تحریر: سلام سنجر

کچھ عرصے سے عالمی سیاسی حالات تیزی کے ساتھ تبدیلی کی جانب گامزن ہیں۔ قوموں کے درمیان اگر کہیں دشمنی تھی تو کہیں دوستی کے لیئے ہاتھ بڑھایا جا رہا ہے ـ کوئی بھی کسی سے بغیر وجہ کے نہ دوستی کرے گا نہ بلا وجہ دشمنی مول لے گا۔

 کل تک فلسطین کے مسئلے کی وجہ سے اسرائیل عالم اسلام اور عرب ممالک کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا۔ آج وہ دوست بنتا جا رہا ہے، کیونکہ سب کے اپنے معاشی و سیاسی مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔

 موجودہ دور میں مخلتف ممالک اپنے قومی مفاد کے بدلے اپنے مذاہب و عقائد کو پرے رکھ کر اپنے عوام کے لیئے معاشی و سیاسی مفادات کی خاطر دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے یا برے تعلقات بناتے یا بگھاڑتے ہے ـ

موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ بنگلادیش اور پاکستان کی آپسی دوستی چین کی مرہون منت ہے کیونکہ امریکہ نے چین کے مقابلے بھارت کو لاکر کھڑا کردیا ہے اور اب جبکہ چینی تجارتی قافلوں کا رخ نہ صرف پاکستان کی طرف پہلے سے ہوگیا ہے، بلکہ بنگلادیش بھی چینی مارکیٹوں سے مستفید ہو رہا ہے۔

 پہلے بنگلادیش میں بھارتی سرمایہ دار سرمایہ کاری کر رہے تھے اب چین بنگلادیش کی مارکیٹوں پر قبضہ جما رہا ہے ـ یہ مغربی سرمایہ دار ممالک کو ناگوار گزر رہی ہے اسی لیئے چین کا دائرہ کار محدود کرنے کے لیئے خلیج عرب میں اسرائیل کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔

رہی بات روس کی تو وہ اپنے ہتھیاروں کے لیئے کسی بھی طریقے سے مارکیٹ تلاش کرے گا ـ

 روسی ہتھیاروں کی سب سے بڑے خریدار ایران اور ترکی کے علاوہ دیگر کئی مسلم ممالک ہیں ـ

لیکن امریکا کو بھی روس کی یہ حرکتیں پسند نہیں آرہی، وہ اس سلسلے میں اسرائیل کو بھی سامنے لائے گا ـ جبکہ اگر کوئی تصادم کا ماحول پیدا ہوگیا تو روس پیچھے ہٹے گا کیونکہ روسی سرے سے خود کو یورپی نسل کے طور پر سمجھ رہے ہیں۔ اور وہ یورپ سے جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتا ـ

 بلکہ اگر چین اور امریکہ کے درمیان کسی بھی میدان میں کہیں ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوگیا تو روس خاموش یا غیر جانبدار رہے گا، جبکہ بنگلادیش، پاکستان، ایران اور ترکی اس قابل نہیں ،کہ وہ امریکہ سے دشمنی مول لے سکیں۔

اسلامی دنیا میں سیاسی و معاشی حوالے سے دو اہم ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات پاکستان اور ایران کے ساتھ روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے لیئے نئے دوست تلاش کر رہے ہیں، کیونکہ مزہب و عقیدے کے نام پر کشمیر کے حوالے سے پاکستان نے جتنا دھوکہ سعودی عرب سمیت دوسرے اسلامی ممالک کو دیا ہے شاید تاریخ میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا، جس کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نہ صرف اپنے تعلقات ختم کرنے جا رہے ہیں بلکہ ان ممالک نے پاکستان کو سالانہ امداد دینے کا بھی راستہ بند کر دیا ہے۔

اس سے پہلے ہر سال متحدہ عرب امارات پاکستان کو ہر سال ملینوں امریکی ڈالرز امداد دیتا تھا، اور سعودی عرب امداد کے ساتھ تیل بھی مفت میں دیتا رہا۔

 اب موجودہ خراب سیاسی تعلقات کی وجہ سے تمام امداد بند ہوتے جا رہے ہیں، بلکہ سعودی عرب نے پاکستان کو گزشتہ ادوار میں دیئے گئے 3.1 بلین قرضہ میں سے ایک بلین واپس کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے، جبکہ پاکستان کے پاس دینے کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے ـ

 ایسی خراب صورتحال میِں اس وقت پاکستان کا جھکاؤ ایران کی جانب ہے اور وہ چین و روس سمیت ترکی کے ساتھ ایک بلاک میں جا چکے ہیں یا جا رہے ہیں ـ

اس کے علاوہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے تعلقات چین، ایران، ترکی اور روس کے ساتھ سرد مہری و تناو کا شکار ہیں۔ جبکہ سعودی عرب اور امارات کے تعلقات امریکا کے ساتھ نہایت دوستانہ اور قریبی ہیں۔

 دوسری جانب سعودی عرب کو تمام اسلامی دنیا کے امام مانا جاتا ہے مسلمانوں کے دو مقدس ترین شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں واقع ہونے کی وجہ سے بہت سارے اسلامی ممالک سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں ـ

اس بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں چین اور روس اسلامی دنیا پر سعودی عرب کا زور تھوڑنے کے لیئے ایک ایسے ملک کو مسلم دنیا کا لیڈر کے طور پر سامنے لا رہے ہیں جس سے تمام مسلمان اسے اپنا سب کچھ تصور کریں ـ

زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ ترکی کو مسلم دنیا کے لیڈرشپ کی بھاگ دوڑ تھمانے کے امکانات پر غور کیا جا رہا ہے اور ترکی کے موجودہ صدر طیب اردوگان اپنے آپ کو تو ایک حد تک مسلمانوں کا خلیفہ قرار دیا جا چکا ہے، اسی سبب اس نے ترکی میں موجود ایک پرانی چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا ہے ـ تاکہ مسلمان ممالک کے دل کو جیت سکے ـ

لیکن طیب اردوگان اور اس کی حکومت یہ نہ بھولیں کہ ترکی کا سماج زیادہ تر سکیولر مائنڈ رکھتا ہے جس سے نہ صرف ترکی کا سماج بکھر کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتا یے ،بلکہ ترکی کے انہدام کی وجہ بھی بن سکتی اس کی سب سے بڑی وجہ سکیولر مائنڈ کے علاوہ ترکی کا کردوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک بھی ہے ـ

دوسری جانب چین کی بڑھتی ہوئی معاشی عفریت کو لے کر نہ صرف امریکا پریشان ہے بلکہ تمام یورپی طاقتیں بھی نہیں چاہتی کہ ان کے مد مقابل چین آگے آجائے اور عالمی منڈی پر قبضہ جما سکے۔

 اسی وجہ سے چین اور امریکا کے درمیان ان بن ابھی تک جاری ہے ـ

معاشی و سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا اس ریجن میں چینی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیئے یا انہیں قریبی منڈیوں سے دھتکارنے کے لیئے بھارت کو ہر طرح کا مدد کر رہا ہے۔ تاکہ موجودہ دور میں وسطی ایشیاء و جنوبی ایشیا میں چین کے بجائے بھارت تمام مارکیٹس کو اپنے کنٹرول میں لے سکے۔

 لیکن جب سے مودی سرکار بھارتی وزیراعظم کے مسند پر براجمان ہوئے ہیں، اسی دن سے لے کر آج تک بھارتی وزیراعظم مسلمان مسلمان، ہندو ہندو کا نعرہ لگا رہے ہیں، بجائے بھارتی معیشت کو بہتر کرنے کے لیئے وہ ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں رام مندر بنانے میں مصروف ہیں یہی وجہ ہے کہ آج اسرائیل نے تمام پرانے گلے شکوے اور ناراضگی کو پس پشت ڈال کر وہ عرب خلیج میں اپنے مصنوعات کے لیئے نہ صرف منڈیاں تلاش کر رہا ہے، بلکہ آنے والے دنوں میں وہ نیا طاقت بن کر ان علاقوں میں ابھر کر نہ صرف چینی معیشت پر دیو بن کر ان کو نیست و نابود کر سکتا ہے ، بلکہ ایک طاقت بن کر تمام حالات پر کنٹرول کر سکتا ہے ـ

جبکہ اب ان تمام نشیب و فراز اور بڑھتی ہوئی عالمی و علاقائی سیاسی و معاشی کھلاڑیوں کے درمیان بلوچ و بلوچستان کہاں کھڑا ہے ؟

 اور یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ عالمی سرمایہ داروں اور سیاست کے کھلاڑیوں کی چپقلش سے نہ صرف بلوچستان متاثر ہو رہا ہے بلکہ بلوچ آزادی کی تحریک پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے ـ کیونکہ کھیل کھیلنے کے لیئے تمام کھلاڑی موجود ہیں اور وہ بلوچستان کو بطور میدان استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

 اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں اگر عالمی طاقتوں کے درمیان تصادم پیدا ہوجائے تو بجائے اپنے جنگ اپنے اپنے ملکوں میں لڑنے کیلئے دوسرے ریاستوں میں اپنی لڑائی لڑتے ہیں، اس کی مثال شام، عراق اور افغانستان ہیں ان ریاستوں کو عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کے لیئے استعمال کرکے ان پر ہزاروں ٹن بمب برسائے یہ ریاستیں اب سو سال بعد بھی اپنے زخموں کو بھر نہیں پائیں گے ۔

مبادا کل اگر امریکا اور چین کے درمیان برائے راست تصادم ہوا تو وہ بلوچستان کا میدان استعمال کریں گے ـ کیونکہ چین اس حد تک بلوچستان میں گھس چکا ہے جیسے بلوچستان ان کا اپنا زاتی جائیداد ہو ـ

اس وقت چین گودار سمیت پورے ساحل بلوچستان کو نہ صرف پاکستانی قرضوں کے عیوض اپنے کنٹرول میں لے رہا ہے بلکہ وہ وہاں بحری اڈا بنا کر امریکا کو گیٹ آف ایشیا میں گھٹنے ٹھیکنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔

 اور امریکا سمیت ان کے تمام اتحادی ممالک ہاتھ پر ہاتھ رکھ خاموش تو نہیں بیھٹے گے۔

 ضرور وہ چین کی ان گرم پانیوں تک رسد کو مکمل ختم کرنے کے لیئے سوچیں گے یا محدود کریں گے ـ اس سلسلے بلوچ آزادی پسندوں کے پاس کیا پلاننگ ہیں؟

حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ ابھی تک بلوچ آزادی پسند متحد نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیئے شاہرہ آزادی کا رخ تبدیل کرکے آپس میں گھتم گھتا ہیں لیکن اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف بلوچ تحریک آزادی کو شدید نقصان پہنچے گا بلکہ دوبارہ سر اٹھانا بھی مشکل ہوجائے گا ـ

اسی لیئے جن چھوٹے بڑے مسائل کی وجہ سے تحریک آزادی کو نقصان پہنچا ہے ان مسائل کا حل سب کے پاس موجود ہے اور تمام لیڈرشپ مل بیٹھ کر ان مسائل پر گفت وشنید سے قابو پا سکتے ہیں۔

 جن تنظیموں، کارکنان یا قیادت پر الزامات کسی بھی طرح کا لگا ہوا ہے وہ ان تمام الزامات کے جوابدہ ہیں ـ

دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جو بلوچ قوم کو متحد نہیں ہونے دے رہے ہیں؟

 ان وجوہات کی چھان بین غیر جانب طریقے سے کیا جانا چاہیئے کیونکہ وہ تمام مسائل آسمان سے تو نازل نہیں ہوئے ہیں۔ تحریک سے جڑے مسائل ہیں ان کا حل بھی زمین سے حقیقی طور جڑ کر کیا جاتا ہے ـ

تیسری اور اہم وجہ یہ بھی ہے، کہ تمام آزادی پسند تنظیموں کے رہنما بھی اپنے اندر آستین کے سانپوں کو تلاش کرکے ان کا قلعہ قمعہ کریں کیونکہ آستین کے جتنے سانپ بلوچ تحریک کے اندر موجودہ دور میں موجود ہیں پہلے اس کی مثال نہیں ملتی ہے چاہے وہ آستین کے سانپ کارکن یا خیرخواہ کے شکل میں موجود ہوں یا لیڈرشپ کی شکل میں موجود ہو ان کا راستہ روکنا ضروری ہے ـ

 یہ تمام حقیقت ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ اچانک جنگ کا رخ تبدیل ہو کر بجائے دشمن کے اپنے عوام کی طرف مڑ گیا ہے یہ تو دشمن نے خود اپنے ہاتھوں سے تو نہیں کیا ضرور کسی اندر کے شخص نے کیا ہے ـ

اگر اپنے اندر خود احتسابی کا سلسلہ شروع نہیں کیا گیا تو دشمن کی یہ پہنچ ہماری تحریک کے اندر مزید مضبوط ہوگی اور نقصان بلوچ و بلوچستان کا ہوگا۔