ہمگام کالم:
ہر انسان بولنا چاہتا ہے، اپنا نقطہ نظر رکھ کر اس کا اظہار کرنا چاہتا ہے، کسی معاملے میں آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ ان سب کے ساتھ انسان آزادی بھی چاہتا ہے، سوچھنے کی آزادی، بولنے کی آزادی، دوستی و دشمنی رکھنے کی آزادی مندرجہ بالا عوامل کا وجود اور ان کا رائج کرنا جمہوریت کہلاتا ہے جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
جمہوریت اور جمہوری اقدار کا وجود رکھنا کسی بھی ادارے، تنظیم، معاشرے اور انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری اشیاء ہیں۔ ترقی کی راہ بھی اسی نقطہ آغاز سے شروع ہوکر آگے بڑھتی ہے لیکن ستم ظریفی تو دیکھیئے کہ ہماری ذہنیت کچھ اس طرح سے بنی یا بنائی گئی ہے کہ ہمیں جمہوریت، اصول و قوانین و ضابطوں کا شائد ہی علم ہو کیونکہ ہمارے رویے تو ہر معاملے میں سطحی اور انتہائی بچگانہ ہیں۔ ہمارے ہاں معیار یہ ہے کہ اختلاف رکھنے یا آزادی سے اپنی رائے دینے کی صورت میں صحت مند بحث کی بجائے گالیاں، الزامات اور ہلڑ بازی کا سامنا رہتا ہے، نہ تحقیق کرنے کی زحمت کی جاتی ہے اور نہ ہی سچ اور جھوٹ کے فرق کو سمجھنے اور جاننے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے بس ایک خاص زاویے سے سوچھنے اور نقطہ نظر سے نہ سوچھنے اور اس سے اختلاف رکھنے کی صورت میں غیر شائیستگی، غیر سنجیدہ اور غیر مہذب طریقے سے مخالف کا منہ بند کرنے کی گھٹیا اور غلیظ انداز میں کوشش کی جاتی ہے۔
سیاست ہو کہ جمہوریت اس کا حسن ہی اختلاف کی آزادی اور سوال اٹھانے کی آزادی ہونی چاہئیے مگر ہمارے ہاں اس کو اتنا بڑا جرم بنا دیا گیا ہے کہ سوال دب گئے ہیں، اختلافی نقطہ نظر کی موت ہوگئی ہے اور ایسا ماحول بنادیا گیا ہے کہ لوگ اس کو کیچڑ سمجھنے لگ گئے ہیں اور کوئی اس میں ہاتھ ڈالنے سے ہی گھبراتا ہے۔
دنیا کی وہ کونسی قوم یا معاشرہ ہے جہاں تضادات نہیں ہوتے؟ تضادات ہوتے ہیں اختلاف ہوتا ہے مگر دوسرے لوگ ان سے سیکھتے ہیں اور ان کو ہی اپنی طاقت بنا کر اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ معاشرہ مضبوط ہوسکے اور ایسی غلطیوں کا تدارک ہو جن سے معاشرہ جمود کا شکار رہے، اس سے سوچھنے کی، تحقیق کرنے کی، اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی نئی راہیں کھلتی ہیں لیکن اگر ہم اس سب کو کھلے دل سے قبول کرنے کی بجائے اس کو گناہ بنادیں تو بہتری کی گنجائشیں بھی مدھم پڑھ جاتی ہیں۔
اس وقت رابطے کے دیگر ذرائع اور میڈیا کی عدم دستیابی کی وجہ سے بلوچ سیاسی و سماجی کارکنان سوشل میڈیا کو اپنا فورم بنا چُکے ہیں جہاں وہ کھل کر اپنی بات کر سکتے ہیں جہاں سنسرشپ نہیں ہوتی، آپ کے نقطہ نظر کو کسی ایڈیٹوریل بورڈ سے ہوکر نہیں گزرنا پڑتا اور آپ کی حقیقی بات آپ کے پڑھنے والوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت تقریباً پوری بلوچ سیاسیت سوشل میڈیا کے ذریعے آگے بڑھ رہی ہے مگر سوچھنے کی بات یہ ہیکہ کیا ہم اس کو موثر انداز میں استعمال کرپارہے ہیں یا ہمارا مقصد صرف اپنے مخالف کو زیر کرنے اور اس کی زبان بندی کرنے کی کوشش تک محدود ہے؟
تضادات اور اختلافات رکھنا کوئی غلط بات یا کوئی جرم نہیں بلکہ غلطی کی صورت میں اس غلطی کو دوام دینا، بڑھاوا دینا یا اُسی کو آگے لیجانا نقصاندہ ہوتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ غلط ہونے یا غلطی کرنے کی صورت میں اس کی تصحیح خود احتسابی سے بہت ہی کم کرتا ہے بلکہ اس غلطی کو غلط طریقے سے چھپانے یا اس کی نشاندہی کرنے والے کو غلط ثابت کرنے کے تگ و دو میں مصروف ہوجاتا ہے۔ بلوچ سماج اور مہذب معاشروں میں تہذیب، شائستگی، سنجیدگی اور راست گوئی انسانی ارتقاء کی بہترین مثالیں ہیں لیکن ہمیں یہ نا چاہتے ہوئے بھی مان لینا چاہئے کہ ہم میں اب یہ ساری خصوصیات وجود نہیں رکھتیں یا ہم اخلاقیات کی گراوٹ میں اس قدر نیچے گر گئے ہیں کہ ندامت نام کی کوئی چیز ہمارے آس پاس نہیں بھٹکتی۔
بات ہورہی ہے تضادات کی، اختلاف کی، اخلاقیات کی، حقائق کی، سچ اور جھوٹ کی تو میں نے سوچھا کہ جو کچھ ہمارے آس پاس ہورہا ہے اس پر میں بھی چار الفاظ لکھ لوں تاکہ شائد سچ سامنے لانے کی اس کوشش میں کوئی کردار ادا کرسکوں۔
کچھ دن پہلے شہید منان بلوچ کی برسی کے موقعے پر بی این ایم کے مرکزی ترجمان دلمراد بلوچ نے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہید منان بلوچ نے بلوچ سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کے لئے بہت کوششیں کیں اور ان کوششوں کے درمیان انہوں نے کئی دفعہ دوسرے بلوچ رہنماؤں سے رابطے کرنے کی بھی کوشش کی، ان کوششوں میں انہوں نے خصوصاً حیربیار مری کا نام لیکر الزام عائد کیا جہاں انہوں نے دو واقعات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ انہوں نے بات کرنی چاہی مگر حیربیار مری نے ان سے بات نہیں کی۔ اگر اس موقف کو حقائق کے سانچے میں ڈال کر دیکھا جائے تو ان کی یہ بات حقائق سے مکمل طور پر ہٹ کر کے ہے۔ انہوں نے گمراہ کرنے کی ایک اچھی کوشش کی مگر اس میں ان کی بات پوری رام کتھا نہیں ہوسکتی۔ میرے خیال کے مطابق اس کو بنیاد سے نہ دیکھنا اور یوں آدھی بات کر دینا ایک ناانصافی، بددیانتی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہید ڈاکٹر منان نے تو صرف فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر فون کرنے سے پہلے جو وفد انہی مسائل، تضادات اور اختلافات کو حل کرنے کی کوشش میں آپ کے پاس آیا اور اور چار مہینے رہ کر گیا اس کا کیا نتیجہ نکلا، کس سنجیدگی سے آپ نے اس کے ساتھ تعاون کیا، کس حد تک آپ کسی باہمی سمجھوتہ اور اتحاد کرنے کے لئے تیار تھے یہ سوالات تو اُٹھتے ہی ہیں۔
اس پوری رام کتھا کو سمجھنے کے لئے اگر بشیر زیب کا آرٹیکل “آزادی کی شاہراہ پر مختصر سفر۔۔۔۔ کچھ تضاد میرے سامنے” پڑھی جائے تو کافی ساری چیزیں کھل جاتی ہیں کہ مسائل حل کرنے کے لئے کون کس طرح سنجیدہ تھا اور کس نے کس حد تک ان کے حل کے لئے کردار ادا کیا یا کرنے کی کوشش کی۔ ایک وقت میں انسان ایک ہی کام کرسکتا ہے، یا تو مسائل حل کرسکتا ہے یا ان کو مزید الجھا سکتا ہے۔ ایک طرف کوئی مسائل الجھانے کے عمل میں ملوث ہو اور دوسری طرف یہ ڈھونگ رچائے کہ جی ہم نے تو مسائل حل کرنے کی کوشش کی مگر فلاں کے اس منفی عمل یا کردار کی وجہ سے ان کو سلجھا نہ سکے۔
بشیر زیب نے اپنے آرٹیکل میں سیاسی اور مسلح دونوں محاذوں پر پائے جانے والے تضادات اور اختلافات پر کھل کر تفصیل سے بات کی جس میں انہوں نے دونوں طرف کے مسائل میں ڈاکٹر امداد کے کردار کی وضاحت کی تھی اور دونوں اطراف ڈاکٹر اللہ نظر کو ڈاکٹر امداد کا حمایت کار و ہدایت کار ظاہر کیا۔ اب دونوں کردار زندہ سلامت ہیں ان کو پوچھا جائے کہ اس سب میں کتنی سچائی ہے؟ اگر سچائی ہے تو ان منفی کرداروں کے لئے کیا مقام تجویز ہے اور اگر جھوٹ تو اس طرح سے جھوٹ پھیلانے والے کا کیا مقام ہونا چاہئیے۔ اپنے آرٹیکل میں وہ ذکر کرتا ہے کہ “ڈاکٹر امداد کے روئیے کی وجہ سے میں نے ان سے کہا کہ اگر تمہارا رویہ یہی رہا تو میں تمہارے خلاف پریس کانفرنس کروں گا جس پر امداد نے جواب دیا کہ تمہاری بات پر کوئی یقین نہیں کریگا کیونکہ میں ابھی ابھی ٹارچر سیل سے اذیتیں سہہ کر نکلا ہوں” جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ظاہری طور پر اگر کسی ایسے مرحلے سے گزرا ہے جہاں اس نے کوئی قربانی دی ہے یا کسی تکلیف سے گزرا ہے تو اس کو 100 خون بھی معاف، اس کے اگلے پچھلے کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ اس ذہنیت سے صاف ظاہر ہے کہ کچھ جذباتی لگاؤ اور “اموشنل اٹیچمنٹ” کی بنیاد پر کوئی بھی آ کر کچھ بھی کرلے اس کو پوچھا جانا جائز نہیں۔
دنیا میں کہاں آج سے پہلے ایسا ہوا ہے کہ مسائل پیدا کرنے والے، تضادات کی ترویج و اشاعت کرنے والے، ان کو بڑھاوا دینے والے اور جلتی پر تیل کا کام کرنے والے آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کرے اور آپ نہ اگلا دیکھو نہ پچھلے کا خیال کرو اور باہیں کھول کر اس کی طرف دوڑ جاؤ، اگر کہیں پر کوئی معاملات بہتری کی جانب جانے ہوتے ہیں وہاں پہلے بہتری کا ماحول بنایا جاتا ہے جس کو انگریزی میں (Confidence Building) کہا جاتا ہے۔ نہ رویوں میں تبدیلی نہ ماضی میں کوئی ایسا کردار جس سے سنجیدگی اور مخلصی کے تھوڑے ہی سہی مگر آثار تو نظر آئیں۔ سنگت حیربیار مری سب سے پہلے ایک مجموعی قومی چارٹر سامنے لایا جو آزادی کا روڈ میپ کہلانے کے قابل تھا اس پر آپ نے کیا سنجیدگی دکھائی، چار مہینے تک ایک وفد آپ کے پاس آکر رکا مگر وہاں پر بھی آپ نے سرد مہری دکھائی اور یہ تاثر دیا کہ آپ اس میں بلکل بھی سنجیدہ نہیں ہیں ہاں ڈرامے بازی کرکے آج کل، آج کل میں وقت بہت زیادہ ضائع کیا، لیکن ہر بار یہ تو نہیں نہ ہوسکتا کہ آپ “لالی پاپ” دکھا کر وقت ہی ضائع کریں اور قوم کو اندھیرے میں رکھیں۔ میں کچھ بھی نہیں کہوں گا کیونکہ اسناد اور گالیوں کی “سی ڈی” بھری پڑی ہے بس چلانے کی دیر ہے مگر ان کے لاڈلے یار بشیر زیب نے خود ہی ان کی اصلیت سب کو بتا دی ہے۔
سنگت حیربیار مری ہمیشہ کہتے ہیں کہ اختلاف کرو، سوال کرو مگر دشمنی مت کرو، کیونکہ سیاسی اختلاف رکھنا چیزوں کو بہتری کی جانب لے جانے کا ایک ذریعہ ہے لیکن ہم نے سوال اور اختلاف کو دشمنی بنا دیا ہے۔ یہاں ایک واقعہ بیان کرنا شائد ضروری ہو کہ بی این ایم کے دوستوں نے صرف اختلافات کی بنیاد پر لندن میں موجود ایک شخص کے خلاف لیٹر لکھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس شخص کے گینگ وار گروپ، منشیات فروش اور ڈیتھ اسکواڈ سے تعلقات ہیں اور لندن آنے سے پہلے اس نے ان گروہوں کے ساتھ مل کر کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے اور یہ شخص برطانیہ میں امن عامہ کے لئے مسائل پیدا کرسکتا ہے کیونکہ یہ ایک جرائم پیشہ شخص ہے جس پر پولیس نے اس مذکورہ شخص کو گرفتار کرلیا، جب دوستوں کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے اس کو جیل سے نکالنے کی تگ و دو شروع کردی جس پر دوستوں کو موصول ہونے والا خط دکھا دیا گیا جو بی این ایم کے دوستوں نے اس کے خلاف صرف اختلافات کی بنیاد پر لکھا تھا اور اس پر سنگین الزامات لگائے گئے تھے، یہ لیٹر اب بھی دوستوں کے پاس موجود ہے۔ خیر دوستوں کی ذاتی ذمہ داری اور ضمانت پر وہ شخص رہا ہوا، اس شخص نے پہلے بی این ایم (شہید غلام محمد) میں رہ کر دوسرے افراد، سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں کو گالیاں دیں پھر کچھ وقت بعد بی آر پی میں شمولیت اختیار کرکے توپوں کا رخ دوسری جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کی طرف کردیں بشمول بی این ایم (شہید غلام محمد) کے جن سے صاحب کچھ ہی دن پہلے کنارہ کش ہوکر بی آر پی میں شامل ہوئے تھے، کچھ عرصے بعد یہی شخص بی آر پی سے مستعفی ہوکر بی این ایم میں شامل ہوا، جس کے خلاف بی این ایم کے دوست شکایتی خط لکھ چُکے تھے کہ یہ شخص بد کردار اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف کام کرچکا ہے، اُسی کو پھر اپنی پارٹی میں شامل کرلیا۔ اب وہ اس مورچے (بی این ایم) کو استعمال کرکے دیگر جماعتوں اور رہنماؤں کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ اب یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جو اختلاف رکھے تو آپ اس کی جان تک لینے اور اس کو دیگر بڑے سے بڑا نقصان دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور اگر آپ میں شامل ہوجائے تو جس طرح چاہے گند ڈال دے، غیر سنجیدگی اور غیر مہذبی کی تمام حدیں پار کرے، اخلاقیات اور بلوچ روایات کی دھجیاں اڑائے تو کوئی بات نہیں کیونکہ بندا کسی مخصوص پارٹی سے تعلق رکھتا ہے، اس طرح کے اعمال سے اس فرد پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر اس کے پچھلے کچھ سالوں کی ہی دما چوکڑیوں کو دیکھ لیں تو “ اس کے کردار کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے جو پاکستانی طرز “لوٹا سیاست” کو بلوچ آزادی پسندوں میں بھی احسن طریقے سے متعارف کررہا ہے، مگر آپ کی پارٹی اور اسکے اسٹینڈر سمیت سیاسی امیج پر جو اثر پڑتا ہے وہ آپ کے لئے اہم ہونا چاہئیے۔ یہ مثال میں نے اس لئے یہاں تحریر کی کیونکہ یہ باقاعدہ ہمارے سامنے ہونے والا واقعہ ہے باقی ان کو تو چھوڑ دیں جو پہاڑوں میں اور محاذ پر ہوئے اب وہ بھی آہستہ آہستہ آپسی اختلافات کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں، جس کی مثال گلزار امام عرف شمبے کی معطلی اور اس کے بعد اپنا الگ گروہ بنانے اور بی آر اے کی جانب سے بیان جاری کرنے سے لیکر شکوہ جواب شکوہ کی مانند ایک دوسرے پر الزامات لگانا شامل ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہیں اور پوری قوم نے دیکھی ہیں جہاں وہ ایک دوسرے پر محاذ کے دوستوں کو اختلافات کی بنیاد پر قتل کے الزامات لگاتے ہیں، ان منظر عام پر آنے والے واقعات کے علاوہ جو مبہم اور مبینہ انداز میں ہوئی ہیں جس میں شہید حکیم بلوچ، شہید حلیم بلوچ، شہید غنی بلوچ، شہید صالم بلوچ، شہید کمبر قاضی اور اس کے بعد وارث اور لیاقت کا قتل، فضل حیدر اور دیگر پانچ افراد کا قتل بی ایل ایف اور بی آر اے کے ایک دوسرے پر الزامات جو میڈیا میں بھی شائع کی گئیں، خلیل یعقوب کا قتل وغیرہ ایسے چیدہ چیدہ حقائق ہیں جو منظر عام پر آ چُکی ہیں جو ہمارے اندر اصول و ڈسپلن کو بہترین انداز میں ثابت کرتی ہیں اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہم اخلاقی و سیاسی طور پر کس قدر زوال پزیر اور گراوٹ کے کس درجے پر فائز ہیں۔
یہاں پر بشیرزیب کے آرٹیکل سے ایک اور نقطے کو سامنے لانا چاہتا ہوں جو اس نے اپنے آرٹیکل میں اپنے اور ڈاکٹر امداد کے بیچ ہونے والی گفتگو کا خلاصہ بیان کیا کہ ڈاکٹر امداد نے اس کو بولا ہے کہ میں (ڈاکٹر امداد) تم (بشیر) دونوں ساتھ مل کر ایک نئی مسلح تنظیم بنائیں گے جس پر میں (بشیر) نے دل میں ہی سوچھا اور کہا کہ یہ سوچھ بہت خطرناک ہے، جس کا جو دل کرے وہ کرتا پھرے اور اس کے لئے کوئی احتساب تجویز نہیں ہے۔ بشیر نے مزید کہا کہ یہ نئی نئی تنظیمیں بن جانا منظم تنظیمیں توڑنا اور اپنا الگ گروہ بنانا تباہ کن روش ہے مگر پھر بی ایل اے جیسی منظم تنظیم کو توڑ کرخود وہی کیا جس کے بعد بی ایل ایف کے ساتھ ملکر تنظیم سے بے دخل جرائم پیشہ گلزار امام کو گود لے لیا جو اپنی الگ شناخت کے ساتھ ایک اسٹیک ہولڈر بننے کے خواب سجائے آ کر تخت نشیں ہوا، لفظ جرائم پیشہ استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بھی بہت زیادہ منشیات لوٹنے اور بیچنے، بے گناہ لوگوں کو ذاتی تعلقات کی خاطر قتل کروانے، اغوا برائے تاوان اور دیگر تفصیلات موجود ہیں جن کے نا قابل تردید ثبوت بھی موجود ہیں، مگر یہاں پر بشیر کو نہ اپنے عمل سے کچھ احساس ندامت ہوئی نہ شمبے کے کیونکہ یہ بھاشن بازی دوسری طرف یا اپنے مخالفین کے لئے ہے ہم پر تو نہ کوئی اصول لاگو ہوتا ہے نہ قانون اور نہ ہی یہ الفاظ ہمیں سوال کرنے کے لئے بنے ہیں، اخلاقیات تو وجود نہ رکھنے والی شے ہے۔
یہ سب تو وہ حقائق تھے جو تضادات کی صورت ہمارے بیچ موجود ہیں اور انہی الجھنوں میں پھنس کرہم اپنی روش سے رو گردانی کرتے نظر آتے ہیں، روش سے رو گردانی در حقیقت منزل سے بھٹکنے کی جاندار اور واضح مثال ہے۔ انہی تضادات اور دوسرے مثائل کو مد نظر رکھ کر سنگت حیربیار مری کی قیادت میں فری بلوچستان موومنٹ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جو بلوچ رہنماؤں سے رابطے قائم کرکے ان سے
مذاکرات کی شروعات کریں گے۔ اس سلسلے میں دوستوں نے رابطے شروع کردئیے جس میں بی این ایم کے چئیرمین خلیل بلوچ تک بی این ایم کی مرکزی کمیٹی کے ایک سینئیر رکن (نام لینا مناسب نہیں) کے ذریعے پیغام پہنچایا گیا اور کہا گیا کہ اس سلسلے میں ہمیں آپ سے تھوڑا وقت درکار ہے جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ادارے کے ذمہ دار حمل حیدر وہیں ہیں تو آپ ان سے رابطہ قائم کریں، ان کے احکامات کے مطابق حمل حیدر سے بھی رابطہ کیا گیا جس پر پہلے تو انہوں نے کمیٹی کا مکمل “پوسٹ مارٹم” کیا کہ اس کے ارکان کون کون ہیں وغیرہ اس کے بعد انہوں نے تجویز دی کہ سنگت فیض بلوچ کو بھی کمیٹی میں شامل کیا جائے جس پر دوستوں نے ان کی تجویز کے مطابق عمل کرتے ہوئے سنگت فیض کو کمیٹی میں شامل کرلیا۔ دوبارہ رابطہ کرنے پر حمل حیدر کہنے لگے کہ میں اس وقت کینیڈا میں ہوں واپس آکر رابطہ کروں گا لیکن پھر دوبارہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، جب دوستوں کو یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی کینیڈا سے واپسی ہوگئی ہے تو وہ دوبارہ حمل حیدر سے رابطہ کرتے ہیں جس کے بعد بی این ایم کے دوست بھی اپنی کمیٹی کے ارکان کے نام بتا دیتے ہیں جس میں ڈاکٹر نسیم بھی شامل ہوتے ہیں۔ چونکہ کمیٹی میں شامل کچھ دوست جرمنی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا جرمنی سے باہر جانا ممکن نہیں ہوتا لہٰذا بی این ایم کے دوستوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ جرمنی میں ہی ایک میٹنگ کا انعقاد کرنا چاہئے جس پر بی این ایم کے دوست بھی اس تجویز کو مان لیتے ہیں اور میٹنگ کے لئے ایک تاریخ پر اتفاق ہوجاتا ہے جس کے فوراً بعد حمل حیدر بتاتے ہیں کہ میرے ٹریول ڈاکومنٹس میں کچھ مسائل ہیں اور میں جرمنی کا سفر کرنے سے قاصر ہوں مگر ایک ہفتہ دس دن کے اندر اندر دوست یہ دیکھتے ہیں کہ حمل حیدر بی این ایم کے منعقدہ ایک پروگرام میں شرکت کرنے کے لئے جرمنی آجاتے ہیں مگر نہ آنے سے پہلے دوستوں سے رابطہ کرتے ہیں اور نہ ہی آنے کے بعد جس کی وجہ سے دوست یہ نتیجہ اخز کرتے ہیں کہ بی این ایم کے دوست مل بیٹھنے اور بات چیت کرنے کے لئیے کسی صورت بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ ایف بی ایم کی جانب سے ایک بیان جاری کیا جاتا ہے جس میں ساری تفصیلات سے قوم کو آگاہ کیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب تب بھی مکمل خاموشی ہوتی ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ کسی بھی نقطے پر مذاکرات اور مل بیٹھنے سے پہلے کچھ “Confidence Building Measures” اٹھانے پڑتے ہیں مگر ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ بات تو مکمل کھل گئی ہے کہ سرد مہری، غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدگی کن قوتوں کی طرف سے سامنے آتی رہی ہے، اگر کوئی کہیں کسی سمجھوتے پر باہمی ہم آہنگی کروانا چاہے تو سب سے پہلے اس کا ماحول بنایا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ روڈے ضرور اٹکائے گئے۔
جن اختلافات کی بنیاد پر بلوچ قوم آج تقسیم ہے اور قومی طاقت بکھر چُکی ہے اس کے پیچھے کے کرداروں کو ڈھونڈ نکالنا بہت ہی ضروری ہے۔ قوم کے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے کو چاہئے کہ وہ سوال کرے، اختلافات رکھے اور احتسابی عمل میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو گزارے مگر فی الحال ایسی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ لوگ اس کو کیچڑ سمجھتے ہیں جس میں ہاتھ ڈالنا صرف اپنے آپ کو گندا کرنے کے مترادف ہے۔ یہاں پر یہ بھی بتانا بہت ضروری ہے کہ اس کو اپنی غیر سنجیدہ گفتگو، غیر اخلاقی گالیاں اور الزامات کی وجہ سے گٹر بنا دیا گیا ہے تاکہ لوگ بے عزتی کے ڈر سے سوال نہ اٹھا سکیں اعتراض نہ کرسکیں۔