شال(ہمگام نیوز)بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے سیکریٹری ہیومین رائٹس ڈاکٹر ناظر نور بلوچ نے اپنے بیان میں آواران میں جبری لاپتہ افراد سے جبری اقراری بیان لے کر انھیں بی ایل ایف سے جوڑنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا جون 2024 میں آواران کے علاقے تیرتیج سے قابض پاکستانی فوج نے دلجان ولد اللہ بخش کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا جس کے خلاف اس کے اہل خانہ نے آواران میں احتجاجاً شاہراہ کو بند کیا، جلسے اور ہڑتال کیے، دھرنے دیئے۔ بالآخر کھٹ پتلی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اس یقین دہانی پر دلجان کے خاندان نے احتجاجی پروگرام موخر کیا کہ جلد ہی دلجان ولد اللہ بخش کو منظر عام پر لایا جائے گا لیکن ریاست پاکستان نے جبری گمشدگی کے اپنے گھناؤنے جرم کو چھپانے کے لیے دلجان ولد اللہ بخش کو بی ایل ایف سے جوڑ دیا ۔

انھوں نے کہا زیر حراست بدترین تشدد کے بعد دلجان کو ایک جھوٹا اسکرپٹ پڑھنے پر مجبور کرکے اس کی ویڈیو بیان بنایا گیا ہے۔ اس طرح اس کا میڈیا ٹرائل کرکے پاکستانی فوج مقبوضہ بلوچستان میں آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں کے آگے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ فوج کی ایسی حرکتیں اس کی نفسیاتی و ذہنی شکست اور حواس باختگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسی اوچھی حرکتیں در حقیقت پاکستانی فوج کی ناکامی کا اعتراف اور اسکی شکست کا واضح ثبوت ہیں۔اس غرض سے اس کا میڈیا ٹرائل شروع کردیا گیا ہے۔

اسی طرح مشکے، تنک سے اپریل دو ہزار چوبیس کو پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدہ ہونے والے حاصل ولد محمد حسن کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اس کا بھی اسکرپٹڈ ویڈیو بنا کر اسے بی ایل ایف سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے عقوبت خانوں میں نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں کو تشدد کے بعد آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں سے جوڑ کر ریاست اپنے جرائم کو جواز دینے کی لاحاصل کوشش کرتی ہے تاکہ پنجاب کے عوام کی ہمدردی حاصل کر سکے۔ بی ایل ایف کو ترقی دشمن ظاہر کرکے دراصل قابض پاکستانی ریاست اپنے استعماری لوٹ کھسوٹ اور ترقی دشمن کردار کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے لیکن با شعور بلوچ قوم جانتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ ان کا رشتہ غلام اور آقا کا ہے آج شہیدوں کی قربانی اور بلوچ سرمچاروں کی جدوجہد سے بلوچ قوم یہ سمجھ چکی ہے کہ قابض استعماری ریاست کبھی مقبوضہ خطہ اور وہاں کے باشندوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ ترقی کی اصطلاح استعمال کرکے بس اس پر تشدد کرتا ہے اور ذہنی و جسمانی، سیاسی و معاشی استحصال کرتا ہے۔

ناظر نور نے کہا یہ واضح ہے کہ قابض ادارے نوجوانوں کو جھوٹے الزامات کا اعتراف کرنے پر مجبور کرکے اور انہیں بی ایل ایف سے جوڑ کر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قومی آزادی کی تحریک کی بڑھتی ہوئی عوامی ہمدردی اور قبولیت کا مقابلہ کرنے کی یہ کوشش پاکستانی اداروں کی ناکامی کو نمایاں کرتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں۔ ماورائے عدالت جبری گمشدگیاں اور بلوچ نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کو حل کرنے میں اداروں کی ناکامی ان کی رسوائی میں اضافہ کرتی ہے۔

انہوں نے کہا قابض فوج اور سکیورٹی ادارے اختلاف رائے کو خاموش کرنے اور مظلوم کی آواز کو دبانے کے لیے غیر انسانی اور غیر قانونی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ عالمی برادری پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس لے۔ بلوچستان میں نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے واقعات کا فوری ازالہ ضروری ہے۔