سه شنبه, اکتوبر 1, 2024
Homeآرٹیکلزثنا ء اللہ زہری کی بے بسی تحریر : سیم زہری

ثنا ء اللہ زہری کی بے بسی تحریر : سیم زہری

سولہ اپریل کو زیب سکندر اور مہر اللہ کو ہلاک ہوئیں دو سال مکمل ہو گئے، پچھلے سال کی طرح اس سال بھی ثناء اللہ زرکزئی نے اپنے ٹکڑے شدہ بیٹے بھائی اور بھتیجے کی برسی منا کر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی ناکام کوشش کی، اپنے گلو گیر انداز میں پچھلے سال کی طرح اس سال بھی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کی سلامتی کے لئے قربانی دی ہے لہذا بلوچ نوجوان بھی آکر ہمارے اس وطن فروشی کے عمل میں ہمارے ساتھ ہمقدم بنیں،کیونکہ جب بھی پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق ہوا ہے تو اس کے خاندان نے سب سے پہلے اپنے سینے گولی کے لیے پیش کیے ہیں اور اس نے اجتماع کو گواہ بنا کر کہا کہ اس بھیانک وار کے باوجود میرے حوصلے بلند ہیں اور اپنی جھوٹی تسکین کے لئے یہ بھی کہا آج میرے ٹکڑے ٹکڑے شدہ بچوں کی ہلاکت کی بدولت بلوچ نوجوان بلوچستان میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہیں، ساتھ ساتھ اپنے گریبان میں نہ جھانکتے ہوئے کہا کہ آج بھی بلوچستان میں ایسے سردار موجود ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں بچوں کے لیے ایک تعلیمی ادارہ تک کی اجازت نہیں دیتے، حیرت کی بات ہے وہی سارے عمل خود کر رہا ہے لیکن اپنی بدبو انسان کو بری نہیں لگتی،
مجھے بذات خود ثناء اللہ زرکزئی سے زیادہ اس مجمعے میں شامل لوگوں پر ہنسی آتی ہے کہ ان کا ضمیر ایسے بھونڈے اور بے ہودہ جھوٹ سنتے ہوئے کیسے برداشت کر پایا کیوں کہ ثناء اللہ تو خود ضمیر فروش وطن فروش ہے اور اس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تم لوگوں نے بھی اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دیا ہے. اخبار بھی اجتماع کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے پنڈال میں جگہ کی کمی رہی لیکن بلوچستان اسمبلی کے کٹھ پتلی وزراء کا زکر کرتے ہوئے یہ بھول گیا کہ ہر وزیر کے ساتھ پچاس سو باڈی گارڈ ہوتے ہیں اس لحاظ سے جلسے کا آدھا حصہ لیویز اہلکاروں پر مشتمل تھا اور بقیہ ماندہ ثناء اللہ کے دز لْنڈ تنخواہ خور پیشہ ور قاتل اور چاپلوس تھے. اس کے علاوہ ہم چند دوست تھے جو اس جھوٹی بادشاہت کے روداد آپ تک پہنچانے کے لیے موجود تھے لیکن یہ ہمارا درد سر نہیں،
ثناء اللہ کی تحریر شدہ تقریر کے کچھ پوائنٹس لے کر میں آپ دوستوں خصوصاً زہری کے نوجوانوں کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ غور و فکر کے بعد ان بھونڈے پوشیدہ محرکات سے پردہ ہٹایا جا سکے
1 ۔ثناء اللہ زرکزئی کا یہ کہنا “کہ میرے خاندان نے اسلام کی سر بلندی اور پاکستانی سلامتی کے لئے سب سے پہلے اپنا سینہ پیش کیا ہے”
کیا ثناء اللہ زرکزئی کا اسلام سے دور دور تک کوئی رشتہ حلیہ شاعبہ نظر آتا ہے؟ پاکستان میں ایسا اسلام پرست کوڑیوں کے داموں ملتے ہیں جو پنجابی کی حاکمیت کے تسبیح پڑھتے ہیں اس کے علاوہ وہ اپنے خاندان کا ذکر کرتا ہے تو اس بات کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اس خاندان اور اس سے جڑے رشتوں کو سمجھنا ہوگا،
نواب خان محمد زرکزئی ،نواب نوروز خان اور سردار رسول بخش اول تین بھائی تھے جو کہ گہور خان فیملی( جس کا چمکتا دمکتا ستارہ شہید سفر خان ہے) سے بالکل الگ اور آپسی خاندانی دشمنی کا شکار رہے ہیں. اس سے پہلے بھی میں نے اپنے آرٹیکلز میں ان خصلتوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ وقت اور مقصد کے آڑے آنے پر کیسے ایک دوسرے کو کاٹ کھاتے ہیں.
نواب محمد خان کا بیٹا غوث بخش جسکا باقی ماندہ فیملی تاج محمد بلوچ خان وغیرہ پر مشتمل خضدار کھٹان میں رہائش پذیر ہے، نواب نوروز خان کی فیملی امان اللہ زرکزئی شہید بٹے خان، جلال خان وغیرہ پر مشتمل ہے اور مزید تعارف کا بھی متحمل نہیں۔
جب کہ رسول بخش اول کا بیٹا دودا اول اور دودا اول کے بیٹے خود ثناء اللہ اسرار ظفر نعمت مہر اللہ اور دودا دوئم کے والد رسول بخش دوئم وغیرہ ان کے فیملی کا حصہ ہیں، اس مختصر جائزے کے بعد آپ مجھے بتائیں کہ اس فیملی میں دو چار نہیں بلکہ ایک آدھ شخص ہی دکھایا جائے جس نے سینے پر گولی کھائی ہو، کیا سینے پر گولی کھانے والے بہادر نڈر انسان نہیں ہوتے؟؟ اگر بہادر ہوتے ہیں تو ان مکاروں میں ایک بہادر دکھایا جائے تو میں مانوں،بزدلوں کی طرح صرف زہری کے عوام کو ایک دوسرے سے لڑانا اور لڑانے کے بعد ان کو فیصلے کے لیے اپنے کوٹ بلانا اور پھر چوری بدمعاشی ظلم عام لوگوں کو انکے زریعے تنگ کرنا ان کا شیوا ہے لیکن آج تک زہری میں رہتے ہوئے ان کو سینے پر گولی کھاتے ہوئے نہیں دیکھا.
2 ۔ثناء اللہ زرکزئی کا یہ کہنا کہ ” زیب سکندر اور مہر اللہ کی قربانی کی بدولت آج بلوچستان کے کونے کونے میں پاکستان زندہ باد کے نعرے گونج رہے ہیں” مجھے ایک بچگانہ مذاق لگتا ہے ( سردار ثنا اللہ چیف آف جھلاوان تخت جھلاوان میں عوام کے سامنے کھڑے ہو کر احمقوں کی جنت میں رہتے ہو. ) آج مجھے حد درجہ خوشی اس بات پر ہورہی ہے کہ بلوچوں کا دشمن پنجابی کتنا ختم ہے کہ اسکی کھوکھلی بنیادوں کو تمہاری قربانی اور سہارے کی ضرورت ہے،بھٹو خاندان اپنا سب کچھ لٹا کر بھی یہی سمجھتا ہے کہ پاکستان کو ہم نے بچایا ہے،لیکن بھٹو کے متعلق بھی تم اسی جلسے میں کھڑے ہو کر اپنی رائے دیتے ہو اور اپنے انجام سے غافل بھی لگتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ پنجابی کی ڈوبتی نہیا کو دیکھ کر تجھے اپنی طوفان زدہ کشتی کے لالے پڑے ہیں اور اس احمقوں کی جنت سے نکلو کہ بلوچ نوجوان تمہاری قربانی کی وجہ سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں بلکہ وہ تمہاری اس شکست پر خوشیاں منا رہے ہیں اور تمہارے اوپر ہونے والے بے رحم وار کرنے والے کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں.
3 ۔ثناء اللہ زرکزئی کا یہ کہنا کہ “اس بھیانک وار کے باوجود بھی میرے حوصلے بلند ہیں اور جبکہ مجھ پر حملہ کرنے والوں نے بلوچ روایات کی پاسداری کیے بغیر چھپکے سے مجھ پر وار کیا ہے. ثناء اللہ زرکزئی بلوچی روایات کی باتیں ایک بزدل کے منہ سے اچھی نہیں لگتی،تم نے اپنے کتنے دشمن دوسروں کو اکسا کر مروایا ہے؟
حاجی محمد عالم جمالزئی، وڈیرہ عزیز تراسانی سمیت انجیرہ کے بیگناہ بزرگوں نوجوانوں اور بچوں کا قتل کس روایت کا حصہ ہیں؟
ذالکان جمالزئی کے دو گاؤں اور انجیرہیوں کے گھروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرتے وقت روایات کہاں تھے؟
سوراب انجیرہ لاکھوریان روڈ پر چوری ڈکیتیاں کس روایت کے زمرے میں آتے ہیں؟
اپنے بھائی رسول بخش کو آپ اور آپ کے بھائی اسرار کی بندوق سے نکلنے والی گولی نے پیچھے سے لگ کر آگے سے پھاڑ دیا یا سینے سے لگ کر پیچھے سے گزرتی ہوئی پچھلی دیوار میں جا گھسی؟
رسول بخش کے بیٹے سعادت کی مشکوک ہلاکت اور سولہ سترہ اپریل دو ہزار تیرہ کی درمیانی رات کو بابو دودا کی چھریوں سے کٹی لاش کو کن روایات کی بوری میں بند کروگے؟
حمزہ کو مارنے کی نیت سے نکلنے والے یوسف اور حمید میروزئی کے گھر سے نکلتے ہی بندوق کی نلی میں گولی کو چڑھانے کے عمل کو کس روایت کا نام دیتے ہو؟
ایک ریاض زرکزئی کو مارنے کے لیے تخت جھلاوان انجیرہ کے تمام بھاگڑ بلوں کو زیب کا جمع کرکے لاؤ لشکر کے ساتھ آکر اپنے بھائی کو گولیوں سے بھون ڈالنا کونسی روایت ہے؟
اور اسی طرح حوصلے کی بات بھی ایک پر عزم اور با ہمت انسان کے منہ سے اچھی لگتی ہے ورنہ تراسانی بھیانک حملے کے بعد آپ کمر پکڑ کر زہری روڈ پر زارو قطار نہیں روتے،ہمیں پتہ ہے کہ دو سال گزرنے کے بعد بھی آپ کتنے حوصلے سے رات کو بابا پکار کر اپنے آنسو ضبط کر لیتے ہو۔
اس پوری تقریر میں صرف ایک بات حقیقت پر مبنی تھی وہ یہ کہ ” دشمن نے مجھ پر بھیانک حملہ کیا ہے” بھیانک تو تھا جس کا اندازہ آج اسٹیج پر جانے کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھ زمین میں گاڑھ کر بمشکل اٹھنے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ حملہ مزید بھیانک اس لیے بنا کہ تمہاری نسل نے بھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ ہمارے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے،
تم لوگوں نے صرف دوسروں کے باپ رلائے ہیں اور دوسروں کی ماؤں کو روتے دیکھا ہے لیکن یقین جانو جنگ ہر ہر قدم پر بھیانک ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز