آج سے کُچھ سال پہلےمیں نے اِسی موضوع پر ایک تحریر لکھی تھی جب مجھے لگا تھا کہ ہم فائدے سے زیادہ نقصان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آجایک دفعہ پھر اُسی طرح کے خیالات ذہن میں آرہے ہیں اس لئے سوچھا کیوں نہ اِسی موضوع پر اپنے کچھ بے ربط الفاظ ایک دفعہ پھر جوڈ دوں۔ یہ احساس بلوچ قومی سیاست میں عدم برداشت اور سیاسی نا پُختگی کو دیکھ کر ہمیشہ آتا ہے مگر پھر چُپ کرجاتے ہیں کہ نتیجہ کیا نکلنا ہے؟ ایسی باتوں کا جواب ہمارے ہاں بس گالی گلوچ، الزام تراشی، دھمکی اور دیگر غیر اخلاقی طریقوں سے زبان بندی کی کوششوں کی صورت میں آتا ہے۔ صحت مند، سنجیدہ، عقل و فہم رکھنے والے باشعور اور پُختہ معاشروں میں جس فریق پر تنقید ہوتی ہے وہ خود آگے آکر دعوت دیتا ہے کہ چلیں اس عمل پر بحث کرتے ہیں جس پر تنقید ہورہی ہے مگر ہمارے ہاں طریقہ کار یہ ہے کہ ہم نے کُچھ نقاب پوش افراد سوشل میڈیا پر چھوڑے ہوئے ہیں جن کی نہ کوئی شناخت ہے اور نہ پہچان بس جہاں کہیں اُس طرف اُنگلی اُٹھتی ہے جس طرف کے یہ لوگ ہوتے ہیں بس پھر یہ گالیوں، دھمکیوں، الزام تراشیوں اور غیر شائستگی سے مسلح ہوکر اُس شخص پر حملہ آور ہوتے ہیں جس نے ان کے کسی من پسند شخصیت یا عمل پر تنقید کی ہو یا پھر اختلاف رکھا ہو۔ مجھے یہ بلوچ سیاست کے “یوتھیے” اور “ففتھیے” لگتے ہیں جن کو “مصطفیٰ ٹاورز” کی طرز پر بھرتی کیا گیا ہے یا پھر ذہنی طور پر اتنے مفلوج بنائے گئے ہیں کہ وہ ایک “لکیر” کے علاوہ کُچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہیں مگر جن جن کو اُس “لکیر” کے اندر باہر، دائیں بائیں اور اوپر نیچے کُچھ نظر آتا ہے وہ اس “لکیر” پر ضرور بات کرتے ہیں۔
قومی آزادی کی جنگ اور تحریک ایک ایسا رستہ ہے جس کے کئی مقاصد اور احداف ہوتے ہیں۔ غُلامی جتنی طویل ہوتی ہے اُس سے نکلنا اُتنا ہی پیچیدہ، مُشکل اور صبر آزما ہوتا ہے۔ جدید دور کے ریاستی تقاضے، قومی تشکیل، ریاستی تشکیل وہ تمام مراحل ہیں جن سے بلوچ کبھی گُزرا ہی نہیں۔ اگر آزاد بلوچ ریاست اور بلوچ کو بحیثیت ایک آزاد قوم تصور کیا جائے تو اٹھارہ سو اُنتالیس وہ سال ہے جس سال بلوچ قوم سے اُس کی ریاست کے ساتھ ساتھ اُس کی آزادی چِھن جاتی ہے۔ وہ ریاست اور قوم کس طرح سے ایک جدید ریاست اور قوم کی ضروریات کے مطابق ایک ریاست قرار دی جاسکتی ہے ایک الگ بحث ہے مگر بلوچ کے پاس اپنی الگ ریاست اور قومی شناخت رکھنے کا فخر اِس سال اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے جس کو دو سو سال ہونے کو ہیں اور اب اُس عصر کا ایک انسان بھی آپ کو زندہ نہیں مل سکتا اس لیے ہماری نسل دو سو سال کی غلامی کے تلخ تجربات کا شکار ہے۔
ریاستیں جب کسی قوم کو غلام بناتی ہیں تو ان کا سب سے پہلا کام یہ ہوتاہے کہ وہ اُس قوم سے اپنے الگ ہونے کا احساس چھینتے ہیں اور یہی کام ہمارے قابضین نے کیا ہے۔ بلوچ نسلی حوالے سے ایک ہی قوم ہے مگر مشرقی مقبوضہ بلوچستان اور مغربی مقبوضہ بلوچستان کے لوگ آج الگ الگ زاویے سے سوچھتے ہیں کیونکہ ان کے قابض ایک دوسرے سے الگ ہیں ان کی نفسیات ایک دوسرے سے جُدا ہیں اس لیے انہوں نے الگ الگ طریقے سے بلوچ کو بدلنے کے لئے سرمایہ کاری کی ہے جس میں یہ ریاستیں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں تو آزادی سے پہلے ہماری قومی تحریک کا ایک حدف بلوچ کو اُس نفسیات سے آزاد کردینا ہے۔ آزادی کی جنگوں اور تحریکوں کا مقصد اور حدف صرف یہ نہیں ہوتا کہ اپنے وطن سے غیر مُلکی فوجیوں کا نکالنا بلکہ جب تک آپ کا وطن غیر مُلکی قبضے میں ہے آپ نے اپنی تحریک اور اُس تحریک سے جُڑے اداروں کے ذریعے ایک متبادل ریاست کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ ریاست ملنے تک آپ کا معاشرہ مکمل طور پر ریاست کو اپنانے اور ریاستی اداروں میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے قابل رہنے کے ساتھ ساتھ اُس کو اپنانے کے لئے نفسیاتی حوالے سے تیار رہے۔ ابھی تک میری ناقص رائے کے مطابق بلوچ کی اکثریت ریاست، ریاستی تشکیل اور ریاستی اداروں کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہی نہیں ہیں تو ان کو اپنانے اور چلانے کا سوال کس حد تک لاگو ہوسکتا ہے ایک الگ بحث ہے۔
ہماری اس حالیہ جنگ کو تقریبا پچیس سال ہوگئے ہیں اور ان پچیس سالوں میں بہت سے لوگ اس جنگ سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ متاثر ہونے کا سلسلہ صرف قابض ریاست تک نہیں جاتا بلکہ اس میں ہماری آزادی پسند تنظیموں کا بھی کردار ہے مگر اب تک ایک بھی ایسا کیس کوئی بطور مثال سامنے نہیں لا سکتا جس سے یہ ثابت ہو کہ ایک ادارے نے آزاد حیثیت سے کسی واقعے کی تحقیقات کی ہوں اور گناہگار کو سزا ہوئی ہو یا پھر کم از کم اس کی شناخت ہی ہوپائی ہو۔ اس دورانیے میں تنظیمیں بنیں، ٹوٹیں اور تقسیم ہوئیں، کچھ لوگ دشمن کے سامنے سرنڈر ہوئے کچھ دشمن کے ہاتھ لگے، کُچھ کو بیچا گیا، کچھ تنظیموں کے حصے تھے اور پرسرار طریقے سے قتل ہوئے، کچھ کو تنظیموں نے اپنی صفوں سے نکال کر مجرم ٹھرایا اور ماردیا، کچھ بے نام قبروں میں دفن ہوئے مگر مجال ہے کہ ایک بھی ایسا کیس اپنے منطقی انجام تک پہنچا ہو جس کو ہم اپنی تحریک میں بطور مثال پیش کرسکیں کہ بلوچ قومی تحریک نے اگر کچھ اور نہیں کیا تو ہمارے معاشرے کو ایک ایسا ادارہ دیا جو با اختیار ہے، جو انصاف فراہم کرنے کی طاقت رکھتا ہے، جو بُرائی کو روک سکتا ہے اگر نہیں روک سکتا تو کم از کم اس کی نشاندہی تو کرسکتا ہے، جو ایک نظم و ضبط کو لاگو کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کروا سکتا ہے۔
جب آپ کا معاشرہ یا آپ کی سیاست اندرونی طور پر اتنی کمزور ہو تب تک کس طرح سے آپ دنیا کو اس بات پر قائل کرسکتے ہیں کہ وہ آپ کو ایک منظم ریاست کو تھوڑنے میں مدد فراہم کرے؟ آپ پر دنیا کی طاقتوں کا بھروسہ تو بہت دور کی بات ہے آپ کے اپنے بلوچ ایک بہت بڑی تعداد میں اس حد تک بھروسہ نہیں کرتے کہ آپ اس جنگ کو ایک منزل تک پہنچانے کے بعد ایک ایسی ریاست قائم کرسکیں گے جس میں ہر ایک فرد کو تحفظ اور انصاف کی فراہمی کا احساس میسر ہو۔ بلوچ قومی تحریک شروع صرف ایک مسلح تنظیم نے کی، مگر کُچھ ہی وقت میں اُس ایک تنظیم سے ٹوٹ کر کئی تنظیمیں بنیں، سیاسی میدان ہو کہ مسلح ہر جگہ یہی تقسیم کاری، یہی تھوڑ پھوڑ، یہی اندرونی گندی سیاست مگر آج تک حقائق ایک غیر جانبدارو بااختیارادارے نے عام بلوچ تک نہیں پہنچائیں بلکہ ہر ایک فریق دوسرے پر الزام لگا کر اپنے آپ کو بری الزمہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اصل حقائق کیا ہیں کسی کو بھی نہیں پتہ بس اپنا اپنا چورن ہے جو بیچا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ بلوچ کے پاس آج تک ایک ادارہ بھی نہیں جو ادارے کی صحیح تعریف کی وضاحت کے مطابق کام کرسکتا ہو۔ مہذب دنیا میں فوج کے اندر بغاوت، اس کو تھوڑنے اور کمزور کرنے کی سازش قوم، ریاست اور قومی مفادات سے غداری قرار پاتی ہے اور یہ جُرم سرزد کرنے والے کو سزائے موت دی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں آج تک ایسے کسی واقعے کی تحقیقات نہیں ہوپائی ہے کہ مجرموں کا تعین ہی ہوسکے سزا و جزا کے مرحلے سے گُزارنا تو بُہت دور کی بات ہے بھلا ایسی صورت میں وہ کونسی پاگل طاقت ہوگی کہ بلوچ قومی تحریک پر بھروسہ کرکے اُس میں سرمایہ کاری کرے (سرمایہ کاری سے میرا مقصد مالی مدد نہیں بلکہ ہر طرح کی مدد سرمایہ کاری کہلاتی ہے)۔
دنیا میں بہت ساری ریاستیں ٹوٹیں اور بنیں مگر ہمیشہ سے ٹوٹتی وہ ریاستیں ہیں جو غیر مستحکم ہوں۔ وہ غیر مستحکمی اندرونی لا اینڈ آرڈر کی دیگرگوں صورت سے لیکرسیاسی، معاشی عدم استحکام اور سفارتی سطح پر تنہائی کی بنیاد پر آتی ہیں۔ جب ریاستیں عدم استحکام کی بنیاد پر ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں تو وہ قوم جو ریاست بنانے کی جدوجہد میں ہو وہ کس حد تک عدم استحکام برداشت کرسکتی ہے؟ عدم استحکام کو روکنے کا ایک واحد ذریعہ مضبوط ادارے ہیں لیکن اس طرف کبھی ہمارا بحیثیت قوم اور ایک سیاسی جدوجہد کے وارث دھیان ہی نہیں گیا۔ ہماری جنگ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم بس جنگ کرنے کے لئے ہی جنگ لڑ رہے ہیں ہماری جنگ کا کوئی اور حدف ہی نہیں۔
جس طرح میں نے مندرجہ بالا سطور میں بلوچ قومی تحریک میں اداروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا ہے لیکن نام کی حد تک ہمارے ہاں کچھ تنظیمیں ضرور ہیں۔ جنگی ہوں کہ سیاسی مگر آج تک کُھل کر کسی خاص مسئلے پر اپنا موقف قوم کے سامنے رکھنے سے گریزاں ہیں۔ وہ تمام تنظیمیں دعویٰ تو یہ کرتی ہیں کہ ہم بلوچ قومی تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے بنی ہیںجن کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ ریشنل انداز میں قوم کی رہنمائی کریںمگر وہ پاپولر نریٹئو اور پاپولر سلوگنز کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔ شائد اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ سیاست اور معاشرے کی تشکیل میں سب سے بڑا کردار انہی کا ہے اور وہ اس کردار کو ادا کرنے میں اب تک ناکام ہیں اس لئے اُن کو ڈر ہے کہ ایسی باتیں کرنا یا چیزیں سامنے لانا ہمارے وجود پر ہی سوال نہ اُٹھا دے کہ جناب ادارے ہونے کا دعویٰ آپ کا ہے اگر اس میں کمزوری کوتاہی یا اس کا وجود ہی نہیں ہے تو دراصل یہ اپنی وجودیت پر ہی سوال ہوگا اس لئے سب چُپ ہیں۔ ایک “مہم جو اُٹھتا” ہے اور بلوچ طلباء تنظیم میں ایک ایسی سبوتاژی مہم جو نومولد سیاسی تحریکوں میں مسلح تنظیمیں کرنے سے کتراتی ہیں شروع کرتا ہے جس کو ایک مہینے تک بھی آگے بڑھایا نہیں جاسکا جس کے نتیجے میں گراؤنڈ میں موجود ہماری سیاسی قوت کرش کردی جاتی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ہمارے سیاسی ورکر جن کو ہماری تحریک میں اساس ہونا تھا مار دئیے جاتے ہیں یا پھر اُٹھا لیے جاتے ہیں اور کئی سالوں تک گراؤنڈ پر سیاست ختم ہوجاتی ہے مگر آج تک اس پر کسی نے بات نہیں کی اور نہ ہی اس پر بات ہورہی ہے۔ شہید قمبر قاضی وہ واحد انسان تھا جو اُس زمانے میں اس چیز کے خلاف بات کرتا تھا اور اس کی مخالفت کرتا تھا مگر اُس وقت قمبر قاضی کی بات ماننے یا اُس سے اس حوالے ڈیبیٹ کرنے کی بجائے اُس کو ایک شخص سے جوڈ دیا گیا کہ جی یہ فلاں لابی کا بندا ہے اور سرکار کی ایما پر بلوچ تحریک کے خلاف ریاستی بیانئیے کو آگے بڑھا رہا ہے مگر پھر وہی ریاستی بیانئیے کو آگے بڑھانے والا شخص مسلح جنگ کا حصہ بنا اور پراسرار طریقے سے ماردیا گیا۔ نہ آج تک کسی غیر جانب دار ادارے نے سبوتاژ مہم شروع کرنے، اس کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک کو ہونے والے فائدے یا نقصان کے جائزے، قمبر قاضی کی پراسرار موت، لیاقت اور وارث کو قمبر قاضی کا قاتل قرار دیکر مارنے کی کبھی کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔آج پھر سے ایک تنظیم کے ساتھ ساتھ پوری قومی تحریک کو اُسی سبوتاژی مہم کی مصداق آگ کی بھٹی میں جھونکا جارہا ہے مگر مجال ہے کہ اس پر بات ہو، ڈیبیٹ ہو، تحقیق ہو اور قومی حوالے سے اس پر کوئی مناسب بیانیہ بنے بلکہ اگر ایک آدھ فرد بات کرتا ہے تو گالم گلوچ نقاب پوش بریگیڈ میدان میں آجاتا ہے۔
ضرورت اس وقت اس بات کی ہے کہ جو کُچھ بھی جنگ تیز کرنے کے نام سے ہورہا ہے یا کیا جارہا ہے اُس پر سوچھا جائے یا سوال اُٹھایا جائے کہ جنگ تیز کرنے سے آپ کا کیا مُراد ہے؟ مطلب ایک ایسا ٹرینڈ بنایا جائے کہ نوجوان جذباتی ہوکر آپ کے ساتھ شامل ہو اور جنگ کو اپنے خون کی صورت میں ایندھن فراہم کرتا رہے؟ اگر جنگ تیز کرنے سے یہی مُراد ہے تو کیا یہ اپنے آپ میں ایک شعوری جنگ یا سیاست سے لاشعوری طور پر انکار تو نہیں؟ اگر بلوچ نوجوان شعوری طور پر اس جنگ کا حصہ بن رہا ہے تو اُس کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے ایسی مہم جوانہ عمل کی کیا ضرورت ہے کیونکہ وہ تو شعوری طور پر آپ کے ساتھ شامل ہوہی رہا ہے۔ پندرہ پندرہ نوجوان موت کے مُنہ میں مرنے کے لئے بھیج دئیے جاتے ہیں لیکن اس بات پر کوئی بحث نہیں کرتا کہ اس حملے کے مقاصد کیا تھے، حدفکیا تھا وہ مقصد کس حد تک پورا ہوا کیونکہ ہم نے توتنظیم کی جانب سے بس ایک دو راکٹ فائر ہوتے دیکھے جو دور سے بھی فائر کئے جاسکتے تھے۔ نوشکی کیمپ میں نو سرمچار بھیجے گئے جو کچھ ہی دیر میں شہید ہوگئے، گوادر میں سربلند کے حملے میں تو حدف گاڑی کے شیشے تک صحیح طرح سے نہیں ٹوٹے اور نہ ہی حالیہ گوادر حملے میں شامل جنگجو لمبے وقت تک دُشمن کو انگیج کرسکے مگر یہ نتیجہ ضرور نکلا کہ آپ کے نگینے نوجوان جو لمبی اننگز کھیل کر دُشمن کو تھکا سکتے تھے وہ آپ سے جُدا ہوئے۔
جنگی ایندھن بننا ایک ایسا خوب صورت بیانیہ ہے کہ اُس کو جاری رکھنے کی بات تو سب کرتے ہیں مگر اُس میں حصہ ڈالنے کے لئے بہُت کم لوگ تیار ہوتے ہیں خاص طور پر گالم گلوچ بریگیڈ جن کی اکثریت وطن سے باہر ہےاور ان لوگوں کو جنگ سے بھاگا ہوا بُزدل قرار دے رہے ہیں جو نوجوانوں کے بے دریغ مذبح میں بھیجنے کو غلط سمجھتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ آزادی کی تحریکوں میں جب تک آپ تمام دیگر ضروریات پوری نہ کررہے ہوں تب تک آپ جتنی بھی قتل و غارت کریں یا کروائیں آپ کو مطلوبہ نتائج نہیں مل سکتے بلکہ آپ اہنے اثاثے کھوتے اور کم کرتے جاتے ہیں۔
لوگ مثال دیتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان جنگ جوؤں نے “فدائی” جیسے “ہتھیار” کے ذریعے امریکہ جیسی سُپر پاور کو شکست دیکر افغانستان سے نکال باہر کیا تو یہ عمل صحیح ہے مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ افغانستان میں جو جو “ہتھیار” استعمال ہوئے وہ اس پورے عرصے میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے صرف تین ہزار لوگ مارسکے جن میں امریکیوں کی تعداد دو ہزار چار سو کے لگ بھگ ہے۔ اگر تعداد کو دیکھا جائے اور اُس کے بعد ہمارے مسلح تنظیموں کے اخبارات میں بیانات دیکھے جائیں تو یہ تعداد تو دو ہزار دس گیارہ میں پوری ہوجاتی ہے اس حساب سے تو پاکستان کو تو آج سے چودہ سال پہلے بلوچستان سے نکل جانا چاہئیے تھا مگر وہ آج تک بیٹھا ہم پر حکومت کررہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری پہنچ یا سوچھنے سمجھنے کا زاویہ کتنا کمزور ہے۔ امریکہ کا ایک فوجی افغانستان میں مرتا تو امریکی حکمرانوں کو اپنی عوام کو جواب دینا پڑتا ہے کہ وہ ایک فوجی کیوں مرا؟ مگر پاکستان کی سوچ بلکل اُسی طرح ہے جس طرح ہمارے ہاں کچھ لوگوں کی ہے کہ کسی کے مرنے پر وہ بھی کہتے ہیں کہ اِس مرنے والے نے وطن کی خاطر جان قُربان کی، بیرونی ایجنڈے کے سامنے رکاوٹ بنا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مُلک و قوم کی حفاظت میں مرا جو نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری بھی ہے اور ہم بھی وہی کررہے ہیں اور وہی بیانیہ بنا رہے ہیں جو پاکستان اپنے لوگوں کے سامنے بناتا ہے۔
سوچھنے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ اپنے نگینوں کو بنوں، وزیرستان اور سوات کے ایک نسوار خور سپاہی سے کیسے برابر کرسکتے ہیں؟ آپ کی طرف سے شعوریافتہ، قوم و ملک کی محبت سے سرشار، تعلیم یافتہ نوجوان مررہا ہے اور دوسری طرف سے ایک جاہل اور معاشرے کا ناکارہ ترین شخص جس کے مرنے سے اُس کی جگہ ایک اور اُسی کی طرح کا بندا آ کر پُر کرتا ہے مگر آپ کی طرف سے وہ جگہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خالی ہوتی ہے جس کے اثرات آپ کے معاشرے، آپ کی تحریک، آپ کی سیاست اور آپ کی جنگ پر پڑتے ہیں۔ جنگ اور سیاست دونوں ایک دوسرے کے وہ لازم و ملزوم حصے ہیں جس میں کسی ایک کی عدم موجودگی کی صورت میں آپ کو مطلوبہ نتائج نہیں مل سکتے پاکستان جیسے غیر فطری ملک سے مقابلہ ہو تو یہ ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم جنگ اور مرنے مارنے کے علاوہ ان تمام پہلوؤں کو دیکھیں اور ان پر کام کریں جو ہماری قومی تحریک آزادی کو منزل تک پہنچانے میں مدد فراہم کرے۔ جنگ ایک ضروری شے ضرور ہے مگر صرف جنگ یا مرنا مارنا ہمیں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا۔ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام ذرائع استعمال میں لائے جائیں جو قومی و معاشرتی تشکیل میں ہماری تحریک کی مدد کریں۔