مصنف: چنوااچیبی- Chinua Achebe
تبصرہ: ایم-آر بلوچ
چنوا اچیبی(Chinua Achebe) 16 نومبر 1930 کو افریقہ میں پیدا ہوئے وہ نائجیریا کے ایک ناول نگار اور شاعر تھے جنہیں جدید افریقی ادب کی مشہور شخصیت مانا جاتا ہے۔ ان کا پہلا ناول تھنگز فال اپارٹ (1958) کو شائع ہوئی جو افریقی ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے اور یہ ناول افریقہ کا سب سے زیادہ ترجمہ اور پڑھا جانے والا ناول ہے۔ Things Fall Apart کے ساتھ، His No Longer at Ease(1960) اور ایرو آف گاڈ-Arrow of God (1964)کو شائع ہوا جو نام نہاد “افریقی ٹرائیلوجی” کو مکمل کرتے ہیں۔ بعد کے ناولوں میں A Man of the People (1966) اور(1987)Anthills of the Savannaha شامل ہیں۔ انہیں “افریقی ادب کا باپ” بھی کہا جاتا ہے.وہ21 مارچ 2013 کو وفات پاگئے۔
تھنگز فال آپارٹ چنوا اچیبے (Chinua Achebe)کی پہلی ناول تھی جسے نائیجیریا(افریقہ) میں بےحد زیادہ پسند کیا گیا یہ ناول نائیجیریہ میں صرف دو گاؤں کے لوگوں کی کہانی نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں پر قابض کی طرف سے ہونے والے قبضے اور مظالم کو بیان کرتا ہے۔مصنف بتانا چاہتاہے کہ کیسے قابض ایک سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کے رسم و رواج ، زبان، اور تہذیب کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے؟ کیسے وہ لوگوں کے زہنوں میں غلامی قبول کرنے کا ڈر پیدا کرتا ہے؟قابض جوبھی ہو ، جہاں پہ بھی ہو، انکا قبضہ کرنے کا طریقہ کار،قانون اور فلسفہ ایک ہی ہوتا ہے۔
یہ ناول یوموفیا (Umofia)نامی گاؤں کے ایک ریسلر سے شروع ہوتا ہےجسکا نام اُکانکوو (Okonkwo) ہےجو یوموفیا کا ایک طاقتور پہلوان اور اہم شخص ہوتاہے۔وہ اپنے گاؤں میں ایک پرامن اور پرسکون زندگی گزار رہا ہوتا ہے لیکن جب انگریز وہاں پر قبضہ کرتے ہیں تو وہ ایک مزاحمت کار بن جاتا ہے اس کا باپ یونوکا(Unoka) ایک سست اور ناکام شخص ہوتا ہے وہ لوگوں سے قرض لے کر پھر ادا نہیں کرتا اور اکثر بانسری بجاتا رہتا ہے جبکہ اس کے برعکس اُکانکوو (Okonkowo)ایک محنتی انسان ہوتاہے وہ سبزیوں کے کھیت میں انویسٹ کرکے گزر بسر کرتاہے۔یوموفیا گاؤں کی ایک عورت ساتھ والے گاؤں میں قتل کی جاتی ہے۔وہ لوگ جنگ کے خطرے سے بچنے کےلیے اس عورت کے شوہر کو ایک کنواری لڑکی دیتے ہیں اور ساتھ ہی ایک لڑکا اکیمیفونا(Ikemefuna) اُکانکوو کو دیا جاتا ہے۔ وہ لڑکا اور اُکانکوو کا بیٹا نووائے (Nwoye) گہرے دوست بن جاتے ہیں۔تین سال بعد گاؤں کے لوگ اپنے رسم و رواج کے مطابق اس لڑکے کو انتقام کے طور پر اُکانکوو سے قتل کرواتےہیں۔اسکے بعد اُکانکوو اور اسکا بیٹا بہت افسردہ ہوتے ہیں۔
ایک دن گاؤں کے ایک بزرگ پادری ایزیڈو (Ezedu) کے جنازے کی تقریب میں گاؤں کے لوگ اس کو خراج تحسین پیش کرنے کےلیے اپنی بندوقوں سے فائر کرتے ہیں جبکہ انجانے میں ایزیڈو (Ezedu) کا بیٹا اُکانکوو کی بندوق کا نشانہ بن جاتا ہے۔اس جرم کی پاداش میں اس سے سات سال کےلیے گاؤں سےنکال دیا جاتا ہے، اس کےجانوروں کو مار دیا جاتا ہے اور گھر کو بھی جلادیا جاتا ہے۔
سات سال بعد جب وہ واپس اپنے گاؤں آتا ہے تو اس وقت گورے (Whitemen) کے لوگ خاص کر پادری ہر جگہ پھیل چکے ہوتے ہیں.اپنے طرز کے سکول بنائے ہوئے ہوتے ہیں جہاں پر انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔ وہاں کا کمشنر لوگوں کو انگریزی سیکھنے پر مجبور کرتا ہےوہ کہتا ہے آپکا کمشنر انگریزی سمجھتا ہے اس لیے آپ نے انگریزی سیکھنا ہے۔پنچایت کا نظام ختم کرکے اپنا عدالتی نظام بنا چکے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ عیسائیت قبول کرچکے ہوتے ہیں۔یوموفیا کا پادری مسٹر براؤن (Mr Brown) جوکہ بہت ہی رحم دل اور شفیق انسان ہوتے ہیں ۔انکی وفات کے بعد مسٹر جیمز سمتھ (James Smith) یوموفیا کے پادری مقرر کیے جاتے ہیں وہ بہت ہی ظالم اور تعصب پرست انسان تھا۔
ایک دن گاؤں کے تمام معتبر لوگ(لیڈر) ایک بازار میں اکھٹے ہوتے ہیں۔وہ سب مسٹر براؤن کے آدمی اینوک (Enoch) کے گھر اور چرچ پر حملہ کرکےتباہ کردیتے ہیں۔اینوک کو بچا لیا جاتا ہے اور اُکانکوو اور یوموفیا کے دوسرےلیڈروں کو گرفتار کیا جاتاہے۔اُکانکوو اور دوسرے لیڈرز اپنی اگلی حکمت عملی کےلیے ایک میٹنگ منعقد کرتے ہیں۔اس اجلاس کی جاسوسی کچھ افریقی افسروں کو سونپ دی جاتی ہے۔اُکانکوو ان افسروں کو پہچان لیتا ہےاور میٹنگ کے اختتام پر ان میں سے ایک کو مارنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور دوسرا بھاگنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔اس کے بعد انگریز سے ڈر کر کوئی بھی اُکانکوو کا ساتھ دینے کےلیے تیار نہیں ہوتا وہ اکیلا ہوجاتا ہے۔لہذا وہ غلامی اور زلت و رسوائی کی زندگی سے موت کو ترجیح دیتا ہے وہ ایک درخت سے پھندا لگا کر خودکشی کرلیتا ہے۔گاؤں کے لوگ اسکی لاش کو درخت سے اتارنے کےلیے تیار نہیں کیونکہ وہ خودکشی کے عمل کو زمین کی دیوی کے خلاف اور اسکی توہین سمجھتے ہیں۔لہذا اسکی لاش کو اتارنے اور دفنانے کا عمل بھی انگریز خود کرتے ہیں اور اسکے لوگ اسکو ہمیشہ کےلیے چھوڑ دیتے ہیں۔
انگریز ان کی یہ عمل دیکھ کر بےحد زیادہ خوش ہوتےہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے ڈرپوک اور قاہر لوگوں پر حکمرانی کرنا اور اسکے ساحل اور وسائل کو لوٹنا بے حد آسان ہے۔ٹھیک اسی طرح جسطرح آج بلوچستان میں ہورہاہے۔ساحل اور وسائل لوٹے جارہےہیں، زبان ،رسم و رواج اور تہذیب کو مسخ کیا جارہا ہے، بلوچ نسل کشی کی جارہی ہے، نوجوانوں کو اٹھا کر زندانوں کے نظر کیا جارہا ہے، سب سے بڑھ کر بلوچ کی عزت ، مطلب چادر و چاردیواری کو پامال کیا جارہا ہےلیکن پھر بھی بلوچ تماشاہی بن کر تماشا دیکھ رہا ہے۔خاموشی کا روزہ رکھا ہوا ہے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بھائی چارے کو بخوبی نبھا رہا ہے۔چار پیسوں کے عوض اپنا قومی شناخت، سرزمین یعنی کہ اپنی ماں کو بیچنے کےلیے تیار ہوجاتا ہے ۔ میں اس باضمیر بلوچوں کی بات نہیں کررہا ہوں جو اپنی خون کا آخری قطرہ دھرتی ماں پر نچاور کرنے کےلیے تیار ہیں، اور اپنا خون اپنی ماں کی حفاظت کےلیے بہا رہے ہیں بلکہ میں ان بےضمیر اور بےلج بلوچ کی بات کررہاہوں جو آج بھی ماں کا سودا کرکے اپنا پیٹ پال رہے ہیں جو آج بھی ہیرامنڈی کی پیداواروں کے ساتھ بیٹھ کر سودا بازی کرتےآرہے ہیں اور کررہے ہیں ۔
آج یہ فیصلہ بلوچ نوجوانوں نے خود کرنا ہے کہ آیا اس نے اُکونکوو کی طرح مزاحمت کرکے ہمیشہ کےلیے امر ہونا ہے یا پھر دلال بن کر رسوائی کی زندگی گزارنی ہے۔ آیا اس نے بالاچ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے یا پھر پرامن رہ کر اس ریاست کے پالتو کتے اور دلالوں سے اپنی بےعزتی و رسوائی برداشت کرنا ہے۔فیصلہ اپنے ہاتھ میں ہے ورنہ کل پچتانے کے علاوہ اور کچھ نہیں بچے گا۔