خاران(ہمگام نیوز ) گزشتہ دنوں خاران شہر میں نامعلوم افراد نے گھنیش نامی ایک مقامی تاجر کے گھر کے قریب اس کے چھوٹے بھائی کو ایک پرچی کے اندر بندوق کی گولی تھما دیا تھا، پرچی میں 50 لاکھ روپے کے بھتے کیلئے تاجر کو دھمکی دی گئی ہے، اور ساتھ میں ایک سیٹلائٹ نمبر کے ذریعے رابطے کا ذکر کیا گیا ہے۔
مذکورہ واقعے اور اس سے قبل رونما ہونے والے واقعات نے علاقے میں بے چینی اور تشویش کا ماحول پیدا کیا ہے۔
واضح رہے کہ گھنیش سیٹ پمّا کا فرزند ہے۔ مذکورہ فیملی گزشتہ کہیں دہائیوں سے خاران میں تجارت کررہی ہے۔ اپنے اخلاق، عاجزی اور ایمانداری کی وجہ سے علاقے میں خاص عزت اور مقام رکھتے ہیں، ایسے ایک شریف فیملی کو پرچی کے اندر بندوق کی گولی رکھ کر بھتے کیلئے دھمکی بیجھنا ایک انتہائی بزدلانہ قدم ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سے بھتہ مانگنے والے عناصر کون ہوسکتے ہیں۔ دراصل یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ خاران میں ہندو کمیونٹی کے ساتھ اس طرح کے واقعے ماضی میں کہیں مرتبہ پیش آچکے ہیں۔ اس پر آگے چل کر مزید بات کریں گے البتہ اس تازہ واقعے میں ایک اہم نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں بشمول خاران میں سیٹلائٹ فون عام طور پر یا تو آزادی پسند مسلح تنظیمیں استعمال کرتی ہیں یا پھر پاکستانی فوج یا انٹیلیجنس ادارے یا پھر فوج کے سپانسرڈ ڈیتھ سکواڈ یا اہم کارندے یا منشیات فروش ان کے علاوہ خاران کے کسی چھوٹے موٹے چور یا ڈاکو کیلئے یہ ہرگز ممکن نہیں کہ وہ سیٹلائٹ فون کے ذریعے ایسے کاروائیاں کرے۔
اس میں ایک بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے اور اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ شرمناک اور بزدلانہ حرکت کسی آزادی پسند مسلح تنظیم کا ہرگز نہیں ہے۔
اب پاکستانی فوج، خفیہ اداروں اور ان کے پالے ہوئے جتوں کی جانب آتے ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلوچستان کے کسی بھی کھونے میں اگر کسی منشیات فروش، سمگلر، ڈکیت، اغواء کار، مذہبی شدت پسند، ٹارگٹ کلر یا کسی بھی بدکار کا دُم اُٹھاؤ اس کے نیچے سے ایم آئی یا آئی ایس آئی کا کارڈ نکلتا ہے۔ ہم متعدد مرتبہ ان حقائق سے پردہ اُٹھا چکے ہیں کہ ایف سی اور خفیہ ادارے دیگر علاقوں کی طرح خاران میں روز اول سے مختلف لوکل گینگ چلا رہے ہیں۔ یہ کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ ایم آئی، آئی ایس آئی و ان کے لوکل جتوں کے بیچ موجود ہمارے متعدد خاص ذرائع مختلف اوقات میں ان حقائق کی تصدیق کرچکے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوکل جرائم پیشہ افراد کے ساتھ گٹھ جوڑ میں ایف سی و خفیہ اداروں کے کیا مفادات جڑے ہیں۔ اس موضوع کے مختلف عوامل ہیں جنہیں ایک ایک کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قبل ازیں اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ پنجاب و دیگر خطوں سے آنے والے ایف سی و خفیہ اداروں کے تمام اہلکار و افسران خاران میں گُنگے بہروں کی مانند ہیں۔ ان کے آنکھ اور کان یہاں کے لوکل مخبر و کارندے ہوتے ہیں۔ ان کے کمک کے بغیر بلا ایک پنجابی فوجی کو کیا خبر کے آدھی رات کو خاران میں کس گھر کے اندر گھس کر کس کو اغواء کرنا ہے۔
اب چونکہ اپنے معلومات دائرہ کار بڑھانے کیلئے فوج و ایجنسیوں کو زیادہ تعداد میں لوکل مخبر و آلہ کار چاہیے۔ جبکہ ان مخبروں اور آلہ کاروں کو کھلانے کیلئے ان کے پاس سرکاری فنڈز محدود یا سرے سے ہوتے ہی نہیں ہیں۔ لہذا یہ ریاست کی جانب سے فوج کو فراہم کی گئی ایک باقاعدہ مکینزم ہے کہ لوکل مخبروں کو ہر طرح کی بدکاری کیلئے مکمل چوٹ دی جائے اور بدلے میں ان سے اپنا کام نکلوایا جائے۔ اب چونکہ یہاں اس کام کیلئے کوئی شریف اور عزت دار بلوچ فیملی کا کوئی فرد کسی صورت تیار نہیں ہوگا۔ اس صورت میں ایف سی اور خفیہ ادارے برائے راست منشیات فروشوں، اغواء کاروں، مذہبی شدت پسندوں، کرپٹ سیاسی نمائندوں یا درباری سرداروں کو اپروچ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایف سی یا خفیہ ادارے ڈھیل کرتے ہیں کہ تم لوگ ہمارے لئے مخبری کرو یا ضرورت پڑھنے پر کوئی کاروائی کرو اور بدلے میں جتنا مرضی بلا روک ٹوک کے اپنا کام کرو۔ کہیں پر اگر پولیس پکڑ لے گی تو نو پرابلم! ڈائریکٹ فلانے صوبیدار کو کال کر لینا آدھے گھنٹے میں چوٹ جاوگے۔
چونکہ یہ نظام روز اول سے یوں ہی چلتا آرہا ہے، اس بیچ میں ایف سی اور خفیہ اداروں کے افسران نے موقع سے مزید یہ فائدہ اٹھایا کہ اپنے زیر کمان لوکل کارندوں سے مخصوص کاروائیوں مثلا بھتہ خوری یا زمینوں پر قبضے کے اعوض ایک خاص کمیشن لینا شروع کردیا۔ اور یہ دستور تاحال جاری ہے۔
چند سال کی ملازمت کیلئے آنے والے ایف سی و خفیہ اداروں کے افسران صرف اسی مد میں صرف ایک علاقے سے کروڑوں جبکہ کبھی کبھار حالات زیادہ گرم ہونے پر اربوں روپے بٹور کے جاتے ہیں۔
صرف سی پیک روٹ سے سمگلنگ کی مد میں ایف سی کے افسران کیمپ کے اندر بیٹھ کر اپنے کرائے کے جتوں کے ذریعے اربوں روپے کما چکے ہیں۔ 2016 میں لیک ہونے والے ایک سکینڈل جس میں بلوچستان میں تعینات 6 ایف سی و فوج کے آعلی افسران سمگلنگ کے کیس میں پکڑے گئے تھے جنہوں نے بلوچستان میں کربوں روپے کی کرپشن کی تھی۔ چونکہ ان کے نام نکل گئے تھے سو فوج نے دکھاوے کیلئے انہیں ذرا سا معطل کردیا باقی یہ نظام ایک نظام کی طرح ابھی تک چل رہا ہے۔ ایف سی کا بلوچستان میں ایران بارڈر سے لیکر رخشان اور پھر مکران کو لے کر کراچی تک اسمگلنگ کا ایک انتہائی مضبوط نیٹورک ہے۔
خاران میں منشیات و دیگر اشیاء کی سمگلنگ میں ملوث کارندوں کی مدد سے ایف سی و ایجنسیوں کا کاروبار ایک طرف سے زور و شور سے چل ہی رہا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ شہر میں چوری، ڈکیتی، بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے کیلئے بھی آلہ کاروں و ڈیتھ سکواڈ کے مختلف جُھنڈ موجود ہوتے ہیں۔ ہاں وہ الگ بات ہے کہ آزادی پسند تنظیموں کے ہاتھوں وقتاً فوقتاً یہ کارندے جہنم رسید ہوتے رہتے ہیں اور اس درمیان پنجابی فوج کا کاروبار کچھ وقت کیلئے رک جاتا ہے۔ خاران کی ماضی کا اگر بغور جائزہ لیں تو یہ بات مزید آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ ہمیشہ جب کوئی آلہ کار مارا جاتا ہے تو اس کے اوپر ایک اور آلہ کار لایا جاتا ہے اور ایک بلکل ہی الگ روپ میں متعارف کروایا جاتا ہے۔
رحیم سفرزئی کو سالوں تک خاران میں ایف سی اور خفیہ اداروں نے ہر طرح سے استعمال کیا۔ اور جب یہ بات بچے بچے کو سمجھ آگئی کہ رحیم ایجنسی کا بندہ ہے تو اسے تبدیل کرنے کیلئے خفیہ اداروں نے فل فور پلان ترتیب دیا۔ آئی ایس آئی کے ایک خاص بندے پولیس کے حاضر سروس ایس پی انور بادینی کو خاران میں لاکر اس کے ہاتھوں رحیم کا خاتمہ کرواکر اسے ایک طرف سے خاران کے عوام میں ہیرو بنا دیا جبکہ دوسری طرف سے خاران پولیس کو مکمل طور پر ہائی جیک کرکے انٹیلیجنس کے سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنا شروع کیا۔
رحیم سفر زئی کون تھا؟ ایک سابقہ فوجی جسے فوجی کا لقب بھی دیا گیا تھا۔ علاقے میں ہر طرح کی بدکاری وہ پاکستانی جھنڈے کے نیچے کرتا تھا۔ رحیم نے اپنے دور میں کس طرح سے خاران میں ہندو کمیونٹی کو بھتے کیلئے ہراساں کر رکھا تھا؟
اس کے علاوہ منیر ملازئی سے لیکر نظام گلابو، آحمد نواز ساسولی، چنگیز ساسولی شاہد ملازئی، شیخ سلیم و ان جیسے دیگر کہیں آلہ کاروں کو ایک کے بعد ایک کرکے کبھی نام نہاد مذہبی مجاہد کے لبادے میں تو کبھی سرکاری سردار کے دستار میں ڈال کر بندوق کے ہمراہ خاران کے عوام پر مسلط کرتا رہا۔
یہ سب لوگ کون تھے؟ ان کا اصل کام کیا تھا؟ یہ لوگ اپنی گاڑیوں، مسلح محافظوں اور دیگر پروٹوکول کو کہاں سے اور کیسے برابر رکھتے تھے؟ اور کیا پاکستانی فوج و ایجنسیوں کے آشیرباد کے بغیر یہ سب ممکن ہے کہ اس طرح کا کوئی ٹولہ بندوقوں سے لیس ہوکر علاقے میں گھومتا پھرے، جب دل کرے کسی کے زمین پر بیٹھ کر اس پر قبضہ جتائے، جب دل کرے کسی کو ایک پرچی تھما کر اس کی سالوں کی کمائی کو بھتہ کہہ کر اس سے ہڑپ لے، جب دل کرے کسی غریب شہری کو آنکھیں دکھا کر دھمکیاں دیتا پھرے؟
خاران میں جب ایف سی اور خفیہ اداروں کا کاروبار کمزور پڑا تو انہوں نے ریاستی سور شفیق مینگل کی گود میں بیٹھے اس کے پالتو شیخ سلیم کو خاران میں بلایا اور بھرپور پروٹوکول کے ساتھ سرگرم کروایا۔ شیخ سلیم نے آتے ہی اپنے مسلح جھتوں کے ساتھ ناصرف خاران میں تاجروں سے بھتہ لینا شروع کردیا بلکہ عام شہریوں کی شرافت سے فائدہ اٹھا کر ان کی زمینوں پر قبضہ اور دیگر ہزار بدکاریاں شروع کردیا۔ راجی فوج بلوچ لبریشن آرمی نے عوامی شکایات کے پیش نظر کاروائی کرتے ہوئے شیخ سلیم کو اس کے ٹھکانے کے اندر عبرت کا نشان بنا دیا۔
بی ایل اے بلوچ سرزمین اور قوم کی قانونی فوج ہے۔ بی ایل اے ہرگز بلوچ کی جان، مال اور عزت کو پنجابی فوج یا ان کے دو ٹکے کے کارندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے گی۔ خاران میں بی ایل اے کا نا صرف عسکری بلکہ انٹیلیجنس ہولڈ بھی انتہائی مضبوط اور وسیع ہے۔ قومی تنظیم گزشتہ ادوار کی طرح اب بھی خاران میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئی ہے۔
اس بات میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ خاران میں گھنیش سے بھتہ مانگنے والے عناصر کو پاکستانی فوج و ایجنسیوں کی آشیرباد حاصل ہے۔
ایک بات کی وضاحت لازمی ہے کہ خاران میں ہندو کمیونٹی کو ہم اکلیت ہرگز نہیں مانتے، وہ بلوچ قوم کا حصہ ہیں۔ ان کی مال و دولت، عزت و آبرو کسی بھی دیگر بلوچ شہری سے کسی بھی حوالے مختلف نہیں ہے۔ المیہ اور بدقسمتی یہ ہے کہ ایک کمیونٹی جو دیگر قبائل کی طرح صدیوں سے ہمارے بیچ رہ رہے ہیں، ہماری زبان بولتے ہیں، ہمارے ساتھ ہر زاویے سے گُل مل چکے ہیں۔ اس کے باوجود ہم ابھی تک صرف ان کے مذہب کی بنیاد پر انہیں ہر اعتبار سے اکلیت کا لقب دیتے ہیں۔ اور اسی بات کا فائدہ اُٹھا کر پنجابی فوج و ایجنسیوں کا کوئی بھی فصلی بٹیرا کبھی بھی منہ اُٹھا کر انہیں ہراساں کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔
ہماری تحقیقات ہر طرف سے جاری ہے۔ حالیہ واقعے میں تاجر فیملی سے بھتہ مانگنے والا کوئی بھی ہے، اس بات کو ذہن نشین کرلے کہ ماضی کے کارندوں کی طرح وہ بھی جلد سامنے آجائے گا۔ ہم خاران کے عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی بھی معلومات ہو فوری طور پر ہمیں ارسال کریں۔