ھمگام کالم

             تحریر: رندانی گٹ

بلوچستان میں پاکستان آرمی کے نئے پنجابی سربراہ جرنل عاصم منیرکے کل کے ایک روزہ دورے کے دوران چار بلوچوں کی لاشیں گرائی گئیں، یہ یقینا اس پالیسی کی تسلسل کو برقرار رکھنے کی طرف ایک خونی اشارہ ہے کہ جس میں بلوچ کی مزاحمت کو کچھ بھی ہو بندوق کی زور پر کچلنا ہی ہے۔ اپنے پیش روؤں کی طرح حسب معمول جرنل عاصم نے آتے ہی اپنے منتروں میں بلوچستان کی indigenous resistance مزاحمت کو خارجی دشمنوں سے نتھی کرتے ہوئے پرانے cliché کو دہرایا کہ ’’پاکستان آرمی بیرونی دشمنوں کے بلوچستان میں پرامن ماحول کو خراب کرنے کے مذموم عزائم سے آگاہ ہے‘‘۔ اب مجھ جیسے ایک عام آدمی کو پتہ ہونا چاہیے کہ بلوچستان میں یہ external enemies یعنی خارجی دشمن کون ہیں؟

ہم عام آدمی روز یہ دیکھ رہے ہیں کہ لاشیں بلوچوں کی گرائی جا رہی ہیں اور الزام خارجی دشمن پر لگایا جا رہا ہے۔ گزشتہ 75 سالوں سے پاکستانی فوج کو بلوچستان میں ہمیشہ خارجی دشمن ہی نظر آتے ہیں لیکن اب تک کسی بھی خارجی دشمن کا لاش نہیں گرایا گیا۔

لگ رہا ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بلوچ نظر نہیں آتے جو اعلانیہ یہ کہ چکے ہیں کہ وہ اپنے ملک بلوچستان کی آزادی اور خودمختاری کی بحالی چاہتے ہیں۔ جرنل عاصم منیر کہتےہیں کہ وہ کسی کو بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنے نہیں دینگے، لیکن سوال یہ ہے کیا ان کو پتہ ہے کہ امن کا مطلب کیا ہے؟ نہیں! ہمارے دانست میں فقط جنگ کی غیرموجودگی کو امن نہیں کہتے بلکہ کسی قوم کی حق حاکمیت پر ناجائز جارحیت کرنا اور زیر قبضہ محکوم قوم کیلئے Social Justice سماجی انصاف کے دروازے بند کرنا بدترین بدامنی کے دومختلف شکلیں ہیں۔

جب سے پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا ہے اس دن سے لیکر آج تک بلوچ عوام نے ایک دن بھی امن اور اپنے وسائل پر حق ملکیت نہیں دیکھا ہے۔ باوجود اس بات کا کہ کئی ایسے مراحل آئے جہاں حقیقی بلوچ رہنماؤں نے اخلاص اور برابری کی بنیاد پر قائم ایک حقیقی وفاقی حل genuine federal solution کی آئیڈیا پراتفاق کیا تھا لیکن بلوچ قوم کے وسائل پر پنجاب کی اجارہ داریت کو قائم رکھنے کیلئے کٹر قوم پرست پنجابی ملٹری قیادت نے اسلامی عالم گیریت کے نعروں کے لبادے میں جمہوریت کو کبھی موقع نہیں دیا۔

لیکن اب وہ وقت نہیں رہا جب جمہوریت پسند بزرگ بلوچ رہنما طاقت کے خلاف طاقت استعمال کرنے کے بجائے جمہوریت کو ترجیح دیتے تھے۔ اب ایک نئی نسل اور ایک نئی قیادت ابھری ہے اس قیادت کا ترجیح قومی مزاحمت کے ذریعے ہی قومی حاکمیت کی بحالی ہے۔

وہ مزاحمت کر رہے ہیں اورپاکستانی فوج کی جانب سے انکا مقابلہ کرنے کے بجائے بے گناہ بلوچوںsoft target) ) کا خون بہایا جا رہا ہے۔ ایک طرف بلوچستان پر ناجائز قبضہ اور دوسرے طرف اندرونی طور پر بلوچستان پر پنجابی افسران (سول اور ملٹری) کی یلغار نے بلوچستان کی وسائل کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ یہاں کی امن کلچر اور ترقی کو بھی غارت کر ڈالا ہے۔

ان افسران نے بندوق کے زور پر بلوچستان میں ایک ایسی کرپٹ سیاسی لشکر باپ جیسے پارٹیوں کو جنم دیا ہے جہاں انکی ہر منفی عمل سے پنجاب کے خلاف بلوچ عوام بلکہ دوسرے محکوم اقوام کے دلوں میں نفرت autopilot کی موڑ پر چل رہا ہے۔ اس پاکستانی بندوست کے اندر ایک اکیلا بلوچ نہیں بلکہ دوسرے اقوام بھی اب پنجاب سے شدید متنفر ہوچکے ہیں کیونکہ پاکستان کی سیاست پر پنجابی جرنلوں کی اجارہ داری ہے، اس اجارہ داریت نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔

  پاکستان کا وجود اب پنجابی کور کمانڈروں کے وار ڈریسنگ ٹیبل پر بے ہوشی کی حالت میں لیٹا ہوا ہے اس کی تمام اہم اعضا نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اسے زندہ رکھنے کیلئے انہیں بلوچ اور پشتون کی خون کی ضرورت ہے، سو وہ بلوچ اور پشتون کی خون کو بہا رہے ہیں۔

پنجابی کورکمانڈرز جب راولپنڈی میں ٹیبل کے گرد بیھتے ہیں تو وہ بلوچ پشتون سندھی کشمیری بمقابلہ پنجابی کے درمیان امن، بھائی چارگی، باہمی رضا و رغبت اور اچھے ہمسائگی جیسے مہذب اقدار اور تعلقات کے بارے فیصلہ نہیں کرتے بلکہ وہ اس بات پر سرجوڑتے ہیں کہ کس طرح ان اقوام کو مکر و فریب اور طاقت کے استعمال کے ذریعے شکست دیں تاکہ انگریز کا یہ شکست خردہ منصوبہ برقرار ہے۔

حالانکہ انگریز کے منصوبوں نے پنجاب کی قومی تشخص کو تباہ کر ڈالا ہے۔ پنجاب کی قوم ایک صحت مند سیاسی سوچ رکھنے والے لیڈرشپ سے تہی دامن ہے۔ اس حوالے پنجاب کی معروف کالم نگار جناب ایاز امیر نے پنجابیوں کے بارے اپنے کالم Punjab is the Problem میں لکھا ہے کہ ’’پنجاب نے سیاسی میدان میں کم ہی ایسے سپوت پیدا کیے جہاں کوئی سیاسی مدبر نکلے سوائے ناقابل فراموش سردار بھگت سنگھ کے، جو عظیم آزادی پسند جنگجو تھے، جن کا مجسمہ، ’’اگر ہمیں تاریخ کا کوئی احساس ہوتا‘‘، تو وہ شادمان چوک کے قریب کھڑا ہوتا جہاں انہیں انگریزوں نے پھانسی دی تھی‘‘۔