گوریلا جنگ کے ماہرین نے پتہ نہیں کتنی صدیاں کتنا عرصہ کس پیمانے کی جان گداز قربانیاں دینے کے بعد یہ کلیہ متعارف کروایا کہ جب طاقت کا توازن تمھارے حق میں نہ ہو تو باقاعدہ داؤپیچ، نت نئی چالبازی اور مشہور زمانہ گوریلا جنگی حربہ ” ہٹ اینڈ رن” کی حکمت عملی اپناؤ، دشمن کو مصروف رکھو، دشمن پر ایسے وار کرو جس کا دشمن کسی بھی حال میں توقع نہ رکھتا ہو، طاقت کا توازن کیونکہ “بیس” اور “اسی” کے تناسب سے بھی زیادہ بگڑا ہوا ہے، اس میں طاقت کے بیس فیصدی سے بھی کم تناسب کے پلڑے پر کھڑے ایک گوریلہ جنگی لشکر کیسے اسی یا اس سے بھی زائد فیصدی تناسب پر براجمان منظم و بھاری ہتھیاروں سے لیس دشمن کو شکست دے؟
یہ وہی سوال ہے جس نے طاقت کے توازن کی حقیقت کو قدرے غیر موثر کردیا، بڑی قربانیاں دینے، تجرباتی عمل سے گزرنے اور خون پسینہ بہانے کے بعد گوریلہ و روایتی دونوں جنگی ماہرین اس نقطہ نظر پہ آکر ٹھہر گئے کہ ” پسینہ بہاؤ خون بچاؤ” یعنی چھوٹی سی چھوٹی کامیابی کے لئے بہت سارے جتن کرو تکلیفیں اٹھاؤ اور بہت محنت کے بعد ایک کامیابی حاصل کرو، لیکن اپنی جان کو ممکن حد تک ہوسکے تو بچاؤ، اس میں یقیناً پسینہ بہت زیادہ گرتا ہے، محنت بے انتہا کی لگتی ہے اور جانکنی اعصاب شکنی کی تو بات ہی نہیں، گوریلہ جنگی بنیادوں میں سخت ترین اصولوں پر کاربند رہنا اور اپنے نظریات و آدرشوں سے کسی بھی سنگیں و پیچیدہ صورت حال کے باوجود جڑے رہنے کی پالیسی نے ویت کانگ کے سامنے امریکہ جیسے عالمی قوت کے حامل فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، گوریلہ لشکر ہمیشہ عددی اور وسائل کے اعتبار سے کمزور پوزیشن میں ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کو اپنی غیر متوقع جنگی حربوں کے باوصف طویل دورانیے میں تھکا کر شکست سے دوچار کردیتی ہے۔
گوریلہ جنگ ہو کہ روایتی جنگ، فیصلہ ہمیشہ کمانڈ یا لیڈرشپ کرتا ہے، کیڈرز کے جذبات، ریکروٹس کے خواہشات یا تمنا، ان سب کا جنگی اصولوں میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، کسی بھی سخت سے سخت ترین فیصلے پر عمل کرنے کے لیئے کیڈر یا نچلی سطح کے سپاہی کو تیار کرنا کمانڈ کی ذمہ داری ہے، کسی بھی سخت اور جذبات سے بھرپور خواہش و تمنا سے سپاہی یا کیڈر کو روکنا بھی لیڈرشپ اور کمانڈ کی ذمہ داری ہے، گوریلہ جنگ کی جان کاہ ماحول میں موت شاید بہت ہی حقیر اور آسان فیصلہ معلوم ہو، بلوچ فدائین کے حوالے سے اگر بات کریں تو کہتے ہیں وہ نام خود درج کرواتے ہیں، وہ اپنی خدمات خود پیش کرتے ہیں، وہ خود فدائی کے رستے کا انتخاب کرتے ہیں، ان پہ کوئی زور نہیں، انکی جرات کو سلام ہے، انکی وطن سے بے لوث محبت اور مٹی سے وابستگی کا دیوانہ پن رہتی دنیا تک ذہنوں کو جھنجھوڑتی رہیگی، اور انکی مادر وطن سے عشق کی کہانیاں آنے والے بلوچ تاریخ و اساطیر کا انمٹ حصہ بن جائیں گی، ان پر کوئی سوال نہیں ان پر کوئی حرفِ اعتراض نہیں، لیکن تمھارے انکے بے دھڑک استعمال پر ضرور سوال ہے اور یہ سوال کا حق ہر ایک بلوچ سیاسی کارکن رکھتا ہے، زمان و مکان، زمینی حقائق و تحریکی تقاضوں سے پرے کمانڈ لیول کے ایسے فیصلوں پر ضرور بات کرنی چائیے۔
نواب حیربخش مری سے جب بالاچ مری کے شہادت کے حوالے سےایک صحافی نے سوال کیا تو نواب مری نے پہلے تو ان سازشی افواہوں کو رد کردیا اور دوسری انہوں نے جو بات کی وہ یہ کہ ” زندہ رہتا، جد و جہد کرتا، تکلیف میں رہتا” مجھے سمجھ نہیں آتی کہ حوصلوں کی جنگ کیا ہے، کیا موت ہی حوصلوں کا آخری چٹان ہے، یا زندہ رہ کر تمام تکالیف و مصائب سے نبرد آزما ہونا حوصلوں کی جنگ کا نشان ہے؟ بالاچ مری مارا گیا قوم کو اور قومی جہد آزادی کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا رہا اگر وہ زندہ رہتا تو کافی تکلیفیں جھیلتا، دشمن سے بچنے اور دشمن کو تھکادینے کے لیئے کئی طرح کی جتن کررہا ہوتا، یقینا مصائب جھیلتا اور روز موت کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے شکست دیتا اور پھر ایک نئے دن نئی حکمت عملی نئی شروعات کے ساتھ پھر موت کا سامنا کرتا، اس جہدِ کارزار میں بیماریاں، بھوک، پیاس، دشمن کا تعاقب، سنگلاخ پہاڑوں کی زندگی اور اپنی بے سروسامانی کے ساتھ دشمن کی جدید ہتھیاروں سے بچتے ہوئے اپنے اعصاب کو قابو میں رکھنا اور ہمیشہ ذہنی و فکری حوالے سے خود اور اپنی ساتھیوں کو تازہ دم رکھنا، یہ سب انتہائی مشکل ہے، یہ اعصاب شکن جنگ موت جیسی اگر نہ بھی ہو تو کم از کم موت جیسی اذیت ان تمام عوامل میں موجود ہے ان سے نبردآزما ہونا ہر نئے دن ایک نئے طریقے سے موت کو شکست دینے جیسا ہے۔
ایک جہد کار کی زندگی کو سوائے نظریے کے باقی تمام چیزوں پر فوقیت حاصل ہونی چاہئے، اب نظریے کی بچاؤ اور اسے محفوظ رکھنے کے بھی کئی مراحل ہیں، موت سے ہرحال میں بچنا بھی لازمی نہیں ہے، کہیں کہیں موت باقی معاملات سے بہت حقیر بہت کم نقصانات کا حامل محسوس ہوتا ہے، جب ایک کیمپ پر دشمن حملہ آور ہوتا ہے تو ٹولیوں میں بٹتے ہوئے محفوظ رستے کی تلاش میں دشمن سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے، ساتھیوں اور اپنے لیئے محفوظ رستے نکالنے پڑتے ہیں، تو جب اسی محفوظ رستے کو پانے اور دیگر دوستوں کے لیئے خود کو انسانی حفاظتی ڈھال بنا کر سنگت ” امیر ” دشمن سے دو بدو لڑتے ہوئے آخری گولی کا انتخاب کرتا ہے توآخری گولی کا فلسفہ سنگت ” جمال ” کے لہو میں ڈوب کر اپنی شان میں مزید بلند ہوتا ہے، ایک ایسا عمل جس میں آخری گولی کے فلسفے کو مزید گہرائی و گیرائی نصیب ہوتی ہے، یہ حالات کی ناگزیریت کے باوصف موت کو باامر مجبوری قبولنے اور نظریئے پر ثابت قدم رہنے کا نام ہے۔
جب زندگی کا اختتام ناگزیر ہو تو موت سے بھاگنا بزدلی اور مزید زندہ رہنا بیشتر ناکامیوں کا سبب پیدا کرتا ہے، ایسے میں موت کی ناگزیریت کے سائے میں زندگی کا انتخاب کرنا جیتے جی مرجانے اور نظریاتی اساس سے روگردانی کا مترادف ہے، لیکن اکثریتی اعتبار سے زندگی ناگزیر ہے، موت سے ممکنہ حد تک بچنا اور زندہ رہ کر تکلیفیں اٹھانا اور دشمن کو مزید تکلیف دینے کے لیئے جتن کرنا جد و جہد کے لیئے مزید راہیں نکالتے ہوئے دشمن کا کمر توڑنے کے لیئے لہو بچاکر پسینہ گرانا لازمی ہوجاتا ہے، زندگی کی ناگزیریت کے سامنے موت کا از خود انتخاب کرنا ناکامی ہے، اجتماعی عمل کے لیئے بھی اور خود اپنے آپ کے لیئے بھی۔ اب اجتماعی جہد آزادی کے درمیان موجود اس باریک لکیر کو سمجھیے کہ جہاں ایک طرف موت زندگی بھی ہے اور دوسری طرف موت زندگی کی تکالیف و روز افزوں مصائب سے بچنے کے لیئے راہِ فرار بھی ہے، اب تم خود سوچیے کہ تم لکیر کے کس پار کھڑے ہو اور کیوں کھڑے ہو؟۔ موت اور زندگی دو انتہا ہیں ایک ہے تو دوسرا نہیں ہے، اب کس کی قیمت پر کس کو بچایا جائے؟ اور یہ کون طے کرتا ہے کہ زندگی ضروری تھی یا موت سے بغلگیر ہونا؟ میرے حساب سے ایک بلوچ آزادی پسند جہد کار کی موت و زیست کا فیصلہ ان نظریاتی تقاضوں کی بنیاد پر ہو جن کے لیئے ہم جد و جہد کررہے ہیں، بالاچ مری، امیربخش، مجید ثانی، غلام محمد، غفارلانگو، حمید شاہین، جمال، سمیت دشمن کے ہاتھوں شہید ہونے والے بیشترساتھیوں کا مرگ قبل از وقت لیکن ناگزیریت کی مجبوری سے پیوست تھا، دو متحارب لشکر میں کبھی کبھی کہیں کہیں دشمن کا لشکر بھی تم پر غالب آسکتا ہے، ان سب کی شہادت جہاں ناگزیر تھی وہیں ایک ناکامی بھی تھی سراسرناکامی، بالاچ اور بالاچ کے ساتھی شاید بالاچ کو چاہ کر بھی موت سے نہ بچا سکے، بالاچ کی شہادت دشمن کی جیت تھی، دشمن بلوچ قومی تحریک کو نقب لگانے میں کامیاب ہوگیا اور نفسیاتی حساب سے برتری بھی پا لی، بالاچ ایک بے وقت حادثے میں ہم سے جدا ہوئے، لیکن “بالاچ اگر زندہ ہوتا تو تکلیف میں ہوتا اور جہد کررہا ہوتا” حیربخش مری کی اس ایک ہی جملے میں زندگی کی اہمیت و قیمت کے حوالے ایک نایاب مشورہ موجود ہے، زندگی نام ہے جتن کا محنت کا اور تکلیفیں سہتے ہوئے دشمن کو ہلکان کرکے تھکا دینے کا، ایک لمبی سیاہ رات، مسلسل جتن اور پائے استقامت جد و جہد میں کامیابی کی نوید لے کر آتی ہے۔
:یعنی لہو بچاؤ پسینہ گراؤ
ہم جد و جہد کرنے والے غلام ہیں، غلامی کی لعنت کو سمجھنے والے غلام، وہی غلام جو یہ جانتا ہے کہ دشمن کون ہے اور میں کون ہوں، میری طاقت کیا اور دشمن کی کمزوری کیا ہے، ایک ایسا ترکیب، ایک ایسا گُر، ایک ایسا حربہ اور ایک ایسا جنگی نسخہ جسے دشمن ہزارہا کوششوں کے باوجود نہ توڑ سکے، گوریلہ جنگ کا یہی محور رہا ہے، موت کی ناگزیریت کو قبولتے ہوئے موت سے ہرممکنہ حد تک بچنے اور کم سے کم نقصان کے ساتھ دشمن کو زیادہ سے زیادہ ضربیں لگانے کا عمل گوریلہ جنگ کی بنیادی اصولوں میں سے ہے، پتہ نہیں شہید بالاچ مری کے پیدائش کے وقت ان کو یہ نام کس نے دیا ہوگا اگر حیربخش مری نے نام رکھا ہوگا تو میرا گمان یہی کہتا ہے انکے ذہن میں کہیں نہ کہیں بلوچ اساطیر اور لوک تاریخ کا کردار ” بالاچ گورگیج ” کا کرداری عکس موجود رہا ہوگا، غالبا اپنے اور حریف کے درمیان موجود طاقت کی خلیج کو بھانپتے ہوئے بالاچ گورگیج پہلے بلوچ ہیں جنہوں نے “ہٹ اینڈ رن” کی پالیسی اپنائی، فطرت کی دی ہوئی تمام عوامل سے اپنی طاقت کو بڑھانے کے لیئے مدد حاصل کی، رات کی تاریکی، کم نفری، ہتھیاروں کی قلت، سواری و جنگی وسائل کے درمیان نابرابری، پہاڑوں کا مسکن اور قرب و جوار میں گمنام پھرنے اور گاؤں کی تندروں پر روٹی کے لیئے سوالی ہونے کا وہ عمل جس نے بعد میں بالاچ گورگیج کو بلوچ اساطیر میں عظمت کی بلندیوں پر فائز کردیا، من کساناں ءُ ٹیمبر ءُ گونڈواں من مرمریں آسانی سرا زُنڈاں من کولاں چہ گرمیں تاپگاں پنڈاں زال مناں نیکور جناں چماں زال مناں نیکور ءُ شگان زپتیں
انکی نوخیز عمر اس حکمت عملی کے آڑے نہیں آئی ،انکی عمر اور جسامت قد کاٹ شاید چھوٹے ہوں گے لیکن وہ ذہنی و فکری اور ترجیحات کی حساب سے یقینا پختہ تھے۔
آٹھ بٹا آٹھ کا کلیہ ایک گوریلہ جنگ میں بھلا کیسے کارگر ہوسکتی ہے، پاکستانی فوجی ساخت کو اور اسکی تنظیمی ڈھانچے کو ذرا تصور میں لائیے، روایتی فوجی کمانڈ، وسائل کی ریل پھیل، افرادی قوت کی جمِ غفیر، دوران سروس و پسِ سروس اہل و عیال کی مکمل دیکھ بھال، جنگی میدان سے دور بلکہ بہت دور سستانے اور ذہنی و جسمانی حساب سے تازہ دم ہونے کے لیئےایک پرامن علاقہ، اور جب چاہے نئے ریکروٹس کی بھرمار، اب ایک گوریلہ لشکر کے پاس کیا ہے، سو دو سو، یا ہزار ذہنی و فکری حوالے سے مستحکم جنگی رضاکار، ایک شعور اور ایک جذبہ لہذا اپنی مقصد اور اپنی آدرشوں کی حصول کے لیئے، فکری و شعوری بنیادوں پر تیار آٹھ گوریلہ سپاہی دشمن کے ساتھ آٹھ سال یا اس سے بھی زیادہ عرسے تک لڑسکتے ہیں، اب پاکستانی آٹھ سپاہیوں کو مارنے کے لیئے آٹھ فکری و شعوری گوریلہ سنگتوں کو قربان کرنا کہاں کی گوریلہ حکمت عملی ہے، کہاں دانشمندی ہے۔
ہمارے پاس پسینہ گرانے کا اعصابی قوت موجود ہے، ہم تھکن کو برداشت کرنے اور لمبی سفر کے لیئے اپنے اندر ایک نفسیاتی عادت ڈال دیتے ہیں، ہمیں لہو سے زیادہ اعصاب شکن صبر، برداشت و تحمل اور طویل دورانیے کی استقامت و ثابت قدمی سے سرانجام دیئے گئے چھوٹی چھوٹی کاروائیاں دشمن کی بلین ڈالرز عسکری قوت پہ برتری عطا کرتا ہے، چار مضبوط اعصابی قوت کے حامل اور نفسیاتی بنیادوں پر محکم ” گوریلہ سنگت” چار سال تک دشمن سے نبرد آزما ہوسکتے اس کو انگیج رکھ سکتے ہیں،اسکو اعصابی بنیادوں پر تھکا کر نفسیاتی حوالے سے شکست کے قریب تر لا سکتے ہیں، یہ پسینہ بہانے اور لہو بچانے والی گوریلہ جنگ کا بنیادی فلسفہ تھا جسے لہو کے تیز دھاراور فوار کے سامنے متنازع کردیا گیا ہے۔
نواب مری اپنے ایک تقریر میں مریوں کا غالباً ایک انگریز قلعے پر حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تعداد میں شاید بہت زیادہ رہے ہونگے لیکن وہ دس میل دور سے بھاگتے بھاگتے جب قلعے تک پہنچے تو ان میں کوئی بھی لڑنے کا نہ اوسان رکھتا تھا نہ قابل رہ گیا تھا، وہ کہتے ہیں کیوں کہ فکر قبائلی ہے وہاں یہ دکھانا ہے کہ میں دوسرے سے زیادہ دلیر ہوں، وہ گریبان کا بٹن کھولنے اور سب سے آگے جانے کی تمثیل کو ملاتے ہوئے قبائلی ذہنیت کی دلیرانہ پن کو واضح کرتے ہیں، ابھی اگر ہم حالیہ فدائی حملوں کی روش کا جائزہ لیں تو کیا یہاں پر اب بھی یہی طریقہ نہیں اپنا یاجارہا ہے، جنگی جملہ حکمت عملیوں میں جذباتیت و قبائلی سوچ و فکر کا علاقہ ہے بھلا؟ ہم پتہ نہیں کتنے عرصے خود معتبر ٹھہرنے کے باوصف مڈل کلاس و قبائلیت کا گردان کرتے آرہے ہیں لیکن ہم یہ قطعاً نہیں دیکھتے کہ ہماری اپنی سوچ قبائلی ہے، ہم بھلے قبائل سے نہ ہوں لیکن اس نفسیات کیا اس سوچ کا کیا جو ہرچیز اور عمل میں قطع نظر اغراض و مقاصد و تقاضوں کے بس آگے بڑھنے، دشمن سے بہرحال لڑنے، اور اپنوں سے بازی لیجانے و برتر نظرآنے اور سروں کو بے دھڑک قربان کرکے لہو بہانے کا روادار ہو۔
ایک لشکر کے پناہ گاہ یا کیمپ پر دشمن اپنی جدید ترین توپ و بمبار جہازوں سمیت حملہ آور ہوتا ہے تو وہی گوریلہ لشکر اپنی ناتواں فوجی حیثیت کے باوجود مزید حفاظتی اقدامات کے تحت اپنے کو بہترین پوزیشن میں رکھنے کے لیئے اپنے حفاظتی پرتوں یا لئیرز کی از سر نو جائزہ لیتے ہیں، دشمن کی بہتر اور زیادہ جلدی تدارک اور پیش قدمی روکنے کے لیئے اپنی سیکیورٹی پوسٹس کو مزید اونچی جگہ منتقل کرتے ہیں، شاید اپنی بیس کیمپ ہی کو ہی مزید اندر کی طرف منتقل کردیں تاکہ دوبارہ حملے کے وقت دفاعی پوزیشن میں گوریلہ لشکر کو دشمن فوج پر تمام تر عسکری بالادستی کے باوجود برتری حاصل ہوسکے۔
ہر دو چار مہینے بعد چار، آٹھ نوجوانوں کو مسلح کرکے دشمن کے کیمپوں میں بھیج دینا، کیا بنیادی عسکری تحفظ کے تحت ہم کو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ پاکستانی فوج اب ایسے حملوں کے لیئے تیار ہے اور وہ تمہیں آسانی سے گھسنے نہیں دیں گے، تم وہاں سے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکوگے۔
کیا ایک آدھ دن کی اخباری سرخیوں کے لیئے آٹھ نوجوانوں کی بھلی دینا عقلمندی ہے، سوشل میڈیا تشہیری مہم ہے، شعر و شاعری کی جذباتی مناظر کے لیئے فلمی سین تخلیق کرنا ہے، جذبہ ہے، قربانی ہے، کسی دوسرے کو نیچا دکھانا ہے، بدلہ لینا ہے، آزادی کی جد و جہد ہے، کیا ہے؟ تربت نیوی کیمپ پر ہونے والے فدائی حملے کے شروع ہونے کے محض ایک گھنٹے بعد انتظامیہ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ چار حملہ آور ہیں جنہں انگیج کیا گیا ہے، اور انہیں سات آٹھ گھنٹے انگیج کرنے اور ایڈوانس سے روکنے کے بعد جب جنگ ختم ہوجاتی ہے تو بلوچ قوم کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ہمارے چار فدائین وطن پر قربان ہوچکے ہیں، اب اسکو کیا کہیں گے؟
موت از خود ایک ناکامی ہے، ایک شکست ہے اور ایک طرح سے ناگزیریت کے تحت موت آخری انتخاب ہے، ہم کبھی کسی جہدکار کا انفرادی بنیادوں پر نہ بدلہ لیتے ہیں نہ ہی اس بارے سوچتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری تمام قربانیوں کا حاصل وصول ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی حصول ہے، کیا وہ وقت آگیا ہے کہ دشمن کو گھیرنے کے لیئے سروں کی بے دریغ قربانیاں دے دی جائیں؟
کیا آزادی کی منزل اتنی قریب آگئی ہے کہ ہم سروں کا پرواہ کیئے بغیر دشمن کے بیس کیمپوں پر حملہ آور ہوجائیں؟
کیا بلوچ اپنی تحریکی سفر میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب گوریلہ جنگ کی ضرورت ختم ہوگئی؟
ابھی تک تو بلوچ خود اپنے اندر ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی پانچ چھ مسجدیں رکھتے ہیں، کسی مسجد کا رخ ایران کو سجدہ ٹوکتا ہے تو کسی مسجد میں ہٹ دھرمی کو پیش امام بنایا گیا، ہنوز دلی دور است کے مصداق بلوچ کو ابھی بہت محنت سے صبرآزما سفر طے کرنا ہے۔