چین کے سرخ پنجوں میں جکڑتا گوادر ، بلوچ نسل کشی کے شدت میں روز افزوں اضافہ ، بلوچ کو اسکے ساحل و وسائل سے محروم کرنے کیلئے معاہدے در معاہدے ، بلوچ آبادیوں پر برستی آتش و آہن ، شہیدان و اسیران کی لمبی ہوتی فہرستیں ، مسخ لاشیں ، فوجی چڑھائیاں اور ان پر طرہ مشکل سے مجتمع بلوچ قوت کا منتشر ہونا ، کیا پھر بھی اس صورتحال میں داخلی تضادات کو طشت ازبام کرنا ، کمی کوتاہیوں پر تنقید کرنا جواز رکھتا ہے؟ کیا ہماری توجہ ، قوت اور وقت منتشر ہوکر ضائع تو نہیں ہورہا ؟ دشمن کی طرف سے جب بھی تیزی آنے لگتی ہے تو ہر بحث و تکرار مذکورہ بالا سوال سے مزین ہوجاتا ہے ایک سطحی اور جذباتی جائزے سے مذکورہ سوال ضرور دھیان کھینچ سکتا ہے لیکن وقت و حالات ہم سے اب سطحی و جذباتی جائزوں سے بڑھ کر تقاضہ کررہا ہے۔ اگر بغور دیکھیں مذکورہ بالا مفروضے کے اندر سے ایک سوال جنم لیتا ہے کہ ، کیا بلوچستان میں سلسلہ وار نسل کشی ، چینی نو آبادیاتی عزائم ، آبادکاری ، فوجی چڑھایاں اچانک نمودار ہوتی صورتحال ہیں ؟ یا حیران کن و انکشاف ہیں ؟ میرے خیال میں نہیں بلکہ سرزمین پر قبضہ 67 سالوں سے ہے ، چین اور گوادر کے قصے 1992 سے چل رہے ہیں بلوچ نسل کشی یا فوجی بربریت کسی اور شکل میں 90 کے “بغیر جنگ” کے دہائی میں بھی جاری تھی، جب یاسمین کو پانی مانگنے پر ، میاں غنڈی میں زمینداروں کو بجلی مانگنے پر شہید کیا جاتا ہے ، سوراب کے ایک پرامن روڈ بلاک پر فائرنگ کرکے متعدد لوگوں کو شہید کیا جاتا ہے حتیٰ کے مسخ شدہ لاشیں بھی ملتی تھی غالباً 96یا 97 میں خضدار کے ایک شخص کو ایجنسی اہلکاروں نے اغواء کرکے بعد از قتل اسکی مسخ شدہ لاش اسلئے پھینکی تھی کیونکہ اسکے گھر سے کسی فوجی کی چوری شدہ موٹر سائکل برآمد ہوئی تھی، گوکہ آج قابض و مقبوضہ ، حاکم و محکوم ، ظالم و مظلوم کے بیچ کی تضاد جنگ کی وجہ سے شدت اختیار کرتے ہوئے واضح دِکھ رہا ہے لیکن یہی تضاد اور ظلم و استحصال کی داستان امن و جنگ ہر دور میں برابر رقم ہوتی رہی ہے۔ اسی قبضہ ، استحصال اور بربریت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی اس جنگ یا تحریک کا ابتداء ہوا ، ان قبضہ گیری و استحصالی عزائم سے نجات کیلئے ہی اس جنگ یا تحریک کو ہی واحد راستہ سمجھ کر اسکا ابتداء4 کیا گیا اور اب اگر اس تحریک کو شفاف بنانے ، صحیح راستے پر بنائے رکھنے اور منزل سے ہمکنار کرنے کیلئے تنقید و تحریر سمیت کچھ اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں تو اسکے سامنے اسی جبر و استحصال کو کیسے ایک بہانہ اور رکاوٹ بننے دیا جائے ؟ یہ جبر و استحصال آج کی کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے چلتا رہا ہے اور جب تک آزاد نہیں ہونگے تب تک یہ تندہی کے ساتھ جاری رہے گا اسی حقیقت کو سمجھ کر ہی ایک ایسے تحریک کو اس سے چھٹکارے کا ذریعہ سمجھ کر شروع کیا گیا جسے وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط اور منظم ہوتے جانا تھا یعنی دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک قوت تشکیل دینا تھا ، جس کا واحد راستہ اس تحریک کا مضبوط ، منظم اور صحیح خطوط پر استوار کرتے ہوئے آگے بڑھنا تھا ، اب جس جبرو استحصال سے نجات کیلئے یہ عمل شروع ہوا تو اسی جبر و استحصال سے مرعوب یا بلیک میل ہوکر تحریک پر سے کس بنیاد پر توجہ ہٹائی جاسکتی ہے؟ مطلب دائمی نجات اس تحریک اور اس تحریک کے درست گامزنی سے ہے جیسے جیسے جاری جنگ کی وجہ سے دشمن کی طرف سے شدت آتی جائیگی ویسے ویسے اسی شدت کے ساتھ تحریک کو بھی جدید و بہتر کرتے جانا اٹل حقیقت ہے تاکہ وہ اس شدت کی گرمی کو برداشت کرتے ہوئے مقابلہ کرسکے لیکن اگر معصومانہ خواہشات کے نظر ہوکر تحریک کی بہتری اور اسے درست ڈگر پر رکھنے کی کوشش سے پہلو تہی کرتے ہوئے جمگٹھے کو اس پر ترجیح دی جاتی ہے تو پھر شاید ہم اتحاد ، یکمشتی ، خوش کن نعروں و دعوؤں کی خواہشات کی تکمیل تو کرسکیں گے لیکن اِس ” رفتار بے ڈھنگی ” کی وجہ سے حالات کے ملبے تلے دب کر دم توڑ دیں گے یعنی جنگ سے نجات کے اس جنگ میں ہمارے سامنے شروع سے ہی دو محنت و قربانی طلب کام ہیں اور آخر تک رہیں گے پہلا دشمن سے اور دوسرا یہ جنگ یا تحریک از خود یعنی اسکی تعمیر و تشکیل کرنا آسان الفاظ میں بیان کریں تو اس تحریک کا قوت مدافعت۔ اسی نقطے کا انطباق گذشتہ ڈیڑھ دھائی کے تاریخ پر کرکے اسے اختصار سے بیان کرکے دیکھیں کہ آج ہمارے اندرونی جتنے بھی قابلِ ذکر مسائل ہیں جیسے کے قبائلی ذہنیت ، اختیار پسندی ، گروہیت ، ذاتی مفاد ، تصوریت پسندی ، دھوکہ دہی اور تحریک کو وسیلہ ذات وغیرہ پہلے دن سے ہی ہمارے اندر اپنا وجود رکھتے تھے لیکن تحریک کا اتنے زیادہ سختیوں میں نا گھِِرنے کی وجہ سے چند ایک عاقبت اندیشوں کے علاوہ یہ عمومی طور پر ہمیں اس درجے کے رکاوٹ محسوس نہیں ہورہے تھے لیکن جیسے ہی تحریک اگلے سخت مرحلے میں داخل ہونے لگا یعنی جب دشمن نے اپنے قوت سے تحریک کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگا تو پھر وہی اندرنی کمی و کوتاہیاں سر اٹھا کر تحریک کا گلا ” چَوک ” کرنے لگے ، یعنی جب تحریک سختیوں کے بھٹی سے گذرنے لگا کھرا کھوٹا الگ ہونے لگے ، قبائلی ذہنیت تنظیموں کو دو لخت کرنے سبب بنے ، سیاسی نواب مشترکہ قومی اداروں پر قابض ہوگئے ، موقع پرست خالی جگہوں اور مقررہ معیار نا ہونے کی وجہ سے اختیار پر جھپٹنے لگے ، مفاد پرست بندوق سے ملی طاقت سے سیم و زر اکھٹا کرنے لگا وغیرہ ، اسکی مثال بہتے پانی کے اس نالے سے لے سکتے ہیں جس میں پانی کے ساتھ ساتھ کچرہ ، پلاسٹک کی تھیلیاں ، خالی بوتلیں وغیرہ بہہ رہے ہوتے ہیں جس جگہ نالے کی گردن پتلی ہوجاتی ہے اسی جگہ یہ کچرہ جمع ہو ہو کر بالآخر پانی کے بہاو کا رستہ ہی بند کردیتے ہیں اب جب تک اس جگہ سے کچرہ صاف نہیں کیا جاتا پانی بہنے کے بجائے رک کر جوہڑ بن جاتا ہے ، اب ہم سب کا مطمع نظر نکاسی آب (تحریک کی روانی) ہوسکتا ہے لیکن اگر میں یہ کہوں کہ جس طرح پہلے پانی بہہ رہا تھا اسی طرح بہتے جانا چاہئے تو یہ ایک خواہش ہوسکتی ہے لیکن یہ حقائق و تحریک کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا ، اگر حقیقت پسندی و معروضی حالات کے مطابق دیکھاجائے تو نکاسی آب ( تحریک کی روانی) تو ضروری ہے لیکن اسی نکاسی آب کیلئے اس کچرے کے بند کا صفائی بھی ناگزیر ہے ، ہاں اس صفائی میں کپڑوں پر کیچڑ ضرور لگے گا۔ اسی بحث کو بڑھاتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھتا رہتا ہے کہ کیا ان اندرونی مسائل کو لیکر ان پر بولنے اور لکھنے کا یہ درست وقت ہے؟ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ درست وقت نہیں تو پھر درست وقت کب ہے؟ گروہیت عروج پر ہے ، تحریک ایک طرف سے قبائلی اور دوسری طرف سے چاکلیٹی ہچ مچاروں (سرمچار) کے دو پاٹوں کے بیچ پِس رہی ہے ، مشترکہ قومی اداروں کو سب روڑیوں کی طرح سمیٹ کر اپنے اپنے جیبوں میں ڈالنے کی کوشش میں انہیں تباہ کررہے ہیں ، انقلابی جاکر نواب بن رہے ہیں ، ڈاکٹر ایک ہاتھ آگے جاکر ڈاکو بن رہے ہیں۔ خالی جگہوں کا فائدہ اٹھا کر از خود ، لیڈروں و کمانڈروں کی بچگانہ حکمت عملیاں کچھ بت بناکر ان پر جہدکاروں کا بلا وجہ بلی چڑھا رہے ہیں ، منشیات فروشی ، ڈاکہ زنی ، غنڈہ گردی ، قتل ناحق میں کچھ ہچ مچاروں اور سرکاری ڈیتھ اسکواڈوں میں مقابلہ لگا ہوا ہے کہ کون آگے نکلتا ہے اس عالم میں اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ ہم ان سب مسائل سے پہلو تہی کرکے ، آنکھیں موند کر سب اچھا ہے کا نعرہ مستانہ بلند کرکے ندیا پار کرسکتے ہیں تو پھر یہ خود کو اور قوم کو سب سے بڑا دھوکہ دینا ہوگا ، آج ہم ” ابھی نہیں تو کبھی نہیں ” کے کگار پر کھڑے ہیں اس اثناء آپ دشمن کے جبر و استحصال کو جواز بناکر تنقیدی تحریر و تقریر کو روکنا چاہتے ہیں تو پھر یہ بھی سوچنا ہوگا کہ وہ موزوں ترین وقت کب آئیگا جب اس عمل کو آگے بڑھایا جائے ؟ کیا آنے والے د نوں میں ریاستی جبر رک جائیگی ؟ نہیں جبر و استحصال کا یہ بازار روز بروز زیادہ شدت اختیار کرتا جائیگا یہ صرف اس صورت رک جائیگی جب ہماری تحریک رک جاتی ہے بالفرض تحریک رک جاتی ہے تو پھر محاسبہ ، تنقید اور تشکیل چہ معنی داری ؟ اور اسکی کیا ضرورت اسکا مطلب یہ عمل دوران جنگ و تحریک ہی جاری رہ سکتی ہے اور جب تک یہ جنگ و تحریک جاری ہے ریاستی جبر بھی جاری رہے گی اگر اس جبر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنے صفائی سے رکتے ہیں تو اسکا مطلب یہی ہوا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے اندر کچھ بھی کوتاہیاں آئیں ، کوئی بھی شخص کچھ بھی کرے ، تحریک کا رخ کسی بھی جانب موڑا جائے ہمیں اس پر سوال نہیں اٹھانا ہے اور اسکے بابت تنقید نہیں کرنی ہے کیونکہ تحریک اور جبر کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، یقیناً ذرہ بھر سیاسی شعور و قومی مہر رکھنے والے کارکن کا ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کرسکے گا کہ تحریک کو شتر بے مہار بنا کر کھلے میدان میں چھوڑ دیا جائے اور ہر طرح کے محاسبے و تنقید کا دروازہ بند کیا جائے ، اگر آپ کا ذہن تنقید و احتساب کو قبول کرتا ہے تو پھر آپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ پھر آپ تنقید و احتساب کیلئے جو بھی مناسب وقت و جگہ کا انتخاب کریں اس زمان و مکاں میں ضرور ریاستی جبر و استحصال آج سے کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہوگی اور ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن نشین کریں آپ تنقید و احتساب کیلئے جب بھی یا جو بھی وقت و مقام مقرر کریں گے اس میں ہدف تنقید ہزار بار غلط ہونے کے باوجود انکاری کیفیت میں جاکر وہی ساری حرکتیں کرنے لگے گا جو آج یار لوگ کررہے ہیں۔ ویسے مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتا کہ دشمن کے قبضے ، جبر اور استحصال کے خلاف اس تحریک کا آغاز ہوا وقت کے ساتھ ساتھ کوئی نظریاتی طور پر تو کوئی جذباتی لگن سے ، کوئی بلوچی معیار سے تو کوئی کیفیت کا شکار ہوکر اور کوئی ذاتی مفاد کیلئے اس جنگ اور اس تحریک کا حصہ بننے لگا ، لیکن سب سے تحریک کا تقاضہ یہی تھا کہ فرد کی ذات اور خواہشات کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی انہیں قربان کرنا ہوگا ، اب اسی تحریک میں شامل لوگ اسی تحریک سے بڑا اور مقدس کیسے بن گئے ؟ حالات چاہے کچھ بھی ہوں اگر کوئی شخص ، سوچ یا تنظیم اس تحریک اور حصول مقصد کے سامنے رکاوٹ بنتی ہے وہ عزت ، ہمدردی اور رعایت کا مستحق کیسے اور کیوں بن جاتا ہے؟ اگر ہم شفافیت اور محاسبہ کے اس عمل میں کسی بھی ایسے شخص ، سوچ یا ادارے کیلئے رعایت ، عزت یا ہمدردی کا تقاضہ کرتے ہیں جس کا فکر و عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ نقصاندہ و رکاوٹ ہے تو پھر یا ہم حقائق سے دور ہوکر خود ابہام کا شکار ہیں کہ کون کتنا مجرم ہے یا پھر ہم مجرمانہ حد تک مصلحت پسند ہیں، یہی ابہام و مصلحت پسندی کسی بھی جنگی ماحول یا انقلابی تحریک میں زہر قاتل کی سی حیثیت رکھتے ہیں ، کئی بار ایسا اتفاق ہوا ہے کچھ دوستوں کی طرف سے تنقید کے اہمیت کو تسلیم کرنے کے بعد یہ رائے دیکھنے کو ملی ہے کہ ایسے عناصر جن کے فکر و عمل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ تحریک کے سامنے رکاوٹ ہیں انکے بابت رائے نرم ہونا چاہیے اور رعایت برتتے ہوئے انکو حاصل مقام کے کماحقہ عزت دینی چاہئے ، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر آپ جہد کار کے کھال میں چھپے ایسے چوروں ، ڈاکووں ، منشیات فروشوں ، ٹھگوں ، دھوکہ بازوں ، مفاد و گروہ پرستوں ، نالائقوں اور بدتمیزوں کو پہچان کے باوجود بدستور وہی عزت و احترام اور قدر دینگے جو کسی مخلص جہدکار کا ہے تو پھر آپ اپنے تحریک کے بابت کیا تاثر چھوڑ رہے ہیں؟ یہی کہ کوئی چور دروازے سے تحریک میں گھس کر اپنے منشیات کے دھندے کو تقویت دے وہ کامریڈ ہے ، کوئی مکاری و دھوکے سے لیڈر بنے وہ محترم ہے ، بے گناہوں کو ذاتی عناد میں قتل کرنے والا پیشہ ور قاتل سرمچار ہے ، جو تحریک کو سیڑھی کی طرح استعمال کرکے نواب بنے وہ صد احترام ہے ، اگر یہ کامریڈ ، لیڈر ، سرمچار ، محترم و جہدکار ہیں تو پھر وہ کیا ہوئے جو گھر بار چھوڑ کر مخلصی سے جہد کررہے ہیں ، جو اپنے خاندانی دشمنوں تک کو تحریک کے نام پر معاف کرچکے ہیں ، جو سالوں شب و روز محنت کرنے اور قیادت کرنے کے باوجود لیڈر کے خطاب سے کتراتے ہیں ، جو تحریک کی خاطر اپنا مال و متاع و قبائلی اعزازات سے دستبردار ہوئے ، جنہوں نے تحریک کو اپنے ذاتی مفاد کیلئے سیڑھی نہیں بنایا بلکہ اپنا ذات قربان کرکے محض ایک زینہ بن گئے۔ اگر ہم اول الذکر و آخر الذکر دونوں کو ایک ہی کسوٹی پر رکھ کر ایک ہی مقام اور ایک ہی عزت و مرتبہ دینگے ، ایسے عناصر کیلئے رعایت مقرر کیئے رکھینگے تو پھر کیا ہم خود یہ دعوت نہیں دے رہے کہ کوئی بھی شخص آکر تحریک کو کسی بھی مفاد کیلئے استعمال کرنے کے باوجود قابلِ عزت اور با اختیار رہے؟ اگر ہم ایسے عناصر کو عزت دینگے تو پھر کیا ہم عام بلوچوں کو یہ نہیں سِکھا رہے ہونگے کہ اگر کوئی چور ، ڈاکو ، کرپٹ انسان بھی تحریک کا نام لے تو اسے عزت دی جائے؟ ، کئی دوست اس بابت دلیل دیتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کی سیاسی شعور ابتک اس حد تک نہیں کہ وہ ایسے عناصر کیلئے غیر رعایتی سخت رویوں و الفاظ کو قبول کرسکیں ، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ سیاسی شعور کب اور کیسے آئیگی ؟ کیا آپکے چور و ڈاکو کو لیڈر و محترم کہنے سے وہ سیاسی شعور اور غلط و صحیح کے بیچ امتیاز کرنے کی صلاحیت لوگوں میں آجائیگی یا پھر چور و ڈاکو کو چور ڈاکو کہنے سے آئیگی؟ ، دنیا کے ہر تحریک میں یہ ذمہ داری حالات کا صحیح اداراک و شعور رکھنے والے سیاسی کارکنوں کا ہوتا ہے کہ وہ ہر پیچیدہ حالت میں لوگوں کی رہنماء کرتے ہوئے انہیں یہ فرق سمجھائیں اور انکی رہنماء کریں اسی سے ہی اجتماعی سیاسی شعور کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن ایسے کیسے ہوگا کہ حالات کا ادراک رکھنے والے سیاسی کارکن خود چور کو لیڈر ، ڈاکو کو ڈاکٹر ، منشیات فروش کو ہمدرد اور پیشہ ور قاتل کو سرمچار کہیں اور یہ امید لگائیں گے لوگ از خود سیاسی شعور پاکر انہیں غلط کہنے لگیں گے پھر آپکا کردار کیا ہوا ؟ کیا پھر چور کو چور نا کہنے والا خود بھی شریک جرم نا ہوا ؟ میں سمجھتا ہوں ریاستی جبر و استحصال اور عوامی رائے و عوامی مایوسی کی باتیں محض سادہ سی بات کو پیچیدہ کرنا ہیں اور جیسا کہ میں ایک گذشتہ بحث میں ذکر کرچکا ہوں کہ ہمیشہ پیچیدگیاں وہاں پیدا کی جاتی ہیں جہاں مطمع نظر کچھ منفی مفادات کا حصول ہو یا مصلحت پسندی کی چادر اوڑھ کر اوجھل ہونا مقصود ہو۔ اگر ان پیچیدگیوں سے نکل کر ہم سادہ کرکے اس ریاستی جبر و استحصال اور تنقید کو سمجھیں تو معاملات انتہائی سادہ ہوکر ہمارے سامنے آجاتے ہیں کہ ” اس تحریک کا مقصد بلوچ قومی آزادی ہے اور جو بھی یا جس کی وجہ سے بھی ہم میں اور قومی آزادی کے بیچ میں رکاوٹ آتی ہے یا ہم آزادی سے محروم ہوتے ہیں، ہمیں ان سب رکاوٹوں کا مقابلہ کرکے انہیں راستے سے ہٹاکر آزادی تک پہنچنا ہوگا ، وہ رکاوٹ دشمن پاکستانی کی شکل میں ایک عسکری طاقت ہوسکتی ہے ، وہ رکاوٹ مذہبی گماشتے ہوسکتے ہیں ، وہ رکاوٹ قبائلی ذہنیت و قبائلی نواب سردار ہوسکتے ہیں ، وہ رکاوٹ ہماری اپنی نالائقیاں ، کمیاں کوتاہیاں ہوسکتی ہیں ، وہ رکاوٹ ہمارے بیچ موجود انقلابی کے بھیس میں مفاد پرست ہوسکتے ہیں، جو بھی ہمیں ناکام کرے وہ دشمن ہے ہاں یہ دشمن کہیں دانستہ اور کہیں نا دانستہ طور پر ہے اور وقت و حالات کے مطابق اس سے مقابلے کا طریقہ کار مختلف ہے ، کہیں یہ دشمن پاکستان کی صورت میں براہ راست ہوسکتی ہے جس سے مقابلہ بندوق کی گولی اور عوامی سیاسی بیداری سے ہوتی ہے ، کہیں قبائلی و مذہبی گماشتوں کی صورت میں ہے تو انکا اصل چہرہ لوگوں کو دِکھاتے ہوئے ساتھ ساتھ انکے صفائے سے مقابلے ہوتا ہے ، کہیں نام نہاد پارلیمانی قوم پرستوں کی صورت میں جن کے جعلی قوم پرستانہ دعووں اور نعروں کی حقیقت لوگوں کو سمجھا کر ان سے مقابلہ ہوتا ہے ، کہیں اپنے اندر پیدا ہونے والے منفی عناصر اور رجحانات کی شکل میں یہ دشمن ہوسکتا ہے جس کا صفایا آج وقت و حالات کے مطابق تنقیدی تحریر و تقریر کی صورت میں ہوسکتا ہے، اور مقابلہ کا یہ معیار یہاں تک موقوف نہیں بلکہ یہ وقت و حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ” بحث کا آغاز اس سوال سے ہوا کہ آج کے ریاستی جبر و استحصال کے دور میں کیا یہ تنقید ضروری ہے بحث کا اختتام اسی کے مختصر سے جواب پر آکر ختم ہوتا ہے ، ہاں ضروری ہے اور یہ تنقید و تحریر ہماری قوت ، وقت اور توجہ کا منتشر ہونا بھی نہیں کہلائے گا کیونکہ اگر آپ دشمن کے فوج پر گولیاں برسا رہے ہوں یا اپنے اندرونی کمی و کوتاہیوں پر الفاظ کی بوچھاڑ کررہے ہوں معنی ایک ہی ہے کیونکہ آپ دونوں صورتوں میں ایک ایسے رکاوٹ سے مقابلہ کررہے ہوتے ہو جو آپکو ناکام کررہا ہوتا ہے