دسمبر کا مہینہ تھا چلتی ہوئی سرد ہواؤں نے رات کی تاریکی کو اور گہرا بنایا ہوا تھا،،،، حانل اپنی ہم عمر بہن نگراہ کا ہاتھ پکڑ کر ماں کو آواز دینے لگی،،،،،، امی جان کہاں ہو،،،،، امی جان ہمیں اکیلے ڈر لگ رہی ہے،،،، امی جان کی طرف سے رد عمل میں اگر جواب ملی تو بس وہ طوفان جیسی تیز ہوائیں جو گھر کی چار دیواری سے ٹکرا کر اپنی آواز بدلتی رہتی،۔ُاسی دوران حانل کی ہم عمر بہن مخاطب ہو کر حانل سے کہنے لگی،،، حانل!!!! میرا بھائی لکمیر کہاں ہے جب بھی ماں سے پوچھتی ہوں تو حواس باختہ ہونے لگتی ہے اپنا منہ چھپا نے لگتی ہے،، ماں سے ملنے ہمسائے آتے ہیں تو وہ ہمیں کیوں دوسری کمرے میں جانے کو کہتی ہے!!؟؟؟ حانل،،، نگراہ سے قدرے سمجھدار تھی ،،،نگراہ سے کہنے لگی میری بہن آپ کو یاد ہے امی جان روز سوتے وقت لکمیر کا قصہ لے آیا کرتی تھی،،،،،باتوں ،باتوں مین کہنے لگتی تھی لکمیر کو چار دیواری میں قید رہنا پسند نہیں تھا، اسے گھر سے کچھ ہی دور جلتے ہوئے گاڑیوں سے نفرت تھا،،، نگراہ چونک کر کہنے لگی،،،، ہاں مجھے یاد ہے امی ہر رات اس کی یاد میں موم بتیاں جلاتی رہتی ہے، نگراہ اس انداز میں بولنے لگی جیسے اسے سب کچھ پتا ہو،، نگراہ ضد کر رہی تھی بار بار آپا جان ،،،،،آپا جاں کہہ کر حانل سے کہنے لگی امی جان کو کہہ دو نہ مجھے میرے بھائی لکمیر کا قصہ سنا دے!!!!!! نگراہ درد بھری آواز میں حانل سے کہنے لگی آپا مجھے بھائی یاد آرہی ہے ،،،دونوں جڑواں بہن اس قدر مکالمے میں ڈوب گئے تھے کہ حانل اور نگراہ کو یہ احساس بھی نہیں ہوا جو باتیں کر رہے تھے ان کی ماں سن رہی تھی ، اچانک سے تیز ہواؤں کی لہروں سے دروازہ زور سے کھٹکھٹانے لگا حانل اور نگراہ اونچی آواز میں ماں بول کر گود میں چھپ گئے اسی دوران نگراہ زور سے رونے لگی مجھے لکمیر سے ملنا ہے،،، آپا نے تو مجھے کچھ نہیں بتایا اما جان جب بھی تم سے پوچھتی ہوں چہرا چھپا لیتی ہیں ،،،،یہ ایک ہی رنگ کے گاڑیان راہ چلتے راستے میں کمبوں کی طرح کھڑے بڑے بڑے بوٹ والے کندھے پر میل اور ہاتھوں میں لوہے جیسا مشین آخر ان کا رشتہ ہم سے کیا ہے؟؟؟؟ ،،، نگراہ سوالات پہ سوالات کرتی جا رہی تھی ماں نگراہ کی باتوں کو دلچسپی سے سن رہی تھی،،، ایک ایسا ماحول تھا،، ماں بولنے ہی والی تھی کہ نگراہ روتے ہوئے بولنے لگی امی جان یہ بڑے بوٹ والوں کے ساتھ ہمارا رشتہ کیا ہے ؟ نگراہ ماں کی پیاری سی گڑیا آنسووں رخصاروں پر جگنو کی طرح عیاں ،،،،،اس قدر گہری سانسیں لے رہی تھی جیسے اس بچی کی روح تڑپ رہی ہو ،،،،،ماں دیمی آواز میں بولنے لگی،،،،، اس سر زمین پر بسنے والے ان تمام مظلوم لوگوں کے خدا ہیں جو خاموشی سے ان کا سجدہ کرتے ہیں،، نگراہ خدا!!!!!!!؟؟؟ ہاں خدا،،، نگراہ ماں سے مخاطب ہو کر کہنے لگی ماں خدا تو ایک ہے،،،یہ کیسے ہو سکتا ہے جب بے زبان رہ کر ان بوٹ والوں کے سامنے زیر زمیں ہو کر سر نیچے کرنا، زمیں کی جگہ ان بوٹ پرستوں کے اوپر سر رکھنا ایک قسم کا سجدہ ہی ہوتا ہے،،،،،،،،،،، اچانک سے حانل کہنے لگی امی میرا بھائی لکمیر بھی ایسا تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔تمارا بھائی لکمیر ایک درویش انسان تھا ،یہ چلتی تیز ہوائیں پہاڑوں کی چوٹیاں، آسمان پر بادلوں کا جمود،، ،پرندوں کی زبان میں ہم آواز ہونا ہر روز ایک نئی صبح کے حق میں گیت گانا،،، “ہمارا بلوچستان،،، لائے گی رنگ ایک دن،،، یہ پہاڑوں کی چوٹیاں میرے دیس کے ہیں پاسباں،،،، مجھے ان خداؤں سے کیا ڈر جب پرندے میرے حق میں گیت گاتے رہیں گے میرے خون سے اگر مل جائے نئی صبح تو غم کیا مجھ کو،،، میرے قدموں کے نشانوں سے اگر ملے سکون زمیں کو مجھے کیا ڈر ان بوٹ پرست خداؤں سے،،، ،،نگراہ بڑی دلچسپی سے امی جان کی باتوں کو سن رہی تھی،،،،، نگراہ امی جان سے کہنے لگی بھائی ہر وقت میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کرتا تھا جب آپ بڑی ہو جاؤ گی تو آپ کے کندھوں پر قوم کی ذمہ داریاں ہوں گی اور یہ بھی کہا کرتی، لڑکی ہو کر اپنی غلام سماج کی باتوں میں نہیں ایسا نہ ہو کہ کل معاشرہ آپ کو یہ کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کرے کہ آپ گھر کی عزت ہو آپ کا حق اور فرض صرف گھر کے کاموں کا تک ہی ہے لکمیر کیوں ایسا کہتا رہتا تھا مجھ سے امی جان ؟؟؟؟؟؟؟ امی جان نےاس معصوم پھول کے سر پر اپنا ہاتھ پیر کر بولنے لگی نگراہ میری بچی،،،،،،، ہم ایک ایسے سماج میں رہتے جہاں بیٹی جب بڑی ہو جاتی ہے تو گھر ہی میں اس کی عزت ہے،، جب باہر نکل جائے تو پردہ بس عزت کی نشانی سمجھی جاتی ہے قوم پر جتنا بھی ظلم ہو رہا ہوں سماج میں رہنے والے غلام مرد حضرات کو یہ بات قطعاً راس نہیں آئے گا کہ گھر کی بیٹیاں اپنے حقوق اور مادر وطن سے بےپناہ محبت کا اظہار کریں آپ کا بھائی اس غلام سماج کے اندر رہ کر بھی اکیلا تھا پھر سب کو ساتھ چلنے ہر کوشش کرتا رہتا تھا ایک نہ ایک دن وہ بوٹ پرست خداؤں کی لگائی ہوئی آگ کو بجھانے کے لئے ہم گام ہو جائیں جس میں نسوانیت کا رجحان نہ ہو بوڑھے بچے مرد حضرات اور جوان لڑکیاں مائیں سب ایک ہی راہ پر گامزن ہوں جہاں طبقاتی نظریہ اور مذہب کا کوئی اثر و رسوخ نہ ہو،،،بلوچستان کی سر زمیں پر بسنے والے جانداروں کو بھی آزادی کا حق حاصل ہو۔ جہان کوئی چکور فخر سے اپنا گردن اٹھا کر پانی پینے جا سکے،، نئی صبح کا آغاز بلبل کی سریلی آوازوں سے ہو جہاں فاختہ ایک پہاڑ کی چوٹی سے دوسرے پہاڑ کی چوٹی پر ایک درخت کی ٹہنی سے دوسرے درخت کی ٹہنی پر سکون سے بیٹھ سکے جن کا حق ان سے کوئی چھین نہ سکے ،،،بلوچ سرمین پر بسنے والے ہر بلوچ کو انسان کی نگاہ سے دیکھا جائے جہاں نہ سردار کا کوئی تصور ہو نہ ذات کے اوپر اونچ نیچ کا کوئی فرسودہ ہیجانی تصور کی عکاسی رونما ہو،، نگراہ تمھارا بھائی یہ بھی کہتا تھا کہ جب سب ذاتوں کی پہچان بلوچ سے جڑی پھر یہ طبقاتی نظریہ کا مطلب یہی نکلے گا وہ خود کو بلوچ تصور نہیں کرتا ان باقی سپوتوں کو بلوچستاں کی سر زمیں کو اپنا ماں مانتے ہیں،،،،،، امی جان کو غور سے دیکھ رہی تھی نگراہ ماں کی گود سے اٹھ کر لکمیر، کی یاد میں جلتی ہوئی موم بتیوں اور فریم بھائج کا عکس جو تھا قریب جا کر بیٹھ گئی،، اپنے بھائی کے مسکراتے چہرے پر بوسہ دینے لگی، یہ کہہ کر پرسکون نیند میں سوگئی میں لکمیر تو نہیں بن سکتی پر ،،قوم کی نگراہ،،، ضرور بن جاؤں گی،،،،،