ہمگام کالم : تیرہ نومبر اپنے تاریخی پس منظر کے حوالے سے ایک اہم تاریخی دن ہے جس میں شہید مہراب خان (اول) نے برطانوی انگریز سامراج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی بجائے بلوچ قومی آزادی کی علم کو بلند کیا اور بلوچ آجوئی کی لشکر کا دلیری سے رہنمائی کرتے ہوئے کسی بھی ذاتی و مراعاتی کیچڑ میں پھنسنے کی بجائے بلوچ تاریخ میں ھیرو کے طور پر خود کو رقم کروایا۔ بلوچ پرآشوب تاریخ ایسے ہزاروں نامور و گمنام عظیم شہدا سے اٹی پڑی ہے جس نے اپنی قیمتی جانوں کو، مال و دولت، اپنی مستقبل اور جوانی کو سرزمین کے لیے وقف کرکے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ قربانیوں کا نہ رکنے والا یہ سلسلہ تافم تحریر جاری و ساری ہے ۔ گجر و پنجابی کی بالادستی اور بلوچ قومی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے تہتر سالہ جدوجہد جو پنجابی قبضہ کے خلاف چل رہی ہے اسے بلوچ شہدا نے اپنا لہو بہا کر جلا بخشی ہے۔ انہی بلوچ عظیم بہادر سپاہیوں کی قربانیوں کا مرہون منت ہے کہ آج ہر بلوچ چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں زندگی بسر کر رہا ہے وہ انتہائی فخر سے بلوچ تحریک کا حوالہ دے کر اپنی قومی شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتا /کرتی ہے۔ تیرہ نومبر کا دن ایک ایسا دن ہے جس میں ہماری تمام مائیں اپنے عظیم بیٹوں کو مل کر یکساں طور پر یاد کرتے ہیں، تمام بلوچ والدین بلا کسی تفریق کے اپنی پوری بلوچ شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں، تمام بہنیں اپنے بھائیوں کی قبروں پر پھول چھڑانے کی غرض سے اکھٹے ہوتی ہیں، تمام بیٹیاں اور بیویاں اپنے عظیم ہیروز کو بانٹنے کی بجائے سب کو برابر اور یکساں طور پر فخریہ انداز میں یاد کرتے ہیں اور مل کر ان کے ادھورے خوابوں کو شرمندہ تعبیر بنانے کا عہد و پیماں کرتے ہیں۔ واقعی آج کے دن میں کوئی بھی شہید ہم سے بحیثیت قوم گلہ شکوہ نہیں کریگا کہ ہم نے کسی مخصوص شہید کو مخصوص دن میں تو یاد کی لیکن ان کی گمنام قبر کا آج تک پتہ نہیں اور کسی کو ان کی قومی خدمت کا اعتراف نہیں ! بلوچ قوم کے ہرفرد کی یہ قومی ذمہداری میں شامل ہے کہ ہم نے مل کر نہ صرف اپنے عظیم ہیروز کو یاد کرنا ہے بلکہ ان کے چنے گئے کاروان آزادی میں حصہ دار بن کر اپنی ، اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار بھی ادا کرنا ہے کیونکہ اگر ہم اپنے ان عظیم شہدا کو یاد نہیں کریں گے تو تاریخ کے پنوں میں کن الفاظ میں یاد کئے جائیں گے، اس کا ہمیں ادراک بھی ہے کہ نہیں؟ بلوچ قوم ایک ایسی لڑائی لڑ رہی ہے جس میں جیت ان کا مقدر اور ہار دشمن کے نصیب میں لکھی ہوئی ہے۔ اس جیت کو عملی جامع پہنانے کے لیے جب بھی بلوچ دھرتی ماں نے اپنے فرزندوں کو پکارا ہے بلوچ شہدا نے بلا چوں چراں مادر وطن کی اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے تپتی انگاروں پر ننگے پاوں چلنے کی حامی بھری، اپنی دھن، من دولت، عیش و عشرت کی زندگی کو خیرباد کہا اور جن فرزندوں کے پاس مال و دولت کی فراوانی  نہیں ہے انہوں نے اپنی جان بھی اس دھرتی پر نچاور کی ہے۔ قبضہ گیرو ں سے لڑ کر اپنی آزادی حاصل کرنے والی اقوام آج فخر سے اپنے عظیم شہدا کو قومی اعزاز کے ساتھ یاد کرتے ہیں، ان کے لیے ایک الگ  قومی دن متعین کی جاتی ہیں، شہدا کے لواحقین کو ہرممکن مدد و کمک مہیا کی جاتی ہے، جنگ آزادی کے زخمی غازیوں کے لیے بھی خصوصی پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے اور جنگ کے ریٹائر جنگجووں کے تجربات سے استفادہ حاصل کی جاتی ہے۔ جنگ میں حاصل مختلف فتوحات کے ایام کو قومی جوش و خروش کے ساتھ سنہرے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے جبکہ قومی سانحات پر پرمغز تبصرے کئے جاتے ہیں تاکہ ایسے ضرر یافتہ پالیسیوں اور کوتاہیوں کو دہرانے سے بچا جاسکے۔ باشعور اقوام مل کر متفقہ طور پر فیصلے لیتے ہیں اور اپنے فیصلوں کی دور رس مثبت یا منفی نتائج سے اپنی قوم کو آگاہ کرتے ہیں، مدبر اور دور اندیش رہنما مستقبل کے طوفانوں سے قوم کو پیشگی متنبہ کرتے ہیں اور مشکل ترین وقت آنے پر اپنی ذاتی، گروہی، تنظیمی مفادات کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور قومی مفادات پر آنچ آنے نہیں دیتے۔ قومی معاملات سے متعلق کوئی بھی فیصلہ ہو اس کے مثبت پہلو کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور منفی پہلو کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنی آرا شریک کرنے چاہئے تاکہ دشمن کے خلاف جاری جنگ کو موثر طور پر آگے بڑھایا جاسکے۔ شہدا کو مل کر یاد کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ رات گئی بات گئی بلکہ ان کی اس غیر متزلزل اور باوقار راہ پر عملا چل کر دکھانا پڑیگا کہ یہ ہم سب کا مشترک وطن ہے، اس پر قابض پنجابی اور گجر ہم سب کا مشترک دشمن ہے اور اس غاصبانہ قبضہ گیروں سے آزادی حاصل کرنا بھی ہم سب کی مشترکہ زمہ داری ہے تب جاکر ہم ایک دوسرے سے صحیح معنوں میں جڑ کر ایک روشن مستقبل کے حصول میں قابل ذکر پیش رفت بھی کرسکتے ہیں۔