واشنگٹن ( ہمگام نیوز ) امریکاکے صدر جو بائیڈن نے پیر کے روز ترکیہ اور شام میں 7.8 شدت کے تباہ کن زلزلے کے بعد اپنے ملک کی جانب سے متاثرہ علاقوں کے لیے امداد کاوعدہ کیا ہے۔

ترکیہ اور ہمسایہ ملک شام میں اس شدید زلزلے کے نتیجے میں 2300 سے زیادہ افرادہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے ہیں جب کہ سیکڑوں عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں۔حکام نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے لاتعداد افراد دبے ہوئے ہیں،اس لیے ہلاک شدگان کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

امریکی صدر نے ایک بیان میں کہا کہ ’’میں ترکیہ اور شام میں زلزلے کے نتیجے میں ہونے والے جانی ومالی نقصان پر بہت افسردہ ہوں۔میں نے اپنی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ ترکیہ کے ساتھ مل کر صورت حال پر گہری نظر رکھیں اور ہر ممکن مدد مہیاکریں‘‘۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہماری ٹیمیں ترکیہ کی تلاش اور بچاؤ کی کوششوں اور زلزلے سے زخمیوں اور بے گھر ہونے والوں کی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے تیزی سے تعینات کی جائیں گی‘‘۔

صدربائیڈن نے امریکی حکام پر زوردیا ہے کہ وہ اپنے ترک ہم منصبوں سے مدد کے لیے رابطہ کریں اور امریکا کے حمایت یافتہ انسانی بنیادوں پرکام کرنے والے گروپ شام میں ہونے والی تباہی کے ردعمل میں کام کررہے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ ’’آج ہمارے دل اور گہری تعزیت ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے جنھوں نے اپنے انمول پیاروں کو کھو دیا، جو زخمی ہوئے اورجنھوں نے اپنے گھروں اور کاروباروں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے‘‘۔

زلزلے سے اموات میں مسلسل اضافہ

ترکیہ اور شام میں شدید زلزلے کے بعد چند ایک اور شدید جھٹکوں کی اطلاعات ملی ہیں،متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اوردونوں ممالک میں تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں اموات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔اب تک دونوں ملکوں حکام کے حکام نے 2300 سے زیادہ اموات کی تصدیق کی ہے۔

علی الصباح آنے والے زلزلے کے بعد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے پھنسے ہوئے افراد مدد کے لیے پکار رہے تھے۔اس دوران میں دو اور شدید جھٹکوں نے پہلے سے علاقوں کوہلا کررکھ دیا اوروہاں کئی ایک کثیرمنزلہ عمارتیں آناً فاناً زمین بوس ہوگئی ہیں۔

ترک صدررجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ زلزلے کے علاقے میں تباہ شدہ کئی عمارتوں کا ملبہ ہٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔اس لیے ہم نہیں جانتے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوگا۔

ادھر شام میں سفیدہیلمٹس نامی حزب اختلاف کی ہنگامی تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں سیکڑوں خاندان ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ جنگ کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں سے بے گھر ہونے والے قریباً چالیس لاکھ افراد کی عارضی جائے پناہ بھی ہے۔ان میں سے بہت سے لوگ ان عمارتوں میں رہتے ہیں جو ماضی میں متحارب جنگجو گروپوں اور فوج کی بمباری سے پہلے ہی تباہ شدہ ہیں۔امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مراکزِ صحت اور اسپتال زخمیوں سے بھرچکے ہیں۔

زلزلے کا مرکزترکیہ کا جنوب مشرقی صوبہ کہرامماراس تھا۔اس کے نتیجے میں دمشق کے باشندے سڑکوں پر نکل آئے اور اس کے جھٹکے قاہرہ اور بیروت تک محسوس کیے گئے۔

امریکا کے ارضیاتی سروے کے مطابق زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی جس کی گہرائی 18 کلومیٹر تھی۔ اس کے چند گھنٹے کے بعد 7.5 شدت کا ایک اورزلزلہ آیا تھا۔اس کا مرکز اس سے 100 کلومیٹر دور تھا۔

ترکیہ کی ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایجنسی کے ایک عہدہ دار اورہان تاتارکا کہنا ہے کہ یہ ایک نیا زلزلہ تھا لیکن یو ایس جی ایس کے سیسمالوجسٹ یاریب الطویل کا کہنا ہے کہ یہ زلزلے کے بعد کا جھٹکا سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ پہلی فالٹ لائن پرآیا تھا۔

شام کے شمالی شہرحلب اور حماہ سے لے کرترکیہ کے دیاربکیر تک شمال مشرق میں 330 مربع کلومیٹر سے زیادہ کے وسیع علاقے میں زلزلے سے ہزاروں عمارتیں منہدم ہونے کی اطلاعات ہیں۔ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں قدرتی آفات کے ماہر ڈاکٹراسٹیون گوڈبی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے شدید نقصانات عام طور پر ہلاکتوں کی بڑی تعداد کا باعث بنتے ہیں، لیکن شدید سردی کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے، جس سے امدادی کارکنوں کوملبے تلے پھنسے ہوئے زندہ بچ جانے والوں کومحفوظ طریقے سے نکالنے کا وقت کم ہوجاتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ خانہ جنگی سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے میں دشواری بچاؤ کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنائے گی۔

دنیا کے درجنوں ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اورنیٹو کی جانب سے بھی امدادی سرگرمیوں میں ہاتھ بٹانے کی پیش کشیں موصول ہوئی ہیں۔ان میں سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں سے لے کر طبی سامان اور رقم شامل ہیں۔تاہم زیادہ تر امدادی اعلانات ترکیہ کے حق میں تھے، روس اور یہاں تک کہ اسرائیل نے بھی شامی حکومت کو مدد مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ آیا کوئی شام کے زلزلے سے متاثرہ شمال مغرب میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں جائے گا یا نہیں۔

شام کے شمال مغربی علاقے میں آنے والے زلزلے نے حزب اختلاف کے زیرقبضہ صوبہ ادلب میں نئی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ یہ صوبہ گذشتہ کئی سال سے بشارالاسد کی فورسز کے محاصرے میں ہے، جہاں روس اور اسد حکومت کی جانب سے مسلسل فضائی حملے کیے جارہے ہیں۔ یہ علاقہ خوراک سے لے کر طبی سامان تک ہر چیز کے لیے پڑوسی ملک ترکیہ سے امداد کے بہاؤ پرانحصارکرتا ہے۔