تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں، بلکہ اس سے بھی پہلے، طلبہ دشمن پالیسیاں نہ صرف تشکیل دی جاتی رہی ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ان میں شدت آتی گئی ہے۔ یہ پالیسیاں تعلیمی اداروں کو علمی اور فکری ارتقا کے مراکز بنانے کے بجائے جبر، خوف اور غلامی کے اڈوں میں تبدیل کرنے کا ہتھیار بن چکی ہیں۔ ماضی ان جابرانہ تدابیر کی واضح عکاسی کرتا ہے، اور اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں۔ تاہم، حالیہ دنوں میں ان پالیسیوں کو مزید سختی سے نافذ کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کی ساکھ، آزادی اور طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی اور بولان میڈیکل کالج جیسے ادارے پہلے ہی ان استحصالی ہتھکنڈوں کی زد میں ہیں، جہاں طلبہ کو تعلیمی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لیے جابرانہ حربے اپنائے گئے۔ اب انہی پالیسیوں کا دائرہ کار لسبیلہ یونیورسٹی اور تربت یونیورسٹی تک بڑھا دیا گیا ہے، جہاں طلبہ کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو محدود کیا جا رہا ہے، ان کی آزادی سلب کی جا رہی ہے، اور ایک پُرامن تعلیمی ماحول کو خوف اور جبر کی زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے۔

یہ صورتحال اس حقیقت کو بھی آشکار کرتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں طاقت اور اختیار کا غلط استعمال ایک منظم پالیسی کے تحت ہو رہا ہے، جس کا مقصد طلبہ کو فکری پسماندگی میں مبتلا رکھنا اور انہیں ایک بے حس، غیر سیاسی اور محکوم ذہنیت کا حامل بنانا ہے۔ تعلیمی نظام کو جان بوجھ کر ایسے ڈھانچے میں تبدیل کیا جا رہا ہے جہاں سوال اٹھانا جرم، اختلاف کرنا بغاوت اور علم کا فروغ ایک خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ آج اگر طلبہ اپنی ثقافت، زبان اور علمی آزادی کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں نہ صرف تعلیمی اداروں سے بے دخل کیا جاتا ہے بلکہ ان پر ایسے الزامات عائد کیے جاتے ہیں جو جمہوری اقدار کے خلاف ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف تعلیمی ترقی کو روکتا ہے بلکہ سماجی ترقی میں بھی رکاوٹ پیدا کرتا ہے، کیونکہ باشعور اور فکری طور پر آزاد طلبہ ہی کسی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں، لسبیلہ یونیورسٹی کے طلبہ نے فُوڈ گالا کے دوران کتابی میلے منعقد کیے اور بلوچ ثقافت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی، جس کی پاداش میں انہیں بے دردی سے ریسٹیکیٹ کر دیا گیا۔ یہ اقدام صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ طلبہ دشمن پالیسیوں کا واضح ثبوت ہے، جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ تعلیمی ادارے اب علمی ارتقا کے بجائے آمریت کی تجربہ گاہیں بن چکے ہیں۔ جب ان جابرانہ اقدامات کے خلاف طلبہ نے احتجاج کیا، تو ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے، یونیورسٹی انتظامیہ نے بے حسی، انتقامی ذہنیت اور آمرانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ حد تو یہ ہے کہ طلبہ کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی گئی، جو کہ تعلیم دشمنی کی انتہا ہے۔ جنہیں قوم کا روشن مستقبل کہا جاتا ہے، ان کے نازک ہاتھوں سے قلم چھین کر انہیں ہتھکڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ کی شخصی نشوونما اور فکری ترقی کے بجائے انہیں بغاوت پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انہیں لائبریریوں کی زینت بنانے کے بجائے، یونیورسٹی کے دروازوں پر احتجاجی بینرز اٹھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جو تعلیمی جبر کا کھلا ثبوت ہے۔

مزید برآں، یونیورسٹی میں طلبہ کی پروفائلنگ، ہراسانی، علمی و فکری مواد پر پابندی اور ذہنی و نفسیاتی دباؤ جیسے غیر انسانی ہتھکنڈے کھلم کھلا اپنائے جا رہے ہیں۔ ہر دوسرے دن کوئی نیا جابرانہ قانون مسلط کر دیا جاتا ہے تاکہ طلبہ کو ایک آزاد، خودمختار اور باشعور تعلیمی نظام سے محروم کر کے انہیں غلامی اور خوف میں دھکیل دیا جائے۔ یہ صورتحال صرف طلبہ کے تعلیمی مستقبل کے لیے نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے معاشرے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اگر اس ظلم، ناانصافی اور آمریت کے خلاف فوری طور پر آواز نہ اٹھائی گئی، تو اعلیٰ تعلیم، جو درحقیقت فکری آزادی، تخلیقی سوچ اور تنقیدی شعور کو پروان چڑھانے کا نام ہے، مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے کہ ہم تعلیم کو جبر کے شکنجے میں دیکھنا چاہتے ہیں یا ایک آزاد، باشعور اور ترقی پسند معاشرے کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔