تحریر : پروفیسر حسن جانان

اس روئے زمین پر دنیا کے ہزاروں اقوام آباد ہیں اور کہیں جبر و بربریت میں غلامی اور کہیں آزادی کے ساتھ خوش ہو کر جی رہے ہیں کئی اقوام خوش قسمت ہیں کہ وہ آزاد وطن کے مالک ہونے کے ساتھ دنیا کے دیگر اقوام کے روبرو اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن کئی اقوام دوسرے قوموں کے زیر دست رہ کر اپنی ثقافت زبان و ادب سے دن بہ دن دور ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام میں جذب ہو رہے ہیں جو ثقافت زیادہ طاقت ور و مقتدر رہے گا وہ ثقافت زیر دست قوم پر اثر انداز ہو کر اسے اپنے اندر اسطرح جذب کرلے گا کہ وہ قوم اپنی اصل شناخت کے بدلے حاکم قوم کی تاریخ و ثقافت کو ہی اپنی اصل شناخت سمجھے گا جو اقوام اپنی ثقافت و تاریخ سے جڑ کر بالا دست قوم کے خلاف کمربستہ ہونگے وہ جبر و بربریت کا شکار ہو کر رہیں گے اگر وہ باعلم ہونگے تکالیف جھیلنے کے لیے تیار ہوں گے جبر و بربریت سے خود کو نکالنے کے لیے ان میں حوصلہ ہو گا دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل ہونگے تو وہ دشمن کو ہر حال میں شکست دینے میں کامیاب ہونگے اس یونی پولر دنیا میں دیکھا جائے تو کسی قوم کی چھوٹی سے سیاسی غلطی انھیں عالمی و علاقائی طاقتوروں کا غلام بنا کر ہی چھوڑے گا اسی بنا پر سیاسی مسائل انتہائی درجے کی ذہانت کے متقاضی ہیں جہاں ایک غلطی پورے قوم کی تقدیر کو سنوارنے و برباد کرنے کا فیصلہ قرار پا سکتا ہے موجودہ دور میں دنیا کے دیگر اقوام کے ساتھ بلوچ بھی ایک قوم کی حیثیت سے اپنی علیحدہ پہچان و اپنے وطن پر اپنی ملکیت کا دعویٰ گزشتہ 67 سالوں سے کر رہا ہے 1947 میں آزادی کی حسین زندگی ملنے کے ساتھ جلد ہی غلامی کی زنجیریں انکا مقدر بنیں اسکی بنیادی وجہ دنیا کے بدلتے حالات و لیفٹ و رائٹ ونگ کے اختلافات کے ساتھ بلوچ قوم کے رہبروں کے وہ پالیسیاں بھی تھیں کہ جسکی بنا پر بلوچ اپنی آزادی نہ لے سکے.

دنیا میں زیادہ تر اقوام دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی آزاد ہوئے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد، اس دوران بلوچ طاقتور ہونے کے ساتھ اپنی جہد کو مکمل قومی شکل دینے میں ناکام رہا تھا آزاد ہونے کے باوجود غلامی کا پھندا باندھنے میں دنیا کی مکاری کے ساتھ اپنی نااہلی کا عنصر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے ایسے رہبر پیدا ہی نہ ہوئے کہ وہ قوم کو ایک ڈگر پر ڈال کر اسکی بہتر رہنمائی کرتے وقت، سفر پر چلتے چلتے پچاس سال غلامی میں گزارنے کے باوجود پھر بھی آزادی کے لیے تڑپنے والے نوجوانوں نے آزادی کے لیے اٹھنے والے رہبروں کی پیروی کرنے لگے جہد پلتا پھولتا رہا اور آج کے اس گنجلک حالات تک آ پہنچا۔

اسکی وجوہات پر اگر باریک بینی سے غور کیا جائے اور ہر نقطے کو اٹھایا جائے تو اوراق کے ڈھیر لگ جائیں گے اس لیے کچھ نقاط کو بنیادی قرار دے کر دیکھا جائے تو وجوہات ایک یا دو ہی رہیں گے. جو بنیادی اہمیت کے حامل ہوں گے. وہ یہ کہ سیاسی اداروں کا مکمل فقدان تھا ادارے بنے تو تھے لیکن وہ قومی آزادی جیسے سخت گیر موقف کے لیے انکے پاس مکمل حکمت عملی نہیں تھی اور اداروں میں اتنی وسعت نہیں تھی کہ وہ اس موقف کو اپنے اندر سمو کرگھر گھر تک پہنچاتے اور ایک حکمت عملی کے تحت نیچے سے اوپر کی جانب سفر کرتے، لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا ہر کوئی اپنے زاتی تجربے کی بنیاد اس پر رائے زنی کرتا ہوا اپنے طریقہ کار و حکمت عملی کو غلامی سے نجات کا بہترین ذریعہ سمجھتا رہا.

اسی بنا پر اداروں کی بجائے افراد پر تقلید کا زور حاوی رہا اور یہ کہہ کر ہر کوئی اپنی ذمہ داری نبھاتا رہا کہ جو کام میرے ذمے ہیں اسے صدق دل سر انجام دوں ہر کوئی جو غلامی سے نجات و آزادی کی تڑپ لیے رہبر پر اعتماد کرکے ہی اس جہد میں کود پڑے اور سب اس بے آب و گیاہ میدان میں دوڑنے لگے. لیکن وقت گزرنے کے ساتھ حیثیت طاقت حاصل کرنے کے بعد ہر ایک من ہی من میں بادشاہ بن بیٹھا. اور ایک دوسرے کے کردار و عمل سے انکاری رہے. اور پس پشت اسکی مخالفت کرتے رہے کہ ہمارے بزرگوں نے کوتاہیاں کی ہیں وہ اپنے فرائض کو بخوبی انجام نہ دے سکے ہیں وہ نالائق تھے ان میں اتنی قابلیت نہیں تھی کہ وہ جنگ کو تیز کرتے اور دنیا کے طاقتوروں کو اپنے مفادات سے جوڑ کر پیش قدمی کرتے یہ باتیں اپنی جگہ درست ضرور ہونگے لیکن ان باتوں کے پیچھے وہ مقاصد کچھ اور تھے اور یہ جتانا تھا کہ وہ نالائق تھے ہم قابل و لائق ہیں اسی طرح ہر سرمچار دوسرے گروپ کی مخالفت و تعریف اسی رو سے کرتا رہا پھر آہستہ آہستہ تنظیمیں ایک دوسرے کے بارے میں اسی طرح بولتے رہے کہ فلاں تنظیم کی کامیابی کی اصل وجہ اسکے ساتھیوں سے زیادہ انکے وسائل کی ہے اگر یہی وسائل ہمارے پاس ہوتے تو دیکھتے ہم کیا کرتے اسی طرح کہ فلاں تنظیم تو قبائلی لشکر ہے ان کا کوئی بھروسہ نہیں ان سرداروں و نوابوں کا کوئی بھروسہ نہیں کہ یہ کب پلٹا ماریں. یہ تعلیم یافتہ طبقہ جہد میں کود پڑا ہے یہ تو ہمارے وسائل کی مرہون منت ہے کہ آج اس مقام پر پہنچے ہیں اور اب تحریک پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں کسی دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، غرض مختلف تنظیموں میں صرف ایک ہی نقطہ مشترک رہا وہ یہ تھا کہ ہم دوسرے سے بہتر ہیں ہم ہی بہترین ہیں اس طرح ایک دوسرے کی محنت خواری خلوص نیت پر شک کرتے رہے اور ایک دوسرے کو نیچے گرانے کا غلبہ سب پر حاوی رہا اس بنا پر ہر ایک حقیقی رہبری کا تاج لے کر آگے بڑھتا رہا اور ایک دوسرے کو نیچے دھکیلتے رہے۔ دوسرا نقطہ یہی تھا کہ جب ایک عام بلوچ لکھاری انکے خلاف لکھتا یا تنقید کرتا تو اسکی زبان بندی کے لیے مختلف حربے استعمال ہوتے جس طرح صورت خان مری پر الٹے پلٹے تنقید کی دیواریں کھڑی کی گئی اگر کسی لکھاری کو آزادانہ طور پر اسکے خیالات کا اظہار کرنے دیا جاتا تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی جو لکھاری کسی تنظیم سے جڑے نہیں تھے وہ ریاستی اداروں میں سرکاری ملازمتوں پر براجمان ہیں انکے بارے سادہ سی رائے یہی تھا کہ وہ تو سرکار کے تنخواہ خور ہیں انکی کمٹمنٹ کا فیصلہ اپنے فیصلے سے نتھی کر کے دیکھا جاتا یہ نہیں دیکھتے کہ ہر انسان کی قوم کے ساتھ کمٹمنٹ کا اپنا علیحدہ ہی ضابطہ ہوتا ہے لیکن یہ موقع اس لکھاری یا شخص کو ملتا جو دیگر تنظیموں کی حمایت کرتا یا انکی زبان میں بات کرتا نہ کہ وہ سرکاری، ففتھ کالمسٹ تھے اسطرح بلوچ سیاست اپنی ایک چھوٹے سے خانے میں بند ہو کر رہ گئی. اور سلسلہ چلتا رہا رفتہ رفتہ تنظیموں کی پالیسیاں سامنے آتے گئے کوئی ضابطہ کے نام پر بکھر گیا کوئی بروقت فیصلہ نہ کرنے کی پاداش میں ہر ایک دوسرے کو اس بنیاد پر کنارہ کرتا رہا کہ وہ کیوں میری طرح نہیں سوچتا اسطرح پوری بلوچ سیاست تنظیموں کے اندر ہم خیالوں کی بن کر رہ گئی جو ہم خیال تھے وہ بھی اتنے باعلم نہ تھے جو زانت انھوں نے حاصل کی تھی وہ اپنے کچھ سالوں کے تجربوں کو بنیاد بنا کر پیش کرتے اور دیگر انکے نقش قدم پر چل پڑتے لیکن وہ لوگ یہ سوچنے سے قاصر رہے کہ ایک تجربہ کامیاب ہوتا ہے تو اسکی وجوہات آپکی ذہانت سے زیادہ اس وقت کے موضوعی و معروضی حالات کا بھی ہوتا ہے اس وقت موضوعی حالات آپکے حق میں تھے لیکن آج ضروری نہیں کہ وہی تجربہ ان حالات میں کامیاب ہو اسطرح یہ جدوجہد مختلف دیواریں پھلانگتا ہوا اس نتیجے پر پہنچا کہ تنظیموں کے کمانڈران سرنڈر ہوتے گئے کوئی یہ گمان نہ کر سکا کہ اسکی وجوہات ان سرنڈرشدہ لوگوں کی غداری سے ہے بلکہ یہی لوگ دس سال تک دشمن کے خلاف مرنے مارنے کے فیصلے پر اٹل رہے آج ان پر کیا گزری کہ یہ اپنے کیے گئے فیصلے کے خلاف کمربستہ ہونے پر آمادہ ہو کر غلامی و بدنامی کی زندگی کو اپنانے پر تیار ہوئے.

اسکا جواب تنظیموں کے ذمہ داراں سادہ سی جملوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تو موت سے ڈر گئے یہ بے غیرت ہوگئے وغیرہ وغیرہ.

کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ لوگ کمزور ضرور ہوئے شاہد ڈرے بھی لیکن انکے سرنڈر ہونے کی واحد وجہ موت سے ڈر نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہماری پالیسیاں بھی ہیں اندرون خانہ جنگی، شک کی بنیاد پر مخبروں کا قتل، اختیارات کا ناجائز استعمال، بے انصافی پر مبنی فیصلے، میں ہی درست، و مکمل ادارتی فیصلے نہ ہونے کے اسباب بھی شامل ہیں ۔

یہ رہی تو کل کی باتیں آج جب بلوچ سیاست پر نظر پڑتی ہے تو مزید پریشانی و حیرانگی اپنے دانت نکالے ہر بلوچ کی طرف بڑھ رہی ہے کوئی ہندوستان کہہ رہا ہے تو کوئی ایران . سمجھ سے بالاتر ہے ایران میں آزادی کی جنگ کتنی مضبوط ہے یا نہیں وہ کسی کے پراکسی ہیں یا نہیں اس سے زیادہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آپ ایک قوم کی تقدیر کا فیصلہ کن نقاط پر کر رہے ہیں ایران سے دوستی یا ایران سے دشمنی دونوں صورتوں میں نقصان و فائدہ ہونے کے امکانات ہے بلوچ وطن کا وسیع حصہ ایران کے قبضے میں ہیں ۔

قومی حوالے سے بلوچ بلوچستان سے جڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہاں پر مذہبی اثر رسوخ زیادہ ہیں ایران ہر روز کسی نہ کسی بلوچ کو اپنے قانون کے تحت سر عام پھانسی دیتا ہے لیکن ایران کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھنا اور ایران کے دوستوں کو اپنا دوست سمجھ سے بالاتر ہے اگر دیکھا جائے تو بلوچ اپنے گراؤنڈ کے بدلے کسی اور کے پروگرام پر لاشعوری یا مجبوری میں چل رہا ہے شاہد حالات اتنے دھندلے ہو چکے ہیں کہ ان پیچیدہ معاملات میں کچھ بھی صاف دکھائی نہیں دے رہا ہے.اور دوسری طرف مذہبی تنظیمیں جیسے طالبان و دیگر مذہبی گروہ ہیں ان سے رشتہ قائم کرنا یا انکے خلاف جنگ کرنا کس نوعیت کے فیصلے ہونگے جو مکمل ہماری تباہی پر اپنی مہر ثبت کرینگے کیا ہم قومی نقطہ نظر سے سوچتے ہیں یا تنظیمی؟ اگر ایک فیصلہ آپکی تنظیم کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ضروری نہیں کہ وہ قوم کے لیے فائدہ مند ہو۔

تنظیمی فائدہ و نقصان سے ہٹ کر دیکھا جائے تو اس قسم کے فیصلے تحریک کے لیے نیک شگون نہیں.

جس طرح کچھ عرصہ پہلے لاشعوری طور پر سوشلزم کا نعرہ لگایا گیا تھا شاہد اب جلد بازی میں ایران زندہ باد یا طالبان و دیگر مذہبی گروہوں کے ساتھ دوستی و دشمنی کا غیر شعوری عمل دہرایا گیا تو پھر نہ رہے گی بانس نہ بجے گی بانسری . پھر کچھ سالوں کے بعدایک بار پھر ہم پچھتاوے کا شکار ہونگے کہ ہم نے غلطی کی. پھر وہ پچھتاوا کسی کام کا نہیں. جس طرح کچھ عرصہ پہلے کے اعمال پر آج کا پچھتاوا کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن اس پچھتاوے کے بعد آج کا عمل اگر مثبت ہے تو کس بنیاد پر؟ وہ میکنزم کیا ہے کہ جس کی بنا پر آج آپ کے فیصلے درست ہونے کا ثبوت دیں؟ خود میں دانا رہ کر کب تک قوم کے ساتھ تجربے کرتے رہیں گے. ؟ قوم کوئی تجربہ گاہ نہیں جہاں ہر پانچ دس سال کے بعد کوئی تجربہ کیا جائے. کل بہت سے لوگوں پر جرائت مندانہ انداز میں الٹے پلٹے رائے دیے گئے تو آج ان الٹے پلٹے رائے کی کیا قیمت رہ جاتی ہے وہ علمی پیمانہ کیا ہے؟ جس پر کسی کے عمل کو مثبت یا منفی ثابت کیا جائے. شاہد اس طرح تو نہیں کہ میری بات نہ مانگی گئی تو بغاوت شروع. اگر سیاسی بنیاد پر باریک بینی سے دیکھا جائے تو سوچ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور پھر درست و غلط کا فیصلہ موجود ڈھیلا ڈھالا ادارتی ڈھانچے میں ہی ممکن ہے نہ کہ خود میں ادارہ بن کر سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھنا کوئی مثبت عمل نہیں.

آج بلوچ سیاست کی صورتحال ماضی میں پیوست ہے ماضی کو ہم لات مارتے رہے اور ماضی قریب پر پشیمان اور حال میں درست ہونے کا گمان کرنا ایک اور غلطی کا پیش خیمہ ہے چاہے وہ کسی بھی فیصلے و کسی بھی عمل کے حوالے سے ہو. وقت و حالات کے ساتھ اپنے موضوعی و معروضی حالات کو سمجھنا اور آنے والے حالات کے تحت خود کو تیار کرنا اور ان حالات میں کم نقصان اٹھانا یا اپنے منزل کو پا لینا یا قریب تر ہو جانا ہی آپکے فیصلے کو درست و غلط ثابت کرے گا نہ کہ اپنے مخصوص سرکل میں ایک طرح کے ریویژن سننا اور معروضی و موضوعی حالات سے بے بہرہ ہو کر اسی سرکل کے تحت فیصلہ پیشگی نقصان کا تحفہ دے گا جو قومی فائدے کے بدلے قومی نقصان کا سبب بنے ہوگا پھر ماضی کے فیصلوں کی طرح پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا.