ہمگام کالم
بلوچ قوم کے شہیدوں نے بیش بہا اپنی قیمتی جانوں کا نزرانہ دے کر قومی جدو جہد کو ایک ایسے مرحلے میں داخل کر وا دیا ہے جہاں دشمن ریاست کی شکست یقینی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب عالمی دنیا پاکستان کو اخلاقی سپورٹ کے ساتھ، ساتھ بھر پور مالی معاونت کر رہا تھا مگر آج پاکستانی مکروہ چہرے کو ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔
اُن شہداء کی گرانقدر قربانیوں نے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ وہ ایسی ریاست کی معاونت کر رہے ہیں۔
جسکی وجود دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہو چکی ہے۔اور اب دنیا بغیر جھجک پاکستانی ریاست کی دوغلی پالیسیز پر نقطہ چینی و عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہیں۔
اسکی عالیہ مثال امریکی صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان ہے جسکی رو سے پاکستان کو دہشت گردوں کا معاونت کار قرار دیا گیا تھا۔ اور پوری طور پر اس عمل کو روک دینے کی دھمکی دی گئی تھی۔
دنیا اب عالمی سلامتی کو مدنظر رکھ کر پاکستانی ریاست پر خوب کیچڑ اچھال رہی ہے اور اسکا سب سے بڑا کریڈٹ آجوہی کی راہ میں اپنے جانوں کا نزرانہ پیش کرنے والے بلوچ مزارانِ وطن کو جاتا ہے
جنکی انتھک لاثانی قربانیوں سے قابض ریاستی چہرہ دنیا کے سامنے عیاں ہو چکا ہے۔
انھی گرانقدر قربانیوں کی وجہ سے شہدائے وطن کو بلوچ قوم کثرت سے یاد کرتی ہے۔ شہدائے آجوہی کی لسٹ بہت طویل ہے مگر آج ہم کچھ ایسے گمنام انقلابی کرداروں کا ذکر کرینگے جن کو بہت کم لوگ جانتے ھیں(ہو سکتا ہے میں غلط ہوں مگر میرے دانست کے مطابق انکا ذکر بہت کم ہوا ہے) جی ہاں میں شہدائے ناگاہوں کماندار شہید منظور جان عرفِ استاد شبیر بلوچ کسان سالیں سرمچار شہید شعیب جان عرفِ سمیر بلوچ شھید عالم جان عرفِ شیہک بلوچ جوانسال شھید فیصل عرفِ جرنیل بلوچ شہید سفیر بلوچ اور شہید صوفی بلوچ کی بات کر رہا ہوں 6 اپریل دو ہزار چھ کو اِن عاشقانِ وطن نے سرزمین بلوچستان کا دفاع کرتے ،کرتے کوہ ناگاہوں میں دشمن کو پسپا کرکے شہادت کا جام نوش کیا تھا۔
ان شہداء میں سے شہید کامریڈ منظور سے کچھ زیادہ قربت ہونے کی وجہ سے ان کے خیالات سے کچھ زیادہ واقف ہونے کا موقع ملا۔ اس درویش صفت کامریڈ کے کردار کو لفظوں میں بیان کرنا مجھ جیسے محدود علم رکھنے والی سیاسی ورکر کیلئے بے حد مشکل عمل ہے مگر کچھ ایسی یادیں شہید سے وابسطہ رہی ہے جن کو بیان نہ کرنا شہید کے روح اور قومی کردار کے ساتھ سراسر نا انصافی ہوگی۔
لہذا ان کے بیش بہا قربانیاں لفظوں کے محتاج نہیں ہیں, بلکہ ان کے مقصد (قومی آزادی) کیلئے دیوانگی سے جدوجہد کرنا ہے۔
شہید کامریڈ منظور بلوچ ایک ایسا دل عزیز سنگت جس کی دوری سے بندے کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ چہرے پر ہمہ وقت مسکراہٹ شہید کی شخصیت کا ایک سنہرا باب تھا۔
جس کسی سے ملتا گفتگو ایسے مودبانہ انداز سے ہوتا جیسے وہ کسی دیرینہ دوست سے ملاقات کر رہا ہو۔ بچوں کے ساتھ ملاقات میں گزرا ہوا بچپن اُسکا لوٹ آتا۔ شہید کو دیکھ کر میں اکثر دنگ رہ جاتا کیونکہ فلمی ایکٹر کی مانند سب کردار اس میں کھوٹ ، کھوٹ کر بھرے ہوئےتھے۔وہ بات کرنے کے فن سے بخوبی واقف تھا جس کسی سے بھی ملتا اس پر کرشماتی اثر چھوڑ جاتا۔ تحریک آزادی سے شہید کا لگاؤ حیران کن تھا جب کھبی بھی سنگتوں کی دیوان میں بیٹھتا شہداء کا ذکر اُنکا مضمون اوّل ہوتا۔
شہید دوست کے ساتھ ، ساتھ ایک معلم بھی تھا۔
ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ موقع غنیمت کا خوب فائدہ اٹھایا اور سیکھتے رہے۔ نہ صرف میں بلکہ جو کوئی دوست ان کے صحبت میں رہا یقینا ان کے علم سے فیض یاب ہوتا رہا۔
زات کی نفی اور اجتماعیت کو تقویت دینا انھی کی تربیت کی مرہون منت ہے۔۔
بلوچ قومی سوچ دو ہزار چھ سے ان کے ساتھ تھی چونکہ اس وقت نوجوانوں کو منظم کرنے کیلئے سیاسی پارٹی نہ ہونے کے برابر تھا, مگر شہید ہمہ وقت قومی خدمات کیلئے کوشاں تھے۔ سماجی مسائل پر علاقاہی لوگوں سے ملاقاتیں اور مسائل پر عوامی آگاہی مہم چلانا شہید اپنا اخلاقی فرض سمجھتا تھا۔ شہید کو جہاں کئی بھی دیکھا مکمل ایک انقلابی کی روپ میں دیکھا سماجی جمود کو تھوڑتے دیکھا, فرسودہ روایتوں سے بغاوت کرتے دیکھا۔ بلوچ سماج کو بدلنے کی آس دل میں لیئے گلی اور کوچوں میں بھٹکتے دیکھا۔ اسی آس نے اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیا اور بغاوت پہ اکسایا اور آخر وہ بھی پہاڑوں کو قومی سنگر بنا کر دشمن پر آسمانی بجلی کی طرح گرج اور چمک کے ساتھ برسا۔
دو سال تک ناگاہوں کی چھوٹی پر بیٹھ کر دشمن سے بخوبی سرزمین بلوچستان کا دفاع کرتا رہا۔
اور آخر کار 6 اپریل کا منحوس دن اس سرزمین کے بہادر شے مرید کو اپنے دیگر پانچ ساتھیوں سمیت ہم سے چھین کر چلا گیا۔
کسی دانشور نے کیا خوب لکھا ہے کہ جسم ختم ہونے سے بندہ نہیں مرتا۔ اسکے افکار اسے ذندہ رکھتے ہیں۔
شہید کامریڈ منظور بلوچ کے افکار دو سال گزرنے کے بعد بھی ذندہ و تابندہ ہیں اور تا ابد ذندہ رہینگے یہی شہید کے امر ہونے کی نشانی ہے۔ کہ وہ بالآخر اپنے مقصد قومی آزادی کیلئے قربان ہو کر اس اہم امتحان میں کامیاب ہو کر ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔