کہتے ہیں کہ دعوؤں کو لیکر اقرار انکار یا الزام وغیرہ کیلئے عمل سے بڑھکر کوئی تصدیق یا ثبوت نہیں ہوتا پیچیدہ مسائل کی وضاحت اور تشریح میں عمل ہی وہ ٹھوس جز ہے جسکی بنیاد پرآپ ہر قسم کے دعوؤں کی تصدیق چاہتے ہیں ۔ ہم کیا کہتے ہیں ہمارے دعوے کیا ہیں ہم کیا الزامات عائد کرتے ہیں ان سب کو ایک مضبوط اور حقیقی بنیاد ہمارا عمل بھی مہیا کرتا ہے بلوچ قومی سیاست اندرونی سطح پر آج حقائق اور الزامات کے بیچ ایک ایسا بانڈار بن چکا ہے جس کے طرف دیکھنے والے ہر اس شخص کو جو حقیقت جاننا چاہتا ہو الزامات کے بیچ حقائق کی پہچان میں شاہد دشواریاں پیش آرہے ہوں لیکن ان تمام دعوؤں و الزامات کے بیچ وہ اقدامات جنکاعملی مظاہرہ کئے جاچکے ہیں یا کئے جارہے ہیں ان سے بڑھکر اور کیا ہو سکتے ہیں جوحقائق کی پہچان کرانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہوں۔ تمام دعوؤں اور الزامات سے قطع نظر میں کچھ ایسے عملی اقدامات کی طرف اشارہ کروں گا جو شاہد کسی نہ کسی حد تک حقائق کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوں مستونگ واقعہ کو لیکر میں ان اقدامات کے طرف اشارہ کروں گا جو اس وقت تک سوچ سمجھ کر عملی طور پر انجام دئیے جاچکے ہیں، مستونگ واقعہ میں بلوچ گل زمین سے تعلق رکھنے والے تقریبا دو درجن تاجر پشتونوں کو بسوں سے اتار کر باقاعدہ شناخت کے بعد قتل کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف یونائیٹڈ بلوچ آرمی ذمہ داری قبول کرکے ا سکو جوہان آپریشن کا ردعمل قرار دیتاہے۔ اس دلخراش واقعہ کی تمام آزادی پسند ماسوائے ڈاکٹر اللہ نذر کے مذمت کرتے ہیں اور تو اور زامران مری جو یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے سربراہ کے طور پر پہچان رکھتا ہے وہ نہ صرف اسکی مذمت کرتا ہے بلکہ اسکو آئی ایس آئی کے غنڈوں کی کارستانی قرار دیتا ہے اس تمام قضیے میں ایک مضبوط ” کیوں” گردش کرتا نظر آتا ہے کہ راہ چلتے دو درجن تاجرپشتونوں کو جنکا تعلق بلوچستان سے ہو جنکا ریاست اور ریاستی فورسز سے دور کا تعلق بھی نہ ہو آخر کوئی “کیوں” قتل کرئے گا۔ آزادی پسند مسلح گروپ یونائیٹڈ بلوچ آرمی جو محروم نواب خیربخش مری کے پیروکاری کا دعویدار بھی ہے اس کی ذمہ داری ” کیوں” قبول کرئے گا۔ ایک ایسا آزادی پسند مسلح گروہ جس کے پاس محروم نواب خیربخش مری کا لائسنس اور اس پر ڈاکٹر اللہ نذر کی تصدیق کا مہرہو اس کی کسی بھی کارروائی کی تمام آزادی پسند “کیوں “مخالفت کرینگے اور اس تنظیم کو اسکا اپنا سربراہ عوامی سطح پر اپنے دشمن آئی ایس آئی کے غنڈوں کا گروپ “کیوں” قرار دے گا اور ڈاکٹر اللہ نذر جیسا لیڈر اس واقعہ پر چپ کا روزہ کیوں رکھے گا اب اگراس “کیوں” کو لیکر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے ظہور کولیکر BLA نے آزادی پسند حلقوں کے ساتھ ہی ساتھ عوامی سطح پر بھی اس کے خلاف شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا تقریبا ڈھائی سال تک مسلسل BLA کے ساتھی یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی کرتے رہے، جن میں قومی مفادات کے خلاف سرگرمیوں کے علاوہ مڈی چوری کے ساتھ BLA کے ساتھیوں کو لینڈ مائن کے ذریعے قتل کرنے کی سازشیں بھی شامل تھے آخر کار 8ماہ قبل BLA نے انکے خلاف جنگ کا اعلان کردیا دوسری طرف ڈاکٹر اللہ نذر اور اسکے ساتھیوں نے یو بی اے کو آزادی پسند جہد کار اور برادر قرار دے کر BLA پر برادر کشی کا الزام لگایا یہ وہ اقدامات ہیں جو یونائیٹڈ بلوچ آرمی کو لیکرگزشتہ تین سالوں کے دوران اب تک ہمارے سامنے آچکے ہیں اگر ان اقدامات پر باریک بینی سے غور کیا جائے تویہ شاہد یہ سمجھنے میں آسانی ہوکہ وہ حقائق کیا ہیں جنکی وجہ سے ہمارا قومی سیاست اس نہج تک پہنچ چکا ہے اور بلوچ قومی تحریک کو آج اس طرح کے حالات کا سامنا کیوں ہے مستونگ واقعہ میرے خیال سے کافی مددگار ثابت ہو گا حقائق کو سمجھنے میں اگرمستونگ واقعہ کا جائزہ حقائق کے بنیاد پر غیر جانبداری سے لیا جائے تو میرے ناقص رائے کے مطابق اس جائزے میں جو بات سب سے پہلے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ مستونگ واقعہ کسی بھی طرح سے کسی بھی سطح کے جذباتی ردعمل کا نتیجہ نہیں ہوسکتاکیونکہ جوہان آپریشن بلوچوں کے خلاف 14مئی کو کیا گیا اور مستونگ واقعہ کو 29 مئی کی رات کو سرانجام دیا گیا جسکو جوہان آپریشن کا ردعمل کہا گیا دیکھا جائے تو بیچ کے پندرہ دن سوچنے سمجھنے اور کسی بھی ٹارگٹ پر کام کرنے کے لیے کافی زیادہ ہیں وہ بھی ایسی صورت حال میں جہاں اسپلنجی میں ایف سی کے درجن بھر چیک پوسٹ موجود ہوں منگچر میں ایف سی قلعہ اور درجنوں اہلکار موجود ہوں ،مستونگ میں ایف سی قلعہ اور درجنوں اہلکار موجود ہوں، اور جہاں یہ بھی سب جانتے ہوں کہ عام بلوچوں کے قتل عام میں ریاستی فورسز ایف سی اور آرمی شامل ہیں اگر قومیت و عددی اعتبار سے دیکھیں تو تب بھی ان دونوں فورسز میں پنجابی اور صوبہ سرحد کے پشتونوں کی اکثریت ہے، افغانستان اور بلوچ گل زمین کے جغرافیائی حقیقت سے آگاہی رکھنے والے یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بلوچ گل زمین پر بسنے والے پشتونوں کا ریاستی فورسز سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے، اور ریاستی فورسز میں انکے شمولیت کا تناسب کیا ہے،اگر غور ہو تو بلوچ سرزمین پر بسنے والے پشتونوں سے سندھی اور بلوچوں کے شمولیت کا تناسب زیادہ ہے تو اس حوالے سے یہ واقعہ کسی بھی صورت جوہان آپریشن کے ردعمل میں قابل قبول نہیں ہوسکتا میرے خیال سے اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی بھی حقیقی بلوچ مزاحمتی تنظیم کو ذرا برابر دقت نہیں ہوگا اور نہ ہونا چاہئے تو پھر کیوں کوئی رہ چلتے ایسے بے گناہ پشتون تاجر مسافروں کو اتنی بڑی تعدد میں بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے جنکا دور دور تک ریاستی فورسز سے کوئی لینا دینا تک نہیں ہوتا اوراسکو بلوچوں کے قتل عام کا ردعمل قرار دیا جاتا اسی تناظر میں اگر دنیا بھر کے تحریکات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی ایسے مشکوک نوعیت کے واقعات رونما ہونے کے ہزاروں ثبوت ملیں گے جنکا مقصد سیدھی طرح سے حقیقی قوتوں کو بدنام کرکے انکے حمایت میں کمی کرکے انکے خلاف دشمن کا عوامی حمایت حاصل کرنا ہوا ہے تاکہ انکے خاتمے کیلئے کسی بھی بے رحمانہ اور غیر انسانی طریقہ کار کی عوامی سطح پرمخالفت کم کی جائے یونائیٹڈ بلوچ آرمی کی طرف سے تسلسل کے ساتھ اب تک جو واقعات سامنے آچکے ہیں انکا مقصد سیدھی طرح سے یہی نکلتا ہے کہ قومی تحریک سے لوگ بدظن کئے جائیں انکی طرف ا سے انجام دینے والے تمام واقعات میں نسبتاََ مستونگ واقعہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے زامران مری کو یہ بولنے پر مجبور کردیا کہ یہ آئی ایس آئی کے غنڈے ہیں اب اس “کیوں” کے پیچھے قضیہ کیا ہے یونائیٹڈ بلوچ آرمی ایک مشکوک عمل کے ساتھ قومی تحریک کے لئے بدنامی کا باعث بنا کھڑا ہے اس کا سربراہ آج یہ کہہ رہا ہے کہ یہ آئی ایس آئی کے غنڈے ہیں دوسری طرف ڈاکٹر اللہ نذر اسکے قریبی ساتھی خلیل بلوچ وغیرہ انکو آزادی کے حقیقی جہدکار قرار دے کر BLA کے انکے خلاف اعلان جنگ کو بردار کشی سے تعبیر کرکے BLA کو برادر کش قرار دیتے آرہے ہیں اگردیکھاجائے تو ہمارے ساتھیوں نے شروع سے ایسے بہت سے متضاد اعمال کی نشاندہی کردی جو قومی تحریک کیلئے کسی بھی صورت نیک شگون نہیں تھے لیکن ان متضاد اعمال کو لاپرواہی سے نظر انداز کرکے بدلے میں ساتھیوں کو خاموش کرانے کے لیے جب غیر اخلاقی حربوں کا سہارا لیا گیا تو یہ بات صاف ہوا کہ مفادات کے لئے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اسی سلسلے میں ساتھیوں نے اس طرف اشارہ کیا کہ حالیہ قومی تحریک میں مفاد پرستی اس حد تک جڑ پکڑ چکی ہے کہ وہ پورے تحریک پر تیزی سے اثر اندازہوتا جارہا ہے اس دوران ہوا یہ کہ مختلف زاویوں سے مختلف عناصر مختلف سوچ رکھنے کے باوجود اپنے مفادات کے حصول کے لیے سیاسی اخلاقی اور فکری حوالے سے عوامی سطح پر یکجاء نہ ہونے کے باوجود اندرون خانہ یکجاء ہونا شروع ہوئے نور دین مینگل ،بختار ڈومکی، زامران مری، براہمداغ بگٹی اور ڈاکٹر اللہ نذر جو اندرون خانہ سازباز کے لئے تو یکجاء تھے لیکن عوامی سطح پر فکری حقیقی بنیاد پر کوئی بھی پلیٹ فارم قوم کو مہیا کرنے سے آج تک قاصر نظر آئیں آج کے حالات اس بات کیلئے بہت بڑا ثبوت ہیں اندرون خانہ سازشی حوالے سے یکجاء ہونے کے باوجود بھی ان لوگوں نے آپس میں بھی ایک ایسی ناجائز دوڈ شروع کی جس کا مطمع نظر صرف اور صرف تنظیمی بڑھوتری اور نمودنمائش تھا وقت کے ساتھ ہی ساتھ مفاد پرستی کو لیکر اسی روش نے قومی تحریک کے رو ح میں کچھ ایسے نقب لگائیں ہیں جن سے دشمن کو آسانی سے اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع ملتا گیا ہم نے انکے روک تھام کیلئے جتنے بھی کوششیں کئے ہماری کوششوں کو طرح طرح کے نام دئیے گئے الزامات کی بوچھاڑ کی گئی کسی بھی سوال کے صحت کو مشکوک اور متنازعہ بنانے کے لیے اس کے سامنے ایک بے بنیاد سوال گھڑا گیا،بہت سے احساس مسائل جن پر کھل کر رائے دینا شاہد اسلئے مناسب نہ ہو کہ کئی بلوچوں کے خلاف دشمن کی پالیسیوں کے لیے وہ معاون ثابت نہ ہو لیکن یو بی اے جیسے حربے پر بات کیا جاسکتا ہے ،جسکو شروع میں مرحوم نواب خیربخش مری نے اپنے لاڈلے بیٹے زامران مری کو بچانے اور سنگت حیربیارمری پر دباؤ بڑھانے کے لئے کاغذی حد تک بطور حربہ استعمال کیا اس وقت اسکے پیچھے قادرمری کے سواء4 کوئی نہیں تھا،لیکن زامران مری اور قادر مری کو مرحوم نواب صاحب کے نسبت یہ دباؤ کے حربے سے زیادہ ایک مورچہ کے طور پر ملا جس سے وہ زیادہ آسانی سے اپنے عزائم کی تکمیل کر سکتے تھے اس موقع کو غنیمت جان کرانہوں نے اس حربے کو تنظیمی مورچے میں تبدیل کرنے کی سازشیں تیز کردئیے اس دوران انکو جو بھی ہاتھ لگا چور ڈاکو ان لوگوں نے اسکو ساتھ ملا لیا جس کی ایک مثال وہ نیب زدہ کرپٹ بیوروکریٹ ہے جو آج کل اس تنظیم کا کمانڈر اور ترجمان ہے، جو دو سال قبل اسپلنجی اور آس پاس کے علاقوں میں اپنے نام کے نعرے دیواروں پر چاکنگ کرواتا تھا اسی دوران سنگت حیربیارمری کے سیاسی مخالفین ڈاکٹر اللہ نذر اور اسکے ساتھیوں کو بھی یونائیٹڈ بلوچ آرمی بطورایک ایسا مورچہ ملا جس پر نواب خیربخش مری کا نام کند ہ تھا اور ان لوگوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور بغیر کچھ سوچے سمجھے خوب استعمال کیا اس صورت حال کو سمجھتے ہوئے نواب خیربخش مختلف دیوان میں یو بی اے کی ذمہ داری اٹھانے سے کتراتے اور بعض اوقات تو انکاری نظر آتے کیونکہ ابتداء4 کرتے ہی معاملات نواب صاحب کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے جس جن کو بوتل میں بند رکھکر نواب خیربخش مری، سنگت حیربیارمری اور اسکے ساتھیوں کو ڈرا کر ان پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتے تھے اسکو زامران مری قادر مری اور ڈاکٹر اللہ نذر نے ڈھکن کھول کر باہر نکال دیا آج وہ خود بھی نہیں جانتے کہ اس جن کو کنٹرول کرنے والا چراغ کس کے ہاتھوں میں ہے ،آج زامران مری کا یہ پیغام کہ یہ آئی ایس آئی کے غنڈے ہیں اور ڈاکٹر اللہ نذر کی خاموشی اور یو بی اے کی ذمہ داری قبول کرنا پورے اس قضیے کو سمجھنے میں آسانی کردیتا ہے جس کا رونا ہم پچھلے تمام عرصے میں روتے رہے ہیں، اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس جن کا آقا قومی تحریک سے باہر بیٹھ کر چراغ رگڑ رہا ہے یا پھر اندر بیٹھ کر چراغ رگڑ رہا ھے یہ تو صاف ہوچکا ہے کہ یہ جن شروع سے ہی بلوچ اجتماعی قومی مفادات کے خلاف ہی بوتل سے باہرنکالا گیا تھا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ ماضی قریب میں بلوچ قومی مفادات کا نگہبان ہو