گوادر (ہمگام نیوز) جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت اغوا نما گرفتاریوں اور بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے، اسلام آباد میں بلوچ خواتین کی ریلی پر پولیس گردی کے خلاف بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح گوادر میں بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ایک تاریخی اور عظیم الشان احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین نے شرکت کی ، ریلی سیرت النبی چوک سے شروع ہوکر ،شہدائے جیونی چوک تک پہنچی اور احتجاجی جلسے کی شکل اختیار کرلی ۔

 ریلی کے شرکاءہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے زبردست نعرہ بازی کرتے رہے۔ احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے نہتے بلوچوں پر ظلم و جبر ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکنے اور ان کی اغواہ نما گرفتاریاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں انھوں نے کہا کہ کسی بھی ریاست میں سزا و جزا عدلیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر افسوس کہ اس ریاست میں عدلیہ سے بھی بڑھ کر ادارے موجود ہیں جو اپنی رٹ بنائے ہوئے ہیں اور ملکی قوانین کو روندا جارہا ہے۔

 انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت اغوا، مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی ایک طویل داستان ہے، اپنے وسائل پر حق مانگنے اور آواز بلند کرنے پر غداری اور تخریب کاری کے القابات سے نوازا جاتا ہے، ریاستی ادارے خود ملکی قوانین کو روند کر نہتے عوام پر ظلم و جبر قائم کرکے ان کے ماورائے عدالت اغوا، اور قتل نیز ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے جیسے عمل پر خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے ملکی قوانین اور عدلیہ کا احترام نہ کرکے نہتے بلوچوں کے قتل عام میں براہِ راست ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل کو صدیوں سے لوٹا جارہا ہے جب بلوچستان کے عوام اپنے حق کی بات کرتے ہیں، تو ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ انہی ظلم و زیادتیوں سے تنگ آکر آج پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شانہ بشانہ ہیں۔

 ملکی ریاستی ادارے آئیں دیکھیں آج کی اس عظیم الشان تاریخی ریلی میں ہزاروں بلوچ خواتین کی شرکت نوشتہ دیوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں ریاست کو ماں کا درجہ حاصل ہے لیکن شاید اس ریاست میں بلوچستان اور اس کے باسیوں کو سوتیلا بچہ سمجھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ریاست اپنی تمام اکائیوں کو ایک نظر سے نہیں دیکھتی یہ ملک کھبی ترقی نہیں کرسکے گی۔

انہوں نے کہا کہ ظلم و جبر کیخلاف آج پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں آج انہی زیادتیوں کیخلاف اسلام آباد میں پرامن احتجاج کررہی ہے مگر اسلام آباد پولیس کی نہتے بلوچ خواتین اور بچوں کی احتجاج راس نہ آئی اور انھوں نے پولیس گردی کا مظاہرہ کرکے اس ٹھٹھرتی سردی میں شرکاءپر وحشیانہ تشدد کیا اور انھیں گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔

 انھوں نے کہا کہ بلوچستان کا ہر فرد ماہرنگ بلوچ اور سمی دین کی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جدو جہد میں ان کے ساتھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ووٹ بٹورنے والے سن لیں وہ ووٹ کے لیے ہمارے دروں پر نہ آئیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم کیسے ووٹ دیں ایک طرف ہمارے لخت جگر پیاروں کو ماورائے عدالت اغوا کیا جارہاہے اور دوسری طرف ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی جارہی ہیں۔

 انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ انھوں نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جدو جہد پ±رامن جدو جہد ہے تمام بلوچ باہم متحد ہیں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ کھڑے ہیں مظاہرین نے ریاست اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ لاپتہ بلوچوں کو بازیاب کروائے اور اگر ان کا کوئی جرم ہے تو انھیں ملکی عدالتوں میں پیش کرے۔

 دریں اثناءبلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر سربندن اور جیونی میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں جس میں بڑی تعداد میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں نے بھی شرکت کی۔ احتجاجی جلسے سے حسین واڈیلا ، نفسیہ بلوچ ، صغریٰ بلوچ، شاری بلوچ، رخسانہ دوست محمد ، زبیدہ بلوچ ، فاطمہ بلوچ ، نعیمہ بلوچ و دیگر نے خطاب کیا۔