Homeخبریںدشت میں پانچ بلوچ فرزندوں کی شہادت قومی المیہ ہے ۔بی ایس...

دشت میں پانچ بلوچ فرزندوں کی شہادت قومی المیہ ہے ۔بی ایس او آزاد

کوئٹہ (ہمگام نیوز )بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے آرگنائزنگ باڑی کی جانب سے دشت میں پانچ بلوچ فرزندوں کی شہادت کو قومی المیہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ مذکورہ واقع گزشتہ کئی سالوں سے آزادی پسند مسلح تنظیموں کے نام سے جاری خود سر اور غیر زمہ دارانہ کاروائیوں کا تسلسل ہے جس کے نتیجے میں قومی تحریک عوامی حمایت سے محرومی جیسے مہلک صورتحال سے دوچار ہے ایسے صورتحال میں جہاں قومی تحریک پہلے سے ہی اداروں کی شکست و ریخت، غیر حل شدہ معاملات واختلافات اورحکمت عملی کی ناکامیوں کی وجہ سے گونا گوں مشکلات کا شکار ہے وہیں تسلسل کے ساتھ اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا کسی المیے سے کم نہیں آرگنائزنگ باڑی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ جہاں ایک طرف نظریاتی اور مخلص جہدکار قومی تحریک کو عوامی سطح پر مقبول بنانے کیلئے اپنے جانوں کا نظرانہ پیش کرتے آرہے ہیں وہیں دوسری طرف بہت سے نا عاقب اندیش عناصر قومی آزادی کے نعرے کے پیچھے ایسے مزموم کاروائیوں میں سرگرم ہیں جن کا نشانہ براہے راست ریاست کے بجائے یہی قربانی دینے والے جہدکار اور تحریک سے ہمدردی رکھنے والے عام عوام ہیں اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی حریت پسند اور انقلابی تنظیم اس طرح کی مہلک کاروائیوں کی حمایت اور پشت پناہی نہیں کر سکتا جن کی وجہ سے تحریک عوامی حمایت سے محروم ہو جائے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے جاری مختلف کاروائیاں جن میں بغیر کسی واضح وجہ کے عام بلوچوں جن میں آزادی پسند اور ان کے ہمدرد بھی شامل ہیں ان کے گھروں پر حملے ، بلوچ بزرگ و نوجوانوں کو بلا جواز اغواء کرنے ، ان کے عزت نفس کو مجروح کرنے اور انہیں پر اسرار طور پر شہید کرنے جیسے المناک واقعات تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں جہا ں کہیں کہیں ان واقعات سے منسلک تنظیم اپنے بیانات یا انفرادی طور پر وضاحت دینے کی ناکام کوشش بھی کر چکے ہیں اور اکثر واقعات تاحال وضاحت طلب ہیں جن کے متاثرین آج تک اس سوچ میں ہیں کہ ان کے پیارے اگر ریاست کے ہاتھوں اغواء اور شہید نہ ہوئے تو کیونکر انہیں سرمچاروں نے جن کے وہ آج تک گیت گاتے تھے انہیں اس کرب میں مبتلا کرد یا ہے ۔ کچھ مسلح تنظیموں کی نام سے ہو رہی مسلسل غیر زمہ دارانہ کاروائیوں اور ان کاروائیوں پر تنظیموں کی جانب سے دی جانے والی غیر سنجیدہ اور غیر مطمئن کن وضاحتیں نہ صرف ان کے علاقائی کمانڈروں پر سوالات اٹھانے کا سبب بن رہی ہے بلکہ بلوچ عوام یہ سوچنے پر حق بجانب ہیں کہ آیا مذکورہ تنظیمیں اپنے کمانڈروں پر اختیار نہیں رکھتی یا مسلسل ہو رہی یہ غیر زمہ دارانہ کاروائیاں تنظیمی پالیسیاں ہیں جن کے کہیں پر ترجمان کے زریعے پشت پناہی کی جاتی ہے تو کہیں کہیں مبہم انداز میں وضاحتیں پیش کر کے تمام تر سفاکیت کے باوجود خود کو سرخ روکرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ان نقصاندہ کاروائیوں پر تنقید کرنے کے راستوں کو منظم انداز میں بندرکھنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہیں جن میں ان کاروائیوں میں ملوث افراد کے ساتھ ساتھ ان کے نام نہاد سیاسی حامی بھی برابر کے شریک ہیں جو کہ مسلسل ان واقعات پر پردہ ڈالتے ہوئے ہر خیر و شر میں مسلح تنظیموں کی پاکدامنی کا راگ الاپتے رہتے ہیں اسی تناظر میں گزشتہ روز بانک کریمہ بلوچ کے نام سے جاری بیان میں جہاں ایک طرف دشت واقع کی مذمت کی گئی وہیں دوسری طرف ان پانچ بلوچ فرزندوں کے بلا جواز اغواء کی کاروائی کو مشکوک بنانے کیلئے اس پر ریاستی حکمت عملی کا بھی تاثر دینے کی کوشش کی گئی جو کی گمراہ کن ہے اس طرح کے افسوس ناک واقعات پر اب مزید کوئی ابہام پیدا کرنا مجرمانہ عمل ہے جو کہ اس طرح کے کاروائیوں میں ملوث عناصر کیلے اپنے نقصاندہ کاروائیوں کو جاری رکھنے کیلئے حوصلہ افزا ثابت ہوگا بی اسی او آزاد بحیثیت آزادی پسند طلبہ تنظیم کے قومی تحریک سے وابستہ دیگر تنظیموں کے نقصاندہ سرگرمیوں جن کی وجہ سے عوامی حمایت کو نقصان پہنچے پر ہمیشہ آواز بلند کرتی آرہی ہے بی ایس او آزاد کے حلقوں میں قمبر چاکر اور الیاس نظر کی شہادت کے بعد مسلح اور سیاسی تنظیموں کے تعلقات جس کی وجہ سے نو عمر بلوچ جہد کار دشمن کا آسان ہدف بنتے جا رہے تھے اس پر بھی تنظیم کے اداروں کے اندر ہونے والے نشستوں میں تنقید کی گئی ، جبکہ مسلح تنظیموں کی جانب سے اسکول اور کالج کے کمسن بچوں کو مسلح کرنے پر بھی بی ایس او آزاد کے حلقوں میں بلا تخصیص تنقید کی جاتی رہی ہے البتہ یہ خود ایک قومی المیہ ہے کہ اسی بی ایس او آزاد کی تنقید کو خاموش کرانے کیلئے اسے خود یرغمال بنانے کی مذموم کوشش کی گئی جس کے تسلسل میں گزشتہ سالوں کے دوران ہونے والے نقصاندہ واقعات پر تنقید کرنے والے بی ایس او آزاد کے مخلص کارکنان اور قومی تحریک کے ہمدردروں پر غداری، قومی راز عیاں کرنے اور مخبری جیسے گمراہ کن الزامات لگائے گئے جو کہ اب واضح ہو چکی ہے کہ ان نقصاندہ کاروائیوں اور اس کے نتیجے میں گرتی ہوئی عوامی حمایت کے پیچھے حقائق کو چھپانے کی ایک مذموم کوشش کے علاوہ کچھ نہیں تھی بی ایس او آزاد کے مخلص کارکنان آج بھی دشت واقعہ جیسے غیر زمہ دارانہ اور قومی تحریک کیلئے نقصاندہ واقعات پر آزادی پسندی کے نام لیوا افراد کے بجائے بلوچ عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو ترجیح دیگی اور ہم قومی تحریک سے وابستہ تمام مخلص حلقوں سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی تنظیم یا چند افراد کے ہر صحیح اور غلط میں اقدام میں ثناء خوانی کے بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچ عوام کے ساتھ کھڑے ہونگے اس کے ساتھ ساتھ ہم قومی آزادی کی جد و جہد سے منسلک تمام مسلح تنظیموں سے بھی امید رکھتے ہیں کہ اگرحقیقت میں ان کے نام پر ہونے والے نقصاندہ سرگرمیاں تنظیمی سطح پر نہیں ہو رہی ہیں اور وہ چند کمانڈروں کے انفرادی فعل ہیں تووہ ان کے نام پر ہو چکی بے شمار واقعات کے حوالے سے حقائق عوام کے سامنے لائیں اور اپنے ہمدردوں جنہوں نے آزادی کی جنگ میں اپنے پیارے کھوئے ہیں انہیں بتایا جائے کہ جس مقصد کیلئے وہ آج تک قربانی دیتے آئے ہیں اسی مقصد کے نام پر کیوں ان کے پیارے اغواہ اور شہید کیئے گئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ہم وائس پار بلوچ مسنگ پرسن اور خاص طور پر ماما قدیر بلوچ اور وہ تمام بلوچ حلقے جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار گردانتے ہیں ان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ جس طرح ریاستی فورسز اور ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں بلوچ فرزندوں کے گھروں پر حملوں، اغواء اور شہادتوں کا نوٹس لیتے ہیں اسی طرح آزادی پسند تنظیمی کے نام استعمال کرنے والے خود سر افراد کی جانب سے اس بلوچ فرزندوں کے بلاجواز اغواء اور شہادتوں کو بھی یکساں طور پردیکھتے ہوئے ان کے لواحقین کی بھی آواز بنیں گے اور اسمیں اپنا موثر کردار ادا کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ریاستی جبر کے شکار بلوچ عوام اپنوں کے غیر زمہ دارانہ کاروائیوں کا مزید شکار نہ ہوں۔ 

Exit mobile version