ھمگام رپورٹ

15 جنوری سے لیکر 8 فروری 2024 تک بی ایل اے نے بلوچستان میں پاکستانی انتخابات پر 70 کے قریب حملے کیے۔ ان حملوں میں بیشتر پولنگ کے دوران استعمال ہونے والے تنصیبات، پولنگ و پاکستانی فورسز کے قافلے سمیت پاکستانی انتخابات سے جڑے دیگر سرگرمیاں بی ایل اے کا نشانہ رہے۔ صرف 8 فروری کے پاکستانی الیکشن کے روز بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ نے 43 حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ حملوں میں بی ایم 12 میزائلوں، راکٹ، ریموٹ کنٹرول بم، ہینڈ گرنیڈ اور دیگر جدید اسلحہ کا استعمال کیا گیا۔

یہ حملے بی ایل اے کی موثر جنگی ڈاکٹرائن، تنظیمی استحکام، خفیہ ترین گوریلہ ساخت اور ایکوریسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تمام خوبیان بی ایل اے میں روز اول سے تو تھے ہی مگر حالیہ بحران کے بعد ایک مرتبہ پھر نئے انداز اور دوگنا طاقت کے ساتھ اُبھرتے ہوئے نظر آنا تنظیم کی مضبوط فکری بنیاد اور کامیاب پالیسیز کی عکاسی کرتا ہے۔

8 فروری کے پاکستانی انتخابات کے روز مقبوضہ بلوچستان کے مختلف اہم علاقوں، بلخصوص ساحلی پٹی پر بیک وقت درجنوں مقامات پر حملے کرکے بی ایل اے نے ان علاقوں میں اپنی افرادی قوت اور بے مثال جنگی ہولڈ کا پرچار کیا۔ 8 فروری کو صبح فکس 8 بجے پولنگ کا عمل شروع ہوتے ہی گوادر، جیونی اور پسنی بیک وقت دھماکوں کی آوازوں سے گونج اُٹھتے ہیں۔ مذکورہ تین علاقوں میں صرف تین چار گھنٹوں کے دورانیے میں 25 سے زائد پولنگ سٹیشنز و دیگر مقامات پر 27 حملے ہوتے ہیں۔ یہ حملے اس وقت ہوئے جب ان علاقوں میں قائم پولنگ سٹیشنز فوج اور پولیس کے سخت ترین حصار میں تھے۔ “گوادر سیف سٹی” کے دعوے کے ساتھ چین اور باقی بیرونی سرمایہ کاروں کو دھوکے میں رکھنے کی پاکستانی پروپیگنڈے کا پردہ بی ایل اے نے 8 فروری کو بری طرح بے نقاب کردیا۔

اسی طرح خاران میں 15 جنوری کو پریزائیڈنگ افسران کی ٹریننگ کو سخت سکیورٹی کی حصار میں نشانہ بنانے سے لیکر 8 فروری تک بی ایل اے نے انتخابی دفاتر، اُمیدواروں، پولنگ سٹیشنز و دیگر تنصیبات پر لگاتار متعدد حملے کیے۔ خاران میں بی ایل اے کی پے در پے کاروائیوں سے ایف سی و انٹیلیجنس ادارے اس قدر بھوکلاہٹ کا شکار ہوئے کہ انہوں نے ایف سی اہلکاروں کو سول ڈریس میں شہر کے اندر عام لوگوں کے پیچھے مخبری کرنے کیلئے بیجھا۔ مذکورہ اہلکار اشیاء فروش، بھکاری اور دیگر روپ میں پاگلوں کی طرح ہر شہری کا پیچھا کررہے تھے۔

اس کے علاوہ کوہلو و بارکھان میں پولنگ عملے کے قافلوں کو فوجی سکیورٹی کے باوجود کئیں گھنٹوں تک راستے میں روکھے رکھ کر متعلقہ پولنگ سٹیشنز میں انتخابات کو ناکام بنانا اور کئیں علاقوں میں پولنگ سٹیشنز پر بی ایم 12 میزائل، راکٹ اور دیگر حکمت عملی کے متعدد حملوں سے ان علاقوں میں پولنگ کا عمل نا صرف بری طرح متاثر ہوا بلکہ بیشتر علاقوں میں ایک بھی ووٹ کاسٹ نہیں ہوا۔

اسی طرح تربت اور بلیدہ سمیت مکران کے مختلف علاقوں سمیت بلوچستان بھر میں جن جن علاقوں میں بی ایل اے نے حملے کیے وہاں ووٹ کا ٹرن آؤٹ نہ ہونے کے برابر رہا۔

بی ایل اے کے حملوں میں ایسی خاص بات کیا ہے جو اسے دیگر تنظیموں سے الگ کرتی ہے؟

8 فروری کو بی ایل اے کی جانب سے قبول کی گئی حملوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ سروس کی معطلی اور میڈیا بلیک آوٹ کے باوجود بھی پاکستانی میڈیا، ریاستی حکام، سیاسی اُمیدواروں اور کچھ آزاد صحافیوں نے نا چاہتے ہوئے بھی قریب تمام حملوں کا اعتراف کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بی ایل اے اپنے کاروائیوں کی قبولیت میں مغالطہ آرائی کا سہارا نہیں لیتی اور حملوں میں ہدف اور وقت کا استعمال خطے کے سیاسی و سماجی حالات کے مطابق انتہائی سوچ سمجھ کر کرتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور خاص اور انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ ریموٹ کنٹرول بم، BM-12 میزائلوں، RPG راکٹس اور دیگر بڑے ہتھیاروں سے حملے کرنے کے باجود ایک بھی عام شہری کو نقصان نہیں پہنچا جبکہ اس بیچ میں متعدد مقامات پر فورسز کو جانی و مالی نقصان پہنچنے کے علاوہ متعدد تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے۔ باوجود اس کے کہ یہ تمام حملے آبادی کے بیچوں بیچ پولنگ سٹیشنز اور سرکاری ملازموں و اساتذہ کی موجودگی میں پولنگ کے قافلوں پر ہوئیں تھیں۔ اس بابت تنظیم کے ترجمان آزاد بلوچ نے اپنے بیان میں بتایا کہ ” عوام کو پہلے ہی ہدایت کرنے کے باوجود ہم نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ ان حملوں میں عام عوام کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

یہ بات ایک جانب بی ایل اے کے حملوں کی ایکوریسی اور سرمچاروں کی میچورٹی اور اعلیٰ تکنیکی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ کرفیو جیسے حالات میں متعدد حملے کرنے کے باوجود بی ایل اے کے سرمچار اس بات کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ پولنگ میں بہلا پھسلا کر اور دھوکہ دہی سے لائے گئے نہتے شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔ دوسری جانب یہ بی ایل اے کی منظم و مستحکم تنظیمی ساکھ کو بھی واضح کرتا ہے کہ تنظیم میں لیڈرشپ سے لیکر ایک گوریلہ سپاہی تک تمام ادارے اور افراد انتہائی ڈسپلن میں کام کرتے ہیں۔

اس کے برعکس بلوچستان کی دیگر مسلح تنظیموں میں ذمہ داری اور میچورٹی کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ تنظیموں کی جانب سے اپنی کاروائیوں کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرکے عالمی میڈیا میں بے اعتباری کا ماحول تشکیل دینا، مسلح حملوں میں نہتے شہریوں کو نقصان پہنچا کر بعض اوقات ان کا اعتراف نا کرکے بلوچ عوام کو دھوکے میں رکھنا ایسے عوامل ہیں جنہوں نے بلوچستان کی مسلح جدوجہد پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

بی ایل اے کے اندر روز اول سے ٹرانسپیرنسی ہمہشہ سے اولین ترجیح رہا ہے۔ جنگ جیسے بے رحم عمل میں اگر اس کے سرمچاروں کے ہاتھوں غلطی سے کسی شہری کو نقصان پہنچے تو تنظیم بروقت اس کا اعتراف کرتا ہے۔ بی ایل اے بلوچ قوم کو اپنا سپریم پاؤر تصور کرکے اپنے ہر عمل میں ہمیشہ بلوچ قوم کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں کہ بلوچ عوام یا تحریک سے جڑے جو لوگ کسی وجہ سے جنگ سے بدظن ہوجاتے ہیں تو انہیں قومی تحریک سے جوڑے رکھنے کی آخری اُمید بی ایل اے ہوتی ہے۔

بی ایل اے کی جنگی ڈاکٹرائن میں ماضی کی نسبت اب کیا مختلف ہے؟

بی ایل اے وہ واحد تنظیم ہے جسے مادر آرگنائزیشن قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ بلوچستان کی دیگر تمام مسلح تنظیمیں بی ایل اے سے برائے راست یا اسکی سپورٹ سے جنم لے چکی ہیں۔ البتہ بی ایل اے کی دو دہائیوں سے زائد کی تاریخ میں اسے کئیں تنظیمی بحران کا سامنا رہا ہے۔ ان بحرانوں کے وجوہات بھی یہی ہیں کہ بی ایل اے نے اپنے پالیسیز پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

2018 کے تنظیمی بحران کے بعد سے لیکر 8 فروری کے حالیہ ریاستی الیکشن پر بڑے پیمانے پر بلوچستان میں آرگنائزڈ حملوں تک اگر اس دورانیے کا جائرہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بی ایل اے گزشتہ چند سالوں سے اپنے اندرونی پالیسیز اور جنگی ڈاکٹرائن کو مزید بہتر بنانے پر کام کررہی تھی۔

بلوچستان کے ساحلی پٹی سے لیکر مکران، رخشان اور کوہلو، بارکھان، ہرنائی سے کوئٹہ تک بی ایل اے نے اپنے 8 فروری کے حملوں سے یہ پیغام دیا کہ بلوچستان کے کسی بھی کھونے میں کسی بھی حالات میں اس کے سرمچار ہر طرح کے کاروائی اور آرگنائزڈ آپریشنز کرنے کے قابل ہیں۔