آیتیں جب اپنے قران سے خفا ہوتی ہیں تو خدا کے آنسو دھرتی کے گرم سینے پہ گرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آیتیں اپنے قران سے خفا کیوں ہوتی ہیں ؟؟ دیکھ خدا کا دل کتنا دیوانہ ہے،پروفیسر نے گولڈ لیف سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے بڑی توجہ خیز لہجے میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا،،،،،
مدتوں بعد شال کی نگری میں موسم مہک رہا تھا آج صبح کی بارشوں نے جیسے دھرتی کے حسن کو نکھار کے رکھا ہے خزاں کی اپنی مہک ہوتی ہے ہوائیں زمین کا رَس نچوڑ کر مٹی کی ایک مخصوص خوشبو لپیٹے گھومتی رہتی ہیں ایسے موسموں میں دیوانے دل مزید دیوانگی کی طرف جاتے ہیں صبح جب میرے موبائل پہ پروفیسر کے نام کی گھنٹی بجی میں فوراً سمجھ گیا کہ موسم بھی بولتے ہیں آج باہر کے موسم نے پروفیسر کے اندرونی موسم کو موبائل کے بلیو ٹوتھ کی طرح کنکٹ کیا ہے آج ٹرانسفر کرنے کا موقع ہے،جونہی میں نے کال اٹینڈ کی بِنا کچھ حال احوال کیئے اُنھوں نے کہا کہ میں بلدیہ ہوٹل میں بیٹھا ہوں آپ جلدی آجانا یہاں بیٹھ کر حال ،احوال کرتے ہیں میری بھی آج وہی کیفیت تھی سُننے سُنانے کی،،میں نے اپنے ارد گرد ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے دانشور لوگ اکثر خود ہی بولتے رہتے ہیں جب کوئی بحث،مباحثہ ہو تو ہر کوئی بولنے پہ زور دیتا ہے اُنکو شایدیہ معلوم نہیں کہ دوسروں کو سُننا بھی تعلیم یافتہ ہونے کی ایک علامت ہے مگر ہمارے معاشرے میں سُننے کا رواج بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے کیونکہ there is no listener,every one loves to talk والی نیچر ہے مگر پروفیسر کا لہجہ اُسکی آنکھوں کے لہجے کی طرح مہربان تھا جیسے خدا کی شاعری ہو،بہت پیار اور دھیمے لہجے میں بولتا تھا اور سامنے والے کو ہمیشہ پورا بولنے کا موقع دیتا تھا میرے اردگرد پروفیسر سے زیادہ کوئی اچھا سُننے والا good listener نہیں تھا اس لیئے وہ ایک اچھا بولنے والا یعنی good speaker بن گیا تھاوہ دلیل بھی سُننے والے کے مزاج کے مطابق دیتا تھا اس لئے اُسکی باتوں میں ایک ربط تھا لہجے میں مٹھا س تھی اُسکی باتیں کسی کو بھی خُشک نہیں لگتی تھیں اپنی باتوں کو دلچسپ بنا کے دل میں اُتارنے کے فن سے بہت واقف تھا یہی وجہ تھی کہ اُسکے فون بند کرنے کے بعد میں نہائے بغیر اسی طرح نکل گیا تاکہ وقت ضائع کیے بغیر میں جناب کی محفل سے فیضیاب ہو سکوں رکشے میں بیٹھ کے راستے میں یہی سوچ مجھ پر حاوی تھی کہ آج کونسے موضوع کا چھلکا اُتریگا شال کے موسم کا،بلوچ تاریخ پہ، یا آج کل ہونے والے مُلاؤں کے ماتم کا لباس اُترنے والاہے۔؟یا تو آج پروفیسر ضرور ہونے والے آپریشن اور بلوچ گھروں پہ بمبار منٹ پہ بات کریں گے؟ نہیں نہیں آج تو بلوچ عورتوں کے اغواء کا زکر بڑے غصے سے کریگا اور مرچ مصالحے والی دو چار گالیوں سے نوازیگا ۔کہ اچانک رکشے نے بلدیہ ہوٹل کے گیٹ کے پاس روک کہ کہا کہ جی جناب یہ ہے آپکا بلدیہ ہوٹل،،کرایہ میں نے راستے میں ہی جیب سے نکال کے ہاتھ میں رکھا تھا رکشے والے کو تھماتے ہوئے اندر گیا تو پروفیسر کے پاس ڈاکٹر سلیمان بھی بڑے خوشگوار مُوڑ میں بیٹھے ہوئے تھے جو چھ مہینہ قبل کراچی سے ایم ایس کرکے آئے تھے، موسم اب بھی ٹپک رہا تھا زرد پتوں کی جُنبِش ،ہوا کے سُروں میں زیمل کی طرح بج رہے تھے اسی لئے پروفیسر ڈاکٹر سلیمان کے ساتھ ہوٹل کے اندر کھڑکی کے پاس بیٹھے کہوہ چائے کا زائقہ لے رہے تھے ہوٹل کی چھت پہ ہلکی بوندا باندی سنگیت بن کے بلوچی ٹھیکے میں موسم کا راگ الاپ رہی تھی جو میرے اور پروفیسر کے اندرونی کیف کو جنونی رنگ دینے کے لئے کافی تھا اُن کے پاس بیٹھنے کے بعد میں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو وہ لمبا تڑنگا سا ویٹر نظر نہیں آیا جو ہمیشہ ٹیبل صاف کرنے کے بہانے کافی دیر تک ہماری باتیں سُنتا رہتا تھااور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی رائے کا اظہار کرنے کو بھی اپنا فرض سمجھتا تھا اسی وجہ سے میں میں اسے دل ہی دل میں پاکستانی خُفیہ ایجنسی کا کارندہ سمجھ کے موضوع بدل دیتا تھا مگر آج وہ کہیں بھی نظر نہیں آیا اس لئے دل میں ہلکی سی خوشی بھی اُتر آئی تھی پروفیسر نے کسی دوسرے ویٹر کو بُلواکر میرے لیے چائے کا آرڈر بھی مجھ سے پوچھے بغیر دے دیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ہم دونوں صرف سلیمانی چائے سے دل لگی رکھتے ہیں۔جیسے وہ لمحوں کی قید سے آزاد ہو کے اپنی گفتگو کا آغاز کرنے میں اِشتاپی تھا ،چائے کے آنے سے پہلے پروفیسر نے پرنٹ کیا ہوا توار اخبار میری گود میں رکھا جووہ ہمیشہ نٹ سے پرنٹ کرکے ہمیں پڑھانے کے لئے لاتے تھے اس سے پہلے کہ میں توار اخبار کاجائزہ لیتا تو جناب نے عجیب نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ،،بلوچی پڑھتے ہو؟،، یہ سُن کر جیسے آسمان پر کڑکتی ہوئی بجلی سیدھا میرے وجود پہ آ کے گر گئی ۔۔اور میں دو کلومیٹر زمین کے اندر دھنس گیا،کیونکہ کسی بھی بلوچ سے مشکوک انداز میں یہ پوچھنا کہ کیا تم بلوچی پڑھتے ہو تو اُس پر آسمان گرانے کے مترادف ہوگا، کیونکہ کون اپنی زبان کو نہیں پڑھتا۔۔۔شایداُسے میری تکلیف کا اندازہ ہوگیا تھا اسی لئے میرے جواب سے پہلے اُنھوں نے کہا کہ تم نے بلوچی کا وہ افسانہ پڑھا ہے جو کسی سہ ماہی رسالے میں چھپا تھا جسمیں مکران کے آپریشن کے حوالے سے منظر نگاری کی گئی تھی رائیٹر نے؟ لکھا تھا کہ پروم بلیدہ ہوشاب کے لوگ جب سرکار سے تنگ آ کے شہروں کی طرف مائیگریشن کر کے آئے تھے شہر کے میر،معتبر پڑھے لکھے سرکاری لوگ آپس میں بحث ، مباحثہ کرتے ہیں کہ انکو اپنے گھروں میں جگہ نہیں دینا ہے کیونکہ انکی وجہ سے ہماری زندگی بھی خطرے میں ہو سکتی ہے سنگ،سر کہاں لڑائی جاسکتی ہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ ان سے دور رہنا چاہیئے اس دیوان میں سب اس بات پہ متفق ہوتے ہیں مگر ساتھ میں بیٹھا ہوا ایک دیوانہ پاگل شخص غصے میں لال پیلا ہو کے کھڑا ہوتا ہے ہاتھ میں پتھر لیکر آجاتا ہے کہ میں انکو جگہ دونگا اُسکی آنکھوں سے شعلے برس رہے ہوتے ہیں اسی دیوانگی کے ساتھ ہاتھ میں پتھر لیکر پاکستانی قوتوں کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ ایک پتھر سے ٹینکوں اور مارٹر گولوں کا مقابلہ نہیں ہو سکتا اور اُسے یہ بھی فکر نہیں کہ میں مر جاؤنگا وہ صرف اسی جذبات کے تحت کھڑا ہوجاتا ہے کہ یہ زمین میری ہے اور یہ لوگ میرے ہیں میرے پاس اس پتھر کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہیں کیونکہ وہ اپنے لوگوں اور اپنی زمین سے جنونی حد تک محبت کرتا ہے یہی دیوانگی اگر لڑنے والے ہر سپاہی کے اندر ہو تو ہماری جنگ کبھی شکست سے دوچار نہیں ہو سکتی میرا مطلب ہے کہ اپنے مقصد میں دیوانگی کی حد تک جانا۔۔ مقصد کیا ہے؟ دشمن کو شکست دینا ،چاہے میں رہوں یا نہ رہوں مگر دشمن کو شکست دینا ہی مقصد کی کامیابی ہے ۔میری جیت ہے۔ میری بقاء ہے ۔پروفیسر اپنے دھیمے لہجے میں سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے بول رہا تھا بارش بھی تیز ہوتی جارہی تھی ہوٹل کابند دروازہ جب کسی کے آنے یا جانے سے کھلتا تھا تو ہوا کی نمی چہرے کو ایسے ٹھنڈک بخشتی جیسے کوئی سرد گیلے رومال سے گالوں کو چُھو رہا ہو ،، ہاں میں نے پڑھا تھا یہ افسانہ سہہ ماہی بلوچی گدان میں شائع ہوا تھا ، میں نے چائے کا گھونٹ پیتے ہوئے کہا،جیسے پروفیسر کی آنکھوں سے اطمینان چھلکا اور شاید وہ اسی جواب کی توقع کر رہا تھا جو اُسے مل گیا۔
ایک اور سگریٹ اس نے ڈبی سے نکالتے ہوئے فرمایا کہ توار اخبار دیکھ لینا،اس سے پہلے کہ میں توار اخبار کو نظروں سے ٹٹولتا کہ اس میں ایسی کونسی بات ہے جو وہ مجھے دکھانا چاہتا ہے اُسنے اخبار اپنی طرف کھینچ کے میری نظر ایک خبر پہ مرکوز کی۔لکھا تھا کہ بی ایل ائے کے جان نثار سنگت امیرنثار، حق نواز،عرفان او ر شیرا گزین نے پاکستانی فوج کے سامنے فدائی حملہ کر کے خود کو بارود سے اُڑا دیا،جب میں نے پوری خبر پڑھی تو پروفیسر گویا ہوئے کہ میں اسی حد تک دیوانگی کا خواہاں تھا کہ جب تک وطن کے رکھوالے جنونی حد تک اپنے مقصد سے محبت نہیں کرتے تو وہ رکھوالے نہیں ہوتے،یہی جنون ہر طبقہ کے جنگجوؤں میں ہونا چاہیئے ۔دیوانگی سے اپنے مقصد میں ڈوب جاناہی جیت کی ضمانت دے سکتا ہے یہ چارون نوجوان تھے عرفان کے گھر میں تو بیٹی ہوئی تھی جو اسکی پہلی اولاد ہے اپنا خون اپنی تخلیق، مگر اُس نے اب تک صرف سنا تھا کہ مجھے بیٹی ہوئی ہے اپنے لخت جگر کودیکھنے اور پیار کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی کہ اس نے خود کو اپنے مقصد پہ قربان کرکے امر ہوگیا ایسے نوجوان تحریک کو سانسیں مہیا کرتے ہیں اور قوم کے دلوں میں احساسِ بیداری جگاکر امید کی کرن روشن کرتے ہیں ،زندگی ہر کسی کو پیاری ہے مگر مقصد کو زندگی سے زیادہ اہم سمجھنا تاریخی انسانوں کا شیوہ ہے کیونکہ زندگی تو اپنی ذات کی ہی ہوتی ہے اور مقصد پوری قوم کا،اور قومی صفوں میں ایسے دیوانے سپاہیوں کی بہت ضرورت ہے جو اپنی زندگی کو قومی آزادی کا مقصد بناکے قربان کرتے ہیں ،اس سے پہلے تو تم نے شہید مجید کا قصہ سنا ہوگاجس نے اپنے ہاتھوں سے قومی مقصد کے لئے اپنی زندگی قربان کردی کیونکہ دیوانگی اُس کے اندر اُتر چکی تھی بی ایل ائے کے شہید درویش نے جب محسوس کیا کہ اب میری زندگی قومی آزادی کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے ،اس سے پہلے ہی اُس نے اپنی زندگی کو قومی مفاد کے لئے قربان کر دیاکیونکہ اس نے تنظیمی رازوں کو دشمن سے بچائے رکھنے کا عہد اُٹھایا ہواتھا ۔کہ میں مر کر بھی دشمن کو شکست دے سکتا ہوں تو اس پر نہ کوئی ہچکچاہٹ ہوئی نہ خوف،کیونکہ وہ اپنی مقصد کے ساتھ دیوانہ وار محبت کرتا تھا دیدہ دلیری سے اس نے اپنی زندگی کا نذرانہ دیکر دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔بی ایل ایف کے ساتھی شہیک بلوچ کا بھی قصہ مختلف نہیں ہے دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے اسے معلوم تھا کہ کچھ لمحوں بعد میری زندگی کا خاتمہ ہوگا خندہ پیشانی سے پوری قوم کو مسکراتے ہوئے اپنا پیغام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا یہی دیوانگی ہماری جیت اور دشمن کی شکست کی ضمانت ہے کیونکہ جنونی محبت جب انسان کے دل میں بسیرا کرتی ہے تو زندگی میں آنے والے طوفان بہت معمولی لگتے ہیں جو تمھیں کبھی شکست نہیں دے سکتے کیونکہ دیوانگی میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ تم پتھر سے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہونے کی جُرت کر سکتے ہو اور سرزمین کا مُحافظ وہی ہو سکتا ہے جو جنونی حد تک اپنے دھرتی سے محبت رکھتا ہو،تیسری بار چائے کا آرڈردیتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر سلیمان سے مخاطب ہو کے کہنے لگا کہ دھرتی ہماری ماں ہے ماں کو دشمنوں سے بچانے کے لئے یا ماں کی حفاظت کے لئے دشمن کا سامنا کرنے کے لئے دشمن کی طاقت اور اپنی کمزوری کا اندازہ نہیں لگایا جاتا نہ ہی اپنی سلامتی کی فکر لیکر کھڑا ہونا پڑتا ہے بلکہ جنونی حد تک ماں کی سلامتی کی فکر لیکر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔آسمان سے زوردار بجلی چمکی اور گرجدار آواز کے ساتھ ژالہ باری شروع ہوئی،باہر کے سارے لوگ دوڑتے ہوئے اندر آگئے ہوٹل کا فرش گیلے کپڑے اور تر جوتوں کی وجہ سے مکمل گیلا ہوگیا اندر بیٹھے ہوئے سب موسم کی گرج چمک کی طرف متوجہ ہو گئے پروفیسر نے ایک اور سگریٹ سُلگایا،،،،،
پروفیسر کی باتیں سُن کر میں پوری طرح سمجھ گیا تھا کہ لوگ سرنڈر کیوں کرتے ہیں اور کونسے لوگ سرنڈر کرتے ہیں ،سرنڈر کرنے کا مطلب اپنی ماں کو دشمن کے قدموں میں رکھنا اور آنکھیں بند کرکے زندہ رہنا،کیا کوئی انسان خوف یا لالچ میں اپنی ماں کا سودا کر سکتا ہے؟ہاں وہ ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو زندہ رہنے کو زندگی سمجھتے ہیں اور زندہ رہنے کو زندگی کا مقصد، اپنی ماں کی عزت کو دشمن کی جھولی میں ڈالنا کتنا بھیانک اور ازیت ناک ہوتا ہے کوئی بھی زندہ انسان موت کو اس عمل سے زیادہ ترجیح دیتا ہے اگر وہ اپنی اور ماں کے رشتے کے تقدس کو محسوس کرتا ہوگا تو۔۔۔۔۔۔میں انہی سوچوں کی پرواز میں تھا کہ پروفیسر نے پھر خاموشی کو توڑتے ہوئے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا کہ جرمن ٹینک کے سامنے جب تیرہ سالہ لڑکی لیزہ سینہ تان کے کھڑی ہوگئی اُس نے یہ نہیں دیکھا کہ میں اپنے زور بازو سے ٹینک کو روک پاؤنگی یا نہیں بلکہ اس کے دل میں اپنی ماں کو بچانے کا جنون تھا اور اسکے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا سوائے اپنی جسم کوچلتی ہوئی ٹینک کے سامنے رکھنے کایہی دیوانگی شہید درویش کے اندر اُتر چکی تھی اور اسی دیوانگی نے بی ایل اے کے سرمچار امیر نثار حق نواز شیرا گزین کو اُکسایا یہی جنگی جنونیت ہے کہ خود مر کر بھی دشمن کو شکست کا شیشہ دکھانے کا جنون۔۔
کیا آپ سمجھتے ہو کہ فدائی حملے سے دشمن کو مارنے کا رواج ہو؟پہلی بار ڈاکٹر سلیمان نے پروفیسر سے سوال کیا۔۔؟میرا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے پروفیسر نے چائے کا بِل ویٹر کو پیش کرتے ہوئے ہم سے کہا کہ دیکھو سرمچار کے کیا معنی ہیں؟ بلوچی میں کہتے ہیں کہ فلانی بڑا سرمچار ہے یعنی اپنے سر کی پرواہ نہیں کرنے والا (دیوانہ) بی ایل ائے نے ایسے سپاہی پیدا کیے ہیں کہ جو نام سے نہیں عملاً سرمچار ہیں دشمن کو ختم کرنے کے لئے اپنی جان دینے میں پس وپیش نہیں ہونا ، دشمن کے لئے خوف پیدا کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ سامنے والا اگر تمھیں مارنے کے لئے خود اپنی جان دیکر بھی تمھیں مارنے کے لئے تُلا ہوا ہے تو تم اُسے کیا موت کا خوف دے سکتے ہو؟ جبکہ وہ خود کو مار کر بھی تمھیں مارنے سے خوشی محسوس کرتا ہے تو ایسے جنونی جنگجوؤں سے کون جنگ جیت سکتا ہے؟یہی سرمچاری ہے اسمیں دشمن کے دلوں میں خوف کا سایہ ہمیشہ منڈلاتا رہیگا اور وہ دور بھاگتا جائیگا کیونکہ وہ سرمچار نہیں ہے اسکو اپنی جان کی بھی فکر رہتی ہے زندہ رہنے کی خواہش میں وہ لڑتا ہے، مگر سرمچار جنگ لڑتا ہے اسے اپنی جان کی فکر نہیں دشمن کی شکست کا جنون ہوتا ہے سر مچار اور جنگی سپاہی میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔وہ یہ کہ سارے سر مچار جنگی سپاہی ہوتے ہیں مگر سارے جنگی سپاہی سرمچار نہیں ہوتے ہیں کیونکہ سرمچار دیوانے کو بھی کہ سکتے ہیں جسمیں دیوانگی اُتری ہو وہ کبھی سر کی پرواہ نہیں کرتا آج ہماری جنگی صفوں میں سر مچار پیدا ہوئے ہیں مجھے خوشی ہے کہ جیت ہمارا مقدر، اور دشمن کی شکست کا سورج نکل چکا ہے ۔ بارش تھم چکی تھی لوگ ایک ایک کر کے نکل رہے تھے ہوا میں نمی باقی تھی سرد ہوا کے ہچکولے ہمارے جسموں کو چھورہے تھے پروفیسر بول رہا تھا ،سرد سرد موسم میں گرم گرم گفتگو ہمارے اندر کی سردی کو تپش دے رہی تھی ۔اک نئی خوشی، اک نیا اطمینان ،میں آج پروفیسر کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ اسمیں امیدیں حوصلوں کے ساتھ ٹپک رہی تھیں جنگ جیتنے کی خوشی، جو پہلے میں نے کبھی پروفیسر کی آنکھوں میں نہیں دیکھی تھی اس سے پہلے ہمیشہ جب وہ جنگی حالات کا تذکرہ کرتا تھا تو ایک عجیب بے چینی اضطراب اس کے لہجے سے نُمایاں ہوتی تھی ،فکر مندی اور غیر تسلی بخش چہرے کا عکس آج اُس نے گدر کی شہیدوں کے ساتھ کہیں دفنا دیا تھا۔ ایک نہ ختم ہونے والا اطمینان اور خوشی سے سرشار روانیت اسکے لہجے میں ہمیں درس دے رہی تھی کہ شہیدوں کا لہو رنگ لارہا ہے ۔تاریکی ڈوب رہی ہے ۔کہ ہمارے سرمچاروں نے سرمچاری سیکھ لی ہے ۔اب ہمارے جنگی سپاہیوں نے اپنے مادر وطن کی حفاظت کا گُر سیکھ لیا ہے کہ انکے اندر ماں کی حفاظت اور محبت کا جنون دیوانگی کے ساتھ اُترا ہے۔ فون کی گھنٹی بجی اور پروفیسر صاحب نے خوشی سے سرشار ایک مسکراہٹ ہماری دل میں اُتار کے نکل گئے۔ میں اور ڈاکٹر سلیمان ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے بِنا کچھ کہے چلے گئے۔۔۔
کیونکہ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ بارش کی قطروں سے دھرتی سے اُٹھنے والی مہک میں ہمارے اُن تمام شہیدوں کے لہو کی خوشبو جاگ رہی تھی جو بلوچستان کی آذادی کے لئے اپنی زندگی قربان کرچکے ہیں
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارضِ وطن
جو تیرے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراوں کو گزار کریں