رپورٹ

گزشتہ روز عصر کے بعد خاران شہر میں ہونے والے شدید بارش کے بعد ندی نالوں میں طغیانی کے باعث ہزاروں گھر منہدم ہوگئے۔ سینکڑوں خاندان گزشتہ رات سے بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑے ہیں۔

سیلابی پانی سے متاثر ہونے والوں میں قریب تمام خاندانوں کا تعلق غریب محنت کش طبقے سے ہے۔

گزشتہ روز بمورخہ 25 جولائی کو عصر کے بعد شروع ہونے والے شدید بارش کے چند ہی گھنٹوں میں خاران کے تمام ندی نالوں میں طغیانی آگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانی کے سخت بہاو نے مغرب اور عشاء تک شہر کو تین اطراف سے وسیع پیمانے پر تباہ کردیا۔ پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگیا جس کے باعث کئیں سو گھروں کے نشانات تک مٹ گئے، جبکہ ہزاروں مکانات ڈھیر ہونے اور چاردیواریاں گرنے کی وجہ سے ناکارہ حالت میں ہیں۔

کُلان، محلہ علم خیلان ،مدینہ ٹاؤن ،گزی روڈ، یاسین گز، سمیت متعدد مقامات انتہائی متاثر ہوچکے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ شہر میں رات کو ضلعی انتظامیہ یا پولیس و لیویز کی جانب سے ریسکیو نہ ہونے کے برابر تھی اور تاحال لوگ بغیر کسی ریلیف و کمک کے اپنی مدد آپ کے تحت فقط اپنی اور اپنے معصوم بچوں کی جانیں بچانے کی کوشش میں ہیں۔

ہمارے سروے کے مطابق شہر میں تباہ ہونے والے سب سے زیادہ مکانات ان غریب محنت کش اور مزدور طبقے کے ہیں جنہوں نے زندگی بھر کی جمع پونجی سے شہر میں زمین خرید کر آٹھ، دس سال محنت مزدوری کرکے تین چار کمروں کے کچے مکان بنانے میں کامیاب ہوئے۔

اس حوالے سے ایک ذرائع نے آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک گھر جوکہ مکمل تباہ ہوچکا تھا اور اس گھر کے تمام اشیاء بھی پانی کے ساتھ بہہ چکے تھے۔ ایک عورت نے حواس باختہ ہوکر پانی میں جانے کی کوشش کی جسے روک لیا گیا۔ مزکورہ عورت نے کہیں مہینوں محنت کرکے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے اپنے ہاتھوں سے درجنوں بلوچی کپڑے تیار کیے تھے جوکہ سیلابی پانی میں بہہ گئے تھے۔

مکانات کے علاوہ سالوں محنت کرکے جمع کی گئی قیمتی اشیاء، خون پسینے سے بچیوں کی شادی کیلئے خریدے گئے زیورات اور دیگر اثاثے سب پانی کے بے رحم موجوں کی نظر ہوگئے۔

اس صورتحال میں ابھی تک ضلعی انتظامیہ، افسر شاہی اور کٹھ پتلی منتخب سیاسی نمائندوں کی کنٹریبیوشن زیرو ہے۔ اس کے علاوہ آنے والے الیکشن کی سکورنگ کیلئے ان چاپلوس سیاسی نمائندوں نے بھی کھوکلے بیان بازی کی جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں 2007 کے سیلاب میں عوام کو نظر انداز کیا تھا۔

2007 کے سیلاب میں جو تباہ کاریاں ہوئی تھیں، 16 سال گزرنے کے باوجود آج کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ نہ شہر کی انفراسٹرکچر تبدیل ہوئی اور نہ ہی ایسے قدرتی⁴ واقعات سے نمٹنے کیلئے ریسکیو فورسز یا سہولیات ترتیب دی گئیں۔ البتہ اقتدار میں آنے والے کٹھ پتلی نمائندوں یا انتظامیہ کے افسروں نے کرپشن کرکے اپنے آنے والے نسلوں تک کی زندگیاں سنوار دیئے۔

ہم عالمی اداروں اور این جی اوز سے اپیل کرتے ہیں کہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کردار ادا کریں۔ بلوچستان کیلئے پاکستان کی بھکاری ریاست کے پاس بلوچوں کی نسل کشی پر خرچہ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔