تحریر :سنگت بلوچ

دنیا کی تاریخ پر اگر ہم ایک نظر ڈالیں تو ہمیشہ ہمیں مظلوم اور ظالم کی داستانیں مختلف سماج میں ایک نئی شکل میں دیکھنے کو ملتی ہے اگر آج ہم دنیا میں بلوچ یا مقبوضہ بلوچستان کا نام کسی بھی جگہ سنیں تو ہمارے زہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں اگر میں یوں کہوں پچھلے دو دہائیوں سے مقبوضہ بلوچستان کے کونے کونے میں ایسے سینکڑوں واقعات رو نما ہوۓ ہیں یا میں یوں کہوں کہ دشمن کی طرف سے ظلم کی ناقابل فراموش مثالیں رقم کی گئی ہے ظالم ریاست نے مقبوضہ بلوچستان میں جو آج تک بلوچ معاشرہ ان سے لا علم ہے ۔ اگر ہم بلوچ قوم کی نفسیات کی بات کرے تو ہمیشہ ہمیں ایک لفظ مزاحمت زیادہ سننے کو ملتی ہے چاہے ان میں مرد ہو یا خواتین ایک زمانہ ایسا تھا جب بلوچ قوم میں ایسی مثالیں ہمیشہ ہمیں اپنے سفید ریشوں کے محفل میں سننے کو ملتی تھی آج کے اس جدید دور میں اکثر ایسی مثالیں ہمیں کتابوں ، یا آرٹیکلز میں ملتی ہے۔

مقبوضہ بلوچستان میں ایک ایسا واقعہ پنجگور کے علاقے چتکان بازار میں 2 جنوری بروز جمرات 2014 کے دن 10:45کو پیش آیا وہ داستان آج بلوچ سماج میں ایک مزاحمت کا سمبل بن چکا ہے۔اگر دیکھا جاۓ تو اس ریاست میں بلوچ ہونا سب سے بڑا جرم بن چکا ہے ہر گزرنے والا دن بلوچ قوم کیلیۓ اپنے ہی سرزمین پر عزت کے ساتھ رہنا ایک مشکل چیلنج بن چکا ہے۔

اسی طرح حمل خان بلوچ ان بہت سے کرداروں میں سے ایک ہے، جو اس چیلنج کو قبول کرکے دشمن کو ایک واضع پیغام دیا۔ حمل خان کا گناہ صرف اور صرف بلوچ ہونا تھا پیشے کے لحاض سے وہ ایک پولیس انسپکٹر تھا اور وہ ہمیشہ اپنے ساتھ ایک 9 ایم ایم پسٹل بھی رکھتا تھا۔جمعرات کے دن جب وہ اپنے کزن کے ہمراہ اپنے گھر خدابادان سے نکل کر بازار کی طرف روانہ ہوۓ جب وہ بازار میں داخل ہوۓ تو اس وقت روزمرہ معمول کی طرح لوگ اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ دکان دار اپنے کاموں میں دوسرے لوگ اپنے اپنے کاموں میں جب اچانک بازار میں ایک جھڑپ شروع ہوتا ہے تو اس وقت حمل خان اپنے ہمراہ بلوچ خان کے ساتھ ایک دکان میں کچھ سامان خرید رہا ہوتا ہے تو اسی وقت حمل خان اپنے پسٹل کو چیمبر کرکے الرٹ ہوجاتا ہے۔

شہر کے سب لوگ بازار کو بند کرنا شروع کردیتے ہیں ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے کہ ہر کوئی اپنا جان بچانے میں لگا ہوتا ھے اور بازار کے چاروں اطراف قابض سرکاری فورسز اپنے گیھرے میں لے لیتے ہیں تو اس وقت حمل خان اپنے ہمراہ بلوچ خان کے ساتھ بازار سے نکل کر گھر کی طرف روانہ ہوتے ہے تو جب وہ جیولری مارکیٹ میں پہنچتے ہے تو وہاں MI والے اور FC والے انہیں روکتے ہیں جب ایم آئی والے ان کے پاس آتے ہیں تو تلخ لہجے میں ان سے پوچھتے ہیں کہ تم لوگ کون ہو ؟ تو حمل خان جواب دیتا ہے کہ میں حمل خان ہوں تو وہ انھیں دھکہ دیتے ہیں حمل خان کو اور تلخ لہجے میں کہتے ہیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو تو حمل خان جواب دیتا ہے ارے میں جھوٹ نہیں بول رہا، میں ایک بلوچ اور پولیس انسپکٹر ہوں تو وہ حمل خان کو ایک بار پھر دھکہ دیتے ہیں اور بلوچ خان سے پوچھتے ہے۔

کہ تمھارا نام کیا ھے تو وہ اپنا نام بتاتا ہے تو اس وقت بلوچ خان بہت بیمار ہوتا ہے اور کمزور بھی جب وہ اپنا نام بتاتا ہے تو ایم آئی والے اسے بھی دو تھپڑ مارتے ہیں زور سے تو وہ منہ کے بل گرجاتا ہے اور ایک بار پھر حمل خان کے پاس آکر اسے بھی دھکہ دے کر ان کے منہ پہ تپڑ مارتا ہے اور اسے گالیاں دینا شروع کردیتا ہے تو حمل خان بھی اس سے پہلے ایک بڑا دھکہ ایم آئی والے کو دیتا ہے جب ایم آئی والے پیھچے کی طرف زمین پر گرتا ہے تو اسی وقت حمل خان اپنے پسٹل کو نکال کر اس کے سر پہ گولیاں ماردیتا ہے یہ تو وہ اسی جگہ پہ مر جاتا ہے اسی دوران آمنے سامنے لڑائی شروع ہوجاتی ہے باقی دوسرے ایف سی والے معفوظ جگہوں پر پوزیشن سنبھالنے کی کوشش کرتے ہے اسی دوران حمل خان ایم آئی کے 2 اور افسران اور ایک ایف سی والے کو مار گراتا ہے اور خود تین گولیاں کھا کر جام شہادت نوش کرتا ہے اور بلوچ تاریخ میں ہمیشہ کیلیۓ نمیران ہوتا ہے اور دوران جھڑپ بلوچ خان شدید زخمی ہوتا ہے۔

اسی طرح حمل خان بلوچ نے اپنے عزت کی دفاع کیلیۓ دشمن کے سامنے سر جکھانے کے بجاۓ بلوچ قومی مزاحمت کو ترجیح دیتا ہے اور دشمن کو باور کراتا ہے کہ بلوچ قوم اپنے عزت کیلیۓ جان لے بھی سکتا ہے اور جان دے بھی سکتا ہیں۔