چهارشنبه, اکتوبر 2, 2024
Homeآرٹیکلزدوستانہ جنگ تحریک کی ہائی جیکنگ تحریر:اسلم بلوچ

دوستانہ جنگ تحریک کی ہائی جیکنگ تحریر:اسلم بلوچ

بلوچ قومی تحریک کے حالیہ مرحلے میں جاری جدوجہد کو لیکر ایک مرکز کے تحت ابھر کر سامنے آنے والی مضبوط قومی قوت یا پھر مختلف قوتوں کے بیچ ایک مرکزی خیال پر بننے والی اتحاد کی صورت میں وجود میں لائی جانے والی قومی قوت کے بننے کے تمام مواقع اور امکانات کو منہدم کرنے اور موجودہ بے یقینی جیسی صورت حال سے تحریک کو دوچار کرنے کے اصل وجوہات پچھلے تمام عرصے کے جدوجہد میں ہی پیوستہ ہیں اس سے باہر نہیں جدوجہد میں مصروف عمل قوتوں کے بیچ ایسے منفی عناصر جن کے سوچ اورمفادات کے تانے بانے کئی نہ کئی جاکر ایک ہوجاتے ہیں یہ سب کچھ ان ہی عناصر کے سوچے سمجھے سازشی منصوبوں کا شاخسانہ ہے جس پر میں اپنی بساط کے مطابق روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا اسکو اچھی طرح سے سمجھنے اور بہتر وضاحت کے لیے پڑھنے والے آپ قارئین موجود ہیں.
میں نے تقریبا دو ڈھائی سال قبل ایک آرٹیکل میں قومی تحریک میں پیدا ہونے والے انتشار اور اسکے اصل وجوہات پراپنے تجربات کو لیکراپنی ناقص رائے کا اظہار کیا تھا اس اظہار میں نہ تومستقبل کے بارے میں کوئی جامعہ تجزیاتی خلاصہ تھااورنہ ہی کسی بھی قسم کی کوئی پیشنگوئی کی، میں نے تو صرف آنکھوں دیکھا حال بیان کیا تھا کیونکہ دوران جدوجہد ہمیں اس وقت جن مسائل کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا.ان مسائل کے حقیقت کو مانتے ہوئے بھی ہمارے اس وقت کے ساتھی اور آج کے مخالفین انکے صحت سے انکاری تھے اور انکے حل کرنے میں مکمل طور پر غیر سنجیدگی کامظاہرہ کررہے تھے
دوستوں کے مشورے سے بحیثیت ایک سیاسی کارکن اور ایک جہدکار کے میں نے جو دیکھا اور محسوس کیا وہ قوم کے سامنے بغیر لگی لپٹی رکھ دیا تاکہ انکو بہترطورپرسمجھا جاسکے.
اس کے باوجود اس دوران جو کچھ ہوتا رہا وہ آپ لوگوں کے سامنے ہے اورآج اس بات میں بھی کوئی شک نہیں رہا کہ ان سب کا تعلق سیدھی طرح سے بلوچ سیاسی کارکنان کو گمراہ کرنے سے ہیں کیونکہ یہاں ایک طرف بہت سے تلخ حقائق ہیں اور دوسری طرف ان تلخ حقائق کی پردہ پوشی کے لیے کچھ خوش نما تصورات ( اتحاد کو لیکر) اور کچھ خوف زدہ کرنے والے خدشات ہیں (دشمن اور اسکے بربریت کو لیکر ) جنکا پرچار بالکل جنت کے انعام اور جہنم کے عذاب جیسا کیا جاتا ہے ،انہی خوشنما تصورات اور خوفزدہ کرنے والے خدشات کی بنیاد پر پیدا کی گئی ایسی پیچیدگیاں ہیں جن میں تلخ حقائق سے توجہ ہٹانے کی بھر پور کوششیں سازشوں کی حد تک کئے جارہے ہیں ۔اب ایسی صورت حال میں ان خوفزدہ کرنے والے خدشات اورخوشنما تصورات کے بھنور میں پھنسے کسی بھی شخص کو ان بنیادی تلخ حقائق سے کیا لینا اور ان بنیادی تلخ حقائق کو بلا ان سے جانے کون لہذا اسی سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ دوران جدوجہد وسائل کی کمی اور دشمن کے بیچ طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے شب و روز مشکلات کا سامنا کرنے والے کیسے اتنے نادا ن ہوسکتے ہیں کہ اپنے قومی طاقت کے حصول کے ذریعوں سے ہی نا آشنا نکلے اور طاقت کے حصول کے ذرائع سے ہی قدم قدم پرمتصادم نظر آئیں (غلطیوں کی حقیقت اور انکے سرزد ہونے سے قطع نظر) یہاں رفتہ رفتہ ابھر کرجو تلخ حقائق سامنے آچکے ہیں وہ یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ اب خوش فہمی ہی ایسے ہوائی تصورات کو جنم دینے کا ذریعہ بنتا جارہا ہے جن میں کچھ قابل اصلاح غلطیاں ہیں نادان دوستوں کی کچھ نادانیاں ہیں اعتماد کی فضا بحال کرنے کی ضرورت ہے رابطے کا فقدان ہے انا کا مسئلہ ہے وغیرہ وغیرہ.
کیا یہ سمجھنا مشکل ہے کہ دشمن کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے ایک طاقتور دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے طاقت کیسے اور کہاں سے حاصل کی جاتی ہے اور اس طاقت کو کیسے منظم اور متحرک رکھ کر موثر انداز میں وسعت دیا جاتا ہے
اگر میں قومی جدوجہد کے بنیادی جزیات میں سے ” کشید بعدازترتیب ” کوایک اہم جز قرار دوں تو شاہد غلط نہیں ہوگا ایک مقصد کے تحت غیر منظم اور بکھرے ہوئے مختلف الخیال لوگوں کو منظم اور متحرک کرنا ابتدائی مرحلہ کہلاتاہے تربیت کے ساتھ ہی ساتھ ذمہ داریوں کا تعین اور صحیح سمت میں انکے محنت اور قربانیوں کو بروئے کار لانا ہی بہت سارے لوگوں میں سے باصلاحیت اور اہل افرادکی نشاندہی کرتاہے ایک مقررہ معیار ہی باصلاحیت اور اہل افراد کے چناؤ کا ذریعہ بنتا ہے اور اس مقررہ معیار کے مطابق چنے گئے افراد کے ذریعے اداروں کی تشکیل ممکن ہوتی ہے یہ بالکل ایک سطحی سا خیال ہے دنیا میں اسکے اور بھی موثر اور بہتر طریقے متعارف کرائے جاچکے ہیں.
اپنے ہاں کے بد قسمتی کو سمجھتے ہوئے بھی میں پچھلے تمام ان باتوں کو جن کا ذکر میں آگے چل کر کروں گا اگر نا پختگی یا ابتدائی غلطی قرار دوں تو پھر بھی اتنے سارے تلخ حقائق ہیں جو کسی اور جانب اشارہ کرتے نظر آتے ہیں.
اوران حقائق کو جھٹلانا تقریبا نا ممکن نظر آتاہے ( ہمارے خوش فہمی خود فریبی اور بھڑک بازی سے قطع نظر )
ایک ایسا گروہ جو قبائلی جنگ سے ناآشنا ہ ہو قبائلی جنگ در کنار اسڑیٹ فائٹنگ تک کا تجربہ نہ رکھتا ہو وہ ریاست کے خلاف جنگ میں پہلے دن ہی اپنا سنٹرل کمانڈ تشکیل دیتا ہے اور سنٹرل کمانڈ میں شامل افراد کا اعلان بھی کرتاہے بنیادی سوال یہ پیداہوتا ہے کہ چناؤ کا معیار کیا تھا ذاتی دوستی،سیاسی وابستگی، جنگی تجربہ ، تنظیمی امور، یا کچھ اور خیر پوری دنیا میں جدوجہد کرنے کی ابتداء کچھ نہ ہونے سے ہوتاہے اور رفتہ رفتہ تمام لازمی جزویات کی تشکیل عمل میں لایا جاتاہے لیکن ہمارے ہاں غور کرنے پر کچھ اور ہی نظر آتا ہے یعنی ایک دن بڑی بات ہوگی ایک گھنٹے کی جنگی تجربے سے بھی قاصر شخص عسکری تنظیم کا سنٹرل کمانڈ کا ممبر اچانک سے بن جاتا ہے یا بنایا جاتا ہے پارٹی و تنظیم یا اداروں کی علمی تعریف سے قطع نظر پارٹی و تنظیم کے دائرہ اثر طاقت اور موثر کارکردگی پر غور کرنا درکنار اسکو بیٹھے بٹھائے مقدس ہونے کا چادر چڑھایا جاتاہے ایسے اعمال کو اگر سیاسی ناپختگی سے تعبیر بھی کیا جائے تو تب بھی بدقسمتی سے تمام خوشنما دعوؤں اور نعروں کے بیچ علامات مزید تلخ حقائق کی جانب اشارہ کرتے ہیں تلخ حقائق میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ قومی تحریک کے اس اہم جز کشید بعدازترتیب میں زامران مری اپنے متعین کردہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں غیرذمہ دار کرپٹ اور غیر سنجیدہ شخص کے طور پر سامنے آتاہے کسی بھی تحقیق فیصلے یا سزاء سے پہلے ہی صرف باز پرس پر وہ ایک الگ تنظیم کے ساتھ اسکے سربراہ کے طور پر سامنے آتا ہے اورالگ تنظیم کے بنانے کے لئے اس کے پاس نہ تو کوئی مضبوط سیاسی جواز اور نہ ہی کوئی واضح مقصد ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنے اس عمل کو جائز سیاسی عمل قرار دے سکے لیکن اس کے باوجود زامران مری کو من وعن تسلیم اورقبول کیا جاتا ہے
اگر غور کیا جائے تو ایک منظم اور متحرک قوت کو بغیر کسی سیاسی یا اخلاقی جواز کے کمزور کرنا اور دوسری طرف اس سے نسبتاََ ایک غیر منظم اور متضاد قوت لاکھڑاکرنے جیسے عمل کو کس طرح سے قومی خدمت قرار دیا جاسکتا ہے اوراسکی حمایت کرنا اور پس پردہ اسکو بڑھاوا دینا کیسے جائز قومی عمل قرار دیا جاسکتا ہے کیا ان باتوں کی وضاحت ضروری نہیں.
اور آج کے تلخ حقائق میں سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قومی آزادی کے چیمپئن ہونے کے دعوے دار پس پردہ اسی زامران مری کے دستار بندی کرنے والے ملک مقدم اور وڈیرے بنے نظر آتے ہیں جن حقائق کو میں نے دوسالوں قبل سامنے رکھا تھا آج وہ رحمدل مری کے مشکوک اغوا ء اور بی ایل ایف کے بچگانہ ردعمل پر ثابت ہوچکے ہیں کیونکہ زامران مری کے دستار بندی میں بطورایک وڈیرہ رحمدل مری کا نام سامنے آنا اور دوسری طرف اسکے مشکوک گمشدگی پر بی ایل ایف کا رحمدل مری کو بانی رہنماء قرار دینا بذات خود ایک ثبوت ہے کہ ڈاکٹراللہ نذربشمول براہمداغ بگٹی جاوید مینگل زامران مری کے طرف سے کئے گئے تمام ہتھکنڈوں میں شریک رہے ہیں یو بی اے ہو یا نام نہاد نوابی کا دعوی یہ حضرات پوری طرح سے ان میں شریک رہے ہیں
تو یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ قبائلیت سے آگے نکلنے کا دعوی کرنے والے نام نہاد قومی اداروں اور مقدس ا داروں کے تشکیل کا سہرا اپنے سر پر باندھنے والے کس انقلابی یا سیاسی اخلاقی جواز کے تحت ایک ڈمی نواب کی دستار بندی کرواتے نظر آتے ہیں.
ان تمام اعمال کے لیے ہمیں نہ تو کوئی ٹھوس سیاسی جواز اور نہ ہی کوئی اخلاقی جواز نظر آتا ہے اور نہ ہی زمینی حقائق اور وقت وحالات کے تناظر میں کوئی بہترین حکمت عملی.ماسوائے قومی تحریک سے متضاد اور متصادم ہونے کے یو بی اے کے بلا جواز ظہور پر لیت و لعل سے کام لینے والے اور اس مسئلے کو دو بھائیوں کا آپسی مسئلہ قرار دینے والے ہمارے سیاسی ثالثین کے مکرو کردار کو زامران مری کے نواب ہونے کے دعوے نے طشت ازبام کردیا بلوچ قوم میں خودکو غیرجانبدار اور ثالث متعارف کرانے والے نواب مری بننے کے زامران مری کے دعوے کے ساتھ ہی بطور فریق کھل کر سامنے آگئے مبینہ گمشدہ رحمدل مری کا بطور بانی رہنماء خود ہی اقرار کرنااور رحمدل مری کا بطور وڈیرہ زامران مری کا دستار بندی کرنا اندرونی سازش کی نشاندہی کے ساتھ ڈاکٹر اللہ نذر اور زمران مری کے گٹھ جوڑ کے ثبوت کے لئے کافی ہیں اور دوسری طرف گزین مری آج دوبئی میں بیٹھکر قبیلے کی سربراہی اور زامران مری کو لیکر صاف طور پرریاست کے ساتھ کچھ طے کرنے میں لگا ہے کیونکہ گزین مری مری قبائلی مجالس میں کھل کر پاکستان لوٹنے اور ریاست کے اندر رہ کر حقوق لینے کی باتیں کررہا ہے پچھلے کچھ دنوں سے گزین مری نے سرعام اختر مینگل والے نظریے کی پرچار زوروشورسے شروع کررہا ہے اوراسی دوران پاکستان کے عسکری عہدے داروں سے ذالفقار مگسی اور ارباب غلام رحیم کے ذریعے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے.
اوردوسری طرف یو بی اے کے نام پر اور مرحوم نواب خیربخش مری کے پیروکاری کے نام پر مری قبیلے میں سرگرم عمل آزادی پسند دوستوں میں پھوٹ ڈالنے کی بھر پور کوششیں کررہا ہے اورہر حوالے سے BLA کو کمزور کرنے کے لیے لوگوں کو اکسا رہا ہے اگر اس سلسلے کو زامران مری جیسے کڑی کو بیچ میں جوڑ کر دیکھا جائے تو عین اسی وقت دوسری طرف ڈاکٹر اللہ نذر نظر آتے ہیں ماضی میں چھپ کر پچھلے کچھ عرصے سے کھل کر یو بی اے اور زامران مری کی حمایت اور تواتر سے حیربیارمری کے خلاف بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ نے ان تمام کڑیوں کو ایک ہی زنجیر میں پرو دیا ہے اگر کوئی بھی غیر جانبدار شخص بلوچ قومی تحریک میں سیاسی فیصلوں کے حوالے اورمکران میں خصوصا BLF کے قیادت کے حوالے سے ڈاکٹر اللہ نذر کے کردار کا جائزہ لے تو نتائج مایوس کن حد تک منفی ہی نظر آئیں گے BNM اورBSO پر شخصی بالادستی قائم کرنے کے لیے سیاسی و اخلاقی اصولوں کی پامالی ہو یا زاہد کرد اور رضا جہانگیر واقعات کے تانے بانے ہوں ماما قدیر کے لانگ مارچ کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے لطیف جوہر اور پنجابی نام نہاد سوشلسٹوں کا احتجاجی پروگرا م ہو چارٹر اور 13 نومبر شہداء ڈے کو متنازعہ بنانے کے خود غرضانہ فیصلے اسی طرح عسکری حوالے سے اگر پچھلے تمام عرصے میں مند اور تربت کے آس پاس استاد واحد قمبراور اس کے قریبی ساتھیوں کی طرف سے ریاست کے خلاف چند موثر کاروائیاں نکال کر دیکھ لیں تو ڈاکٹر اللہ نذر کے کھاتے میں بے شماربلوچوں کے ایسے متنازعہ قتل نظر آئیں گے جن کو مخبری کے نام پر قتل کیا گیا قطع نظر اس کے کہ آج تک مکران میں نامی گرامی اور بدنام مخبروں پر ایک بھی موثر حملہ ریکارڈ نہیں ہوا منشیات کے حوالے سے سوالات ایف سی فوج کی موجودگی میں تواتر کے ساتھ آسان ہدف کو نشانہ بنانے کے حوالے سے سوالات چوری اور راہزنی کے حوالے سے سوالات ہی نظر آئیں گے اس منفی تسلسل کو یوں جاری دیکھ کر ایک قومی امکان ظاہر ہورہاہے کہ کئی ریاست کے ساتھ ایک دوستانہ جنگ کی بنیاد پر قومی تحریک کو ہائی جیک کرنے کی سازش تو نہیں کئے جارہے ہیں ڈاکٹر اللہ نذر کی طرف سے پچھلے تمام عرصے میں کوئی ایک ایسا عمل گنوانے کیلئے سامنے آئے جسکو دیکھ کر یہ کہا جاسکے کہ واقعی اس عمل کے نتائج قومی تحریک کے لیے مثبت ثابت ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز