تاریخ کے اوراق پر کئی ایسے واقعات درج ہیں جہاں قوموں نے اپنے لیڈروں کے دھوکہ دینے کے بعد بھی ان پر بھروسہ کیا۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو قوم کے شعور، لیڈر کی چالاکی، اور حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں قوم بے وقوف ہوتی ہے یا لیڈر عقلمند؟ اس مضمون میں ہم تاریخی حوالوں کی روشنی میں اس سوال کا تجزیہ کریں گے۔ قوم کی سادگی یا اعتماد کا دھوکہ؟

قومیں عموماً اپنے لیڈروں پر اعتماد کرتی ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنے مفادات کا محافظ سمجھتی ہیں۔ اس اعتماد کی بنیاد لیڈر کے وعدوں، کارکردگی، اور قوم کے اجتماعی شعور پر ہوتی ہے۔ جب کوئی لیڈر دھوکہ دیتا ہے اور قوم پھر بھی اسے دوبارہ منتخب کرتی ہے یا اس پر بھروسہ کرتی ہے، تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں:

جھوٹے وعدوں کا جال: اکثر لیڈر اپنی چالاکی سے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں اور عوام کو ایک خوبصورت مستقبل کا خواب دکھاتے ہیں۔

غلط معلومات اور پراپیگنڈا: تاریخ گواہ ہے کہ لیڈر اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور دھوکہ دہی کو جائز ثابت کرنے کے لیے غلط معلومات اور پراپیگنڈے کا سہارا لیتے ہیں، جس سے عوام اصل حقائق کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔

سیاست میں جذبات کا استعمال: بعض اوقات لیڈر قوم کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور قومی یا مذہبی جذبات کو بھڑکا کر اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔ تاریخی مثالیں: نپولین بوناپارٹ: نپولین بوناپارٹ کی مثال اس سلسلے میں خاصی اہم ہے۔ فرانس میں انقلاب کے بعد جب نپولین اقتدار میں آیا، تو اس نے خود کو جمہوریت کا محافظ ظاہر کیا، مگر بعد میں اپنے ہی وعدوں سے منحرف ہو کر خود کو بادشاہ بنا لیا۔ جب وہ اپنی جنگی مہمات میں ناکامی کے باوجود دوبارہ اقتدار میں آیا، تو فرانس کی عوام نے اسے قبول کیا۔ نپولین کی اس کامیابی میں قوم کی سادگی یا خوف کا عنصر شامل تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نپولین نے اپنے کرشماتی شخصیت اور جنگی فتوحات کی وجہ سے قوم کو دوبارہ اپنی طرف مائل کیا۔

ہٹلر اور نازی جرمنی: ہٹلر کی قیادت میں نازی پارٹی نے 1930 کی دہائی میں جرمن عوام کو عظیم تر جرمنی کا خواب دکھایا۔ جب ہٹلر نے اپنے وعدوں سے منحرف ہو کر پورے یورپ کو جنگ میں دھکیل دیا اور جرمنی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، تب بھی کئی جرمن شہریوں نے اسے اپنا مسیحا سمجھا۔ اس کی وجہ ہٹلر کا شاندار پراپیگنڈا اور قوم پرست جذبات کو ہوا دینا تھا، جس نے قوم کو اس کی دھوکہ دہی کے باوجود اس پر اعتماد کرنے پر مجبور کیا۔

اختر مینگل کے یوٹرن لینے کا تاثر ان کی سیاست میں بارہا دیکھا گیا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے وقت خاموشی اختیار کرنے کے بعد، انہوں نے بعد میں اس معاملے پر مختلف موقف اپنایا، جسے قوم پرست حلقے ایک یوٹرن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کی یہ خاموشی اور پھر بعد میں بلوچستان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی کوشش ایک تضاد کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

قوم پرست سیاست میں یہ عام تاثر ہے کہ اختر مینگل نے نواز شریف کی حکومت کے دوران جو کردار ادا کیا، وہ بلوچستان کے حقوق کی لڑائی میں کمزور ثابت ہوا۔ بعد میں انہوں نے بلوچستان کے حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کیا، لیکن 1998 کے واقعات کے دوران ان کا خاموش کردار ان کی سیاسی چالاکی اور مفاد پرستی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

سردار اختر مینگل کا 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے دوران کردار بلوچ قوم پرست سیاست میں ایک متنازع موضوع رہا ہے۔ ان کی اس وقت کی خاموشی اور بعد کے بدلتے بیانات کو یوٹرن اور مفاد پرستی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بلوچ قوم کے ایک بڑے حصے نے اس وقت انہیں نواز شریف کے ساتھ جڑے رہنے اور ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے کوئی واضح موقف نہ اپنانے پر مایوسی کا اظہار کیا۔

اکبر بگٹی کی شہادت کے وقت جب بلوچستان میں قومی مزاحمت اپنے عروج پر تھی، سردار اختر مینگل نے کہا کہ وہ نوجوانوں کے ساتھ پہاڑوں پر جائیں گے اور بلوچ حقوق کے لیے لڑیں گے۔ لیکن عملی طور پر وہ پہاڑوں پر نہیں گئے اور سیاسی محاذ پر واپس آئے۔ ان کا یہ فیصلہ سیاسی ضرورت، حالات کی مجبوری، یا چالاکی کا مظہر تھا، اس پر مختلف آراء ہیں۔

تاریخ میں ایسے کئی مواقع ملتے ہیں جہاں لیڈروں نے قومی جذبات کو بھڑکایا اور پھر بعد میں اپنے بیانات سے منحرف ہوئے۔ مثال کے طور پر، مصر کے صدر انور سادات نے عرب دنیا کے سامنے فلسطینیوں کی آزادی کے لیے جنگ کا وعدہ کیا تھا، لیکن بعد میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کر کے امن کی راہ اختیار کی، جسے ان کی قوم نے دھوکہ تصور کیا۔ اسی طرح، سردار اختر مینگل کے کئی بیانات اور فیصلے بلوچ عوام کے لیے مایوسی کا باعث بنے ہیں، خصوصاً وہ نوجوان جو آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔

قوم کی ذمہ داری اور شعور کا فقدان: قوم کا شعور ایک اہم عامل ہے جو لیڈر کی دھوکہ دہی کے بعد اس پر دوبارہ اعتماد کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ اگر قوم باشعور ہو، حقائق کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو، اور اپنے لیڈروں سے جوابدہی کا مطالبہ کرتی ہو، تو دھوکہ دینے والے لیڈر کا دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر قوم میں شعور کی کمی ہو، یا اسے معلومات تک رسائی نہ ہو، تو لیڈر آسانی سے عوام کو دھوکہ دے کر دوبارہ اقتدار میں آ سکتا ہے۔ لیڈر کی چالاکی یا قوم کی بے وقوفی؟ دھوکہ دہی کے بعد لیڈر پر دوبارہ اعتماد کرنا لیڈر کی چالاکی کا ثبوت بھی ہو سکتا ہے۔ ایک چالاک لیڈر عوام کے جذبات، محرومیوں، اور توقعات کو بخوبی سمجھتا ہے اور انہیں اپنی کامیابی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ جھوٹے وعدے، جذباتی تقریریں، اور پراپیگنڈا کے ذریعے عوام کو اس حد تک متاثر کر دیتا ہے کہ قوم اس کی دھوکہ دہی کو بھول کر دوبارہ اس پر اعتماد کرتی ہے۔

تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی لیڈر دھوکہ دے اور قوم اس پر دوبارہ بھروسہ کرے، تو دونوں عوامل یعنی قوم کی سادگی اور لیڈر کی چالاکی اس عمل میں شامل ہو سکتے ہیں۔ قوم کا شعور، جذبات اور معلومات کی کمی، اور لیڈر کی چالاکی و پراپیگنڈا مل کر ایسا ماحول بناتے ہیں جہاں دھوکہ دہی کے باوجود لیڈر کو دوبارہ اعتماد ملتا ہے۔ اس لیے اسے صرف قوم کی بے وقوفی یا لیڈر کی عقلمندی تک محدود کرنا مناسب نہیں ہوگا بلکہ دونوں عناصر مل کر اس صورت حال کو جنم دیتے ہیں۔