادی کیلئے جدوجہد کا آغاز کرتا ہےتوان کے جوابات تلاشنا شروع کردیتا ہے۔
ریاست کی تشکیل کا بحث 19ویں صدی سے شروع ہوتا ہے۔ میکس ویبر اور انتھونیو گرامسی نے ریاست اور اداروں کے حوالے سے مختلف نظریات قائم کیے۔
میکس ویبر کے نظریات میں تنظیموں میں ہرایک کی جوابدہی اور اداروں کی مضبوطی کے ساتھ ڈسپلن کی پابندی بھی شامل ہیں۔ ویبر نے free-stateکو ریاست سے الگ کیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ موروثی بادشاہوں نے اپنے گھریلوکام کرنے والے لوگوں کو خود مختار بیوروکریسی میں منتقل کیا جس میں ریاست کو ایک قانونی شکل میں تو سیع دیا گیا۔ نیدرلینڈ کی صوبوں کی متحدہ یونین کا اتحاد اور یکجہتی کی شکل بھی اسی نظریہ کی مثال ہے۔ جبکہ اٹلی کے جیل میں قید گرامسکی نے لکھا کہ غالبانہ سماج میں class actorجس نے غالبانہ کلچر کو شکل دی ،نے ریاست کی تشکیل کی اور ریاست کو ایک شکل دی۔جبکہ اسٹین روکن اپنی کتاب state formation, nation building and mass politics in europe میں کہتا ہے کہ جدید فرانس کی انقلاب اور نیپولین کی جنگ و جدل کے بعد سیاسی نظام نے قومی آزادی حاصل کی اور ریاست کی تعمیر کی۔
مادروطن کی مانگ اور چاہت زیادہ ہوا جس میں بیلجیم کی نیدرلینڈ کے خلاف 1931میں جدوجہد آزادی، لگسمبرگ کی ڈچ کے خلاف 1831میں ریاست کی تشکیل کی مانگ،ناروے کی ڈنمارک پھر سویڈن کے خلاف 1915,1905میں جہد اسی طرح الگ ریاست کی تشکیل کے لیے آئیس لینڈ کی تشکیل ریاست کا پروسس جو تین مراحل 1903,1918,1944میں مکمل ہوا کہ جس نے ڈنمارک سے آزادی لی۔ فن لینڈ جو روس کے ساتھ تھا نے اپنی ریاست کی تشکیل بھی کی اور الگ ملک کے طور پر دنیا میں نمودار ہوا۔ جبکہ یورپ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد اسٹریا اور ائرلینڈ نے ریاست کی تشکیل کی۔ اسٹریا قابض کی تقسیم کی وجہ سے وجود میں آیا جبکہ ائرلینڈ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔
جبکہ دوسری طرف چارلس ٹلی نے کہا کہ جنگ نے ریاست بنائے اور ریاست نے جنگ بنائے۔ اس کے مطابق ریاستوں کے اندر تصادم، تنازع اور ٹکرائونے ریاستوں کو کمزور کرکے دوسرے قوموں کو قابل بنایا کہ وہ اپنے قومی ریاستوں کی تشکیل کرسکیں۔ جبکہ دوسری کتاب tribe and state formation in the middle east کتاب میں لکھا ہے کہ ملک ایک سرحد اور بانڈری پر منسلک ہے جس سے وہ اپنا اتھارٹی قائم کرتا ہے۔ اور اس پر قانونی حکمرانی افسانہ سمبل پر دلالت کرتا ہے جو اس سرحد پر حکمرانی کے لیے منطقی نظریاتی جواز فرہم کرسکے۔
کتاب کے مطابق افریقہ مڈل ایسٹ میں رضاکارانہ اور ارتقائی عمل سے فرسودہ نظام سے نکل کر نئی شکل میں ایک قومی اور نیشنلزم کے تحت اپنی قومی اور ریاستی تشکیل میں کامیاب ہوئے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ قبائل ریاست کے پیش روہے، ” tribes are precursors of the state”اور قبائل بھی ریاست اور قبائل کے ایک ساتھ بقائے باہمی کیلئے فخرمند تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قبائل نے اپنے زیادہ تر پاور اختیار ریاست کو منتقل کئے اور اسی طرح ریاست قبائل سے زیادہ طاقتور ہوا جہاں انسانوں کے لئے ریاست نے ماں کا کردار ادا کیا۔
ریاست کی تشکیل مختلف قوموں نے مختلف طریقہ سے کیا جس میں نیشنلزم نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ریاست کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ قوم کو ایک کیا جائے بجائے کہ قابض کے پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر قوم کو آپس میں قربانی کی بکرے کی طرح بانٹ کر تقسیم کیا جائے۔ بلوچ قومی تحریک بھی اپنے ریاست کی بحالی اور تشکیل ریاست کی تحریک ہے اس میں قابض جس کی عمر بلوچ ریاست کے مقابلے میں صدی اور دن کی مانند ہے۔ بلوچستان جس کی صدیوں کی تاریخ ہے، اسکے مد مقابل قابض پاکستان کی عمر دن کی ہے جس کو انگریز نے اپنے مفادات کے لیے بنایا تاکہ وہ خطے میں اسکی ایک پراکسی اور نرسری کا کردار ادا کرسکے۔
ریاست کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ بلوچ اپنا تعلق اپنے تاریخ وثقافت ،قومی ہیروز اور روایات سے جوڑے رکھیں۔ قابض کی قبضہ گیریت سے پہلے قبضہ گیریت کے مائنڈ سیٹ اور ذہنیت سے نکل کربلوچ بن کر اپنے قومی ریاست کی تشکیل کریں۔ بلوچ قومی تحریک کا مسئلہ قبائلیت ، لسانیت ، مذہبیت وعلاقائیت نہیں خود قابض پاکستان اور اسکی منفی ماننڈ سیٹ ہے جو بلوچ قومی تحریک اور بلوچ ریاست کی تشکیل کے سامنے چٹان کی طرح موجود ہے اور اس چٹان کو راستے سے ہٹانے سے پہلے ریاست کی تشکیل ناممکن ہے۔
کسی بھی ریاست کا سب سے بڑا مسئلہ آج بھی کرپشن اقربا پروری اوراداروں کی غیر فعالیت و تصادم ہے ناکہ علاقائی پرستی ، پارٹی بازی اور قبائلت ہے۔ اگر اج قومی تحریک میں یہ مسئلہ ہوں تو کل کا آزاد بلوچستان بنانا ریپبلک، چاڈ، سوڈان، شمالی کوریا سے بدتر ہوگا۔ اگر ان مسئلوں کا حل ڈھونڈ کر بلوچ قومی تحریک جو آزاد ریاست کی تشکیل کا نیم البدل ہے تو کل کا آزاد بلوچستان کرپشن اقرباپروری سے پاک اور قومی اداروں کی بالادستی اور شہدا کی لیگیسی سے بلوچ ریاست جرمنی جاپان سنگاپور سے بھی زیادہ خوشحال ہوگا۔ اگر قابض کے ان پیدا کردہ بیماریوں سے قوم نے نجات نہ پایا تو ہزاروں لوگوں کی قربانیوں کے بعد بھی جدوجہدبارہ اسکوائر ون پر ہی ہوگا۔
جب لوگوں میں شعور وعلم ،معلومات وآگہی کا فقدان ہو تو قابض اور قابض کے پروپیگنڈہ کا شکار لوگ عام لوگوں کا شکار کریں گے اور نن ایشو کو ایشو بناکر لوگوں کا دھیان قابض اور قومی ریاست کی تشکیل سے ہٹا کرنن ایشو کی طرف کریں گے جسکا نقصان جہد کو ہوگا۔ اگر ہم نے ایک قوم بن کرقومی تحریک کو قابض کے مائنڈ سیٹ کے ساتھ کرپشن، اقربا پروری اور لیگیسی ملکنگ سے بچایا تو قومی تحریک خود دشمن کے لیے ایک سردرد اور چیلنج کے ساتھ ،دنیا میںایک آزاد ملک کی مثال ہوگا کیونکہ قوموں کی تاریخ میں جہدکار آتے جاتے ہیں اچھے جہدکار قوم اور آنے والی نسلوں کو ایک اچھا نظام دیکر جاتے ہیں اور اپنا تاریخ ساز لیگیسی چھوڑ جاتے ہیں۔
جس طرح جارج واشنگٹن، لی کون یو، منڈیلا جنہوں نے اپنے قوم کو مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ صیحح سمت دیا اور آج چار سو سال بعد بھی ایک ہزار سے زیادہ امریکن نسلیں جاج واشنگٹن کے فکر وسوچ اور متعین کردہ راستے کی وجہ سے خوشحال ہیں ۔حالانکہ لیڈر تو چار سو سال پہلے گیا لیکن اسکی لیگیسی اسکے راستے کے چنائو کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔
اسی طرح میگنا کارٹا جیسا نظام برطانیہ کے لیڈرشپ نے 1215میں دیا لیکن برطانیہ کے آج بھی بارہ ہزار سے زیادہ نسلیں انہی پرگرام کی وجہ سے خوشحال ہیں جبکہ افریقہ شمالی کوریا افغانستان چاڈ جیسے ممالک میں لوگ قابض سے غلامی کے بعد بھی خوشحالی سے ایسے دور ہیں جیسے کہ بلوچستان سے پیدل امریکہ کیونکہ وہاں لیڈرشپ نے وژن ،ذانت وفکر کے فقدان کی وجہ سے پروگرام راستہ اور سمت دینے کے بجائے دوسروں کی لیگسی ملک کرتے ہوئے ہزاروں لوگ مروائے۔ اپنے لیے کرپشن اور اقربا پروری کے راستے چنے اور خود بھی مرے لیکن اپنے ساتھ اپنی ہزاروں نسلوں کو بھی غربت بھوک افلاس وبے روگاری کے ہاتھوں عالم ِنزع میں رکھا۔ جس کسی نے ریاست کی تشکیل کے مراحل یا کہ بعد جو صیحح سمت یاراستوں کے پرگرام دیے اس لیڈرشپ کی موت کے بعد اسکی سینکڑوں نسلیں آباد اور خوشحال ہیں ۔جن لوگوں نے اپنے کرپشن اقرباپروری اور لیگیسی ملکنگ سے ریاست کی تشکیل کے دوران یاکہ بعد اگر غلط سمت کا چنائو کیا آج انکے اقوام نسل در نسل عذاب میں ہیں۔