بلوچوں کا حکمران جو انگریز سے لڑتے لڑتے شہید ہوا۔
اُس زمانے، اور پھر بعد کے بلوچ شاعروں نے اپنے اِس بہادر ، وطن پرست اور آزادی پسند بادشاہ کی تعریفوں میں زبردست شاعری کی ۔خود دشمن بھی اس شاہ ِ بلوچاں کی توصیف کرتا رہا۔ الیگزنڈر برنز نے خان محراب خان کو غیر معمولی فراست والااور دماغ کا طاقتور بادشاہ پایا، اور وہ کانفرنس کے دوران ”زندہ دل تعجب کے ساتھ برطانیہ، اُس کے اداروں، اورحکومت کی تعریف کررہا تھا“ ۔ وہ شاہ شجاع کے طورطر یقوں پہ اپنے ا ظہارِناراضگی میں بلند آواز تھا۔
اِس بلوچ سیاستدا ن نے کہا: ” شا ہ شجا ع کو دوبارہ تخت کے حصول کے لیے افغانوں پر بھروسہ کرنا چاہیے ، جبکہ وہ ہندوستانیوں کے ساتھ زمین کے پھیلاﺅ کی جدوجہدکررہا ہے ، جو کہ ایک ایسی توہین ہے جسے اُس کی قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہ کبھی کام نہ آئے گا۔ تم انگریز لوگ اپنی بھرپور فوجوں سے اُسے تخت پہ کچھ وقت تک تو رکھ سکو گے مگر جونہی تم لوگ وہ ملک چھوڑ دو گے، تمہارے شاہ شجاع کواُس کی سرحدوں سے پرے دھکیلا جائے گا۔ وہ قومی اور مذہبی دشمنی کے طوفان سے کبھی بھی مزاحمت کے قابل نہ ہوگا ، جوکہ پہلے ہی افغانوں کے دلوں میں اُس کے خلاف بلند کھڑی ہے“۔
1839 میں انگریزوں نے بلوچستان پر مکمل قبضے کا خواب دیکھا۔ شال کوٹ میں انگریز افسر کو ہدایت ملی کہ کلات پر حملہ کرکے نوری نصیر خان کے پوتے خان محراب خان کا تختہ الٹا جائے ۔( محراب خان اور نصیر خان دونوں بڑے انسان تھے۔ ایک نے چاہ بہارسے لے کر جیکب آباد ،اور ہڑند تک بلوچ قوم کو یکجاکرکے ایک سلطنت قائم کی ۔ جبکہ دوسرا اِس سلطنت کو سات سمند ر پارسے آنے والے حملہ آورانگریزسے بچانے کے لیے اپنی جان نچھاور کرگیا۔ ایک نے زندہ رہ کر تاریخ لکھوادی، دوسرے نے سر دے کرتاریخ لکھ دی۔ ایک نے خود کونوری کہلوایا ،دوسرا تاابدقوم کا چراغ ونورِ راہ بنا)۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ محراب خان پہلے ہی سے انگریزوں کی پیدا کردہ قبائلی خانہ جنگیوں، سازشوں اور جھگڑوں میں گردن گردن پھنسا ہوا تھا۔ بو لان پہ انگر یز کواُس کے مال ومتا ع سے بار بار گنجا کرنے اور اُس پہ کمر توڑحملوں نے انگریز کو باولا کردیا تھا۔ بلوچ اونٹوں کے اُس کے گلے کے گلے چُراتے تھے، بولان کے پہاڑوں سے نیچے گزرتے انگریز فوجوں پر پتھر لڑھکاتے جاتے تھے، پانی کے سرچشمے بلاک کرتے جاتے اور کچھ کنوﺅں کو تو جان بوجھ کر آلودہ کر لیا جاتا تھا ……..انگریز حملہ آور توبہ پڑھنے تک پہنچے ہوئے تھے۔
انگریز نے محراب خان کو ایک اہانت آمیز خط کے ذریعے کوئٹہ طلب کرلیاتھا۔
شیردل و سخن دان وسخن پال، خان محراب خان کو ،جب پولیٹیکل افسر کا خط ملا تو وہ تواس کی بے باکی پہ حیران ہوا۔ ایک شیطان صورت دغاباز لٹیرا اپنے نحوست بھرے در پہ بلوچوں کے سفید ریش کو سبک سر ہوکر جھک جانے کی آس بھی کیسے کرسکتاتھا؟۔ ۔۔محراب خان نے ایک پکے سامراج دشمن کے بطور ایک مدبرانہ مگر تلخ جواب لکھ بھیجا۔ وطن سے عشق تو ساری شجاعت کی ابتدا ہوتی ہے۔
مگر انگریز تو بقیہ برصغیر کا ذائقہ چکھ چکا تھا۔ یہ بلوچ لہجہ تو اُس کے لیے بہت ہی نا مانوس و نا خوشگوار تھا۔ زور آور کو کمزور کی طرف سے حکم عدولی تو کیا، تعمیل میں پس و پیش بھی گوارا نہیں ہوتی۔ اوریہاں تو بلوچ نے اس کی ” اعلیٰ حضرتی “ اُس کے منہ پر دے ماری تھی۔ انگریز نے یہ تلخ جواب پاکر اُس بڑے انسان پہ دوالزام لگائے :
ایک یہ کہ خان محراب خانِ عالیشان سے ملاقات کے وقت الیگزنڈر برنز کی بے عزتی ہوئی تھی۔
دوسرا یہ کہ ، اس کا وہ بکس جس میں خان کلات کے ساتھ معاہدہ کی کاپی تھی، دو ہزار روپے کے ساتھ لوٹ لیا گیا تھا،اُس میں بھی خان کا ہاتھ تھا۔
آخر4نومبر1839 کو فرنگی فوجیں اپنی ناترس سیاہ دہن توپیں لے کر تیر و گولہ برسانے کلات کی طرف روانہ ہوئیں۔ کلات پہ حملہ آور فوج کے ساتھ 65 فرنگی اور12 ہندوستانی افسر شامل تھے۔
وطن پہ عاشق، سامراج دشمن ،اور دلیرشہریار میر محراب خان نے جب سرداروں سے ملکِ بلوچستان کے دفاع کے لیے مدد کی جھولی پھیلائی تو انہوں نے انکار کردیا۔ایک سردار کے پاس تو میر نے اپنی بیٹی کو مدد طلب کرنے بھیجا‘ مگر مدد نہ ملی ۔
مدد تو چھوڑیے ،وہ اگرغیر جانبدار رہتے بھی توغنیمت تھی۔ سرداروں نے وطن فروشی کی گویا قسم کھا رکھی تھی۔ انہوں نے توحتیٰ کہ راستے میں ہر جگہ انگریزجرنیل، ولشائر کا خیر مقدم کیا اوراس کی فوجوں کو اناج اور چارے کے علاوہ اونٹ اور گھوڑے بھی فراہم کےے۔
یہ رمضان کا مہینہ تھا جب کلات کا محاصرہ ہوا ۔ توپوں کے ذریعے شہر اور قلعے پر شدید گولہ باری شروع ہوئی ۔تو پیں کیا تھیں اژدھے کی پھنکار،آتش وانگارپھینکنے کے راکھشس ،ہرچیزکو جلاتی توڑتی غراتی بلائیں تھیں۔ محشرکی گرمی برپاکرتی تو پیں ۔توپیں جو بلوچ روایتوں سے ناواقف تھیں، توپیں جو قہرِ الٰہی تھیں ۔توپیں جو نہ تو دشمن کو پہلے سے خبردار ہونے کا بلوچ رواج پورا کررہی تھیں، نہ وار کرنے میں دشمن کو بھی موقع دینے کی روایت سے آگاہ تھیں۔ توپیں جوگناہ و بے گناہ ، مردوزن ، کم سن وبزرگ سن کا خیال نہ رکھ رہی تھیں۔ توپیں جو مسجد و قرآن نہ دیکھتی ، جو قبرستان ، پیر خانہ اور مندر کا لحاظ نہیں رکھتی تھیں۔ہر طرح کی روایت ، رواج اور اخلاقیات سے بے نصیب فرنگی فوج کی تینوں رجمنٹیں میری (قلعہ) کی بلندیوں پہ چڑھ دوڑیں۔ میجر پینی کوئک نے کندہاری دروازہ پہ حملہ کیا۔ جنرل ولشائر نے بقیہ فوج کے ساتھ میری کے شمالی دروازے پر حملہ کردیا۔
بلوچ کس طرح لڑے،آﺅ ہم دشمن کےکمانڈرجنرل ولشائر کی اپنی زبانی سنتے ہیں:” دشمن ( بلوچ ) قدم قدم پر نہایت بہادری، استقامت ، اور جوش کے ساتھ لڑتا رہا، دشمن نے قلعہ کے اندرونی حصہ تک اِسی طرح مقابلہ کیا اور زمین کے ایک ایک انچ کے لیے لڑا……..قلعہ کلات کی حفاظت ،غزنی کے مقابلے میں زیادہ مضبوط طریقے پر کی گئی تھی۔ اِس بہادر قلعہ میں محصورین اور لڑاکوﺅں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ تھی۔ میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہماری طرف مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد شدید تھی“۔
بالآخر انگریز توپوں نے قلعہ کلات کی فصیلیں ڈھادیں،درودیوارپہاڑ ڈالے۔
سنگ وخشت وگِل کابنا بلندحصارِقلعہ ٹوٹ گیا تو بھی ہمارے اوسان خطا نہ ہوئے ۔ جنگ سے پہلے شکست قبول کرنے سے نا آشنا بلوچوں کے بادشاہ ، میر محراب خان اور اس کے نجیب ساتھیوں نے تلواروں سے دو بدو جنگ شروع کردی۔ گرتے پڑتے،گردوغبارکی تاریکی میں سے راستہ بناتے ، نعروں پھنکاروں میں راہ تلاشتے بلوچ قوم کے برگزیدہ بیٹے اپنے سروں پہ کھیلنے کاواحد بچا ہوا راستہ اختیار کرگئے۔ پُرشان و پرجوش و پُرتوکل وطن دوست بلوچ ،اپنی تلواروں ڈھالوں کو جھٹکوں میں چلاتے اپنے کمانڈر محراب ِسچار ومہتر کی سُنت میں انگریز پردشمن خور،وار کرنے لگے۔ پیچھے ہٹناطبعی ہونہ ہو روحانی موت تو یقینا تھی ۔وطن پرست بلوچ اپنے سر دیتے رہے ،عدوکے سروں کی فصل کاٹتے رہے ،مگر پیچھے نہ ہٹے۔
”میر محراب خان نے اپنے 700مجاہدوں کی کمان کرتے ہوئے تلوارِ برہنہ کے ساتھ ایک دلیرانہ مزاحمت پیش کی۔ایسی مدافعت جہاں کوھیں کلات اپنے مالکوں کی وفات پہ شرمسارنہ ہو۔تیغ و خنجر نیاموں سے کب کے آزاد ہوچکے تھے،زرہ اور خود آزادانہ کام کررہے تھے۔لاشیں گرتی رہیں، گردنیں کٹتی رہیں،کلمہ کاورد ہوتا رہا، داد و تحسین کے نعرے بلند ہوتے رہے……..اور13نومبر 1839کو دوپہر کے وقت بلوچوں کی سب سے مضبوط گردن کٹ گئی۔ خان محراب خان تلوار ہاتھ میں لیے شہید ہوگیا“ ۔
یہ پیراگراف پڑھنے والا بلوچ! ذرا فخر سے ، اپنی گردن تان لے ۔ اس لیے کہ تیرے اسلاف کے سرتاج ،محراب خان شہید کے پاک جسم پر زخموں کے39 شان و عظمت کے ایوارڈز تھے۔ ایک انگریز افسر ‘خان کی حب الوطنی کے نرغے میں آچکا تھا، محراب خان نے اس کا سامراجی سر، ہمارے پاک وطن کی خاک میں غرق کرنے کے لیے اپنی تلوار بلند کی کہ جنرل دلشائر نے دیکھ لیا اور پستول سے فائر کردیا۔دیوشان ننگ کا پاسدار، اور پہلے ہی زخموں سے چورچور امیر محراب خان ماں وطن پہ گر پڑا ۔ اُس سر پر بلاﺅں کے ہزاروں طوفان ٹوٹے مگر وہ اُسے جھکا نہ سکے۔زمانے کے سب سے بڑے طوفان و چیلنج ( انگریز) کے سامنے بھی اُس کی سونتی ہوئی تلوار میان میں نہ تھی اوروہ شہادت کا احمریں لباس پہن کراپنے دیگر دائمی زندہ شہیدوں کی لاشوں میں شامل ہوا۔ اُس روزہمارے ان شہید اسلاف میں مندرجہ ذیل متبرک اور بھاری نام شامل ہیں:
عبدالکریم رئیسانڑیں برادر سردار اسد خان رئیسانڑیں ،سردار ولی محمد شاہی زئی مینگل (ماموں امیر محراب خان شہید) ،میر تاج محمد شاہی زئی مینگل (خالہ زاد بھائی میر محراب خان)،میر محمد علی شاہی زئی مینگل،میرپزل محمد(محمدفاضل)برادر سردار محمد خان لہڑی،سردار زمان خان پندرانڑیں،میر دادکریم چندوزئی شاہوانڑیں، میر شہباز خان نیچاری،میر بدل خان برادر سردار شہباز خان نیچاری، خان محمددیہوار اربابِ شہر کلات ،میرنبی بخش جتوئی علاقہ نرمک کلات،میر قیصر خان بزنجو‘ میرشاہ دوست بزنجو ،محمد رضا وزیر خیل،نور محمدشاہی ولد بولات سگار سرمستانی انچارج اسلحہ خانہ‘ تاج محمد شاغاسی،دیوان بچا مل وزیرِ مال،دیوان کھیم چند،دیوان آسرداس مکھی ہندو پنچائیت کلات ۔ ان کے علاوہ400دیگر بلوچوں نے جام شہادت نوش کیا۔دیگر زعما جن کے نام تحریر نہیں کیے گئے ہیں وہ قبیلہ مینگل، زہری، محمد حسنی، شاہوانڑیں، بنگل زئی ، قلندرانڑیں ، گرگناڑی، سمالانڑیں ، میر وانڑیں اور قبیلہ کمبرانڑیں سے تعلق رکھتے تھے ۔
انگریز افواج کے32آدمی ہلاک ہوگئے جن میں لیفٹیننٹ گریوٹ شامل بھی تھا۔اُس کے 107آدمی زخمی ہوئے جن میں سے37 بعد میں مرگئے۔ اوسط دیکھیے تو اس لڑائی میں شامل انگریز فوج کا ہر چھٹا شخص مارا گیا۔ہم نے کب غنیم کو سلامت جانے دیا!۔
عمیق احترام سے بلوچستان میں باطل شکن ،خان محراب خان کو ” لعل شہید “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اُس سے بلوچ عوام کو وہی محبت و تکریم ہے جودنیا بھر میں عوا م اور وطن کی سلامتی کی راہ میں قربان شدہ شہداءکی ہوتی ہے۔خان مہراب خان جب تک دنیا قائم ہے لعل شہید ہی کہا جائے گا۔وہ‘ پہلے بھی ایک عام شخص نہ تھا ۔وہ تو کلات کا ‘پورے بلوچ سماج کاخان اور حکمران تھا۔اس نے سردے دیاننگ نہ دی۔اس نے لمبے چوڑے فلسفے کو اپنے مقدس جسم پر محض ایک گولی کھا کربیان کردیا۔ وہ شہید ہوکر جدوجہد ،مدافعت اور مزاحمت کا ایک نمونہ ،ایک سمبل بن گیا تھا۔وہ ہم بلوچوں کے لیے ایک ارادہ ، ایک عزم اور ایک قول میں ڈھل گیا۔محراب خان کی شہادت بلوچوں کے لیے بے بسی کا ماتم بن گئی ،غصہ اور غضب کا سبب، اور کچھ کر گزرنے کا موجب ۔
ایک عام ہیروبھی روزمرہ محاوروں کا حصہ بن جاتا ہے یہ تو ہیروﺅں کا ہیرو ہے ۔ اس لیے بلوچ اپنی سچائی کی قسم اُسی کے نام کی کھاتے ہیں۔ عزم کی مضبوطی کے لیے کہے گئے فقرے میں اس کا نام شامل کرتے ہیں۔ راہِ حق کی تمثیل کے لیے ” لعل شہید“ کہہ دیتے ہیں۔ محراب خان ہماری غزل کا مقطع بنا۔ وہ ہماری جدوجہد کا مینی فیسٹو بنا، حکمتِ عملی ہوا ۔اور اسی کی جیسی موت ہماری تمنا اور دعا بن گئی ۔ وہ نئی پود کے تازہ دم ولولوں کے لیے زندگی کا سبب بن گیا ۔ وہ اُس نئی پودکی پیشانیوں پہ شفق بن کر دمکتا ہے جو اپنی مادر وطن کو کرشموں کی کرنوں سے نہلائیں گے ۔ …….. اس سارے منظر نامے کو ”حیاتِ جاوداں“ کہتے ہیں۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری یہ ساری تاریخ انگریز کی لکھی ہوئی ہے ، تو وہ درست نہیں سوچتے۔ بہت سٹرانگ بلوچ ورژن موجود ہے ۔ ہم شاعری کی صورت اپنے بہادروں کے رقص ِ مزاہمت کے ایک ایک سٹیپ بیان کرتے چلے آئے ۔ اس کربلا نامہ کے بارے میں گدّو مری کی پاک شاعری موجود ہے ۔اگر ہم اُس کی شاعری میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اُس کا سیاسی شعور اس قدر بالغ تھا کہ وہ سامراج اور سامراجیت کی اصل بنیادوں کو بھی جانتا تھا ۔وہ اپنے اشعار میں کہتا ہے کہ برطانوی سامراج ،کلات کا خزانہ اونٹوں پر لاد کر کلکتہ شہر لے گیا۔
***نوٹ***
یہ تحریر بلوچ دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری کے فیسبُک پر نشر ہوچُکی ہے۔ ہمگام ادارہ اس تحریر کو اپنے قارئین کے لئے ان کے اکاؤنٹ سے لیکر شائع کررہی ہے۔