شال (ہمگام نیوز ) عام طورپرفوجی آپریشن کا مقصد کسی علاقے کی کلئیرنس یا صورتحال کو نارمل کرنے کا نام ہے۔ بلوچستان میں فوجی جارحیت کا مقصد ظلم ،جبر اور سفاکیت ہے ۔ یہاں دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوتے۔بلوچستان میں جو مسلح جنگ چل رہی ہے اس کی نوعیت بالکل مختلف ہے جسے آج تک دنیا کے ملک یاعالمی ادارے نے دہشت گردی قرار نہیں دیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ بلوچ جنگجو بلوچستان کے وسیع اور کٹھن پہاڑی سلسلوں میں مقیم ہیں جہاں وہ اپنی گوریلا جنگ لڑتے ہیں لیکن کسی آبادی کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں کرتے ہیں ، وہ “ہٹ اینڈ رن “کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستانی فوج کی جانب سے ’فوجی آپریشن ‘ کے نام پر عام آبادیوں پر یلغار روز کا معمول بن چکا ہے۔ یہ جارحیت اور ظلم کی داستانیں رقم کر رہی ہیں۔ بلوچستان کا کوئی علاقہ، قصبہ یا گاؤں نہیں جہاں اس طرح کی ایک اسٹوری تحریر نہ کی جاسکتی ہو ، توتک ان میں سے ایک ہے۔

توتک، بلوچستان کے دارالحکومت شال سے تین سو کلو میٹر دور ضلع خضدار میں کلات ڈویژن کا حصہ ہے۔اس کی آبادی لگ بھگ چھ لاکھ ہوگی۔ ضلع خضدار بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جو پاکستانی فوجی بربریت سے شدید متاثر ہے۔یہاں تعلیمی اداروں سے لے کر تمام شعبہ جات آرمی یا شفیق مینگل جیسے کرداروں کے ہاتھوں میں ہیں۔ضلع خضدار نے جبری گمشدگیوں سے لے کر مسخ شدہ لاشیں ، اجتماعی سزا اور اجتماعی قبریں بھی دیکھی ہے اور اس ظلم و بربریت کے خلاف خضدار آج بھی سراپا احتجاج ہے اور اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے۔ توتک ایک دکھ اور درد کی کہانی بن چکی ہے۔

 توتک فوجی جارحیت :

 18 فروری 2011 توتک کے لوگوں کے لیے عام دن نہیں تھا۔ علی الصبح جب لوگ ابھی نیند سے بیدار ہو رہے تھے کہ گولیوں کی گڑگڑاہٹ سے توتک کے در و دیوار لزر اٹھے۔ جب لوگ نیند سے جاگے، اس وقت تک توتک گاؤں اور پہاڑی سلسلے فوج کے محاصرے میں تھے۔ فوجی گھر گھر تلاشی لے رہے تھے۔ لوگوں کو اجتماعی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اس جارحانہ کارروائی میں پاکستانی فوج نے دو بلوچ نوجوان یحییٰ قلندرانی اور نعیم بلوچ کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا اور ایک 80 سالہ بزرگ محمد رحیم سمیت سترہ افراد کو غیر قانونی حراست میں لے کر جبری لاپتہ کر دیا، ان میں بوڑھے اور جوان شامل تھے ۔ اسی سالہ برزگ محمد رحیم سمیت دیگر اسیران ابھی تک فوج کے غیرقانونی حراست میں ہیں۔ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس بزرگ سمیت دیگر قیدیوں کی رہائی عمل میں نہیں آئی۔ توتک میں نا صرف ہولناک فوجی جارحیت کی گئی، دو نوجوان قتل اور سترہ لوگوں کو دن کی روشنی اور نظروں کے سامنے جبری لاپتہ کیا گیا بلکہ اس کے بعد تین سالوں تک اس علاقے کو ایک ڈیتھ سکواڈ کا ہیڈکوارٹر بنا دیا گیا۔

 ڈیتھ اسکواڈ :

یہ ڈیتھ اسکواڈ ریاست کی جانب سے تشکیل دئیے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں ان کی تعداد نہایت بڑھ گئی ہے۔ توتک میں یہ ڈیتھ اسکواڈ بدنام زمانہ شفیق مینگل کی سربراہی میں تشکیل دیا گیا۔

توتک فوجی جارحیت میں جبری لاپتہ کیے گئے افراد کی تفصیل درج ذیل ہے۔

• محمد رحیم بلوچ ولد جمعہ خان

• آفتاب بلوچ ولد مشتاق احمد

• نثاربلوچ ولد یعقوب خان

• آصف بلوچ ولد جمعہ خان

• ندیم بلوچ ولد عبدالحکیم

• عتیق بلوچ ولد سردار علی محمد

• خلیل بلوچ ولد سردار علی محمد

• وسیم بلوچ ولد سردار علی محمد

• ارشاد بلوچ ولد نواب خان

• فدا بلوچ ولد عبداللہ

• ظفر بلوچ ولد نور احمد

• مصطفٰی بلوچ ولد عبدالغنی

• امتیاز بلوچ ولد عبدالحکیم

• ضیاء اللہ بلوچ ولد عبداللہ

• عمران بلوچ ولد گامڑخان

• ڈاکٹر محمد طاہر ولد محمد رحیم خان

• مقصود بلوچ ولد شیر محمد (مسخ شدہ لاش برآمد)

• عبدالوہاب ولد محمد عثمان

 بلوچستان سے جبری لاپتہ ہونے والے ہزاروں لوگ کئی سال گزرنے کے باوجود منظر عام پر نہیں لائے گئے ہیں اور نہ انہیں کسی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ہاں البتہ کئی لاپتہ افراد نیم مردہ حالت میں شدید تشدد کے بعد چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بعد میں وفات پاتے ہیں، یا خود کشی کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں یا پھر اپنی باقی ماندہ زندگی ذہنی مریض کی صورت میں گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جبری لاپتہ افراد میں سے بعض کو جعلی مقابلوں میں قتل کرکے انھیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے یا فیک انکاؤنٹر کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ پاکستانی فورسز اور اس کے قائم کردہ ڈیتھ اسکواڈ نے بلوچ عوام کے زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ بلوچستان میں ریاستی ادارے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہونے کے باوجود کسی بھی عالمی انسانی حقوق کے ادارے کو جوابدہ ہونے سے خود کو مبراء سمجھتے ہیں۔

توتک اجتماعی قبریں

توتک بلوچستان نہایت بد نصیب رہا۔ جبری گمشدگیوں کے بعد دل دہلانے والی اجتماعی قبروں کی داستان شروع ہوئی۔ بلوچستان کے اجتماعی قبروں میں صرف توتک کی اجتماعی خبریں پاکستانی اور تھوڑی بہت بین الاقوامی میڈیا کا توجہ حاصل کر سکیں۔ اس کی وجہ شاید وہ چرواہا تھا جو درندہ فوج اور اس کی کرتوتوں سے ناواقف تھا۔ اس کی نظر میں صرف ایک فورس تھا، جسے بلوچستان میں لیویز کہتے ہیں۔ اس نے مقامی لیویز کو اطلاع دی تو پتہ چلا کہ وہاں ڈیڑھ سو سے زائد لاشیں دفن ہیں۔ جب خضدار کو ڈپٹی کمشنر کو اطلاع دی گئی تو اس نے اس تعداد کو چھ سات کرنے میں دیر نہیں کی۔ ان میں سے دو لاشوں کی شناخت ان کی جیب میں شناختی کارڈز کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ انھیں آواران سے اغوا کیا گیا تھا۔

توتک واقعہ پاکستان کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکہ ہے۔ یہ علاقہ بلوچ نسل کشی ، فوجی جارحیت اور ڈیتھ سکواڈ کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ توتک سے پہلی بار بڑے پیمانے پر ”اجتماعی قبریں ” برآمد ہوئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اس اجتماعی قبر میں 169 افراد دفن تھے۔ ایسے دیگر قبروں کی بھی مقامی لوگوں نے نشاندہی کی مگر فوج نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے کر اس مقام تک عام افراد کی رسائی پر پابندی لگادی۔ دیگر اجتماعی قبروں میں کتنے افراد دفن ہیں، یہ آج تک کسی کو معلوم نہ ہوسکا۔ اس واقعے کے خلاف بلوچ آزادی پسند پارٹی اور تنظیموں نے بھرپور آواز تو اٹھائی لیکن اس چیخ و پکار کے باوجود عالمی اداروں نے اس مسئلے کو نظرانداز کردیا۔ اس سے نہ صرف بلوچ نسل کشی جاری ہے بلکہ پاکستان اس “خاموشی” کو آج بھی استثنیٰ کے طورپر استعمال کر رہی ہے۔

25 جنوری کی صبح ایک بلوچ چرواہا اپنے ریوڑ کو لے کر توتک مژی کے پاس پہنچتا ہے تو اسے متعدد لاشوں کے باقیات نظر آتے ہیں۔ یہ علاقہ 2011 کے فوجی جارحیت کے بعد تین سال تک مسلسل فوجی محاصرے میں رہا تھا۔ یہاں شفیق مینگل نامی ریاستی مہرے نے اپنا ایک نجی جیل قائم کیا تھا۔ جارحیت کے بعد عام آبادی کے لیے معمولات زندگی یکسر بدل گئے تھے۔ توتک میں ریاستی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈ کا ایک منظم گروہ شفیق الرحمان مینگل کی سربراہی میں کام کر رہا تھا، جو لوگوں کو اٹھا کر انھیں لاپتہ کرتے تھے۔ انہی علاقوں کے پہاڑوں میں ان کے عقوبت خانے بنے ہوئے تھے جہاں لوگوں کو تشدد سے قتل کرکے ان کی مسخ لاشیں دفنا دیے جاتے تھے۔

وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز اور پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دیگر اداروں اور آزاد میڈیا کے مطابق توتک کے علاقے مژی سے تقریباً ایک سو انہتر 169 لاشیں برآمد ہوئی تھیں، جن میں بیشتر مسخ ہو چکی تھیں۔ ان لاشوں میں صرف دو کی شناخت ممکن ہو سکی تھی جن کا تعلق آواران سے تھا۔ بلوچستان سے جبری لاپتہ ہزاروں افراد کے لواحقین نے اس وقت بھی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ یہ تمام لاشیں ان لاپتہ افراد کی ہیں جنھیں پاکستانی فورسز نے براہ راست یا اپنے قائم کردہ ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے لاپتہ کیا ہے۔

بلوچستان کے صوبائی حکومت کی جانب سے اجتماعی قبروں کے معاملے کی تحقیقات کے لیے جسٹس نور محمد مسکانزئی کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے بنا کسی شفاف تحقیق اور کارروائی کے ریاستی فورسز اور اداروں کو بری الذمہ قرار دے دیا۔

 شفیق الرحمان مینگل کون ہیں؟

شفیق مینگل پاکستانی فوج کے زیردست ایک منظم ڈیتھ اسکواڈ پر مشتمل گروہ کو چلانے والا ریاستی مہرہ ہے۔ شفیق مینگل کے والد کا نام نصیر مینگل ہے جو پاکستان کے ایوان بالا میں سینیٹر اور وفاقی کابینہ میں وزیر پٹرولیم کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے نگران وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔ شفیق الرحمان مینگل فوج کے ساتھ مل کر کئی سالوں سے خضدار کے نواحی علاقوں توتک اور وڈھ کے پہاڑی علاقوں میں مسلح کارندوں کے ہمراہ مورچہ زن ہے۔ اہم مہرہ ہونے کے ناتے شفیق مینگل پاکستانی فوج کے لیے کشمیر جنگ میں بطور پراکسی بھی کام کرتا آرہا ہے، اور جہاد کے نام پہ لوگوں کو بھرتی کرکے کشمیر بھی بھیجتا رہا ہے۔ وہ ایک انتہا پسند مذہبی سوچ رکھتا ہے۔ ایسے شواہد ملے ہیں کہ شفیق مینگل نے توتک کے علاوہ وڈھ باڈڑی میں بھی ٹریننگ کیمپس قائم کر رکھے ہیں۔ ان ٹریننگ کیمپس میں وہ داعش، انصار الاسلامیہ اور لشکر جھنگوی کے لیے لوگوں کو بھرتی کرکے دہشت گردی کے لیے ٹریننگ دیتا ہے۔

شفیق مینگل پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ، جہادی پراکسیز کی پالیسیوں کے تحت تیار کردہ اہم مہرہ ہے۔ بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی اور ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ شفیق مینگل شیعہ برادری، مقدس مزارات اور صحافیوں پر حملوں میں ملوث ہے۔ اس کا برملا اظہار پاکستان کے تفتیشی اداروں نے کئی تحقیقاتی رپورٹوں میں کیا ہے۔ پاکستان کے معروف صحافی حامد میر کے مطابق شفیق مینگل نے بلوچستان خاص کر خضدار میں صحافیوں کا ایک ہٹ لسٹ جاری کیا تھا جس کے بعد متعدد صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر قتل کیا تھا۔ ان میں معروف صحافی منیر شاکر، عبدالحق ،محمدخان ساسولی اور ندیم گرگناڑی کے دو فرزند بھی شامل ہیں۔ شفیق مینگل 26 مئی 2014 کو وڈھ تحصیل میں درج ایک ایف آئی آر میں بطور مرکزی ملزم نامزد ہے۔ ایف آئی آر 25 مئی 2014 کو وڈھ میں ایک لیویز چیک پوسٹ پر حملے بعد درج کی گئی تھی جس میں آٹھ لیوز اہلکاروں کو قتل اور تین اہلکاروں کو زخمی کیا گیا تھا۔ توتک میں اجتماعی قبروں سے برآمد ہونے والے لاشوں کے ڈی این اے سیمپل لینے والے ٹیم کے ارکان کو بھی شفیق مینگل نے نشانہ بنایا تھا تاکہ فرانزک رپورٹ کو روکا جاسکے۔ پاکستانی تفتیشی اداروں کے کئی رپورٹوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صفورہ گھوٹ کے مقام پر اسماعیلی شیعہ برادری کے بس اور سندھ میں سیہون شریف کے حملوں جن میں بالترتیب 47 اور 90 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ سندھ ہی کے علاقے شکارپور جس میں شیعہ برادری کے ایک عبادت گاہ کو خودکش حملے کا نشانہ بنانےِ کی کوشش کی گئی تھی کے گرفتار مرکزی ملزموں اور سہولت کاروں نے دوران تفشیش اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ ان کی تربیت اور دہشتگردانہ حملوں میں ہونے والے بارودی مواد اور خودکش جیکٹ وڈھ میں شفیق مینگل کی سرپرستی میں قائم کیمپ سے مہیا کیے گئے تھے۔ بین الاقوامی جریدے روئیٹرز کی ایک رپورٹ جو 7 اگست 2017 اور پاکستان کے معروف انگریزی اخبار ڈان کی ایک رپورٹ جو 2 مارچ 2018 کو شائع ہوئی ہے جس میں پاکستانی تفتیشی اداروں کے اہلکاروں نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سیہون بم حملہ اسماعیلی شیعہ اسماعیلی برادری کے بس پر حملہ اور شکار پور میں شیعہ عبادت گاہ پر ناکام حملے کے گرفتار ملزمان اور سہولت کاروں نے دوران تفتیش اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کی تربیت بلوچستان کے علاقے وڈھ میں شفیق مینگل کی سرپرستی میں ہوئی تھی اور انھیں حملوں کےلیے مقررہ مقامات پر بھی پہنچانے کےلیے سہولت کار بھی انہی کے کیمپ سے مہیا کیےگئے تھے۔ شکارپور میں خودکش حملے کی کوشش میں گرفتار عثمان نامی خودکش بمبار نے انکشاف کیا تھا کہ انھیں خودکش جیکٹ علی محسود عرف معاذ نامی شخص نے فراہم کی تھی جو وڈھ میں مقیم تھا اور حفیظ بروہی نامی ملزم نے انھیں وڈھ سے موٹر سائیکل پر دھماکے کی جگہ پر پہنچایا تھا۔ (حفیظ بروہی سیہون شریف حملے میں مرکزی ملزم کے طور پر نامزد اور مفرور ہے جبکہ عدالت نے ا سکی غیرموجودگی میں اسے سزائے موت سنائی ہے ۔) ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی پولیس کو دوران تفتیش صفورہ گھوٹ حملے کے سہولت کار احسن محسود جس کا تعلق القاعدہ جنوبی ایشیاء سے ہے نے بتایا ہے کہ اس کا بھائی علی محسود عرف معاذ وڈھ میں ایک جہادی تربیتی کیمپ چلا رہا ہے۔ روئیٹرز نے تفتیشی رپورٹوں کی روشنی میں شفیق مینگل کو مرکزی ملزم کے طور پر پیش کیا ہے۔

 توتک جارحیت کے متاثرین

 توتک جارحیت کے متاثرین کس حال میں ہیں ؟

اس بارے میں پانک کے نمائندے نے محمدرحیم خان کے بڑے بیٹے عبیداللہ کاانٹرویو کیا،عبیداللہ مہاجرت کی زندگی گزاررہے ہیں لیکن سیکوریٹی خدشات کی بناپر ہم ان کے لوکیشن کو ظاہر نہیں کرسکتے ،عبیداللہ اس آپریشن کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔

سوال : توتک میں پاکستانی فوجی جارحیت کے متاثرین کے زندگی پر کیسے اثرات مرتب کیے ؟

 عبیداللہ: توتک ایک شاد و آبادعلاقہ تھا۔ گاؤں کے سبھی لوگ خوشحال تھے۔ بچے اچھے سکولوں میں پڑھ رہے تھے لیکن اس فوجی حملے نے ہماری زندگیوں کو تہہ وبالا کردیا۔ پاکستانی فوج کے حملے کے بعد توتک کربلا بن چکا ہے۔ جو یزید نے امام حسین کے ساتھ کیا وہی پاکستانی فوج نے ہمارے ساتھ کیا۔ ایک ہی خاندان کے سترہ افراد کی جبری گمشدگی اور دو افراد کا قتل؛ اس درد کا اندازہ صرف ہم ہی کرسکتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں ہولناک نا صرف فوجی جارحیت ہوئی بلکہ تین سال تک ہمارا گاؤں “ڈیتھ سکواڈ” کے رحم کرم پر رہا۔ یعنی تین سال بعد مظالم کا سلسلہ نہ رک سکا۔ توتک جارحیت کے 13 سال بعد ہم اپنے پیاروں کے انتظار میں لمحہ لمحہ گن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے کئی رشتہ دار طویل انتظار و رنج و الم کے دوران دنیا سے کوچ کر گئے ۔فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ نوجوان فدا اور ضیاء بلوچ کے والد حاجی عبداللہ اپنے بیٹوں کا انتظار کرتے کرتے وفات پا گئے۔ اسی طرح ارشاد بلوچ کے والد میرنواب خان ، ندیم اور امتیاز احمد کے والد عبدالحکیم، آصف بلوچ کے والدجمعہ خان اور عمران بلوچ کے والد گامڑخان بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ خاندان کے اکثر افراد شدید نفسیاتی بیماریوں سے دوچار ہیں۔ نفسیاتی ڈاکٹروں کےمطابق یہ سب PTSD نامی بیماری کا شکار ہیں۔ خاندان کے زیادہ ترلوگ مہاجرت پرمجبور ہوگئے۔ خاندان کے کچھ لوگ وہیں مقیم ہیں۔

لاپتہ اور شہید ہونے والے افراد کا ایک دوسرے کا رشتہ کیا ہے؟

 عبیداللہ : لاپتہ اور قتل ہونے والے افراد سبھی میرے رشتہ دار یعنی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبری لاپتہ میں سرفہرست میرے والد محمد رحیم خان ولد حاجی جمعہ خان ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 75 سال تھی۔ آج ان کی عمر 87 ہے۔ شہید ہونے والا نعیم میرا چھوٹا بھائی اور یحیٰ ولد حاجی نوراللہ میرے کزن کا بیٹا تھا۔ کچھ وقت کے بعد جبری لاپتہ مقصود ولد شیرمحمد کی مسخ لاش پھینکی گئی، وہ بھی میرے کزن تھے۔ جبری لاپتہ ڈاکٹر محمد طاہر میرے بھائی ہیں۔

خلیل، عتیق اور وسیم محمدرحیم خان کے نواسے ہیں۔ ضیاء، امتیاز احمد اور فدا میرے والد کے کزن کے بیٹے ہیں۔ اسی طرح آفتاب، نثار احمد، ارشاد،ء عمران، ظفر ، مصطفیٰ میرے والد کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اسی سال جون کے مہینے میں محمد رحیم خان کے ایک کزن کے بیٹے عبدالوہاب ولد محمدعثمان کو فوج نے خضدار سے جبری لاپتہ کیا۔ اس کی بھی آج تک ہمیں خبر نہیں کس حال میں ہے۔

 کیا محمد رحیم سیاست میں شامل تھے؟

 عبیداللہ : محمد رحیم خان کسی سیاست جماعت میں شامل نہیں تھے،کافی بزرگ تھے ، وہ اپنا زیادہ وقت مسجد میں گزار تے اور باقی وقت زمینوں کی دیکھ بھال میں گزارتے،ہم چونکہ علاقے کے بڑے زمینداروں میں شمار ہوتے تھے ، اچھی خاصی گزر بسر ہوتی تھی لیکن اس فوجی کارروائی کے بعد ہمارے لیے کچھ بھی نہ بچا، نہ رشتہ دار اور کاروبار اور نہ روزگار کے ذرائع۔حتیٰ کہ وطن سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے۔اپنے علاقے میں خوشحال لوگ آج دیارِ غیرمیں بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں

 خاندان پر کیا اثرات مرتب ہوئے ؟

 عبیداللہ : خاندان کے زیادہ تر افراد جبری جیل میں ہیں۔ باقی مہاجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مہاجرت خود کسی اذیت سے کم نہیں ۔ جیساکہ پہلے بتایا کہ خاندان کے اکثر لوگ ڈیپریشن کا شکار بن چکے ہیں۔ اس 13 سالہ اذیت ناک انتظار میں کئی لوگ انتظار کا کرب برداشت نہ کرسکے اورجہان سے گزر گئے۔

 خاندان کے کتنے لوگوں نے مہاجرت اختیار کی ؟

عبیداللہ: محمد رحیم خان کے تین بیٹوں یعنی میں ،میرے دو چھوٹے بھائی، والدہ ، بہنوں ، اور بہنوئی نے مہاجرت اختیار کی۔

 مہاجرت میں کیسی تکالیف کا سامنا کرناپڑا؟

عبیداللہ : ہم وہ لوگ تھے جو اپنے علاقے خوشحال زندگی بسر کررہے تھے۔ ہمیں کسی چیز کی تنگی و کمی نہ تھی۔ لیکن حالات نے ہمیں مہاجر بنا دیا۔ یہاں نہ ہمارے گھر ہے نہ روزگار ہے اور نہ ہی بچوں کو تعلیم۔ انتہائی مشکل حالات میں زندگی جی رہے ہیں۔ ہم جیسے تیسے زندگی گزارلیں گے ، بچوں کے لیے پریشانی ہے کہ اس جلاوطنی میں بغیر تعلیم اور روزگارکے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہی بڑی پریشانی ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

عبیداللہ : انسانی حقوق کے اداروں سے صرف ایک ہی اپیل ہے کہ ہمیں اپنے پیاروں سے ملانے میں مدد کریں اور ہماری آواز بنیں۔ جو کربناک زندگی ہم گزار رہے ہیں ، اس کا صرف ہم ہی اندازہ کرسکتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ادارے ہیں جو انسانی حقوق کے لیے کام کرتے ہیں وہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں کہ میرے 87 سالہ والد سمیت دیگر رشتہشال (ہمگام نیوز ) عام طورپرفوجی آپریشن کا مقصد کسی علاقے کی کلئیرنس یا صورتحال کو نارمل کرنے کا نام ہے۔ بلوچستان میں فوجی جارحیت کا مقصد ظلم ،جبر اور سفاکیت ہے ۔ یہاں دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوتے۔بلوچستان میں جو مسلح جنگ چل رہی ہے اس کی نوعیت بالکل مختلف ہے جسے آج تک دنیا کے ملک یاعالمی ادارے نے دہشت گردی قرار نہیں دیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ بلوچ جنگجو بلوچستان کے وسیع اور کٹھن پہاڑی سلسلوں میں مقیم ہیں جہاں وہ اپنی گوریلا جنگ لڑتے ہیں لیکن کسی آبادی کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں کرتے ہیں ، وہ “ہٹ اینڈ رن “کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستانی فوج کی جانب سے ’فوجی آپریشن ‘ کے نام پر عام آبادیوں پر یلغار روز کا معمول بن چکا ہے۔ یہ جارحیت اور ظلم کی داستانیں رقم کر رہی ہیں۔ بلوچستان کا کوئی علاقہ، قصبہ یا گاؤں نہیں جہاں اس طرح کی ایک اسٹوری تحریر نہ کی جاسکتی ہو ، توتک ان میں سے ایک ہے۔

توتک، بلوچستان کے دارالحکومت شال سے تین سو کلو میٹر دور ضلع خضدار میں کلات ڈویژن کا حصہ ہے۔اس کی آبادی لگ بھگ چھ لاکھ ہوگی۔ ضلع خضدار بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جو پاکستانی فوجی بربریت سے شدید متاثر ہے۔یہاں تعلیمی اداروں سے لے کر تمام شعبہ جات آرمی یا شفیق مینگل جیسے کرداروں کے ہاتھوں میں ہیں۔ضلع خضدار نے جبری گمشدگیوں سے لے کر مسخ شدہ لاشیں ، اجتماعی سزا اور اجتماعی قبریں بھی دیکھی ہے اور اس ظلم و بربریت کے خلاف خضدار آج بھی سراپا احتجاج ہے اور اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے۔ توتک ایک دکھ اور درد کی کہانی بن چکی ہے۔

 توتک فوجی جارحیت :

 18 فروری 2011 توتک کے لوگوں کے لیے عام دن نہیں تھا۔ علی الصبح جب لوگ ابھی نیند سے بیدار ہو رہے تھے کہ گولیوں کی گڑگڑاہٹ سے توتک کے در و دیوار لزر اٹھے۔ جب لوگ نیند سے جاگے، اس وقت تک توتک گاؤں اور پہاڑی سلسلے فوج کے محاصرے میں تھے۔ فوجی گھر گھر تلاشی لے رہے تھے۔ لوگوں کو اجتماعی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اس جارحانہ کارروائی میں پاکستانی فوج نے دو بلوچ نوجوان یحییٰ قلندرانی اور نعیم بلوچ کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا اور ایک 80 سالہ بزرگ محمد رحیم سمیت سترہ افراد کو غیر قانونی حراست میں لے کر جبری لاپتہ کر دیا، ان میں بوڑھے اور جوان شامل تھے ۔ اسی سالہ برزگ محمد رحیم سمیت دیگر اسیران ابھی تک فوج کے غیرقانونی حراست میں ہیں۔ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس بزرگ سمیت دیگر قیدیوں کی رہائی عمل میں نہیں آئی۔ توتک میں نا صرف ہولناک فوجی جارحیت کی گئی، دو نوجوان قتل اور سترہ لوگوں کو دن کی روشنی اور نظروں کے سامنے جبری لاپتہ کیا گیا بلکہ اس کے بعد تین سالوں تک اس علاقے کو ایک ڈیتھ سکواڈ کا ہیڈکوارٹر بنا دیا گیا۔

 ڈیتھ اسکواڈ :

یہ ڈیتھ اسکواڈ ریاست کی جانب سے تشکیل دئیے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں ان کی تعداد نہایت بڑھ گئی ہے۔ توتک میں یہ ڈیتھ اسکواڈ بدنام زمانہ شفیق مینگل کی سربراہی میں تشکیل دیا گیا۔

توتک فوجی جارحیت میں جبری لاپتہ کیے گئے افراد کی تفصیل درج ذیل ہے۔

• محمد رحیم بلوچ ولد جمعہ خان

• آفتاب بلوچ ولد مشتاق احمد

• نثاربلوچ ولد یعقوب خان

• آصف بلوچ ولد جمعہ خان

• ندیم بلوچ ولد عبدالحکیم

• عتیق بلوچ ولد سردار علی محمد

• خلیل بلوچ ولد سردار علی محمد

• وسیم بلوچ ولد سردار علی محمد

• ارشاد بلوچ ولد نواب خان

• فدا بلوچ ولد عبداللہ

• ظفر بلوچ ولد نور احمد

• مصطفٰی بلوچ ولد عبدالغنی

• امتیاز بلوچ ولد عبدالحکیم

• ضیاء اللہ بلوچ ولد عبداللہ

• عمران بلوچ ولد گامڑخان

• ڈاکٹر محمد طاہر ولد محمد رحیم خان

• مقصود بلوچ ولد شیر محمد (مسخ شدہ لاش برآمد)

• عبدالوہاب ولد محمد عثمان

 بلوچستان سے جبری لاپتہ ہونے والے ہزاروں لوگ کئی سال گزرنے کے باوجود منظر عام پر نہیں لائے گئے ہیں اور نہ انہیں کسی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ہاں البتہ کئی لاپتہ افراد نیم مردہ حالت میں شدید تشدد کے بعد چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بعد میں وفات پاتے ہیں، یا خود کشی کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں یا پھر اپنی باقی ماندہ زندگی ذہنی مریض کی صورت میں گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جبری لاپتہ افراد میں سے بعض کو جعلی مقابلوں میں قتل کرکے انھیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے یا فیک انکاؤنٹر کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ پاکستانی فورسز اور اس کے قائم کردہ ڈیتھ اسکواڈ نے بلوچ عوام کے زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ بلوچستان میں ریاستی ادارے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہونے کے باوجود کسی بھی عالمی انسانی حقوق کے ادارے کو جوابدہ ہونے سے خود کو مبراء سمجھتے ہیں۔

توتک اجتماعی قبریں

توتک بلوچستان نہایت بد نصیب رہا۔ جبری گمشدگیوں کے بعد دل دہلانے والی اجتماعی قبروں کی داستان شروع ہوئی۔ بلوچستان کے اجتماعی قبروں میں صرف توتک کی اجتماعی خبریں پاکستانی اور تھوڑی بہت بین الاقوامی میڈیا کا توجہ حاصل کر سکیں۔ اس کی وجہ شاید وہ چرواہا تھا جو درندہ فوج اور اس کی کرتوتوں سے ناواقف تھا۔ اس کی نظر میں صرف ایک فورس تھا، جسے بلوچستان میں لیویز کہتے ہیں۔ اس نے مقامی لیویز کو اطلاع دی تو پتہ چلا کہ وہاں ڈیڑھ سو سے زائد لاشیں دفن ہیں۔ جب خضدار کو ڈپٹی کمشنر کو اطلاع دی گئی تو اس نے اس تعداد کو چھ سات کرنے میں دیر نہیں کی۔ ان میں سے دو لاشوں کی شناخت ان کی جیب میں شناختی کارڈز کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ انھیں آواران سے اغوا کیا گیا تھا۔

توتک واقعہ پاکستان کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکہ ہے۔ یہ علاقہ بلوچ نسل کشی ، فوجی جارحیت اور ڈیتھ سکواڈ کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ توتک سے پہلی بار بڑے پیمانے پر ”اجتماعی قبریں ” برآمد ہوئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اس اجتماعی قبر میں 169 افراد دفن تھے۔ ایسے دیگر قبروں کی بھی مقامی لوگوں نے نشاندہی کی مگر فوج نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے کر اس مقام تک عام افراد کی رسائی پر پابندی لگادی۔ دیگر اجتماعی قبروں میں کتنے افراد دفن ہیں، یہ آج تک کسی کو معلوم نہ ہوسکا۔ اس واقعے کے خلاف بلوچ آزادی پسند پارٹی اور تنظیموں نے بھرپور آواز تو اٹھائی لیکن اس چیخ و پکار کے باوجود عالمی اداروں نے اس مسئلے کو نظرانداز کردیا۔ اس سے نہ صرف بلوچ نسل کشی جاری ہے بلکہ پاکستان اس “خاموشی” کو آج بھی استثنیٰ کے طورپر استعمال کر رہی ہے۔

25 جنوری کی صبح ایک بلوچ چرواہا اپنے ریوڑ کو لے کر توتک مژی کے پاس پہنچتا ہے تو اسے متعدد لاشوں کے باقیات نظر آتے ہیں۔ یہ علاقہ 2011 کے فوجی جارحیت کے بعد تین سال تک مسلسل فوجی محاصرے میں رہا تھا۔ یہاں شفیق مینگل نامی ریاستی مہرے نے اپنا ایک نجی جیل قائم کیا تھا۔ جارحیت کے بعد عام آبادی کے لیے معمولات زندگی یکسر بدل گئے تھے۔ توتک میں ریاستی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈ کا ایک منظم گروہ شفیق الرحمان مینگل کی سربراہی میں کام کر رہا تھا، جو لوگوں کو اٹھا کر انھیں لاپتہ کرتے تھے۔ انہی علاقوں کے پہاڑوں میں ان کے عقوبت خانے بنے ہوئے تھے جہاں لوگوں کو تشدد سے قتل کرکے ان کی مسخ لاشیں دفنا دیے جاتے تھے۔

وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز اور پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دیگر اداروں اور آزاد میڈیا کے مطابق توتک کے علاقے مژی سے تقریباً ایک سو انہتر 169 لاشیں برآمد ہوئی تھیں، جن میں بیشتر مسخ ہو چکی تھیں۔ ان لاشوں میں صرف دو کی شناخت ممکن ہو سکی تھی جن کا تعلق آواران سے تھا۔ بلوچستان سے جبری لاپتہ ہزاروں افراد کے لواحقین نے اس وقت بھی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ یہ تمام لاشیں ان لاپتہ افراد کی ہیں جنھیں پاکستانی فورسز نے براہ راست یا اپنے قائم کردہ ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے لاپتہ کیا ہے۔

بلوچستان کے صوبائی حکومت کی جانب سے اجتماعی قبروں کے معاملے کی تحقیقات کے لیے جسٹس نور محمد مسکانزئی کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے بنا کسی شفاف تحقیق اور کارروائی کے ریاستی فورسز اور اداروں کو بری الذمہ قرار دے دیا۔

 شفیق الرحمان مینگل کون ہیں؟

شفیق مینگل پاکستانی فوج کے زیردست ایک منظم ڈیتھ اسکواڈ پر مشتمل گروہ کو چلانے والا ریاستی مہرہ ہے۔ شفیق مینگل کے والد کا نام نصیر مینگل ہے جو پاکستان کے ایوان بالا میں سینیٹر اور وفاقی کابینہ میں وزیر پٹرولیم کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے نگران وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔ شفیق الرحمان مینگل فوج کے ساتھ مل کر کئی سالوں سے خضدار کے نواحی علاقوں توتک اور وڈھ کے پہاڑی علاقوں میں مسلح کارندوں کے ہمراہ مورچہ زن ہے۔ اہم مہرہ ہونے کے ناتے شفیق مینگل پاکستانی فوج کے لیے کشمیر جنگ میں بطور پراکسی بھی کام کرتا آرہا ہے، اور جہاد کے نام پہ لوگوں کو بھرتی کرکے کشمیر بھی بھیجتا رہا ہے۔ وہ ایک انتہا پسند مذہبی سوچ رکھتا ہے۔ ایسے شواہد ملے ہیں کہ شفیق مینگل نے توتک کے علاوہ وڈھ باڈڑی میں بھی ٹریننگ کیمپس قائم کر رکھے ہیں۔ ان ٹریننگ کیمپس میں وہ داعش، انصار الاسلامیہ اور لشکر جھنگوی کے لیے لوگوں کو بھرتی کرکے دہشت گردی کے لیے ٹریننگ دیتا ہے۔

شفیق مینگل پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ، جہادی پراکسیز کی پالیسیوں کے تحت تیار کردہ اہم مہرہ ہے۔ بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی اور ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ شفیق مینگل شیعہ برادری، مقدس مزارات اور صحافیوں پر حملوں میں ملوث ہے۔ اس کا برملا اظہار پاکستان کے تفتیشی اداروں نے کئی تحقیقاتی رپورٹوں میں کیا ہے۔ پاکستان کے معروف صحافی حامد میر کے مطابق شفیق مینگل نے بلوچستان خاص کر خضدار میں صحافیوں کا ایک ہٹ لسٹ جاری کیا تھا جس کے بعد متعدد صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر قتل کیا تھا۔ ان میں معروف صحافی منیر شاکر، عبدالحق ،محمدخان ساسولی اور ندیم گرگناڑی کے دو فرزند بھی شامل ہیں۔ شفیق مینگل 26 مئی 2014 کو وڈھ تحصیل میں درج ایک ایف آئی آر میں بطور مرکزی ملزم نامزد ہے۔ ایف آئی آر 25 مئی 2014 کو وڈھ میں ایک لیویز چیک پوسٹ پر حملے بعد درج کی گئی تھی جس میں آٹھ لیوز اہلکاروں کو قتل اور تین اہلکاروں کو زخمی کیا گیا تھا۔ توتک میں اجتماعی قبروں سے برآمد ہونے والے لاشوں کے ڈی این اے سیمپل لینے والے ٹیم کے ارکان کو بھی شفیق مینگل نے نشانہ بنایا تھا تاکہ فرانزک رپورٹ کو روکا جاسکے۔ پاکستانی تفتیشی اداروں کے کئی رپورٹوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صفورہ گھوٹ کے مقام پر اسماعیلی شیعہ برادری کے بس اور سندھ میں سیہون شریف کے حملوں جن میں بالترتیب 47 اور 90 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ سندھ ہی کے علاقے شکارپور جس میں شیعہ برادری کے ایک عبادت گاہ کو خودکش حملے کا نشانہ بنانےِ کی کوشش کی گئی تھی کے گرفتار مرکزی ملزموں اور سہولت کاروں نے دوران تفشیش اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ ان کی تربیت اور دہشتگردانہ حملوں میں ہونے والے بارودی مواد اور خودکش جیکٹ وڈھ میں شفیق مینگل کی سرپرستی میں قائم کیمپ سے مہیا کیے گئے تھے۔ بین الاقوامی جریدے روئیٹرز کی ایک رپورٹ جو 7 اگست 2017 اور پاکستان کے معروف انگریزی اخبار ڈان کی ایک رپورٹ جو 2 مارچ 2018 کو شائع ہوئی ہے جس میں پاکستانی تفتیشی اداروں کے اہلکاروں نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سیہون بم حملہ اسماعیلی شیعہ اسماعیلی برادری کے بس پر حملہ اور شکار پور میں شیعہ عبادت گاہ پر ناکام حملے کے گرفتار ملزمان اور سہولت کاروں نے دوران تفتیش اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کی تربیت بلوچستان کے علاقے وڈھ میں شفیق مینگل کی سرپرستی میں ہوئی تھی اور انھیں حملوں کےلیے مقررہ مقامات پر بھی پہنچانے کےلیے سہولت کار بھی انہی کے کیمپ سے مہیا کیےگئے تھے۔ شکارپور میں خودکش حملے کی کوشش میں گرفتار عثمان نامی خودکش بمبار نے انکشاف کیا تھا کہ انھیں خودکش جیکٹ علی محسود عرف معاذ نامی شخص نے فراہم کی تھی جو وڈھ میں مقیم تھا اور حفیظ بروہی نامی ملزم نے انھیں وڈھ سے موٹر سائیکل پر دھماکے کی جگہ پر پہنچایا تھا۔ (حفیظ بروہی سیہون شریف حملے میں مرکزی ملزم کے طور پر نامزد اور مفرور ہے جبکہ عدالت نے ا سکی غیرموجودگی میں اسے سزائے موت سنائی ہے ۔) ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی پولیس کو دوران تفتیش صفورہ گھوٹ حملے کے سہولت کار احسن محسود جس کا تعلق القاعدہ جنوبی ایشیاء سے ہے نے بتایا ہے کہ اس کا بھائی علی محسود عرف معاذ وڈھ میں ایک جہادی تربیتی کیمپ چلا رہا ہے۔ روئیٹرز نے تفتیشی رپورٹوں کی روشنی میں شفیق مینگل کو مرکزی ملزم کے طور پر پیش کیا ہے۔

 توتک جارحیت کے متاثرین

 توتک جارحیت کے متاثرین کس حال میں ہیں ؟

اس بارے میں پانک کے نمائندے نے محمدرحیم خان کے بڑے بیٹے عبیداللہ کاانٹرویو کیا،عبیداللہ مہاجرت کی زندگی گزاررہے ہیں لیکن سیکوریٹی خدشات کی بناپر ہم ان کے لوکیشن کو ظاہر نہیں کرسکتے ،عبیداللہ اس آپریشن کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔

سوال : توتک میں پاکستانی فوجی جارحیت کے متاثرین کے زندگی پر کیسے اثرات مرتب کیے ؟

 عبیداللہ: توتک ایک شاد و آبادعلاقہ تھا۔ گاؤں کے سبھی لوگ خوشحال تھے۔ بچے اچھے سکولوں میں پڑھ رہے تھے لیکن اس فوجی حملے نے ہماری زندگیوں کو تہہ وبالا کردیا۔ پاکستانی فوج کے حملے کے بعد توتک کربلا بن چکا ہے۔ جو یزید نے امام حسین کے ساتھ کیا وہی پاکستانی فوج نے ہمارے ساتھ کیا۔ ایک ہی خاندان کے سترہ افراد کی جبری گمشدگی اور دو افراد کا قتل؛ اس درد کا اندازہ صرف ہم ہی کرسکتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں ہولناک نا صرف فوجی جارحیت ہوئی بلکہ تین سال تک ہمارا گاؤں “ڈیتھ سکواڈ” کے رحم کرم پر رہا۔ یعنی تین سال بعد مظالم کا سلسلہ نہ رک سکا۔ توتک جارحیت کے 13 سال بعد ہم اپنے پیاروں کے انتظار میں لمحہ لمحہ گن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے کئی رشتہ دار طویل انتظار و رنج و الم کے دوران دنیا سے کوچ کر گئے ۔فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ نوجوان فدا اور ضیاء بلوچ کے والد حاجی عبداللہ اپنے بیٹوں کا انتظار کرتے کرتے وفات پا گئے۔ اسی طرح ارشاد بلوچ کے والد میرنواب خان ، ندیم اور امتیاز احمد کے والد عبدالحکیم، آصف بلوچ کے والدجمعہ خان اور عمران بلوچ کے والد گامڑخان بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ خاندان کے اکثر افراد شدید نفسیاتی بیماریوں سے دوچار ہیں۔ نفسیاتی ڈاکٹروں کےمطابق یہ سب PTSD نامی بیماری کا شکار ہیں۔ خاندان کے زیادہ ترلوگ مہاجرت پرمجبور ہوگئے۔ خاندان کے کچھ لوگ وہیں مقیم ہیں۔

لاپتہ اور شہید ہونے والے افراد کا ایک دوسرے کا رشتہ کیا ہے؟

 عبیداللہ : لاپتہ اور قتل ہونے والے افراد سبھی میرے رشتہ دار یعنی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبری لاپتہ میں سرفہرست میرے والد محمد رحیم خان ولد حاجی جمعہ خان ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 75 سال تھی۔ آج ان کی عمر 87 ہے۔ شہید ہونے والا نعیم میرا چھوٹا بھائی اور یحیٰ ولد حاجی نوراللہ میرے کزن کا بیٹا تھا۔ کچھ وقت کے بعد جبری لاپتہ مقصود ولد شیرمحمد کی مسخ لاش پھینکی گئی، وہ بھی میرے کزن تھے۔ جبری لاپتہ ڈاکٹر محمد طاہر میرے بھائی ہیں۔

خلیل، عتیق اور وسیم محمدرحیم خان کے نواسے ہیں۔ ضیاء، امتیاز احمد اور فدا میرے والد کے کزن کے بیٹے ہیں۔ اسی طرح آفتاب، نثار احمد، ارشاد،ء عمران، ظفر ، مصطفیٰ میرے والد کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اسی سال جون کے مہینے میں محمد رحیم خان کے ایک کزن کے بیٹے عبدالوہاب ولد محمدعثمان کو فوج نے خضدار سے جبری لاپتہ کیا۔ اس کی بھی آج تک ہمیں خبر نہیں کس حال میں ہے۔

 کیا محمد رحیم سیاست میں شامل تھے؟

 عبیداللہ : محمد رحیم خان کسی سیاست جماعت میں شامل نہیں تھے،کافی بزرگ تھے ، وہ اپنا زیادہ وقت مسجد میں گزار تے اور باقی وقت زمینوں کی دیکھ بھال میں گزارتے،ہم چونکہ علاقے کے بڑے زمینداروں میں شمار ہوتے تھے ، اچھی خاصی گزر بسر ہوتی تھی لیکن اس فوجی کارروائی کے بعد ہمارے لیے کچھ بھی نہ بچا، نہ رشتہ دار اور کاروبار اور نہ روزگار کے ذرائع۔حتیٰ کہ وطن سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے۔اپنے علاقے میں خوشحال لوگ آج دیارِ غیرمیں بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں

 خاندان پر کیا اثرات مرتب ہوئے ؟

 عبیداللہ : خاندان کے زیادہ تر افراد جبری جیل میں ہیں۔ باقی مہاجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مہاجرت خود کسی اذیت سے کم نہیں ۔ جیساکہ پہلے بتایا کہ خاندان کے اکثر لوگ ڈیپریشن کا شکار بن چکے ہیں۔ اس 13 سالہ اذیت ناک انتظار میں کئی لوگ انتظار کا کرب برداشت نہ کرسکے اورجہان سے گزر گئے۔

 خاندان کے کتنے لوگوں نے مہاجرت اختیار کی ؟

عبیداللہ: محمد رحیم خان کے تین بیٹوں یعنی میں ،میرے دو چھوٹے بھائی، والدہ ، بہنوں ، اور بہنوئی نے مہاجرت اختیار کی۔

 مہاجرت میں کیسی تکالیف کا سامنا کرناپڑا؟

عبیداللہ : ہم وہ لوگ تھے جو اپنے علاقے خوشحال زندگی بسر کررہے تھے۔ ہمیں کسی چیز کی تنگی و کمی نہ تھی۔ لیکن حالات نے ہمیں مہاجر بنا دیا۔ یہاں نہ ہمارے گھر ہے نہ روزگار ہے اور نہ ہی بچوں کو تعلیم۔ انتہائی مشکل حالات میں زندگی جی رہے ہیں۔ ہم جیسے تیسے زندگی گزارلیں گے ، بچوں کے لیے پریشانی ہے کہ اس جلاوطنی میں بغیر تعلیم اور روزگارکے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہی بڑی پریشانی ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

عبیداللہ : انسانی حقوق کے اداروں سے صرف ایک ہی اپیل ہے کہ ہمیں اپنے پیاروں سے ملانے میں مدد کریں اور ہماری آواز بنیں۔ جو کربناک زندگی ہم گزار رہے ہیں ، اس کا صرف ہم ہی اندازہ کرسکتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ادارے ہیں جو انسانی حقوق کے لیے کام کرتے ہیں وہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں کہ میرے 87 سالہ والد سمیت دیگر رشتہ داروں کو بازیاب کریں۔ یہی ہمارا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔

 داروں کو بازیاب کریں۔ یہی ہمارا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔